رمضان اورقرآن
حضرت شیخ القراء قاری فتح محمد صاحب پانی پتی رحمہ اللہ دارالعلوم کراچی نانکواڑہ میں طویل عرصے تک قرآن مجید کی خدمت کرتے رہے۔ ان کی رہائش گاہ سے اب بھی قرآن مجید کے انوارات منعکس ہوتے ہیں۔نانکواڑہ کی مسجد میں نمازِ تروایح کے بعد حضرت قاری صاحب قیام اللیل کاسلسلہ شروع فرماتے۔ سحری تک کسی وقفے کے بغیر حضرت قرآن مجید سناتے رہتے ۔ پیچھے سامع تھک جاتے اورباری بدلتے رہتے مگر حضرت قاری صاحب اسی طرح تازہ دم رہتے۔
قاری صاحب کے سامع حضرات میں ایک بزرگ کاتب مشتاق احمد صاحب بھی تھے۔ا ن کے بیٹے کاتب عبدالرؤف صاحب کو ضربِ مومن کی سرخیاں لکھنے کااعزازحاصل ہے۔ ان کے ایک اوربیٹے کاتب خلیل ،ماہنامہ سلوک واحسان اورمکتبۃ الشیخ کی کتب کی کتابت کرنے روزانہ جامعہ معہدالخلیل الاسلامی آیاکرتے تھے۔ یہ پوراگھرانہ ہی کاتبوں کاہے۔دارالعلوم کراچی نانکواڑہ کے قریبی ہری مسجد کے عقب میں ان کادفتر غالباً اب بھی قائم ہے ۔جب ہم نانکواڑہ میں پڑھتے تھے توکاتب عبدالرؤف صاحب کے بیٹے قاری محمد احمد صاحب ہمارے ہم جماعت تھے۔اس دورمیں گاہے گاہے قرآن مجید کے نسخوں پر نام لکھوانے کاتب صاحب کے دفتر جاناہوتاتھا۔میں کئی سال پہلے آخر ی بار وہاں گیاتھا۔
اس دفتر کی دیوار گیر الماریوں میں دینی کتب بھری ہوئی تھیں،یہ شوق اس گھرانے کے سربراہ کاتب مشتاق صاحب کاتھا۔
بات انہی بزرگ کی ہورہی تھی۔ وہ حضرت قاری فتح محمد صاحب کے عاشق تھے اورقرآن مجیدکی سماعت کا غیرمعمولی شغف رکھتے تھے۔ جب نانکواڑہ کی مسجد میں حضرت قاری فتح محمدصاحب قیام اللیل میں کھڑے ہوتے توکاتب مشتاق صاحب بھی انتہائی ضعیف العمری کے باوجودپوری رات ان کے پیچھے نیت باندھے رہتے۔ باقی سامع بد ل جاتے مگر جو ایمانی وروحانی طاقت حضرت قاری صاحب کوکھڑارکھتی وہی کاتب صاحب کو بھی بیٹھنے نہ دیتی۔
ان کاتب صاحب کی ایک اورعجیب بات میں نے اپنے بڑے بھائی قاری محبوب الٰہی صاحب سے سنی جو مجھ سے پہلے وہاںحفظ ِ قرآن اورگردان کرکے فارغ ہوئے تھے۔وہ یہ کہ کاتب صاحب حافظ نہیں تھے مگر حافظوں کو لقمہ دے دیتے تھے۔ میں نے بھائی جان سے پوچھاکہ یہ کیسے ممکن ہے۔
کہنے لگے:’’وہ قرآن مجید کواتنے غور سے سنتے تھے کہ کچھ دیر پہلے پڑھی گئی آیت چندلمحوںتک ان کے ذہن میں تازہ ہوتی تھی۔اس لیے اگر کوئی حافظ بھو ل جاتاتواگرچہ یہ اگلا لفظ نہیں بتاسکتے تھے مگرایک دوآیت پہلے سے کوئی لفظ بتادیتے تھے اورحافظ پیچھے سے چل کر رواں ہوجاتاتھا۔‘‘
قریبی دور کے عاشقانِ قرآن میں ہمارے استاد حضرت قاری یعقوب رحیمی صاحب بھی تھے۔ غیر رمضان میں بھی وہ رات تین ساڑھے تین بجے بیدارہوجاتے ۔راقم کو بعض راتیں ان کے دولت خانے میں گزارنے کااتفاق ہوا۔ سکوتِ شب کوتوڑتی ہوئی ان کی دھیمی پرسوزتلاوت اس وقت ان کی خلوت گاہ سے باہر تک سنائی دیتی۔ایسالگتاجیسے وقت تھم گیا ہے اورقرآن دلوں پر نازل ہورہاہے۔
