گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا
اورلیجئے !لال کرشن ایڈوانی نے دیا ہے مودی حکومت کوایمان داری کا سر ٹیفکیٹ …بی جے پی کے سینئر رہنما ایڈوانی نے مودی حکومت کے دوسال پور ے ہونے پرکہا کہ نریندر مود کی قیادت میں ملک کوایک ایماندار قیاد ت نصیب ہوئی ہے۔
ایڈوانی صاحب ،مودی کی تعریف وتوصیف میں جو چاہے کہہ سکتے ہیں مگر گجرات کے لوگ آج بھی اس سنگ دل کو قصاب کہہ کریاد کرتے ہیں۔آج بھی گجراتی مسلمان عدم تحفظ ،خوف اوردہشت کا شکار ہیں کیونکہ سب سے بڑامجرم اس وقت ملک کاسربراہ ہے۔ جہاںبکریوںکی نگہداشت بھیڑیے کو سونپ دی گیاہو،وہاں راتوں کوچین کی نیند کون سوسکتاہے۔
دنیاکویاد ہے کہ گجرات سے دہلی کے ایوانِ اقتدار تک جانے کے لیے موود ی نے ہندومسلم منافرت کوکس بھیانک انداز میں ہوا دی تھی اوراس کے لیے ہزاروں معصوم مسلمانوں کی بھینٹ کس بے رحمی سے چڑھائی تھی ۔گودھرا اسٹیشن پر جلنے والی ’’کارسیوکوں ‘‘ کی لاشوں کو مودی نے گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت نظر انداز کرکے خود جلوس کی شکل میں احمد آباد کی سڑکوں پر پھرانے کامنصوبہ ترتیب دیا۔ اشتعال انگیزی کے اس بہیمانہ تماشے کے بعد ہندوؤں کے مسلح جتھوںنے جب مسلم آبادیوں پر حملہ کیا تو فورسز کو ہاتھ روکنے کاسختی سے حکم دیاگیا۔ ہزاروں مسلمان گاجر مولی کی طرح کاٹ دیے گئے۔ اربوں کی جائدادیں تباہ ہوگئیں۔ بے شمار گجراتی مسلمان علاقے سے بھاگنے پر مجبورہوئے جن کی ایک بڑی تعداد اب تک واپس نہیں آسکی۔جن لوگوںنے واپس آنے کی کوشش کی ، انہوںنے حیرت کے ساتھ یہ منظردیکھاکہ جہاں ان کے آباؤاجداد صدیوں تک حکمرانی کرتے رہے ،وہاں انتظامیہ انہیں ایک عام شہر ی کی حیثیت سے قبول کرنے کی بھی روادارنہیں۔
یہی گجرات تھاجومسلمانوں کے علم وتمدن اورتہذیب وثقافت کاقابلِ رشک مرکزتھا۔جب ہندوستان میں طوائف الملوکی پھیلی اورملک سیاسی انارکی کاشکارہوا،ا س وقت بھی گجرات میں جگہ جگہ اسلامی علوم وفنون کے چراغ جل رہے تھے اورخوشحالی وثروت میں اسے قابلِ رشک ماناجاتاتھا۔گجرات کی خوشحالی کے سبب دوردرازسے اہل علم اورہنرمندلوگ یہاں کشاں کشاں آرہے تھے ۔ان کی وجہ سے صنعت وحرفت کواتنی ترقی ہوئی کہ گجرات کی مصنوعات یورپ میں نہایت مقبول تھیں۔
اس وقت یہاں کوئی مودی تھانہ ہندومسلم منافرت۔ایک حکمران محمود شاہ نے یہاں چوالیس سال حکومت کی تھی جسے مقامی لوگ آج بھی محمود بیگڑاکہہ کریادکرتے ہیں۔وہ اسلامی جذبے سے معمورایک مثالی حکمران تھا۔
محمود شاہ کے دورمیں علامہ علی بن حسام الدین متقی نامی ایک عظیم محدث گزرے تھے۔گجرات کے حوالے سے ایک نظر ان کی حالا ت پرڈالنابھی دلچسپی کاباعث ہوگا۔ان کاسب سے بڑاکارنامہ حدیث نبوی کاعظیم الشان ذخیرہ’’کنزالعمال ‘‘ ہے جس میں ساڑھے ۴۶ہزار احادیث کوجمع کیا گیا ہے۔ یہ مجموعہ سولہ جلدوں میں ہے اوراسے احادیث کاسب سے بڑامجموعہ قراردیاجاتاہے۔
علامہ علی متقی کی ولادت دکن میں ہوئی تھی ۔ آپ علوم دینیہ کے ساتھ تصوف کے بھی امام تھے۔ بہت سے ملکوں کی سیاحت کی ۔سفر میں دوتھیلے ساتھ ہوتے تھے۔ایک میں کتابیں، دوسرے میں آٹا،دال،نمک ،مرچ اورتیل ۔جنگل سے لکڑیاں خود ہی جمع کرتے،اپنا کھانا خود پکاتے ، کسی سے ناگزیرخدمت لیناپڑتی تو اسے معاوضہ ضرور دیتے۔اپنے قلم سے کتابیں لکھ کرفروخت کرنا آپ کاذریعۂ معاش تھا۔مال داروں کے تحائف اورتعاون سے متنفر تھے۔ ہدیہ صرف غریبوں کاقبول کرتے تھے ،وہ بھی اس وقت جب اس کے حلال ہونے کایقین ہوتا۔
