اکبر اوردینِ الہٰی
لگ بھگ ساڑھے چار صدیاں پہلے ہندوستان میں مغل حکمرانوں کا ڈنکا بج رہا تھا۔ جلال الدین محمد اکبر کادورتھااورہندومسلم سب اس کے سامنے سرنگوں تھے۔ اکبر کی فتوحات نے مغرب میں کابل وقندہار،شمال میں کشمیر،مشرق میں بنگال اور جنوب میں دکن تک کو زیرنگین کرلیاتھا۔
ایسے مطلق العنان اورزبردست جاہ وسپاہ کے مالک بادشاہ کے سامنے سراٹھانے والی ہر طاقت چکنا چور ہوجاتی تھی ۔اقتدار کے عروج پر پہنچتے وقت اکبر کی عمر تیس سال سے زیادہ نہ تھی ۔وہ کوئی خاص پڑھالکھابھی نہ تھاکیونکہ اس کی تعلیم وتربیت کازمانہ ،اس کے باپ ہمایوں کی جلاوطنی کے دورمیں گزرگیاتھا۔وہ تیرہ سال کاتھا جب ہمایوں چل بسااوراسے تاج وتخت کی ذمہ داری مل گئی۔اس کے بعد وہ سیاسی کاموں اورجنگی مہمات میں ایساالجھاکہ کبھی اپنی پڑھائی پوری نہ کرسکا۔
تاریخ سے معمولی واقفیت رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ اکبر نے اپنے دورِ عروج میں ہندوؤں اور دیگر اہلِ مذاہب کے زیراثر آکر اسلامی تعلیمات کے بالکل برخلاف رسمیں جاری کیں اورمختلف قوموں کے طورطریقوں کو ملا کرایک فضول قسم کاآمیزہ تیارکیا جسے مؤرخین دینِ اکبری یادینِ الٰہی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اکبر کے بارے میں یہ بھی ثابت ہے کہ وہ پہلے عام مسلمان حکمرانوں کی طرح خوش عقید ہ تھا۔ بزرگوں اورعلماء کی خدمت کرتاتھا ۔علماء کی جوتیاں سیدھی کرناسعادت سمجھتاتھا، مسجد میں جھاڑولگانااوراذان دیناپسند کرتاتھا۔ اسے چشتی مشائخ سے خاص عقید ت تھی۔ اس نے کئی بار اجمیر کا سفر کیا اور خواجہ معین الدین اجمیری کی درگاہ پر حاضری دی۔
اکبر کا بچپن اورلڑکپن ناموزوں حالات میں گزراتھا۔اس نے اپنی آنکھوں سے چچاؤں کی بے وفائی اورخود غرضی کے مناظر دیکھے۔باپ کا تاج وتخت سے محروم ہوکر دربدرپھرنا اس کے لیے نہایت غم انگیز تھا۔ پھر تخت سنبھالنے کے بعداسے بیرم خان اورعلی قلی خان جیسے جانثاروں کی بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ایسے حوادث نے اسے اندرونی طور پر توڑپھوڑکر اس کے مزاج میں بداعتمادی ، تشکیک اورخلش پیدا کردی جس کاایک اثر یہ ہواکہ وہ مقرب ترین لوگوں اور بلندپایہ شخصیات پر بھی بھروسہ کرنے سے ہچکچانے لگا۔
مگران تمام امور کے باوجود اکبرخاندانی اثرات کی وجہ سے علماء وصلحاء کی طرف مائل تھا۔ صوفیائے کرام کا احترام کرتاتھااوران کی مجالس میں حاضر ہوتاتھا۔ سلطنت میں علماء کا سکہ چلتاتھا۔ اس حالت سے وہ بے دینی کی طرف کیسے چلاگیا ؟یہ ایک مستقل اوراہم موضو ع ہے۔
اکبر کاپہلابیٹاشہزادہ سلیم(جہانگیر) بڑی منتوں اورمرادوں کے بعدپیداہواتھا۔اکبر نے ہر طرف سے مایوس ہوکر سیکری کے سجادہ نشین شیخ سلیم چشتی سے دعاکرائی تھی ۔کچھ عرصے بعد شہزادہ سلیم پیدا ہوا تو اکبرنے سیکری کوایک بابرکت مقام سمجھ کر وہاں ایک شاندارشہرفتح پور آباد کرادیا۔ وہیں ایک حجرے میں وہ خاصاوقت عبادت وریاضت اورمراقبے میں گزارنے لگا۔رفتہ رفتہ مذہب میں اس کی دلچسپی اتنی بڑھ گئی کہ اس نے۹۸۶ھ( ۱۵۷۸ء) میں شیخ سلیم چشتی کی خانقاہ کے قریب ایک عمارت تعمیر کرائی جسے ’’عبادت خانہ ‘‘ کانام دیاگیا۔وہاں ہر نمازِ جمعہ کے بعد علماء ومشائخ اور امرائے دربار جمع ہوتے اور عقائد ،ایمانیات ،تصوف ،سلوک اورمعرفت جیسے موضوعات پر گفتگو ہواکرتی ۔
