Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ 2016

10 - 102
سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۲)
معاہدۂ سیورے  کے مندرجات مصطفی کمال  تک پہنچ گئے جنہیں شایع کرکے اس نے حالات کا رُخ بدل دیا۔ کوئی بعید نہیں کہ معاہدے کی نقل برطانوی خفیہ اداروں نے ہی اسے بھیج دی ہو۔ملکی فضا جو خلیفہ کے ساتھ ہوچکی تھی ،اب یکدم خلیفہ کے مخالف اورانقرہ حکومت کی حمایت میںبن گئی ، جس کی وجہ سے انقرہ پر خلیفہ کی وفادارفوج کاحملہ ناکام ہوگیا۔
یہاں ہمیں یہ ضرورسوچناچاہیے کہ اگر واقعی خلیفہ انگریزوں سے ملاہواتھااورمصطفی کمال ہی سامراجیت کااصل مدمقابل تھا،توبرطانوی فوجوںنے انقرہ کی جگہ استنبول پر قبضہ کیوں ضروری سمجھا؟ مصطفی کمال کوانہوںنے آزادکیوں چھوڑے رکھا۔مصطفی کمال اگر برطانیہ کامہرہ نہیں تھا،تواس نے انگریزوں کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہ کی؟انقرہ کی فوجیں فرانسیسیوں ،اطالویوں اوریونانیوں کے مقابلے میں ضرور کھڑی ہوئیں جس سے مصطفی کمال کی حب الوطنی اور جرأت وبسالت کا چرچا ہوا اور اسے عوامی اعتماد نصیب ہوا،مگراس نے برطانیہ سے نبردآزماہونے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی جبکہ استنبول پر جوترکوں کاسب سے اہم مقام تھا،صرف برطانوی فوجیں حملہ آورہوئی تھیں۔کمال نے وہاں حملہ کرکے انگریزوں کوبے دخل کیوں نہ کیا؟اوراگروہ سلطنتِ عثمانیہ کامخلص تھا،تو خلیفہ کو برطانیہ کے تصرف سے نکالنابھی اسی کی ذمہ داری تھی کیونکہ قوم اورفوج اس کے ساتھ ہوچکی تھی۔مگراس نے ایسا کچھ بھی نہ کیا۔آخرکیوں؟ 
یہ سوال بھی سامنے ہے کہ اگراتحادی طاقتیں چاہتیں تو کمال سے نجات حاصل کرناان کے لیے کوئی مشکل نہ تھا۔وہ اس کا سر شروع ہی میںکچلنے کے لیے متحرک کیوں نہ ہوئیں؟
اس صورتحال سے صاف پتاچلتاہے کہ عالمی طاقتیں مصطفی کمال کے ہاتھوں خلافت کو ختم کرانے کے لیے اسے ایک زبردست لیڈر کی حیثیت دلوانے میں دلچسپی لے رہی تھیں۔ اتحادی خصوصاً برطانیہ حالات کواپنے رُخ پر لے جانے میں کامیاب تھے۔کمال کی مقبولیت اورعروج سے انہیں ذرّہ برابر نقصان نہ ہوا،بلکہ ان کے مطالب کی راہ آسان ہوگئی۔
آخر برطانیہ نے فروری1921ء میںمعاہدۂ سیورے پر نظر ثانی کے لیے لند ن میں ایک کانفرنس طلب کی اور استنبول وانقرہ دونوں حکومتوں کے نمائندوں کواس میں طلب کیا۔اس میں ساری بات مصطفی کمال کے وزراء سے طے کی گئی حالانکہ دنیاجانتی تھی جنگِ عظیم کافریق سلطنتِ عثمانیہ تھی اوراتحادیوں کے ساتھ صلح کے معاملات طے کرنا بھی اس کاحق تھا۔
 اس کانفرنس میںمصطفی کمال فرانس کے حق میں شمالی شام سے دست برداری پر آمادہ ہوگیا۔ جواب میں فرانس نے انقرہ حکومت کو تسلیم کرلیا۔کمال نے مشرقی سرحدی علاقے پرروس کاحق بھی مان لیا۔جواباً روس نے بھی جدید ترک حکومت کوتسلیم کرنے کااعلان کردیا۔ یوں کمال نے عالمی سطح پر ایک قانونی حکمران کی حیثیت حاصل کرلی جبکہ استنبول کے خلیفہ کی ساکھ مزید گرادی گئی۔
عالمی طاقتوں سے معاملات طے کرنے کے بعدصرف یونان سے ازمیر کے مسئلے پر تنازعہ باقی رہ گیاتھا۔ یہ واحد یورپی ملک تھاجس سے مصطفی کمال نے مذاکرات کی جگہ طاقت سے مسئلہ طے کرنے کافیصلہ کیا۔اگردیکھاجائے تویہ اتنا مشکل بھی نہ تھا کیونکہ یونان ایک چھوٹی طاقت تھاجو عالمی جنگ میں بھی اتحادیوں کی مددہی سے کچھ کامیابیاں حاصل کرپایا تھا۔