یہ سارافیض تھاشیخ القرآء حضرت قاری فتح محمدصاحب ،مجددقرآت حضرت قاری رحیم بخش صاحب
اوراستاذگرامی حضرت قاری محمد یاسین پانی پتی رحمہم اللہ کا۔
حضرت قاری رحیم بخش صاحب رحمہ اللہ کی تلاوت کی کیسٹ راقم کوآج تک میسر نہیں آئی مگر حضرت قاری فتح محمد صاحب مرحوم کی آواز میں پوراقرآن مجید ،قاری محبوب الٰہی صاحب نے نانکواڑ ہ مسجد کے ایک پرانے بزرگ سے حاصل کیاتھا جواکثر وہاں اذان دیاکرتے تھے اوربڑے قاری صاحب کے پرانے عقیدت مند تھے۔ سالہاسال تک یہ پوراسیٹ ہمارے پاس رہا مگر پھر رفتہ رفتہ ایک ایک دوکیسٹیں ادھر اُدھر جاتی رہیں اوراب ان میں سے شاید نصف ہی بچی ہیں۔کاش کہ کسی طرح یہ سیٹ پھر پوراہوسکے۔بہرحال جن لوگوں نے خصوصاً تجوید کے ماہرین نے حضرت بڑے قاری صاحب کی تلاوت بلاواسطہ یا کیسٹ کے ذریعے سنی ہے ،وہ گواہی دیں گے کہ حضرت کی تجوید کا وہ معیار تھاکہ اس کی ہوبہو تقلید کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ۔
حضر ت بڑے قاری صاحب کے مجازِ بیعت حاجی نثارخان صاحب مرحوم نے کئی باریہ واقعہ سنایاکہ حضرت بڑے قاری صاحب مسجد نبوی میں قیام اللیل میں قرآن مجید سنارہے تھے۔ ایک عرب بزرگ آئے اوروجد کے عالم میں تلاوت سنتے رہے۔جب حضرت نے دورکعت بعد سلام پھیرا توان عرب بزرگ نے آگے بڑھ کر حضرت کی پیشانی پر بوسہ دیااورکہا:ہکذا انزل القرآن علیٰ نبینا صلی اللہ علیہ وسلم (ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجیداسی طرح نازل ہواتھا۔)
اگرچہ یہ زمانہ انحطاط کا ہے،اوراکابر کاکارواں گزرچکاہے مگراب بھی کچھ لوگ ایسے باقی ہیں جن کی راتیں عبادت میںگزرتی ہیں اوردن دین کی اشاعت وحفاظت میں ۔انہی کی بدولت اُمت کارشتہ ابھی تک دین سے قائم ہے اورانہی کی برکت ہے کہ ہم لوگ اپنی سیاہ کاریوں کے باوجود اللہ کے عمومی عذاب سے بچے ہوئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو رمضان کوواقعی پوری طرح وصول کرتے ہیں ۔ ماہِ رمضان میں ان کی عباد ت وریاضت دیکھ کرآدمی حیرت زدہ رہ جاتاہے۔ کاش ہمیں بھی ان کی ہمت کاکچھ حصہ نصیب ہوجائے۔
یہ مہینہ اب پھر آیاچاہتاہے۔ اللہ کی نعمتوں سے دامن بھرنے کاموقع ہمیں نصیب ہونے والاہے۔ اللہ توفیق دے کہ ہم اس رمضان کوواقعی رمضان سمجھ کر گزاریں۔رمضان المبارک قرآن کامہینہ ہے۔اس ماہ کی مبارک ترین رات میں جسے لیلۃ القدر کہاجاتاہے ،قرآن مجید لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اتاراگیا۔اللہ کاارشاد ہے :’’بے شک ہم نے اس قرآن کو شبِ قد رمیں نازل کیا‘‘
خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے رمضان کے شب وروز کامشغلہ قرآن مجید ہے اورخوش قسمت ہوں گے ہم بھی اگر ہم ماہِ مبارک کو روزوں ،تراویح ،نوافل اورتلاوت میں گزاریں ۔اس کے ساتھ ساتھ رمضان کے اصل مقصد تقویٰ کو اپنائیں جو قرآن مجید کی پوری تعلیم کانچوڑ ہے۔