Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ 2016

15 - 102
اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق 
پاکستانی اوربھارتی اہلِ قلم میں باہمی ربط وضبط کے اضافے سے ایک نتیجہ یہ برآمد ہورہاہے کہ بھارتی اہلِ سخن کی طرف سے ہماری محسن شخصیات پر چلائے جانے والے تیر اب پاکستانی سیکولر صحافیوں نے قیمتی تحقیقات سمجھ کر سنبھالناشروع کردیے ہیں۔ وقتاً فوقتاً انہیں استعمال بھی کیاجاتاہے ۔ یہ بتائے بغیر کہ یہ کس کے ترکش سے لیے گئے ہیں۔
   ایک معاصر روزنامے میں ایک محترمہ نے متحدہ ہندوستان کے عظیم مسلم حکمران اورنگ زیب عالمگیر کا جس طرح مذاق اڑایاہے ،وہ نہایت افسوس ناک ہے۔ کوئی حوالہ دیے بغیر چند بے سروپا قصوں کو ان تحقیقات کی بنیاد کے طورپرپیش کیا گیاہے۔ سب سے زیادہ زوراس بات پر دیاگیاہے کہ اورنگ زیب کی طبیعت میں بے رحمی ،فریب ،غداری اورمطلب پرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ،اس لیے  اپنے باپ اوربھائیوں تک کونہ چھوڑا۔انہیں قیدکرکے ،قتل کرکے حکومت حاصل کی اوراس کے بعد جو پالیسی اپنائی ،وہ ایسی تباہ کن تھی کہ پوری مغل سلطنت کولے ڈوبی اوریہ کہ ہندوستان میں ہندومسلم منافرت اورنگ زیب ہی نے پھیلائی ۔
ہم ان خرافات میں سے ایک ایک کاجواب دینے کی کوئی ضرورت نہیں جو زیادہ تربھارتی قلم کاروںنے تعصب کی بناء پر مغربی مؤرخین سے قبول کی ہیں ( اورمحترمہ نے یہی ’’تحقیقات‘‘آنکھیں بند کرکے قبول کی ہیں)
ہم ایک اصولی بات پیش کرتے ہیں کہ ہمارے مسلم حکمرانوںکی تاریخ کے بارے میں زیادہ معتبر رائے وہی ہوگی جو ان کے معاصر یا قریب تر دورکے مؤرخین نے پیش کی ہوگی۔اس کے علاوہ خود اورنگ زیب عالمگیر کے اپنے خطوط سے ان حالات کے اصل اسباب اور صحیح پہلوؤں پر سب سے زیادہ روشنی پڑتی ہے جنہیں آج غلط طورپررنگ دیاجارہا۔
اگلی سطور میں ہم تاریخ کا یہی معتبرمواد پیش کررہے ہیں۔
۷ذی الحجہ۱۰۶۷ھ( ستمبر1657ء)کو شاہ جہاںدارالحکومت دہلی میں بیمار پڑگیا۔۔ اس کے چار بیٹے تھے :دارشکوہ، اورنگ زیب،مراداورشجاع۔شاہ جہاںنے ان چاروں کوسلطنت کاایک ایک حصہ بخش دیاتھا۔شاہ جہاںنے عمومی رسم کے مطابق بڑے بیٹے دارشکوہ کو ولی عہدمقررکردیاتھاجس کی عمر ۴۲سال ہوچکی تھی۔ وہ دوراندیشی،تحمل اورمستقل مزاجی جیسی انتظامی خوبیوں سے محروم تھا۔ضعیف الاعتقاد بھی تھا۔پیروںفقیروںبلکہ عیسائی پادریوںتک کا گرویدہ ہوگیا تھا۔ ہندوپنڈتوں کی کتابیں شوق سے پڑھتاتھا۔ وہ اپنے پرداداکبر جیساذہن رکھتاتھااور ہندوؤں اور مسلمانوں کو یک مذہب کرنا چاہتا تھا۔اس مقصد کے لیے اس نے ایک کتاب بھی لکھی تھی جس میں ہندومت اوراسلام کوایک دین ثابت کیا گیا تھا ۔
۴۰سالہ شہز ادہ شجاع بھی آرام پسند ،عیش وعشرت کارسیااورکمزورطبیعت کاآدمی تھا۔ ملکی نظم ونسق چلانا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔سب سے چھوٹامراد گجرات کاحاکم تھاجس کی طبیعت میں مستقل مزاجی نہیں تھی۔دوراندیشی سے عاری تھا۔ جلد بازی سے کا م لے کر اپنا نقصان کردیتاتھا۔
اورنگ زیب عالمگیر شاہ جہاں کے سب سے لائق اورقابل فرزندتھے۔اس وقت ان کی عمر ۳۸ برس تھی۔اسلامی جذبے سے آراستہ اورسنت کی اشاعت وحفاظت کے ولولے سے معمورتھے۔
