تبدیلی کی کوشش(۲)
ایک کوشش یہ بھی ہے کہ ملک کی باگ ڈور فوج ایک بارپھر سنبھال لے اوروہ بھی مصطفی کمال کے اندازمیں۔ کچھ دنوں پہلے ایک صحافی دوست نے فون پر بتایاکہ پاکستان میں ’’مالک ‘‘ نامی ایک فلم ریلیز کی گئی ہے ،فلم میکر عاشر عظیم نے جو مذہباً عیسائی ہے،ا س کے ذریعے پاکستانی فوج کو سیکولر انقلاب لانے کاپیغام دیا ہے ۔اس فلم کوفوج میں غیرمعمولی پذیرائی مل رہی ہے۔
اس قسم کی خبروں سے یہ اندازہ لگانامشکل نہیں کہ ہماری فوج کو اس تجربے سے گزارنے کی کوشش کی جارہی ہے جو دولتِ عثمانیہ کی افواج پر آزمایاگیاتھا۔
اس وقت اسلام اورملک سے وفاداری کااوّلین تقاضایہ ہے کہ ہم پاک فوج کے خلاف اس ساز ش کوناکام بنانے کے لیے اپنی صلاحیتوں کوبھرپوراورمثبت اندازمیں استعمال کریں۔
چند دن قبل جامعۃ الرشید کے سالانہ جلسے میں جسے تقریبِ اسناد وانعامات کے علاوہ استحکام مدارس وپاکستان کاعنوان بھی دیاگیاتھا،ریٹائرڈ جنرل غلام محمد ملک نے بڑے دردِ دل کے ساتھ اس بات کی شکایت کی کہ ہم اپنے بچوں اورنوجوانوں کو پاک فوج میں بھیجنے کی سوچ نہیں رکھتے،جو وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔انہوںنے زوردیاکہ دینی اداروں میں افواجِ پاکستان کورجالِ کارمہیاکرنے کی سوچ اورفکر ہونی چاہیے۔
میرے خیال میں اتنے بڑے سابق افسر کی بات کو بہت سنجیدگی سے لیناچاہیے۔ کیایہ حقیقت نہیں کہ ہم اپنے بچوں کوڈاکٹر ،انجینئر،وکیل ،جج،تاجر،ٹرانسپورٹر،ٹیچر،سب کچھ بناناچاہتے ہیں مگر فوج میں بھیجنے کا کوئی نہیں سوچتا۔خاص طورپراسلام پسند حلقے میںیہ خیال عنقا ہوتاجارہاہے کہ فوج میں بھی بچوں کی کھپت ہونی چاہیے۔اگر کسی دین دار شخص کواس کی ترغیب دی جائے تواکثر ناکامی ہی ہوتی ہے اور کہاجاتاہے کہ فوج میں دینی ماحول نہیں۔وہاں جاکر بندہ دین پر نہیں رہ سکتا۔
مگردرحقیقت یہ ایک عذرِ لنگ ہے۔اگر اس بات کو پکڑکر آدمی بیٹھ جائے توپھردیند ارلوگوں کو دنیا کے کسی بھی شعبے میں نہیں جاناچاہیے۔کالجوں اوریونی ورسٹیوں میں داخلہ نہیں لیناچاہیے ۔ڈاکٹر بھی نہیں بنناچاہیے کہ نرسوں سے واسطہ پڑتاہے۔ تجارت نہیں کرنی چاہیے بلکہ خریداری کرنے بازاربھی نہیں جاناچاہیے کہ سب سے زیادہ بے پردہ عورتیں مارکیٹ میں ہوتی ہیں۔ ہم خود دین پر مضبوط ہوں تو امریکاکی کسی ملٹی نیشنل کمپنی کے ایمان کش ماحول میں بھی تقویٰ کاچراغ جلایاجاسکتاہے اوراگرکمزوری اپنے اندرہوتو بندہ اپنے گھر میں بھی بڑی سے بڑی بے حیائی کا مرتکب ہوسکتا ہے۔
جہاں تک فوج کاتعلق ہے ،وہاں بھی اگر آپ خود نہ پھسلناچاہیں توکوئی آپ کو نہیںمجبورنہیں کرے گا۔
میں خود فوج کے ایسے سپاہیوں ہی نہیں افسران سے بھی واقف ہوں ،جوتہجد گزار ہیں۔ایسے حضرات بڑی شدت سے یہ چاہتے ہیں کہ کاش ان کے دائیں بائیں اوران کے اوپر والوں بھی دین سے لگاؤ رکھنے والے بکثر ت ہوتے۔مگرانہیں کہیں قادیانی ،کہیں آغاخانی اوراکثرسیکولر لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ کیونکہ یہی لوگ اپنے بچوں کوبڑے جوش وجذبے کے ساتھ فوج میں بھیج رہے ہیں۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ اگر ایک قادیانی باپ اورایک سیکولر ماں اپنے دل پر پتھر رکھ کر بچوںکی فرقت گوارا کرلیتے ہیں اوراسے ہر خطرے میں کود جانے کی اجازت دے دیتے ہیں تواللہ اوراس کے رسول کے وعدوں پرپختہ ایمان رکھنے والے یہ جذبہ کیوں نہیں دکھارہے۔اگر فوج میں آج پختہ فکر مسلمانوں کی کمی ہے تواس کے ذمہ دارصرف اغیار نہیں بلکہ ہم اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ اس صورتحال کاتدارک بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ خیال بھی محض ایک فریب ہے کہ فوج میں اسلام پسند لوگوں کاداخلہ بند ہے۔اگر ایساہوتاتوغلام محمدملک جیسے سابق اعلیٰ افسر ایک کھلے جلسے میں علماء وفضلاء کواس کی ترغیب نہ دیتے۔
