یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۳)
اس تنظیم نے بہت جلد قصرِ استنبول کے اہم رکن مدحت پاشا کو بھی اپنے ساتھ شامل کرلیا جو پہلے ہی مغربی طاقتوں کا آلہ کار بن چکاتھا۔ان کوششوں کے نتیجے میںپان ترک ازم یا عثمانی اتحادتشکیل پایا۔اس سے مراد جدید عثمانیوں کی شروع کردہ وہ تحریک ہے جوانیسویں صدی کے وسط میں ابھری ۔ اس صدی میں یورپ قومیت اور وطینت کے جس طوفان سے آشناہواتھا،اس کے اثرات سلطنتِ عثمانیہ میں بھی پڑ کر رہے۔سلطنتِ عثمانیہ میں آباد مختلف عیسائی قوموںنے خود مختار حکومتوں کے مطالبات شروع کردیے جن کی پشت پناہی مغربی طاقتیں کررہی تھیں۔ یونان سمیت کئی صوبوںنے مغربی طاقتوں کی سرپرستی میں آزادی کے سپنے دیکھے اورانہی طاقتوں کی مددسے انہیں پوراکرنے کی جدوجہد شروع کردی۔
ان حالات سے سلطنتِ عثمانیہ کا پورا نظام متاثر ہونے لگا اورعثمانی سلاطین خودمختاری کے ناروا مطالبات کے ردِ عمل میں، مطلق العنانی کاراستہ اختیارکرنے لگے ۔ ایسے میں مدحت پاشا جیسے لوگوںنے پان ترک ازم کی تحریک شروع کی ،جس کامنشوریہ تھاکہ سلاطین کی مطلق العنانی ہی سارے بگاڑ کی بنیاد ہے ،اس کی جگہ عثمانی سلطنت کی تمام قوموں کو نسل اورمذہب کی تفریق کے بغیرمساویانہ حقوق فراہم کیے جائیں تاکہ یورپی اقوام ،مطمئن ہوجائیں اورسلطنتِ عثمانیہ کی تقسیم وتحلیل کی کوششیں ترک کردیں۔
صحافت جدید عثمانیوںکاسب سے بڑاہتھیار تھا۔انہوںنے برطانیہ اورفرانس کے اخبارات وجرائد کی طرزپر ترکی میں صحافت کی داغ بیل ڈالی۔ترک نوجوانوںکو متاثر کرنے میں ان ذرائعِ ابلاغ کاکردارسب سے زیادہ تھا۔
مدحت پاشانے تنظیم میں شامل ترک فوجی افسران اورسپاہیوں کی ایک الگ تنظیم ’’جمعیۃ الاتحاد والترقی ‘‘ قائم کی جس نے اہداف کے حصول کے لیے تیز تر پیش قدمی کی۔ ان عناصر نے سلطنت میں اثر ورسوخ پیداکرنے کے بعد عثمانی خلفاء کو ظالم ،جابر،آمر،مطلق العنان اورخودغرض مشہور کیا۔اس کے ساتھ ہی ان کایہ مطالبہ زورپکڑتاگیاکہ ترکی کو شرعی قانون ودستور کی بجائے یورپین طرز کاآئین دیا جائے۔قوم پرستوںنے حکومت کی طرف سے روک تھام کی کوششوں کے باوجود جرائد ومجلات کے ذریعے اپنے خیالات کی اشاعت جاری رکھی اور ان کے حامیوں کی تعداد بڑھتی گئی۔
اس دوران سلطان عبدالعزیز کی پوری کوشش تھی کہ یورپی ممالک کے باہمی تنازعوں سے فائدہ اٹھاکرترکی کو مستحکم بنایا جائے۔اس نے مغربی آئین ودستوراورمغربی تہذیب وتمدن کی خلافِ اسلام شکلوں کو ترکی میں نافذ کرنے سے انکار کردیا۔
یورپی طاقتوں کو جو ترکی کوزیادہ سے زیادہ کمزورکرناچاہتی تھیں،سلطان عبدالعزیز کے ان اقدامات سے ترکی کے دوبارہ ابھر نے کاخطرہ لاحق ہوگیا۔دوسری طرف سلطان عبدالعزیز نے بھی یورپی ممالک کا دورہ کرکے اورترکی سے ان کی مکارانہ سیاست کاتسلسل دیکھ کریہ سمجھ لیاتھاکہ ان کی دوستی ،دشمنی سے کم نقصان دہ نہیں۔اس سے پہلے سلطان عبدالعزیز کی پالیسی یہ تھی کہ کسی طرح یورپی ممالک کے اختلاف سے فائدہ اٹھایاجائے مگر آخر کار اسے اندازہ ہوگیاکہ فرانس،برطانیہ اورآسٹریاسمیت تمام مغربی طاقتیں دورنِ خانہ ترکی کے متعلق منفی رائے ہی رکھتی ہیں۔
اس وقت مغربی دنیااوریورپ میں کش مکش تیز ہوتی جارہی تھی ،اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سلطان نے طے کرلیاکہ مغرب سے دوری اختیارکرکے، ان کے مقابلے میں روس سے اشتراک بہتر ہے۔ اس فیصلے کے بعد روسی سفیر سے اس کی بکثرت ملاقاتیں ہونے لگیں ۔ان ملاقاتوں میں زبانی کلامی اس پر اتفاق ہوگیاکہ روس اورترکی مل کرمشرقی یورپ اور ایشیا سے مغربی ملکوں کی اجارہ داری ختم کردیںگے جس کے بعد مفتوحہ مسلم علاقے ترکی کے اور نصرانی علاقے روس کے ماتحت سمجھے جائیں گے۔
