کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۱)
تاریخ کیا ہے ؟کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے؟تاریخ لکھنااورپڑھناخلافِ اسلام ہے؟کیاتاریخ ایسی چندکتب کانام ہے جو کسی رومی یافارسی مصنف نے لکھی؟کیا تاریخ کا اطلاق تاریخ الرسل والملوک، البدایہ والنہایہ ،تاریخ ابن خلدون اوراکبرشاہ نجیب آبادی کی تاریخِ اسلام پر ہی ہوتا ہے۔ اگر کوئی ایسا سمجھتاہے ،تو مانناپڑ ے گاکہ یہ سوچ بہت ہی سطحی ہے۔
تاریخ گزشتہ واقعات وحالات کانام ہے۔تاریخ ہرقوم کااجتماعی حافظہ ہے۔ جب یہ حافظ نہ رہے تو پھر قوم کی وہی حالت ہوتی ہے جو حافظے سے محروم کسی بھی مریض کی۔
تاریخ جادواورکالے علم جیسا کوئی گھناؤنا علم نہیں ۔ایک شریف ،مفید اورمعززعلم ہے جس کی ترغیب خود اللہ تعالیٰ نے گزشتہ انبیائے کرام کوبھی دی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کے متعلق تاکید کرتے ہوئے فرمایا:
’’اوریاد دلاؤ ان کودن اللہ کے‘‘{سورۃ ابراہیم:۵}
مفسرین کااتفاق ہے کہ اس سے مرادبنی اسرائیل کی تاریخ کے وہ گزشتہ بڑے بڑے واقعات ہیں جن میں انہیں اللہ کی مددونصرت سے فتح یاکوئی اورنعمت ملی یاجن میں وہ شکست یا عذاب سے دوچار ہوئے۔
اورحضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب ہوتاہیـ:
’’اورپیغمبروں کے وہ سب حالات جوہم تم سے بیان کرتے ہیں،ان سے ہم تمہارے دل کومضبوط رکھتے ہیں۔‘‘(سورۃہود۱۲۰)
قرآن مجیدکی درجنوں سورتیں امم ماضیہ کے قصوں کوبیان کرتی ہیں تاکہ ان کے انجام ِ بدسے عبرت پکڑی جائے۔امت مسلمہ کوسمجھایاجاتاہے:
’’بے شک ان لوگوں کے قصوں میں عقل والوں کے لیے عبرت کاسامان ہے۔‘‘(سورۃ یوسف ۱۱۱)
ہمارے نزدیک فنِ تاریخ کے اصل بانی اہلِ فارس وروم اوریونانی نہیں جن کے پاس چند رزمیہ داستانوں کے سواکچھ نہ تھا۔ہماری تاریخ کے بانی خود حضرت آقائے نامد ارصلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ کرام ،تابعین اورمحدثین ہیں۔کس طرح ؟
تاریخ نام ہے گزشتہ اہم حالات وواقعات کا۔(چاہے فتح کے ہوں یاشکست کے ،نعمت کے ہوں چاہے عذاب کے۔اچھے ہوں یابرے۔ان سے حوصلہ ملے یاعبرت حاصل ہو۔)
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گزشتہ دورکیاتھا۔ازآدم علیہ السلام تابنوہاشم۔ اب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث دیکھ لیجئے۔ ایک پوراذخیرہ مل جائے گاان احوال کاجو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پیغمبروں کے بزبانِ خود بیان کیے۔ نعوذ باللہ کیا کوئی کہہ سکتاہے کہ حضرت آدم ،حضرت موسیٰ ، اورحضرت عیسیٰ علیہم السلام کوتوکوئی شوق نہ تھااپنی شہرت کا،اپنے کارناموں کودنیاتک پہنچانے کا،پھر یہ واقعات کیوں نقل کیے جاتے رہے۔
یہی نہیںحضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گزشتہ غیرا قوام کے برے لوگوں کے حالات بھی بیان کیے۔ عام لوگوں کے واقعات بھی نقل کیے ۔بنی اسرائیل کے اندھے ،گنجے اورکوڑھی کاواقعہ تو بچہ بچہ جانتاہے۔یہ کسی یہودی، فارسی،رومی یایونانی نے نقل نہیں کیا۔حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہے۔کوئی تو وجہ ہوگی اس کی۔ظاہر ہے گزشتہ امت کاکوئی واقعہ چاہے انبیائے کرام کاکیوں نہ ہو ، تشریعی طورپر بیان نہیں کیاگیا۔اس کی حیثیت تاریخی ہی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خو دبھی تاریخی واقعات بلکہ زمانہ جاہلیت کے واقعات بھی سناکرتے تھے۔ صحابہ کرام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں سناتے تھے اورآپ مسکراتے رہتے تھے۔ (شمائل ترمذی)
