تہذیب حجاز ی کامزار (5)
ابوالقاسم کے جانشینوں میں اس جیسا کوئی نہ تھا۔پھر بھی حالات مجموعی طورپرپرُامن تھے۔مگر اسی دوران ایک نئی قوت ظاہر ہوئی جس کامقابلہ کرنے کے لیے کوئی مضبوط قیادت درکارتھی۔یہ نارمن قزاق تھے جنہوںنے بحیرۂ روم پر اجارہ داری قائم کرکے لوٹ مار کا بازار گرم کردیا۔نارمن اصل میں ناروے کے برفانی علاقے کے باسی تھے جنہیں تہذیب وتمدن سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ ان کی بے رحمی اوردرندگی سے پورایورپ پناہ مانگتاتھا۔ایک مدت تک یور پ کے سرحدی دیہاتوں پر تاخت وتاراج کے بعد انہوںنے فرانس پر حملہ کیااورکچھ علاقے پر قابض ہوگئے۔ فرانس کے حکام نے عاجز آکر ایک باج گزار ریاست کے طورپر ان کااستحقاق تسلیم کرلیا اور یہ علاقہ نارمنڈی کہلانے لگا۔ جلدہی نارمنوںنے اٹلی کابھی کچھ علاقہ فتح کرکے اسے اپنامرکز بنالیا۔صقلیہ کے کلبی حکمران تائید الدولہ کے دورمیں نارمن پہلی بار اس جزیرے پر حملہ آورہوئے ۔انہوںنے 416ھ میں فلوریہ پرقبضہ کرکے وہاں کی مسلم آبادی کو بالکل تہہ تیغ کرڈالااورتائید الدولہ ان کی کوئی مددنہ کرسکا۔
صقلیہ کے مسلمان بنوکلب کے کمزورحکمرانوں کی کارکردگی سے مایوس ہوگئے۔ فلوریہ کے سقوط کو انہوںنے مسلم صقلیہ کے خاتمے کا پیش خیمہ سمجھا ۔بنوکلب کے سرپرست افریقہ کے بنوعبیداس وقت بڑے عروج پر تھے مگر ان سے خیر کی کوئی امید نہ تھی۔ ایسے میں صقلیہ کے مسلمانوںنے الجزائر کے سنّی قبیلے بنو صنہاجہ سے مددطلب کی اورانہیں صاف صاف لکھ دیا کہ آپ صقلیہ کاانتظام اپنے ہاتھ میں لے لیں ورنہ ہم خود یہ جزیرہ رومیوں کے حوالے کردیں گے۔
اس پیغام پرحاکم ِ الجزائر المعز نے اپنے بیٹے عبداللہ کی قیادت میں افریقی فوج صقلیہ بھیج دی جس نے تائیدالدولہ کلبی سے حکومت چھین لی اوراسے قتل کردیا۔یہ 427ھ کاواقعہ ہے۔ صقلیہ کے لوگ تائید الدولہ کو قتل کامستحق نہیں سمجھتے تھے ۔وہ افریقی فوج سے ناراض ہوگئے ۔ یہ دیکھ کر عبداللہ الجزائر واپس چلاگیا۔یہاں یہ نکتہ قابلِ ذکر ہے کہ صقلیہ کے حاکم کومعزول اورقتل کرنے والی یہ افریقی فوج،صرف چھ سوسپاہیوںپر مشتمل تھی ،اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ صقلیہ کاحکمران طبقہ اس وقت اتنا کمزورتھاکہ اسے مغلوب کرنے کے لیے چھوٹی سی فوج بھی کافی تھی۔
افریقی فوج کی واپسی پرصقلیہ کے امراء نے مقتول حاکم کے چھوٹے بھائی صمصام الدولہ کلبی کو تخت پر بٹھادیا۔مگر وہ حالات پرقابونہ پاسکااوراس ایک جزیرے میں کئی خودمختارحکومتیں قائم ہوگئیں،جوباہم دست وگریباں تھیں۔پایۂ تخت بلرم میں ایک مجلسِ شوریٰ کی حکومت تھی۔
اٹلی کے حکمران کب سے ایسے ہی وقت کے منتظر تھے ۔ قیصرِ روم میکائیل چہارم نے اپنے بہترین کپتان جنرل جارج مینکس کی قیادت میں ایک فوج صقلیہ بھیج دی جس نے ،مسینہ پر قبضہ کرلیا۔یہ 429ھ کاواقعہ ہے۔اس شکست نے بنوکلب کی رہی سہی عزت بھی خاک میں ملادی ۔431ھ میں صمصام الدولہ کوپہلے معزول اورپھر قتل کردیاگیا۔یوں96برس تک اقتدارکامزہ لوٹنے والے بنوکلب بھی قصۂ پارینہ بن گئے ۔بڑھتی ہوئی طوائف الملوکی نے صقلیہ کی چولیں ہلاڈالنے کے ساتھ ساتھ رومیوں کومزید مداخلت پر اُکسایا۔ جنرل جارج مینکس شمال سے حملے کرتا رہا اورخود صقلیہ کے بعض خودمختارامراء اپنے مخالفین کے مقابلے میں اس کی مددکرتے رہے۔
