تاریخِ اندلس کاآخری باب (۴)
ابوعبداللہ نے غرناطہ سے نکلتے ہوئے پلٹ کرآخری باراس جنتِ ارضی کی طرف دیکھا ۔ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اوروہ پھوٹ کر رونے لگا۔ملکہ عائشہ نے ڈانٹ کرکہا:’’جو بادشاہ مردوں کی طرح اپنے ملک کی حفاظت نہ کرسکے،اسے عورتوں کی طرح آنسوبہاناپڑتے ہیں۔‘‘
علامہ ابویحییٰ ابن عاصم رحمہ اللہ اپنی تصنیف’’جنۃ الرضیٰ فی التسلیم لما قدراللہ تعالیٰ وقضیٰ‘‘ میں اس سانحے پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’نصرانیوںنے اندلس کے امراء کو مکروفریب کے ذریعے لڑوایااورسازشوں کے ذریعے اس ملک کے محافظوں کوباہمی خونریزی کے فتنوں میں مبتلاکیا۔جب تک مسلمان متحد تھے اورعلماء متفق تھے ،تب تک جنگ میں بھی کبھی مسلمان جیتتے کبھی نصرانی۔‘‘
’’مسلمانوں اورنصرانیوں کے درمیان صلح اورجنگ،لڑائیوں اورجنگ بندیوں کوایک مدت گزرگئی۔کفارکا مقصدصرف یہی تھاکہ وہ مسلمانوں سے فریب کرکے اوراپنے اندرونی عزائم کوچھپاکریہاں سے اسلام اورمسلمانوں کو مٹادیں۔وہ یہ ظاہرکرتے تھے کہ وہ وطن کا مستقبل بہتر بنانا،اعلیٰ مقاصد کوپوراکرنا اوریہاں کے عام وخاص باشندوں کا خیال رکھنا چاہتے ہیںحالانکہ وہ دھوکے کی چال چل رہے تھے اورملک پر قبضے اوراہلِ وطن کی ہلاکت کے درپے تھے۔ پس افسوس ہے ان ذہنوں پر جواس ناممکن با ت کومان گئے اوراس جھوٹ پر یقین کر بیٹھے ۔‘‘
ابوعبداللہ جس کی عمر سقوطِ غرناطہ کے وقت تقریباً تیس سال تھی ، تقریباً ایک سال تک البشرات کے قلعے اندرش میں رہائش پذیر رہا۔رمضان ۸۹۸ھ(اپریل۱۴۹۳ء) میں شاہِ قسطالیہ نے اسے اپنی تمام جاگیروں سے دست بردار ہوکر اندلس چھوڑنے کاحکم دیا ۔چنانچہ وہ مراکش چلاگیا۔جانے سے پہلے اس نے مراکش کے امیرمحمد بن زکریاکوایک مراسلہ لکھ کر پناہ کی درخواست کی جس کاحرف حرف ،داستانِ عبرت ہے۔ وہ ایک خائن حکمران کے طورپر مشہورہوچکاتھا ،اس مراسلے میں وہ اپنے قصورکااعتراف اورساتھ ہی ملت فروشی کے الزام سے اپنی برأت ظاہر کرتے ہوئے لکھتاہے:
’’یاالٰہی! میں بری الذمہ نہیں کہ اپناعذر پیش کروں ، طاقت ورنہیں کہ بدلہ لے سکوں،ہاں مگر میں معافی کاطلب گارہوں،استغفارکرتاہوں۔حالات نے جس شخص کوانصاف کے کٹہرے میں کھڑاکردیاہے ،اس کی صفائی میں کم ازکم اتنا ضرورکہاجاسکتاہے۔جہاں تک تحقیقی بات کاسوال ہے تومیں وہی کہتاہوں جو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی (حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) نے کہاتھاکہ اللہ کی قسم ! اگر میں اس الزام سے برأت ظاہر کروں جولوگ عائد کررہے ہیں توآپ کبھی مجھ پر یقین نہیں کریں گے۔پس مجھے پدرِ یوسف کی طرح یہی کہناہے کہ صبرِ جمیل بہترہے ۔ان تمام باتوں کے باوجود میں اپنے عیوب کاانکارنہیں کرتابلکہ میں تو عیبوں سے بھراہواہوں۔میں اپنے گناہوں کی تردیدنہیں کرسکتاکہ میں تومعصیت کاپہاڑ ہوں۔اپنی عاجزی وشکستگی ،اپنی لغزشوں اورغلطیوں کاحال اللہ ہی سے کہتا ہوں…ہم پر جھوٹی افواہوں سے سنگ باری کی گئی اوروہ الزامات لگائے گئے جو کفارپر بھی نہیں لگائے جاتے۔ اللہ ان لوگوںکومعاف کرے…ہم جوچاہتے ہیں وہ ہمیشہ حاصل نہیں ہوتا،بہت مرتبہ ہم اس سے عاجز رہ جاتے ہیں۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے کہ ہرشے تقدیر میں لکھی ہے یہاں تک کہ آدمی کا ہوشیار یا احمق ہونابھی۔‘‘{نفح الطیب: ج ۴ ص ۵۴۰تا ۵۴۴}