فتنہ پرور درباریوں اورحاشیہ برداروں نے ان بھائیوں کے درمیان نفرتوں کے ایسے بیج بوئے کہ آخر خانہ جنگی ہوکر رہی۔ ان میں سب سے بڑے مدِمقابل اورنگ زیب اورداراشکوہ تھے۔ اورنگ زیب کی داراشکوہ سے نفرت کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ جن نظریات کوداراشکوہ تصوف اورخداشناسی قرار دیتاتھا،وہ اورنگ زیب اوراسخ العقیدہ علماء کے نزدک الحاد اوربے دینی کے سواکچھ نہ تھے۔ داراشکوہ ہندوپنڈتوں ، جوگیوں اورسنیاسیوں کو عارف،واصل باللہ اورمرشدِ کامل سمجھتاتھا ۔ وید کوآسمانی کتاب کی طرح عقیدت سے پڑھتا تھا۔اس کاعقیدہ تھاکہ عبادت ناقص لوگوں پر فرض ہے ،کامل کواس کی ضرورت نہیں۔اسی لیے اس نے صوم وصلوٰۃ کو بالکل ترک کردیاتھا۔ خدشہ تھا کہ وہ برسرِ اقتدار آکر اکبر جیسی بے دینی کااعادہ نہ کردے۔
شاہ جہاںنے بیماری کی حالت میںامورِ مملکت داراشکوہ کے حوالے کردیے تھے۔داراشکوہ نے اس موقع سے فائدہ اٹھاکر اپنے اقتدار کے لیے پیش بندیاں شروع کردیں ،آگرہ کی شاہراہوں کی ناکہ بندی کردی،اور شاہی محل کی کوئی بھی خبر باہر جانے پر پابندی عائد کردی۔ مشہورہوگیاکہ بادشاہ کی وفات ہوگئی ہے ۔یہ اطلاع سن کرشہزادہ شجا ع اورشہزادہ مراد یہ سمجھ بیٹھے کہ داراشکوہ نے ہی باپ کوقتل کیاہے۔ یہ سب بھائی بڑے پریشان ہوئے ،اورہرایک نے اپنی اپنی جگہ اقتدارمیں حصہ پانے کے لیے جنگ کی تیاری شروع کردی۔مراد نے گجرات میں خودمختاری کادعویٰ کرکے سورت کواپنا پایۂ تخت قراردے دیا اوراپنے نام کا سکہ اورخطبہ بھی جاری کردیا۔شجاع نے بنگال میں اپنی بادشاہت کا اعلان کردیااور دہلی پرلشکر کشی کی تیاری کرنے لگاتاکہ داراشکوہ سے انتقام لے۔
مگراورنگز یب نے جلد بازی کی بجائے دکن ہی میں اپنی قوت کومضبوط بنانے پر توجہ دی اور مراد کو بھی یہی پیغام بھیجاکہ وہ جلدی نہ کرے ۔
چندہفتوں بعدشاہ جہاں کومرض سے افاقہ ہواتوشہزادوں میں خانہ جنگی کے آثاردیکھ کراسے بے حد صدمہ ہوا۔اس نے سب کو اتفاق واتحاد کی تلقین کی۔ مگر شہزادہ شجاع بنگال سے لشکر لے کر آگرہ کی طرف نکل پڑاتھا اورکسی رکاوٹ کا سامنا کیے بغیر بنارس پہنچ گیاتھا۔ دارا شکوہ نے اسے روکنے کے لیے اپنے بڑے بیٹے شہزادہ سلیمان شکوہ کو بھیجا۔ فروری 1658ء میں بنارس کے مضافات میں دونوں فوجوں کے درمیان جنگ ہوئی جس میں شجاع کی فوج ہار گئی اوروہ خود بنگال کی سمت فرارہوگیا۔
اس وقت اورنگ زیب جنوبی دکن میںبیجا پور کے حکمران کے خلاف مہم میں مصروف تھے۔ اورنگ زیب نے اب تک کوئی باغیانہ اقدام نہیں کیاتھا۔مگر داراشکوہ نے شاہ جہان کو اس کے خلاف بھڑکانا شروع کردیااورکہاکہ خدانخواستہ اورنگ زیب کی کمان میں موجود لشکر اگرآپ کے خلاف استعمال ہوا توآپ کا ٹھکانہ کہاں ہوگا!بہتر ہے کہ دکن میں تعینات فوج اور خزانے کوپایۂ تخت میں طلب کرلیاجائے تاکہ اورنگ زیب کی قوت ختم ہوجائے۔داراشکوہ کی غرض یہ تھی کہ اس تازہ قوت کو ساتھ ملاکرپہلے شجاع اور مراد کی سرکوبی کی جائے۔پھر آخر میں اورنگ زیب کا سرکچلاجائے اور بلاشرکتِ غیرے پورے ہندوستان پر حکومت کی جائے۔