اب ہم یونان سے مصطفی کمال کی اس لڑائی کااحوال پیش کرتے ہیں جس کی بنیاد پر ملت کے اس غدار کو ایک عظیم فوجی جرنیل،ایک فاتح اورقومی نجات دہندہ کے طورپرپیش کیا جاتا ہے۔ برطانوی خفیہ ایجنسیوںاوریہودی ذرائعِ ابلاغ نیاس نمائشی جنگ کے دوران مصطفی کمال پاشا کی شجاعت و بسالت کا صور اس زورسے پھونکاکہ دنیا بھر کے محکوم مسلمان ،اس نئے چہرے کواپنا نجات دہندہ سمجھنے لگے۔ لندن اورامریکاکے اخبارات سے لے کربرصغیر کے مسلم اخبارات و جرائد تک ہر جگہ’’ غازی مصطفی‘‘ کا ڈنکابجنے لگا۔عرب شاعر احمد شوقی نے اپنے شہرہ آفاق قصیدے میں مصطفی کمال کو خالد بن ولید اورسلطان صلاح الدین ایوبی کے ہم پلہ قراردے دیا۔پوری دنیا کے مسلمان ،ڈیڑھ دو صدیوں سے شکست درشکست کے مناظر دیکھ رہے تھے اورا س وقت افغانستان اور ترکی کے سوا، دنیا میں کوئی آزاداسلامی مملکت نہیں بچی تھی۔غلامی کی ذلت میں لپـٹے ہوئے ان مسلمانوں نے مصطفی کمال پاشا کوایک ایسے جری قائد کے طورپردیکھا جو خلافت کی شان وشوکت کودوبارہ قائم کرنے کی تگ ود کر رہاہو، جبکہ خلیفہ وحیدالدین کو وہ ایک بزدل اور نااہل شخص سمجھنے لگے تھے۔حالانکہ خو د کو’’اتاترک‘‘ سے موسوم کرنے والے اس ’’بطلِ حریت‘‘ کے نامۂ اعمال میں کوئی ایک بھی ایسا کارنامہ نہیں ہے جس پراسلامی تاریخ فخر کرسکے۔اسے جہاں بھی بھیجاگیا ،وہاں یہ کوئی نہ کوئی عجیب گل کھلاکر لوٹا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان حقائق کوصہیونی لابی نے چھپادیااورکمال کی پسپائی اور بھگوڑے پن پر ’’بے مثال قیادت‘‘ اور’’شہامت وبسالت‘‘ کے چمک دار لیبل لگادیے۔
جو لوگ مصطفی کمال کی کسی اورخوبی کے قائل نہیں ،وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ کم ازکم یونان کے مقابلے میں اس نے زبردست استقامت دکھائی اورترکی کو ان کے ہاتھوں برباد ہونے سے بچالیا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یونان سے جنگ کے حالات ،اکثر تواریخ میں نہایت مختصرملتے ہیں ۔شروع میںانہیں جان بوجھ کر سمیٹااورلپیٹاگیا تاکہ حقیقت چھپی رہے ۔بس اتناظاہرہوکہ جنگ ہوئی اوریونان شکست کھاکر بھاگ گیاجس کاسہرامصطفی کمال کے سرہے۔بعدوالے اسی اختصار کو نقل کرتے گئے۔ذرادیکھتے ہیں کہ اس جنگ میں کمال کی کتنی بہادری تھی اوریونانیوں کوکہاں کہاں شکست د ے کربھگایاگیا۔
1921ء کے موسم بہارمیںمصطفی کمال نے ترک افواج کوروسی اسلحے سے آراستہ کرکے محاذ کی طرف بھیج دیا۔ یونانیوں نے ترکوں کو محاذ پر پہنچنے سے پہلے بے دم کرنے کے لیے چھاپہ مارکارروائیاں شروع کردیں۔
 یونان کویقین تھا کہ عن قریب برطانیہ ، فرانس اوراٹلی اس کی مدد کے لیے آجائیں گے اوروہ جنگ جیت جائے گا کیونکہ ایک طویل زمانے سے انہی طاقتوں کی شہ پریونانی عثمانی ترکوں کے خلاف بار بار شورشیں کرتے آرہے تھے۔مگر برطانیہ ،اس کے اتحادی اوریہودی زعماء کامنصوبہ کچھ اور تھا۔ برطانیہ نے صاف اعلان کردیاکہ وہ اورا س کے اتحادی اس قضیے میں دخل نہیں دیں گے۔ 
