سمندری شیر(3)
پاشا نے اپنے بیڑے کو تین حصوں میں تقسیم کررکھاتھا۔اس کی جنگی چالیں اتنی عجیب تھیں کہ یورپی کپتان ششدر رہ گئے تھے۔صرف پانچ گھنٹے کی لڑائی کے بعدیورپ کی مشترکہ بحری طاقت سمندر میں غرق ہوگئی ،اوربچی کھچی فوج نہایت ذلت وخواری کے عالم میں بھاگ نکلی۔
اس فتح کی خوش خبری کامراسلہ جب سلیمانِ اعظم کوپہنچاتواس نے مسرت اور تشکر کے طورپراسے کھڑے ہوکر سنا۔ جمہوریہ وینس اوراٹلی اس شکست کے بعدڈلماشیا(کروشیا)کے ساحل سمیت ان تمام جزیروںسے جو خیرالدین پاشا نے فتح کیے تھے،دست بردارہوگئے اورتین لاکھ ڈوکٹ بطورِ تاوانِ جنگ بابِ عالی کو پیش کیے۔
خیر الدین پاشا نے اپنے بیٹے حسن بیگ کو الجزائر واپس بھیج دیااور وہ وہاں سے اسپین کے ساحلوں پر حملے کرتا رہا۔ وہ اندلس کے مسلمانوں کو افریقہ منتقل کرنے کا کام بھی کرتا رہا اور وہاں کے مجاہدین کو اسلحہ بھی پہنچاتا رہا۔ اس دوران اس نے دوبار جبل الطارق کے قلعے پر قبضہ بھی کیا۔
اسپین کابادشاہ چارلس پنجم ان حملوں سے تنگ آگیاتھا۔اس نے ایک چال چلی اورخیر الدین پاشاکو الجزائر کابادشاہ بنادینے کی پیش کش کی بشرطیکہ وہ خلافتِ عثمانیہ سے قطعِ تعلق کرلے۔چارلس نے اپنے پیغام میںپاشاکو یقین دلانے کوشش کی کہ اس سے معمولی خراج لیاجائے گا اوراسپین کی حمایت وسرپرستی ہمیشہ اس کے ساتھ ہوگی۔ خیر الدین پاشا نے اس گھناؤنی پیش کش کو حقارت کے ساتھ ٹھکرادیااوراس طرح دشمن پر یہ واضح کردیاکہ اللہ کے راستے میں اپنی جانوں کو بے قیمت کرنے والے اتنے بیش بہا ہوجاتے ہیں کہ دنیا میں کوئی ان کامول نہیں لگاسکتا۔
چارلس پنجم کواپنی پیش کش کی ناکامی پر اتنا غصہ آیاکہ وہ 1541ء میںانڈریا ڈوریاکو ساتھ لے کرالجزائر پر حملے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔اسپین،سسلی، مالٹا اورجرمنی کے حکام، نامور نائٹ اور نواب اس کے ہمرا ہ تھے۔بحری بیڑہ 516 جہازوں اور36ہزارسپاہیوں پرمشتمل تھا۔الجزائر کابحری بیڑہ کسی اورمحاذپر گیاہواتھا۔ خیرالدین پاشا بھی موجودنہ تھا۔خیرالدین پاشا کے بیٹے (الجزائر کے نائب حاکم) حسن بیگ کے پاس صرف 600 بحری سپاہی تھے ،ان کے علاوہ وہ بمشکل دوہزار رضاکار مزید جمع کرسکا۔خطرہ تھا کہ اس بار اسپین کو، الجزائر پر قابض ہونے سے روکنے والاکوئی نہیں۔
مگر حسن بیگ نے انہی مٹھی بھر سپاہیوںکے ساتھ دشمن کاسامنا کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ہسپانوی لشکر الجزائر کے ساحل پر اتر کر خیمے گاڑ چکاتھا۔اس کے ہراول دستے ایک قلعے کامحاصرہ کرنے آگے آچکے تھے۔حسن بیگ نے انہیں اچانک حملے کانشانہ بنایاجس نصرانیوں میںکھلبلی مچ گئی اوروہ قلعے کامحاصرہ چھو ڑ کر بھاگ نکلے۔اسی رات حسن بیگ نے حریف کے مرکز ی کیمپ پرایک اور تندوتیز حملہ کیاجس میں تین ہزار نصرانی مار ے گئے۔ چارلس کو مزید آگے بڑھنے کی ہمت نہیں ہوئی ۔اس نے حکم دیاکہ پوری فوج بحری جہازوں میں سوار ہوکر واپس ہوجائے۔ ابھی فوج جہازوں میں سوارہونے کی تیاری کررہی تھی کہ آندھی کے آثار محسوس ہونے لگے۔
