Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ 2016

39 - 102
فضلائے مدارس کی کھپت ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۱)
ان دنوں موسم بہار ہے۔گلوں پر نکھارہے۔ نئے نئے پھول کھل رہے ہیں ۔ درختوں کی شاخیں سبز سبز پتوں سے لد گئی ہیں ۔ سردی سے ٹھٹھر نے والے پرندے اب ہر طرف چہچہاتے پھرتے ہیں۔ یہ گھومنے پھرنے کے دن ہیں۔موسم گرم ہے نہ سرد۔ کہیں بھی جائیں تو لطف آجاتا ہے۔ بقولِ غالب 
ہے ہوامیں شراب کی تاثیر
بادہ نوشی ہے بادہ پیمائی
مگر بہار کی یہ لطافتیں باغ اورجنگل تک محدودنہیں ۔دینی مدارس میں بھی موسم بہار ہے۔باغباں علم کی شاخوں پر پکے ہوئے پھل توڑ رہے ہیں۔مدارس میں جابجاختم بخاری کی تقاریب ہورہی ہیں۔ ہرطرف مسرت وشادمانی کاایک عالم ہے۔ مبارک سلامت کی پکار کے ساتھ رقت آمیز دعائیں بھی ہیں اوراشکوں کی برسات بھی۔کیوں نہ ہو کہ پھول ڈالیوں سے رخصت ہورہے ہیں۔  
ہر سال مدارسِ دینیہ سے دستارِ فضیلت زیب تن کرکے نکلنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ فراغت کے بعد یہ کہاں جاتے ہیں؟اس سوال کاجواب بڑی حدتک فارغ ہونے والوں کی صلاحیت،لگن، دلچسپی اورگھریلووخاندانی حالات پر منحصر ہوتاہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس کادارومدار ان کی معاشی حالت اور اس سے نبرد آزما ہونے میں ان کی فکرو تدبیرپر بھی ہوتاہے۔ 
فضلاء میں سے کچھ غیرمعمولی استعداد کے حامل ہوتے ہیں ،ان کے گھریلوحالات بھی اچھے ہوتے ہیں ۔والدین انہیں دین ہی کے لیے وقف کرناچاہتے ہیں ۔ایسے فضلاء اطمینا ن کے ساتھ دینی خدمات میں مشغول ہوجاتے ہیں ۔یہ حضرات اپنے اپنے شوق یاعلاقے اورماحول کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے مدارس کے انتظام وانصرام ،دینی تحریکوں میں شمولیت ،تعلیم وتدریس اورامامت و خطابت کے علاوہ تصنیف وتالیف  جیسے کام انجام دینے لگتے ہیں۔ بہت سے فضلاء کے گھریلوحالات سازگارنہیں ہوتے اس کے باوجود وہ غیرمعمولی لگن کے باعث اللہ پر توکل کرکے معمولی تنخواہوں پر دینی خدمات میں مـصروف ہوجاتے ہیں۔ دینی خدمات کو اوڑھنا بچھونا بنانے والے یہ ساتھی ،مدارس کا اصل ثمرہ اورحاصلِ محنت ہیں۔
مگران خوش نصیبوں کے علاوہ ایک بہت بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو فراغت کے بعد حصولِ معاش کو ترجیح دیتی ہے۔ ایسانہیں کہ ان میں صرف کمزوراورغبی سمجھے جانے والے افراد شامل ہوں ۔بلکہ ان میں ایسے ذی استعداد نوجوان بھی ہوتے ہیں جن کی ذہانت اورقابلیت پر رشک کیاجاتاتھا۔