مگر یہ مجلس جو دینی رغبت کے جذبے سے شروع کی گئی تھی ، اکبر کی علماء سے بیزاری کاسبب بن گئی کیونکہ بدقسمتی سے اکثردرباری علماء وفضلاء دنیاپرست تھے ۔ان میں نشستوں پر جھگڑا ہوتا تھا اور ہر کوئی اگلی نشست پر بیٹھنا چاہتاتھا۔ ہرایک کی کوشش ہوتی تھی کہ اپنی برتری ثابت کرے اور دوسرے کونیچادکھائے۔یہ دیکھ کراکبر کاجی علماء سے اچاٹ ہوگیا۔ موقع پاکر کچھ عقلیت پسند فضلاء اکبر کے قریب تر ہوگئے۔انہوںنے اکبر کی جہالت سے فائدہ اٹھاکر اسے اپنے مقاصد کے لیے بری طرح استعمال کیا۔ ایک ایرانی فاضل ملامحمدیزدی نے اسے بہکاکر صحابہ کرام اور ان سے مروی روایات (جن پر دین کا مدار ہے ) سے بداعتماد کردیا۔ جاہ پسند ،خوشامدی اورفتنہ گر دانشوروں اسے یقین دلایا کہ وہ صرف بادشاہ ہی نہیں ،بہت بڑا عالم ، مجتہد اورروحانی بزرگ بھی ہے اور اسے اسلام کی جگہ ایک متبادل مذہب ایجاد کرنے کابھی اختیار ہے۔ ایسے لوگوں میں ملا مبارک ناگوری اوراس کا بیٹا ابوالفضل پیش پیش تھے۔ ایک ہندودرباری بیربل اکبر کو ہندوؤں ، آتش پرستوں اور مجوسیوں کی نت نئی رسموں کے اجراء پرآمادہ کرنے میں پیش پیش تھا۔
اکبر نے سلطنت میں کسی مدرسے کوبندکرایانہ مسجدیاخانقاہ کو۔ بلکہ اس تبدیلی کے بعد بھی پوری سلطنت میں علمی حلقے اسی طرح لگ رہے تھے ،مساجد آباد تھیں اورخانقاہیں بھی۔ عتاب صرف ان علماء پر تھا جو اکبر پرکھلے عام تنقید کررہے تھے یاجن سے اکبری اقتدار کوکوئی خطرہ لاحق ہوسکتاتھا۔
چنانچہ دربار کے دوسب سے بڑے علماء مولاناعبداللہ سلطان پوری اورمولانا عبدالنبی گنگوہی (شیخ عبدالقدوس گنگوہی کے پوتے) کو جلا وطن کرکے حجاز بھیج دیاگیا ۔دوسال بعد یہ دونوں حالات سدھرنے کی امید میں واپس آئے توانہیں قتل کرادیاگیا۔بنگال کے قاضی القضاۃ مولانایعقوب مانکپوری نے اکبر پر اعتراضات کیے توانہیں بھی مروادیاگیا۔یہی انجام ملایزدی کاہوا جو اکبر کو گمراہ کرنے میں شریک تھا مگر بعد میں اس کے ہندوانہ طورطریقوں پراعتراض کرنے لگاتھا۔
اکبر کی بے دینی یقیناکفرِ بواح کی حدتک پہنچ چکی تھی جس کی شہادت خود اس کے بیٹے جہانگیر نے ’’اقبال نامہ ‘‘(عرف چھوٹی تزک ) میں یہ کہہ کر دی ہے کہ ابوالفضل کے بہکانے سے اکبر قرآن مجید کو کلام اللہ کی بجائے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف سمجھنے لگاتھا۔
چنانچہ ان حالات میں متعدد علماء اور امراء کی باہمی فکر ومساعی سے بنگال اورکابل میں بغاوتیں بھی ہوئیں۔ خصوصاً پشاور سے جلال آباد تک شیخ بایزید انصاری نے ہزاروں آدمی جمع کرکے مغلوں سے ٹکر لی۔ان کوششوں کے باعثِ اجر ہونے میں کوئی شک نہیں ،دینی حمیت کے ساتھ جان کی بازی لگانے اورقتل ہوجانے والوں کوبھی شہید ہی کہاجائے گا۔ مگر زمینی نتیجہ یہ تھاکہ ہر بغاوت کچل دی گئی اوران کے علم برداروں کانام ونشان مٹادیاگیا۔
حالات کاپانساپلٹنے کی اب کیاتدبیر کی جاتی۔دوصورتیں تھیں۔ ایک یہ کہ نتائج سے بے پرواہوکر کفرِ بواح کے مقابلے میں علماء وامراء اسی طرح بار بار اٹھتے رہتے۔ کامیابی کی امید کے ساتھ ایساخروج شرعی ہی ہوتا۔مگر اکثر علماء اورعمائد کو خطر ہ تھاکہ ایسی کوششیں ناکام ہوں گی اورمسلمانوں کی افرادی طاقت ضایع ہوتی رہے گی۔وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یہ خانہ جنگی مغلیہ سلطنت کو توڑپھوڑدے گی اورہندوراجے مہاراجے موقع پاکربرصغیر کااقتداراپنے ہاتھوں میں لے لیں گے۔
دوسراطریقہ یہ تھاکہ اکبر کی بے دینی کو دل سے بُراسمجھتے ہوئے ،ا س کے حلقے میں شمولیت اختیار کی جاتی اوراس سیاسی گروہ کااثر رفتہ رفتہ ختم کیاجاتاجواکبر کے دل ودماغ پر حاوی تھا۔
آج بھی حالات اس دورسے زیادہ مختلف نہیں ۔ایسے میں ہمیں یہ جائزہ لیناچاہیے کہ اکبر کی اس بے دینی کے خلاف اس کے دورِ حکومت میں کا م کس طرح کیاگیا۔علماء اوردین دارعمائد نے اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری کیاسمجھی اورکیاحکمتِ عملی اپنائی جس کے باعث تاریخ کادھارابدل گیا۔
{تاریخی حقیقت یہ ہے کہ دوسراطریقہ کامیا ب رہااوراس میں پہل کرنے والے اکبر کے ایک قریبی دوست مرزاعزیز الدین کوکہ تھے جن کے حالات ان شاء اللہ اگلی بار بیان کیے جائیں گے۔}