گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا (۲)
شیخ علی متقی کی اصلاحات کی وجہ سے مملکت میں رشوت ستانی اور ناانصافی کے راستے بند ہوئے توبعض امراء کویہ ناگوار گزرا۔ انہوںنے شیخ کے خلاف سازشیں شروع کردیں۔ شیخ علی متقی کواس سے بڑا صدمہ ہوا۔ آپ نے حجاز واپسی کافیصلہ کرلیا۔محمود شاہ نے امراء ایک وفد بھیج کر عاجزانہ التجاکی کہ آپ یہیں رہیں مگرآپ نہ مانے۔ آخر شاہ خود حاضر ہوااوریہی درخواست دہرائی ۔آپ نے فرمایا : ’’مکہ میں دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں ۔میں وہاں رہ کرآپ کے لیے دعا کروں تویہ زیادہ مؤثر ہوگا۔‘‘آپ اپنی جگہ شیخ عبدالصمد کو سلطان کا شرعی مشیر بنا کر واپس مکہ تشریف لے آئے۔ آپ نے طویل عمر پائی اور۹۷۵ھ (۱۵۶۷ء)میںعمرعزیزکی ۹۰ بہاریں دیکھنے کے بعد وفات پائی۔
محمود شاہ نہ صرف گجرات بلکہ ہمسایہ ریاستوں کے لیے بھی اللہ کی رحمت تھا۔جب مالوہ کے حکمران نے اس کی پڑوسی ریاست دکن پر فوج کشی کی کوشش کی تو وہاں ایک کم سن شہزادہ تخت نشین تھا۔ اس کی ماںنے محمودشاہ سے فریاد کی ۔وہ اپنی فوج لے کرمالوہ کے لشکر کی راہ میں حائل ہوگیا۔مالوہ کا لشکر واپس چلاگیا۔اگلے برس مالوہ کی فوج نیپھر یلغار کی۔ محمودشاہ نے پھر اس کاراستہ روکا اور مالوہ کے حکمران کو درج ذیل خط لکھا:’’یہ انسانیت کی بات نہیں کہ تم ایک نابالغ لڑکے کی حکومت چھیننے کی کوشش کرو۔جب تک وہ بالغ نہیں ہوجاتا،میں اس کی سلطنت کی حفاظت کاذمہ دارہوں۔اگر تم اس کی سرحد میں گھسوگے تومیں تمہاری سرحدپر چڑھائی کردوں گا۔ تمہار ے آس پاس کفار کی ریاستیں ہیں ۔ تمہاری مہم جوئی کے لیے وہ کافی ہیں ۔جہاد سے تمہارا مرتبہ بھی بڑھے گا۔‘‘
اس کشیدگی کے باوجود جب اسیشاہِ مالوہ کی وفا ت کی اطلاع ملی تواس نے دعائے مغفرت و رحمت کی۔ ایسے میں کسی نے اسے مشورہ دیاکہمالوہپر حملے کایہ بہترین موقع ہے۔ اس پرمحمود شاہ نے جواب دیا:’’یہ اچھی بات نہیں کہ اس کے گھرانے پر ایک ساتھ دومصیبتیں آئیں۔ایک تو اس کی موت۔دوسرے سرحدوں کی پامالی۔‘‘
محمودشاہ کے آخری سالوں میں ہندوستان کے ساحلوں پر سات سمندرپارسے آنے والی ایک نئی طاقت نے جگہ پکڑ لی ۔یہ پرتگیزی تھے جو1498ء میں کالی کٹ کے ساحل پر واسکوڈی گاما کی آمد کے بعدبحرِ ہند کی تجارت پر چھانے لگے تھے ۔ انہوںنے ساحلی علاقوں پر قلعہ بندیاں کرکے گجرات اورمصر کی تجارتی سرگرمیوں میں شدید رخنہ ڈال دیاتھا۔ان کی اصل طاقت ان کابحری بیڑاتھاجس کے بل بوتے پرانہوںنے ہندوستان کے دیگر ساحلی علاقوں پربھی حملے شروع کردیے۔
محمودشاہ نے مالی بار کے ہندو راجا اور سلطانِ مصرقانصوہ غوری سے اتحاد کرکے ان کی روک تھام کی پوری کوشش کی۔ سلطانِ مصر نے محمودشاہ کی طلب پر امیرحسین کی قیادت میں ایک بحری بیڑہ بھیجا جس کی مددسے 914ھ (1508ء)میں کالی کٹ کے مقام پر پرتگیزیوں کوشکستِ فاش دی۔ممکن تھاکہ ایسی دوتین شکستوں کے بعد برصغیر کے بارے میںاہلِ یورپ کے عزائم ہمیشہ کے لیے بدل جاتے۔مگرپرتگیزیوںنے گجرات کے شمال میں واقع جزیرۂ دیو کے ہندوحاکم کوخفیہ طورپرساتھ ملا لیا ۔ اس نے عین وقت پر مصری بیڑے کی رسد روک دی جس کی وجہ سے دوسرے معرکے میں مصری اور گجراتی بیڑے کوشکست ہوئی اورمصری بیڑہ واپس چلاگیاجس کے بعد پرتگیزیوں کے قدم ساحل پر جم گئے۔انہوںنے بیجاپور کے عادل شاہیوں سے ’’گوا‘‘ چھین لیا۔جس کے بعد محمود شاہ کو بھی پرتگیزیوں سے صلح کرناپڑی۔