6مارچ 1921ء کویونانیوں کاحملہ شروع ہوااورانہوںنے جنگ کے پہلے معرکے میںترک جرنیل عصمت انونو، کو پسپا کردیا۔یونانی پیش قدمی کرتے ہوئے عثمانیوں کے اوّلین پایۂ تخت بروصہ تک پہنچ گئے جہاں سے انہوںنے استنبول پر حملے کی تیاری شروع کردی۔مگر برطانوی فوجیں ان کی راہ میںحائل ہوگئیں۔یونانی یہاں سے پلٹ کر’کوتاہیہ‘ پہنچے جہاں عصمت انونودوبارہ افواج مرتب کررہا تھا۔یونانیوںنے جنوب میں قرہ حصارپر قبضہ کرکے شمال کی طرف یلغار کی ۔اُدھر مصطفی کمال انقرہ سے اپنی کمان میں فوجیں لے کراس محاذپر آن پہنچا مگر یونانیوں پر حملے کی بجائے اس نے افواج کو جنگ روک کرمشرق کی طرف بڑھنے کاحکم دیا۔اس پسپائی میں ترکوں کو سخت نقصانات اٹھاناپڑے مگر کمال نے پروانہ کی اورفوج کودریائے سقاریا کے پارلے جاکر وہاں دفاعی لائن بنانے کا حکم دیا۔ ترکی کی تمام دستیاب فوج یہاں جمع ہوگئی جس کی تعداد 70ہزارتھی۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 استاذ القراء کاسفرِ آخرت 1 1
3 فنا فی القرآن 2 1
4 مثالی استاذ 3 1
5 استاذ گرامی کی کچھ یادیں 4 1
6 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۱) 5 1
7 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۲) 6 1
8 پاک بھارت جنگ کے امکانات …اورمعرکۂ پانی پت 7 1
9 رمضان اورقرآن 8 1
10 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۱) 9 1
11 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۲) 10 1
12 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۳) 11 1
13 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار [1] 12 1
14 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۲) 13 1
15 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق 15 1
16 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۲) 16 1
17 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۳) 17 1
18 سیرتِ نبویہ کے جلسے اورواعظین کے لیے لمحۂ فکریہ 18 1
19 ترک عوام جنہوںنے تاریخ بدل دی 19 1
20 اسلام میں جہاد کاتصور…اسلامی نظریاتی کانفرنس کااجلاس 20 1
21 نعمتوں کی ناقدری 21 1
22 یوم پاکستان اوردینی مدارس 22 1
23 دسمبر سے دسمبر تک 23 1
24 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۱) 24 1
25 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۲) 25 1
26 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۳) 26 1
27 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۴) 27 1
28 اکبر اوردینِ الہٰی 28 1
29 اللہ کی امانت (۱) 29 1
30 اللہ کی امانت (۲) 30 1
31 شیخ النمر کی سزائے موت 31 1
32 سمندری شیر(1) 32 1
33 سمندری شیر(2) 33 1
34 سمندری شیر(3) 34 1
35 ایک دن بھاولپور میں 35 1
36 ایدھی صاحب 36 1
37 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے 37 1
38 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے (۲) 38 1
39 فضلائے مدارس کی کھپت ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۱) 39 1
40 مدارس کے فضلاء ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۲) 40 1
41 صحبتِ یا رآخر شد 41 1
42 صحبتِ یا رآخر شد(۲) 42 1
43 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج 43 1
44 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج(۲) 44 1
45 انصاف زندہ ہے 45 1
46 جرمنی اورعالم اسلام(۱) 46 1
47 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (1) 49 1