اگرچہ شاہ جہاںاس پالیسی کے حق میں نہ تھامگر داراشکو ہ اس پر مسلط ہوچکاتھا،لہٰذا دکن کو فوج کو واپسی کے احکام جاری کردیے گئے۔ اورنگ زیب کالشکر اس وقت بیجاپورکے محاذ پر بڑی سخت جنگ لڑ رہا تھااور دشمنوں پر فتح قریب  دکھائی دے رہی تھی۔ شاہی فرمان کے پہنچنے پر تمام جنگی ترتیب درہم برہم ہوگئی اور کئی اعلیٰ افسران اورنگ زیب سے اجازت لیے بغیرمحاذ سے واپس چلے گئے۔
اس دوران دارا شکوہ نے شجاع کوشکست دینے کے بعد شہزاد مراد کے مقابلے کے لیے افواج تیار کرلیں۔ اورنگ زیب نے سوچاکہ اگر مراد بھی شجاع کی طرح شکست کھاگیاتوداراشکوہ کی قوت بہت بڑھ جائے گی اوروہ دکن سمیت پورے ہندوستان پر قابض ہوکر اپنی ملحدانہ سیاست سے ملک میں بے دینی پھیلاکررہے گا۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 استاذ القراء کاسفرِ آخرت 1 1
3 فنا فی القرآن 2 1
4 مثالی استاذ 3 1
5 استاذ گرامی کی کچھ یادیں 4 1
6 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۱) 5 1
7 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۲) 6 1
8 پاک بھارت جنگ کے امکانات …اورمعرکۂ پانی پت 7 1
9 رمضان اورقرآن 8 1
10 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۱) 9 1
11 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۲) 10 1
12 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۳) 11 1
13 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار [1] 12 1
14 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۲) 13 1
15 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق 15 1
16 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۲) 16 1
17 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۳) 17 1
18 سیرتِ نبویہ کے جلسے اورواعظین کے لیے لمحۂ فکریہ 18 1
19 ترک عوام جنہوںنے تاریخ بدل دی 19 1
20 اسلام میں جہاد کاتصور…اسلامی نظریاتی کانفرنس کااجلاس 20 1
21 نعمتوں کی ناقدری 21 1
22 یوم پاکستان اوردینی مدارس 22 1
23 دسمبر سے دسمبر تک 23 1
24 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۱) 24 1
25 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۲) 25 1
26 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۳) 26 1
27 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۴) 27 1
28 اکبر اوردینِ الہٰی 28 1
29 اللہ کی امانت (۱) 29 1
30 اللہ کی امانت (۲) 30 1
31 شیخ النمر کی سزائے موت 31 1
32 سمندری شیر(1) 32 1
33 سمندری شیر(2) 33 1
34 سمندری شیر(3) 34 1
35 ایک دن بھاولپور میں 35 1
36 ایدھی صاحب 36 1
37 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے 37 1
38 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے (۲) 38 1
39 فضلائے مدارس کی کھپت ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۱) 39 1
40 مدارس کے فضلاء ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۲) 40 1
41 صحبتِ یا رآخر شد 41 1
42 صحبتِ یا رآخر شد(۲) 42 1
43 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج 43 1
44 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج(۲) 44 1
45 انصاف زندہ ہے 45 1
46 جرمنی اورعالم اسلام(۱) 46 1
47 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (1) 49 1