محمودشاہ نے وفات سے کچھ عرصے پہلے ،اپنی قبر خود کھدوائی ،اس میں بیٹھ کردعاکی :یااللہ !یہ آخرت کی پہلی منزل ہے،تواسے میرے لیے آسان فرمااوراسے جنت کاباغ بنادے۔‘‘پھرقبر میں چاندی بھرکراسے صدقہ کردیا۔پیر ،2رمضان 917ھ(1511ء)کواس کی وفات ہوئی۔
محمودشاہ کابیٹا اورجانشین مظفرشاہ دوئم تھاجسے اس کی نیک سیرتی ،بردباری اور رحمدلی کی وجہ سے ’حلیم‘ کہا جاتا تھا۔ وہ حافظِ قرآن اورفقہ وحدیث کا ماہرتھا۔اکثر باوضو رہتا،کبھی رات اورکبھی دن کو بھیس بدل کر رعایاکی حالت دیکھنے نکل جاتا۔ایک بار بارشیں بند ہوگئیں ،مظفر شاہ نمازِ استسقاء کے لیے نکلا۔ دعاکراتے ہوئے اس نے کہا: ’’یااللہ !اگر بارش کے قطرے میرے گناہوں کے سبب رکے ہیں ،تویہ میری پیشانی تیرے قبضے میں ہے ۔‘‘دعاختم ہوئی تھی کہ موسلادھاربارش شروع ہوگئی۔وہ دشمنوں کومعاف کردینے کاعادی تھا۔اس کی سیاست بڑی صاف ستھری اوروضع داری پر مبنی تھی۔مالوہ کے حکمران کئی بار گجرات کے خلاف لشکر کشی کرچکے تھے اورا س دوران وہ بے دھڑک ہندوؤں سے مددلیاکرتے تھے۔ ایک بار ہندوؤں اورشاہِ مالوہ میں ٹھن گئی۔شاہ مظفر کوا س کے مشیروںنے کہا:’’یہ اچھاموقع ہے کہ ہم ہندوؤں سے اتحاد کرکے مالوہ پر قبضہ کرلیں۔‘‘
مظفر نے اسے مستردکرتے ہوئے کہا:’’یہ کوئی مردانگی اورشجاعت نہیں کہ ہم اہلِ مالوہ کے خلاف ہندوؤں سے جاملیں۔اس کی مصیبت اورمشغولیت سے فائدہ اٹھاکراس کاملک لے لیں۔‘‘
بہادرشاہ اس خاندان کاآخری باعظمت فرمانرواتھا۔اس نے مغل بادشاہ ہمایوں سے ایک بارشکست کھائی مگر جلدہی مغلوں کوپسپاکرکے گجرات واپس لے لیا۔اس مہم سے فارغ ہوتے ہی اسے معلوم ہواکہ پرتگیزیوں نے ساحل پر فتنہ وفساد برپا کردیاہے اور پرتگیزی حاکم بحری جہازلے کر جزیرہ دیوپر حملے کے لیے آرہاہے۔بہادرشاہ جہاد کے لیے نکل کھڑاہوا۔وہ ساحل پر پہنچاتو پرتگیزی حاکم نے اسے پیغام بھیجاکہ ہم لڑنے نہیں ،بلکہ آپ کو گجرات کی حکومت دوبارہ حاصل ہونے کی مبارک باد دینے آرہے تھے مگر اب میں بیمار پڑ گیاہوں ،اس لیے ساحل پر نہیں اترسکتا، لہٰذاشاہ اگرخوداسے شرفِ ملاقات بخش دے تونوازش ہوگی۔
بہادر شاہ کشتی میں بیٹھ کر پرتگیزی کمانڈرسے ملنے چلاگیااوربحری جہازمیں اس سے ملاقات کی۔ جب وہ واپس ہورہا تھا تو پرتگیزیوںنے دھوکہ دیتے ہوئے اس کی کشتی پرحملہ کردیا۔ بہادرشاہ دیرتک اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کے ساتھ حملہ آوروںسے لڑتارہااورآخرکارشہید ہوکر سمندر کی امانت بن گیا۔ بہاد رشاہ کے بعدجلال الدین اکبر نے گجرات فتح کرکے اس خاندان کے آخری حکمران مظفر سوم کوبے دخل کردیا۔یوںمغل پوری طرح گجرات کے مالک بن گئے۔
مغلوں کے زوال کے بعد گجرات استعماری طاقتوں سے مغلو ب ہوا۔ ہندوستان آزاد ہواتو یہاں کے مسلمانوںنے اپنے تشخص کی حفاظت کے لیے ایک نئی جنگ لڑنا شروع کی ۔ یہاں بڑے بڑے دینی مدارس قائم ہوئے۔ معیشت وتجارت میں ان کا اثرو رسوخ روز افزوں ہوا۔یہ صورتحال بی جے پی کو برداشت نہ ہوسکی ۔مودی نے ہندوتو ا کاخواب پوراکرنے کے لیے گجرات کو تختۂ مشق بنایا۔اس سانحے کی یادیں اہلِ گجرات کبھی نہیں بھلاسکتے۔ مودی کے حق میں ایڈوانی کی راگنی سے جیتے جاگتے حقائق تبدیل نہیں ہوسکتے۔مودی مودی ہی رہے گا۔تاریخ اسے محمودبیگڑا،مظفر شاہ یابہادرشاہ کے پہلو میں جگہ نہیں دے سکتی۔