حسن بیگ جو افریقہ کے طوفانوں کاعادی تھا، دورسے یہ سارامنظر دیکھ رہاتھا۔نصرتِ الٰہیہ اس کے ساتھ تھی، مٹھی بھر سپاہیوں کے ساتھ نصیب ہونے والی کامیابیوں نے اس کے عزائم بہت بلند کردیے تھے لہٰذاوہ ہسپانوی بادشاہ کو ایسا سبق سکھاناچاہتاتھاکہ وہ دوبارہ الجزائر کا رُخ کرنے کی ہمت نہ کرے۔اس نے آندھی سے برپاہونے والے ہنگامے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک بارپھر بے خبرنصرانیوںپر حملہ کردیااوران کے بیسیوں جہازوں کو نشانہ بنا کرغرق کردیا۔ دشمن کے گولہ بارود کے ذخائر جو جہازوں پرتھے ،پانی میںڈوب کرناکارہ ہوگئے۔ بیس ہزار ہسپانوی ،جرمن اوراطالوی مارے گئے،ترکوںنے ہزاروں گھوڑے بھی کاٹ ڈالے تاکہ دشمن کے سپاہی خشکی پر فرارنہ ہوسکے ۔یورپ کے کئی نامور شہزادے، نائٹ اورنواب قیدی بن گئے۔ 130جہاز مسلمانوں کوصحیح وسالم ہاتھ لگے۔ڈوبنے والے ایک جہاز میں مسلمان قیدی بھی تھے،ان میں سے 1800کو سمندر سے زندہ نکال لیاگیا۔چارلس دس پندرہ ہزارسپاہیوں کے ساتھ بھاگنے میں کامیاب ہوگیامگرراستے میں اس شکست اورنقصان پر دھاڑیں مارمارکر روتارہا، غم وغصے کی شدت میں اس نے اپنا شاہی تاج سرسے اتارکر سمند رمیں پھینک دیا۔سلیمان اعظم نے استنبول میں اس فتح کی خبر بڑی خوشی سے سنی۔خیر الدین پاشا اس کے ایک ماہ بعد الجزائر پہنچ گیا اور اپنے بہادر بیٹے کواس شاندارکارنامے پر شاباش دی۔یہ فتح اس بات کااعلان تھی کہ خیرالدین اپنے جانشینوں کوپوری طرح تیار کرچکاہے جواس کے بغیر اور اس کے بعد بھی یورپی استعمار کوناکوں چنے چبواتے رہیں گے۔
امیر البحر خیرالدین پاشابڑھاپے کے باوجود توانا، پرجوش اور اپنے فرائض نبھانے میں مستعد رہا۔ یورپمیںاسے ایک مافوق الفطرت شخصیت کی حیثیت حاصل ہوگئی ۔
1544ء میں خیر الدین پاشا استنبول آگیا۔اس کے بعد اس نے دوبارہ سمندری سفرنہیں کیا۔ آخری ایام میںاس نے اپنی دولت کو سلطنتِ عثمانیہ ،اس کے خدمت گاروں اوراپنے جانباز ساتھیوںسے تعاون کے لیے بے دریغ خرچ کیا،اپنے ذاتی تیس جہازسلطنتِ عثمانیہ کے لیے وقف کردیے۔بشکتاش میں ایک جامع مسجد،قبرستان اوردیگررفاہی کاموں کے لیے تیس ہزارطلائی لیرے مختص کیے۔ اپنے سینکڑوں جانثار مجاہدوں کو نقد رقمیں،جائدادیں اوردیگر سازوسامان اس کثرت سے دیاکہ وہ باقی زندگی آرام سے گزارسکتے تھے۔رستم پاشا اس کادولاکھ دس ہزارلیرے کامقروض تھا۔خیرالدین پاشا نے اپنے بیٹے حسن کو وصیت کی کہ وہ رستم سے کبھی قرض کی واپسی کامطالبہ نہ کرے ۔اگر وہ دے بھی توقبول نہ کرے۔ان وصیتوں کے بعد4جولائی1546ء کو عالم اسلام کایہ بے مثل بحری سپاہی جس نے سمندروں کاسینہ ،یورپی استعمار کے لیے تنگ کردیاتھا، دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اس کی عمر74سال تھی ۔استنبول کے ساحل بشکتاش پر اس کی قبر آج بھی استعمار کوللکاررہی ہے۔آج بھی وہاں ترک بحریہ کی تقاریب منعقدہوتی ہیں جن میں اس سمندری شیر کودلی خراجِ تحسین پیش کیاجاتاہے۔