48 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (2) 50 1
49 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (3) 51 1
50 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (4) 52 1
51 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(1) 53 1
52 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(2) 54 1
53 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(3) 55 1
54 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(4) 56 1
55 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت 57 1
56 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت (۲) 58 1
57 ایک قابلِ توجہ مسئلہ 59 1
58 کس منہ سے(۱) 60 1
59 کس منہ سے(۲) 61 1
61 سفر وسیلۂ ظفر 62 1
62 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے 63 1
63 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے (۲) 64 1
64 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۱) 65 1
65 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۲) 66 1
66 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۳) 67 1
67 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۴) 68 1
68 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (1) 69 1
69 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۲) 70 1
70 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۳) 71 1
71 بانی ٔ رُہتاس 72 1
72 بانی ٔ رُہتاس (۲) 73 1
73 بانی ٔ رُہتاس (۳) 74 1
74 شہ سواری اورتیراندازی 75 1
75 شام کی صورتحال اورمستقبل کے خطرات 76 1
76 تبدیلی کی کوشش(۱) 77 1
77 تبدیلی کی کوشش(۲) 78 1
78 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۱) 79 1
79 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۲) 80 1
80 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۳) 81 1
81 تطہیر الجنان۔ایک لاجواب شاہکار 82 1
82 تہذیب حجاز ی کامزار(1) 83 1
83 تہذیب حجاز ی کامزار (2) 84 1
84 تہذیب حجاز ی کامزار (3) 85 1
85 تہذیب حجاز ی کامزار (4) 86 1
86 تہذیب حجاز ی کامزار (5) 87 1
87 تہذیب حجاز ی کامزار (6) 88 1
88 تہذیب حجاز ی کامزار (7) 89 1
89 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۱) 90 1
90 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۲) 91 1
91 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۳) 92 1
92 یوسف بن تاشفین(۱) 93 1
93 یوسف بن تاشفین(۲) 94 1
94 یوسف بن تاشفین(۳) 95 1
95 جرمنی اورعالم اسلام (۲) 47 1
96 جرمنی اورعالم اسلام (۳) 48 1
97 شیخ محمد بن عبدالوہاب ،آلِ سعود اورایرانی حکومت 96 1
98 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا 97 1
99 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا (۲) 98 1
100 خود احتسابی اور سروے کا طریقِ کار 99 1
101 اونچی اڑان 100 1
102 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین 101 1
103 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین (۲) 102 1
104 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۳) 14 1
Flag Counter