مگرکسی باقاعدہ معاہدے کی تدوین سے پہلے ہی مغربی دنیا کو بھنک پڑگئی اوران کے ایماء پر دنیابھر میں سلطان عبدالعزیز کو ایک حواس باختہ، اسراف پسند اوربدعنوان حکمران مشہور کیا جانے لگا۔ عوام و خواص کو سلطان کے خلاف بھڑکانے کے بعد مئی1886ء(جمادی الاولیٰ 1293 ھ ) میںمغربی طاقتوں کے ایجنٹ مدحت پاشا نے بغاوت کردی اور سلطان عبدالعزیز کو معزو ل کردیا۔ سلطان عبدالعزیز کو معزولی کے فوراً بعد ایک کال کوٹھری میں ڈال کر مشہور کردیاگیاکہ وہ حکومت چھن جانے کے غم سے پاگل ہوگیا ہے۔ کچھ ہی دنوں بعد یہ خبر پھیلادی گئی کہ اس نے خود کشی کرلی ہے۔ مگر سلطان عبدالعزیز نے اپنی وفات سے ایک دن پہلے ،نئے حکمران مرادخامس کوایک خط لکھاتھا جو بعد میں منظرِ عام پر آیا،اس میں تحریرتھا:
’’اللہ کے سہارے کے بعد میں تم پر بھروسہ کررہاہوں۔میں نہایت رنج کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں امت کی اس طرح خدمت نہیں کرسکاجیساکہ کرناچاہتاتھا۔میں امید کرتاہوں کہ تم اس ہدف کو حاصل کروگے ۔تم یہ مت بھولنا کہ میںنے مملکت کی حفاظت اوروقار کے لیے تمام کارگر وسائل اختیار کیے تھے۔میں تمہیں آگاہ کررہاہوں کہ مجھے اس حال تک پہنچانے والی وہی فوج ہے جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے مسلح کیا تھا ۔عبدالعزیز۔‘‘
سلطان عبدالعزیز کے بعد سلطنتِ عثمانیہ مسلسل زوال کاشکاررہی۔ اگرچہ اس پرآشوب زمانے میں سلطان عبدالحمیدثانی جیسے مردِ آہن نے یہودی سرغنوں کولگام دینے کی پوری کوشش کی ۔اس نے یہود الدونمہ کے آلہ کارمدحت پاشاکومعزول کردیا۔کچھ مدت بعد مدحت پاشاکو گرفتارکرکے اس کے خلاف مقدمہ چلایاگیا۔دورانِ تفتیش اس نے اقرارکیاکہ وہ یہود الدونمۃ اورفری میسنری سے تعلق رکھتاہے۔ سلطان عبدالحمید ثانی کایہ بھی بڑاکارنامہ ہے کہ اس نے فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کی اجازت دینے سے صاف انکار کردیاتھا۔مگر خفیہ یہودی تحریک عثمانی افواج میں جڑیں پھیلا چکی تھی۔ اس کے نتیجے میں آخرکار سلطان عبدالحمید ثانی کے خلاف بھی بغاوت ہوئی اوراس مردِ حرکو بھی معزول کرکے زنداں میں پھینک دیا گیا۔ پھر مصطفی کمال جیسا بے دین شخص ترکی کے افق پر چھا گیا جس کے ہاتھوں خلافت کاسورج ایسا غروب ہواکہ اسے پھر ابھرنانصیب نہ ہوسکا۔
یہود الدونمہ کے بانی سباتائی اورمرزائیت کے بانی مرزاقادیانی کی کارگزاری میں کچھ زیادہ فرق نہیں ۔ قادیانیوں کاکردارترکی کے ’’یہود الدونمہ ‘‘ سے مختلف نہیں ۔یہ بھی خود کو مسلمان ظاہرکرتے ہیں اور درونِ خانہ اسلام کی جڑوں پر تیشہ چلارہے ہیں۔ امریکہ ،برطانیہ اوراسرائیل ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں جبکہ ختم نبوت کے دفاع کے لیے مٹھی بھرعاشقانِ رسالت ہی میدان میں ہیں۔ الحمدللہ ہمارے اکابر کی کوششوں سے قادیانیوں کاغیرمسلم ہونا ملک کے آئین میں تسلیم کیاجاچکاہے مگراس کے باوجود قادیانی خود کو مسلمان ظاہر کرکے اپنے عقائد کی بھرپور انداز میں تشہیر کررہے ہیں ۔ تعلیم ، عدلیہ ،پولیس اورفوج جیسے حساس اوراہم اداروں میں ان کااثر ورسوخ بڑھتاجارہاہے۔ یہ صورتحال نہایت خطرناک ہے۔ ترکی کی تاریخ گواہ ہے کہ جس مملکت میں یہودی ایجنٹوں کو پھلنے پھولنے کے مواقع میسر آجائیں وہ کبھی قائم نہیں رہ سکتی۔اگرپاکستان کو بچاناہے تواس سے پہلے کہ تلافی کاوقت ہاتھ سے نکل جائے،ہمیں ایسے گماشتوں کااحتساب کرناہوگا۔اس کے بغیر تعمیر وطن کی امیدخود فریبی کے سواکچھ نہیں۔