ابوعبداللہ نے اپنے اہل وعیال سمیت سمندرعبورکرکے مراکش کے شہر فاس میںپناہ لی ۔ امیر محمد بن زکریا نے اسے رہنے کے لیے ایک قطعۂ زمین د ے دیا۔تاہم حسرت ویاس نے کبھی اس کاپیچھانہ چھوڑااورگمنامی کے طویل ایام گزارکر وہ ۹۴۰ھ میں فوت ہوگیا۔ اس کی عمر لگ بھگ ۷۵سال ہوئی۔اس کے دوبیٹوں یوسف اور احمد سے اس کی نسل چلتی رہی مگر اقبال مندی اس خاندان کاساتھ چھوڑچکی تھی، یہ لوگ افریقہ میں نہایت غربت و عسرت کی زندگی بسرکرتے رہے۔
غرناطہ کے سقوط کے بعداندلس میں ایک چپہ زمین بھی مسلمانوں کے قبضے میں نہ رہی۔متعصب پادری اس ملک سے مسلمانوں کانام ونشان تک مٹاد یناچاہتے تھے۔انہوںنے اعلان کیاکہ مسلمانوں کے لیے دو ہی راستے ہونے چاہییں ۔وہ اندلس چھوڑدیں یا عیسائی بن کر رہیں۔ اندلس کے علماء اورادباء وشعراء نے نظم ونثر میں کئی مراسلے لکھ کرنہایت رازداری کے ساتھ قسطنطینیہ ،قاہرہ اور دوسرے طاقتور مسلمان حکمرانوں تک اپنی داستان الم پہنچائی ۔ایک مسلمان نے اپنے منظوم مراسلے میں مسلم حکمرانوں کوکہا:
’’جب ہم ان کی ماتحتی میں آئے …توعہد شکنی کے ساتھ ان کی دھوکہ دہی ظاہر ہوگئی
انہوںنے ہم سے کیے گئے تمام وعدوں میں خیانت کی …ہمیں زبردستی ،مجبورکرکے نصرانی بنادیاگیا
ہماری ہردینی کتاب کونہایت حقارت کے ساتھ آگ میں پھینک دیاگیا
کسی مسلمان کے پاس کوئی کتاب توکیا کوئی قرآن مجیدکانسخہ تک نہ رہا جسے وہ تلاوت کرتا
کسی کے نماز پڑھنے یاروز ہ رکھنے کی انہیں اطلاع ہوجاتی تواسے بہرحال آگ میں پھینک دیتے
ہم میں سے جو بھی ان کے کفریہ مرکز(چرچ) نہ جائے ،اسے بدترین سزادی جاتی ہے
اسے منہ پر طمانچے مارے جاتے ہیں ،مال چھین لیاجاتاہے، اورجیل میں ڈال دیاجاتاہے
رمضان میں وہ ہمیں باربار کھانے پر مجبورکرکے ہمارے روزے فاسد کرتے ہیں۔
ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم اپنے نبی کوگالی دیں۔اورکبھی اچھی یابری حالت میں انہیں یاد نہ کریں
انہوںنے ہمارے کچھ لوگوں کونعت پڑھتے دیکھا توانہیں بدترین تشددکانشانہ بنایا
انہوںنے ہمارے نام تک بدل ڈالے جبکہ ہم نے ایساچاہانہ ہم اس پر راضی تھے۔
آہ !دینِ اسلا م کی جگہ رومی کتوں کادین آگیا جو بدترین لوگ ہیں۔
آہ !وہ مینار جہاں اب کلمہ شہادت کی جگہ بگل بجائے جاتے ہیں۔
آہ وہ خوبصورت شہر جہاں کفر کی مہیب ترین ظلمت چھاگئی ہے۔
ہم غلام ہیں ،قیدی نہیں کہ کوئی فدیہ دے کر چھڑالے ۔
ہم ایسے مسلمان بھی نہیں جو کلمہ شہادت پڑھ سکیں۔
اگر آپ کی آنکھیں ہماراحال دیکھ لیں توآپ کے آنسو بہہ پڑیں گے
ہائے یہ کیسی تباہی اورکیسی مصیبت ہے۔ ذلت کاکیسالبادہ ہے جس میں ہم لپٹے ہوئے ہیں
سقوطِ اندلس کے اس آخری باب کاحرف حرف عبرت ہے۔ جو قومیں اپنی آزادی کی حفاظت کرنانہیں جانتیں ،اورباہمی سرپٹھول کرکے اس نعمت کامذاق اڑاتی ہیں،ان کی نسلیں غلام بن جاتی ہیں۔ہمارے بڑوںنے۱۴اگست ۱۹۴۷ء کولاکھوں جانوں کی قربانیاں دے کر یہ نعمت حاصل کی تھی۔ ۶ستمبر۱۹۶۵ء کو ہمارے بڑوں نے جان پر کھیل کر اس آزادی کی حفاظت کی تھی ۔آئیے عہد کریں کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھیں گے۔ انتشاروافتراق پھیلانے والی کسی شیطانی سازش کے آلہ کارنہیں بنیں گے اورآخری سانس تک اس نعمت کی حفاظت کرتے رہیں گے۔