48 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (2) 50 1
49 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (3) 51 1
50 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (4) 52 1
51 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(1) 53 1
52 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(2) 54 1
53 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(3) 55 1
54 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(4) 56 1
55 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت 57 1
56 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت (۲) 58 1
57 ایک قابلِ توجہ مسئلہ 59 1
58 کس منہ سے(۱) 60 1
59 کس منہ سے(۲) 61 1
61 سفر وسیلۂ ظفر 62 1
62 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے 63 1
63 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے (۲) 64 1
64 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۱) 65 1
65 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۲) 66 1
66 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۳) 67 1
67 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۴) 68 1
68 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (1) 69 1
69 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۲) 70 1
70 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۳) 71 1
71 بانی ٔ رُہتاس 72 1
72 بانی ٔ رُہتاس (۲) 73 1
73 بانی ٔ رُہتاس (۳) 74 1
74 شہ سواری اورتیراندازی 75 1
75 شام کی صورتحال اورمستقبل کے خطرات 76 1
76 تبدیلی کی کوشش(۱) 77 1
77 تبدیلی کی کوشش(۲) 78 1
78 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۱) 79 1
79 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۲) 80 1
80 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۳) 81 1
81 تطہیر الجنان۔ایک لاجواب شاہکار 82 1
82 تہذیب حجاز ی کامزار(1) 83 1
83 تہذیب حجاز ی کامزار (2) 84 1
84 تہذیب حجاز ی کامزار (3) 85 1
85 تہذیب حجاز ی کامزار (4) 86 1
86 تہذیب حجاز ی کامزار (5) 87 1
87 تہذیب حجاز ی کامزار (6) 88 1
88 تہذیب حجاز ی کامزار (7) 89 1
89 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۱) 90 1
90 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۲) 91 1
91 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۳) 92 1
92 یوسف بن تاشفین(۱) 93 1
93 یوسف بن تاشفین(۲) 94 1
94 یوسف بن تاشفین(۳) 95 1
95 جرمنی اورعالم اسلام (۲) 47 1
96 جرمنی اورعالم اسلام (۳) 48 1
97 شیخ محمد بن عبدالوہاب ،آلِ سعود اورایرانی حکومت 96 1
98 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا 97 1
99 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا (۲) 98 1
100 خود احتسابی اور سروے کا طریقِ کار 99 1
101 اونچی اڑان 100 1
102 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین 101 1
103 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین (۲) 102 1
104 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۳) 14 1
Flag Counter