صحابہ کرام کے زمانے تک کی تاریخ یعنی گزشتہ حالات کیا تھے؟اس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی پوری مبارک زندگی کااضافہ ہوچکاتھا ۔جس کاغالب حصہ تشریعی تھا۔مگر اسی میں ایک حصہ ایساہے جو سیرت سے تعلق رکھتاہے۔ بخاری ومسلم کی’’کتاب المغازی‘‘ دیکھ لیں جس کاموضوع حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات تاریخی ترتیب سے بیان کرنا ہے۔
پھر انہی صحابہ کرام کے دورمیں تاریخی تقویم تیار ہوئی۔حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں جب فتوحات پرفتوحات ہوئیں تومدینہ منورہ کے مرکزی دفتراورصوبوں کے ذیلی دفاتر میں مراسلوںاور دستاویزات کا انبار لگ گیا۔ یہ معلوم کرنا مشکل ہوگیاکہ کون سی تحریر کس تاریخ کی ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے الادب المفردمیںنقل کیاہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک خط آیا جس پرصرف شعبان لکھا تھا۔ آپ نے فرمایا: یہ کیسے معلوم ہوگا کہ یہ کونسے سال کاشعبان ہے۔آپ نے صحابہ کرام سے فرمایا:لوگوںکے لیے کوئی وقت مقررکردو،جس سے وہ تاریخ شمارکیاکریں۔بعض نے کہا: اہل روم کی تاریخ اختیارکرلی جائے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : رومیوںکی تاریخ کا شماربہت طویل ہے،وہ سکندرکے دورسے شمارکرتے ہیں۔کسی نے کہا: اہل فارس کی تاریخ اختیار کرلیں۔آپ نے فرمایا: ان کے ہاں ہربادشاہ کی تخت نشینی پرتاریخ نئے سرے سے شروع ہوتی ہے۔ آخریہ طے پایاکہ اپنی الگ تقویم رکھی جائے۔ اب سوال اُٹھا کہ کب سے؟تین آراء سامنے آئیں، حضوراکرم ﷺ کی ولادت سے… ہجرت سے …وفات سے۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فیصلہ سناتے ہوئے فرمایا:’’ہجرت سے تقویم کاآغازکیاجائے کیونکہ اسی سے حق وباطل کے درمیان فرق ہوا۔‘‘ جب صحابہ کرام کی مشاورت میںیہ فیصلہ ہوگیا کہ اسلامی تاریخ کو حضورنبی اکرم ﷺ کی ہجرت سے شروع کیا جائے گا تو اگلا سوال یہ پیدا ہوا کہ کس ماہ سے؟…چونکہ ہجرت ربیع الاول میں ہوئی تھی اس لیے بعض کی رائے اسی مہینے کو ہجری سال کا آغاز قرار دینے کی تھی۔بعض نے ماہ رمضان کی فضیلت کی بناء پر اس کا مشورہ دیا مگر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے کہا:’’محرم سے تقویم شروع کی جائے کہ یہ حرمت والامہینہ ہے۔یہی سال کاپہلامہینہ ہے۔اس میں لوگ حج سے لوٹتے ہیں۔‘‘ان کی رائے کوسب نے بہترسمجھااورفیصلہ ہوگیاکہ سال ہجری محرم سے شروع ہوگا۔یہ واقعہ سن ۱۷ یا ۱۸ ہجری کا ہے۔یہ ہجری تقویم کاآغازتھاجواسلامی تاریخ نگاری کابنیادی پیمانہ ہے۔
صحابہ کرام خو دبھی تاریخی واقعات شوق سے سنتے تھے۔تاریخی روایات سننے اورنقل کرنے کاذوق عام کرنے میں حضر ت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا نام نمایاں ہے جن کے ہاں روزانہ عشاء کے بعد تاریخی واقعات کی ایک مجلس لگتی تھی ۔ اب آئے تابعین کرام ،ان کے دور تک صحابہ کرام گزرکر تاریخ کا حصہ بن چکے تھے۔ ان کے حالات نقل اور جمع کرنابھی اُمت نے اہم سمجھا ۔ یہ بھی تاریخ کاحصہ بن گیا۔ اسی طرح تابعین کے حالات تبع تابعین نے جمع کیے اوران کے حالات بعد والوں نے۔اس طرح اس تاریخی مواد میں اضافہ ہوتاگیا۔ اورپھر اسی مواد کوالگ الگ شکلوں میں مرتب کیاجاتارہا اورمختلف تاریخی کتب سامنے آتی رہیں۔