ہاں یہ ضرورہے کہ فوج میں پہلے کی طرح دین دارلوگوں کی حوصلہ افزائی کاماحول نہیں مگر جوماحول ہے،اس کے پنپے کاباعث بھی توہم ہیں ۔یہ ہمارے ہی ذمے ہے کہ ہم اسے تبدیل کریں ۔اس سے پہلے ہی یہ توقع رکھنا کہ وہاں ہمیں مسجد،مدرسے اورخانقاہ جیساماحول ملے گااورنمازاورروزے کی بناء پر ہرافسر ہماری تعریف کرے گا،ایک خوش فہمی ہی ہوگی۔ دیگر اداروں میں بھی ایساماحول نہیں ،فوج بھی اسی ملک کے عوام سے مل جل کر بنی ہے۔ وہاں بھی مختلف توقع نہیں کی جاسکتی۔
مگر اس کے ساتھ خوش آئند پہلو یہ بھی ہے کہ ایک اچھی خاصی تعداد ایسے افسران کی ہے جو ماتحتوں کی کسی غیراخلاقی سرگرمی کو سخت ناپسند کرتے ہیں اوراگر ان میں دینی رجحان دیکھیں تووہ اسے بالغ نظری،سنجیدگی ، اصول پسندی اورملک وملت کی بہتر خدمت کرنے کی اہلیت شمارکرتے ہیں۔
ملک وقوم کی اصلاح ،حالات کی تبدیلی اورمملکت کے مقتدراداروں کی درستگی کایہ مثبت ،کامیاب اور صحیح طریقہ ہے ۔اگرچہ ا س میں دیرلگے گی مگر بزرگوں کاکہناہے ،سہج پکے سومیٹھاہو۔
یہاں میں یہ بھی کہناچاہوں گاکہ اس محاذ پر کام کرنے کی زیادہ ذمہ داری ان لوگوں پر ہے جنہیں اللہ نے دین داری کے ساتھ ساتھ خوشحالی بھی نصیب کی ہے اوران کے تعلقات بھی وسیع ہیں۔ غریب یامتوسط طبقے کے لوگوںکے بچے بھلااعلیٰ تعلیم کہاں حاصل کرسکتے ہیں ۔ان کے لیے کسی کیڈٹ کالج کے اخراجات برداشت کرناکہاں ممکن ہے۔ان کے بچے فوج میں جائیں گے بھی تو عام سپاہی ، یا صوبے داربنیں گے ۔ لیکن دین داراورخوشحال گھرانوںکے افراد اگر اپنے بچوں کو اللہ کے لیے وقف کرنے کی نیت کرکے ،انہیں کیڈٹ کالجز میں بھیجیں ،انہیںمشکل سے مشکل تربیت کے لیے تیارکریں اورکٹھن سے کٹھن پوسٹ پر ان کاجانابھی برداشت کریں،توبلاشبہ یہ زمانے کابہت بڑاجہاد ہوگا۔یہی نوجوان آگے چل کرملک وقوم کے بہترین محافظ بنیںگے ،یہی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بقاو سلامتی کے ضامن ہوں گے اوردشمنانِ ملک وملت کے عزائم کوخا ک میں ملادینے کی اہلیت رکھیں گے۔
اس کے برعکس کچھ لوگ جو مختلف وساوس کاشکار ہوکر یاکسی کے بہکاوے میں آکر(چاہے پورے خلوص کے ساتھ ) اس وقت تمام روگوں کاعلاج یہ تصور کررہے ہیں کہ ہتھیا راٹھاکر پہاڑوں میں موچے بنائے جائیں اور مسلمان ملکوں کی فوجوں کو تہس نہس کیاجائے ،وہ ایک کارِ عبث کے درپے ہیں۔ ایسی کوششوں سے سوائے تباہی کے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ مقصد توکیاحاصل ہونا تھا،اصلاحِ احوال کے جو امکانات ہاتھ میں ہوتے ہیں ،وہ بھی جاتے رہتے ہیں۔
ہمیں جو کرناہے ،آج ہم اس کے بالکل الٹ کررہے ہیں۔ جس طرف قدم بڑھانے ہیں ،ہم اس کے بالکل برعکس سمت جارہے ہیں۔ اس سے بڑھ کر تباہ کن بات اورکیاہوسکتی ہے۔ ضروری ہے کہ ہم اپنے ماضی کو سامنے رکھ کرحال کے بارے میں درست فیصلے کریں ۔
{نوٹ :میرے گزشتہ کالم ’’یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک‘‘میں پیش کیے گئے حقائق کی تفصیل دیکھنے کے لیے درج ذیل کتب مفید ہوں گی:
٭الدولۃ العثمانیہ ،اسماعیل یاغی
٭التاریخ الاسلامی،ڈاکٹر محمود شاکر :ج8
٭الدولۃ العثمانیہ ،ڈاکٹر علی محمدالصلابی
٭تاریخ الدولۃ العثمانیۃـ:علی حسون
٭یہود الدونمۃ ،محمد علی قطب
٭الیہود والماسونیۃ ،عبدالرحمن الدوسری