آخر میں آپ حجاز پہنچ گئے،وہاں چوٹی کے محدثین اورمشایخ سلوک سے استفاد ہ کیا۔آپ مکہ میں مستقل طورپر مقیم ہوگئے ۔علامہ ابن حجر مکی الہیثمی سے بھی حدیث پڑھی جو عمرمیں آپ سے چھوٹے تھے۔ باطنی دولت حاصل کرنے کے لیے علامہ ابن حجر آپ سے بیعت ہوئے اوراجازت وخلافت حاصل کی۔ایک دنیا نے آپ سے علم حدیث حاصل کیا۔یہ حلقہ درس طویل مدت تک جاری رہا اور آپ کے شاگردوں کادائرہ مختلف ممالک میں پھیل گیا۔آپ کی تالیفات اورتصانیف کی تعداد سوکے لگ بھگ ہے۔آپ کے تلامذہ میں شیخ عبدالوہاب متقی بہت مشہور ہیں جو شیخ عبدالحق محدث دہلوی کے بھی استادتھے۔
ایک مدت بعدشیخ علی متقی نے ہندوستان کاسفر کیا اورگجرا ت میں قیام پذیرہوئے۔ محمودبیگڑا آپ کے کمالات کا بڑا قدردان تھا۔جب اسے آپ کی تشریف آوری کی اطلاع ملی توحاضر ی کی اجازت طلب کی ۔آپ نے منع کردیا۔ایک خادم قاضی عبداللہ سندھی نے سفارش کی تو فرمایا:سلطان کی وضع قطع میں کچھ خلافِ شرع باتیں ہیں ،جودیکھ کرمیں چپ نہیں رہ سکوںگا۔‘‘انہوں نے کہا کہ آپ اسی شرط پراجازت دے دیں کہ وہ خلافِ شرع صورت میں نہ ملیں۔شیخ نے اس کی اجازت دے دی۔ شاہ گجرات نے آکر زیارت کی اورواپس جاکر ایک کروڑ روپے ہدیہ بھیجے۔شیخ نے ساری رقم قاضی عبداللہ سندھی کودے دی کہ تمہاری وجہ سے یہ ملی ہے ،تمہی کومبار ک ہو۔
شاہ محمود گجراتی اس کے بعد اکثر حاضرِ خدمت ہونے لگا۔آپ جو بات خلافِ شرع دیکھتے ،اس پرٹوک دیتے اوروہ فوراً مان لیتا۔ شاہ محمود نے آپ کواتنے ہدایادیے کہ جب آپ واپس لوٹے تومال دار ہوچکے تھے۔اس رقم سے آپ نے مسجدالحرم کے قریب ایک حویلی خریدلی ،جس میں بہت سے کمرے تھے ان میں سالکین ذکروعبادت میں مشغول رہنے لگے۔ایک کمرے میں حدیث کاحلقہ لگتا تھا۔ تدریس کے بعدزیادہ وقت کتابیں لکھنے اورنایاب کتب کونقل کرنے کرانے میں صرف ہوتا۔ طلبہ کے لیے روشنائی خود تیار کرتے ،یہ کام اکثر درس کے دوران ہوتا۔زبان اورذہن درس کی طرف متوجہ رہتے اورہاتھ سے روشنائی گھوٹتے رہتے۔ فرماتے تھے کہ ہاتھ کو بھی کام سے خالی نہیں ہوناچاہیے
ایک بار سلطنتِ عثمانیہ کے کسی وزیر نے بہت اصرارکرکے آپ کوضیافت پربلایا۔آپ پہلے پہل انکارکرتے رہے مگرجب کچھ قریبی احباب نے سفارش کی توآپ نے دعوت میں شرکت کی تین شرطیں رکھیں ۔جہاں چاہوں گابیٹھوں گا۔جو چاہوں گاکھاؤں گا۔ جب دل چاہے گا اٹھ کرچل دوں گا۔وزیر نے اسی کوغنیمت سمجھااورحامی بھرلی ۔آپ وزیر کی حویلی تشریف لے گئے اورشاہانہ قالینوں کوچھوڑکر دروازے کے پاس زمین پربیٹھ گئے۔ کھاناچناگیاتواپنی جیب سے گھر کی روٹی نکال کرکھانے لگے۔ کچھ دیر بعدالسلام علیکم کہہ کرواپس تشریف لے گئے۔
امراء اورحکام سے اس قدر ذہنی فاصلو ں کے باوجودآپ کو محمود بیگڑا سے اتنی محبت تھی کہ ایک بار ایک طویل سفر کرکے پھر گجرات تشریف لے گئے ۔محمودبیگڑاان کی آمد کی اطلاع پر نہال ہوگیا۔جب ملاقات ہوئی تو شیخ نے اسے کہا:’’تم جانتے ہوں میں کیوں آیاہوں۔‘‘
محمود نے لاعلمی کااظہارکیاتو آپ نے کہا:’’ صرف اس لیے آیاہوں کہ مملکت کے نظام کو شریعت کی کسوٹی پر جانچوں ،جو چیز خلاف شرع ہو، اسے ختم کرادوں۔‘‘
محمودشاہ نے آپ کوپورااختیاردے دیا ۔