ان طالع آزماؤں میں ابن ثمنہ سب سے زیادہ عیارومکارتھا۔ایک دوسرارئیس ابن حواس اس کا حریف تھامگر آخر میں ابن ثمنہ نے اسے چرب زبانی کے ذریعے نہ صرف رام کرلیااوراس کی بہن میمونہ سے نکاح کرکے اپنی سیاسی حیثیت مزید مستحکم کرلی۔
یہاں تاریخ ایک عجیب موڑ لیتی ہے۔ ایک گھریلو جھگڑا بڑھ کرپوری مملکت کی تباہی کاسبب بن جاتاہے۔ابن ثمنہ اورمیمونہ کی شادی کو کچھ ہی عرصہ گزراتھاکہ میاں بیوی میں کوئی تلخ کلامی ہوئی۔ ابن ثمنہ نے آگ بگولاہوکراس کی دونوں کلائیوں پر نشترچلادیے۔سوتیلے بیٹے نے آکر ماں کی جان بچائی اورطبیب کے ذریعے زخموں کی پٹی کرائی۔میمونہ مرتے مرتے بچی اورسانس بحال ہوتے ہی اپنے بھائی ابن حواس کے پاس جا پہنچی۔اس نے بہن کا یہ حال دیکھ کر ابن ثمنہ کے خلاف فوج کشی کردی۔ ابن ثمنہ کو شکست ہوئی اور وہ جان بچا کر بھاگ نکلا۔
اب صقلیہ کی تاریخ کاآخری باب شروع ہوتاہے۔ابن ثمنہ نے حکومت سے بے دخل ہونے کے بعد صقلیہ کی آزاد نصرانی ریاست منیسا میں پناہ لی ۔ منیسا کے نواب نے ابن ثمنہ کو اپنا دوست قرار دیتے ہوئے مسلمانانِ صقلیہ کے خلاف نارمنوں سے مددلینے کافیصلہ کرلیا۔چنانچہ نارمنوں کا رئیس راجر،ابن ثمنہ کی رہنمائی میں اپنا بحری بیڑہ لے کررجب 444 ھ میں صقلیہ پہنچ گیا۔مسلمان نہایت منتشرتھے اور نصرانی متحد۔ دیکھتے ہی دیکھتے راجر نے شمالی صقلیہ پر قبضہ کرلیا۔
جنوبی صقلیہ کے مسلمانوںنے اپناانجام سامنے دیکھ کر ایک بارپھر افریقہ کے صنہاجی حکمران المعز سے مددمانگی ۔ اس نے اسلامی اخوت کاثبوت دیتے ہوئے ،بلاتاخیر اپنابحری بیڑہ روانہ کردیا، مگرتقدیر غالب آئی اوریہ پورابیڑہ سمندری طوفان کاشکارہوکر بحیرۂ روم کی موجوں میں ڈوب گیا۔ اس حادثے سے الجزائر کی بحری طاقت ٹوٹگئی ۔المعز کوئی نئی مہم شروع کرنے کی بجائے ،ان عر ب باغیوں کی روک تھام میں مشغول ہوگیا،جو بحری بیڑے کی غرقابی کے بعد یہ یقین کرکے اٹھے تھے کہ اب الجزائر پر قبضہ بہت آسان ہے۔
ان حالات میں صقلیہ کے مسلمان بالکل بے بس اوربے کس رہ گئے۔الجزائر کے حکمران تمیم بن معز نے ان کایہ حال دیکھ کرایک بارپھر کمرِ ہمت باندھی اوراپنے دوبیٹوں کوفوج دے کرمسلمانانِ صقلیہ کے دفاع کے لیے بھیجا مگرمسلمانانِ صقلیہ کی بدقسمتی ابن حواس کے روپ میں سامنے آگئی جووہاں کا سب سے بڑا رئیس تھا۔وہ مددکے لیے آنے والے ان مہمانوںکواپنے اقتدارکے لیے خطرہ سمجھ کران سے برسرِ پیکارہوگیا۔اس لڑائی میں اگرچہ افریقی مجاہدین غالب آئے اورابن حواس ماراگیا،مگر اس کے بعد بھی صقلیہ کے دیگر مسلم امراء نے افریقی مجاہدین سے نازیبا سلوک برقرار رکھا اور انہیں شک وشبہے کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔ ان حالات میں اہلیانِ صقلیہ کے یہ آخری مددگار ، انہیں ان کے حال پر چھوڑکرواپس الجزائر چلے آئے۔صقلیہ کے مسلمانوں نے بھی اب نوشتۂ تقدیر پڑھ کر ہجرت شروع کردی اورکچھ ہی مدت میں ان گنت لوگ افریقہ پہنچ گئے۔