عام طورپر دیکھایہ گیاہے کہ ایسے بہت سے ساتھیوں کامدارس یادینی ماحول سے رابطہ کٹ جاتا ہے۔ اگرچہ ان میں کچھ ایسے باہمت بھی ہوتے ہیں جو کاروباری ودنیوی مشغولیات کے ساتھ بھی اپنے اساتذہ اورمدرسوں سے تعلق برقراررکھتے ہیں مگرا یسی مثالیں کم ہیں۔ ان کی اکثریت  فراغت کے بعد  کبھی خال خال ہی مدرسے میں دکھائی دیتی ہے۔
ایسے فضلاء کو ہم قصوروارسمجھیں یا مجبور؟اور کسبِ معاش میں ان کاانہماک درست ہے یا غلط؟ اور آیاان کی اس ڈگرمیں ہمارابھی حصہ ہے یانہیں؟اس صورتِ حال کاسدباب ہوناچاہیے یانہیں؟۔ اگریہ سب کچھ ٹھیک اورفطری ہے تو پھر کسی پریشانی کی ضرورت نہیں ۔لیکن اگر ہماراخیال ہے کہ اس طرح مدارس کی فکری ونظریاتی محنت کا ایک بڑاحصہ ضایع ہورہاہے اورایسے ہزاروں لاکھوں طلبہ پر صرف ہونے والا زرِ کثیر بھی ایک سوالیہ نشان بن رہاہے تو پھر ہمیں اس سلسلے میں ضرور سوچنا ہوگا اور ان تمام پہلوؤں پر غور کرنا ہوگاجو اس صورتحال کاسبب بن رہے ہیں۔
راقم کاخیال ہے کہ اگرمدارس کے ان فضلاء کو جو کسبِ معاش میں لگے ہوئے ہیں ،ان کی مجبوریوں اورحالات کے تناظر میں دیکھاجائے تو وہ اتنے زیادہ قصوروار نہیں لگیں گے۔
عام رویہ یہ دیکھا گیاہے کہ ایسے نوجوانوں کو جو پڑھنے کے بعد تدریس یاکسی خالص دینی خدمت میں مشغول نہ ہوں ،راندۂ درگاہ تصور کرلیا جاتا ہے ، یہ خیال کیے بغیر کہ ان کی ایسی مجبوریاں بھی ہوسکتی ہیں جن پر ہم غورنہیں کررہے۔مثلاًیہی مجبوری کچھ کم نہیں کہ انہیں جو تنخواہ دی جاتی ہے (اوراکثر مدارس اپنے محدود وسائل میں اس سے زیادہ دینے کی سکت بھی نہیں رکھتے)اس میں ایک عام آدمی کاگھر ہرگزنہیں چل سکتا۔اس وقت صرف دوبچوں کے ساتھ رہنے والاکوئی شادی شدہ شخص بھی پندرہ بیس ہزار سے کم میں مہینے کے ضروری خرچے پورے نہیں کرسکتا۔جب کہ عام مدارس میں اس وقت بھی تنخواہوں کی شرح چھ سے دس ہزارروپے تک ہے۔ بہت اچھے مدارس میں پرانے مدرسین کے مشاہرے بیس سے تیس ہزارکے درمیان بھی ہوتے ہیں مگر اس وقت ان کی عمریں بھی چالیس پچاس ہوچکی ہوتی ہیں اوربچوں کی شادیوں سمیت متعدد ایسی ذمہ داریاں سرپرہوتی ہیں کہ یہ تنخواہ بھی ناکافی ہوجاتی ہے ۔پس جو فضلاء اپنی مجبوریوں کی وجہ سے اس انتہائی محدودرزق کوچھوڑکرنسبتاً کچھ کشادہ ذریعۂ معاش تلاش کرتے ہیں ،انہیں موردِ الزام نہ سمجھاجائے۔ان کے ساتھ ہمدردانہ اورمربیانہ برتاؤ کیاجائے چاہے وہ کسی بھی شعبے میں چل رہے ہوں ۔ان کی حوصلہ شکنی انہیں مزید دور کردے گی۔انہیں تسلی دی جائے کہ اللہ کی حدودمیں رہتے ہوئے ،وہ کسبِ معاش  کررہے ہیںتو،اس میں کوئی حرج نہیں۔ہاں انہیں عام لوگوں سے بہتراسلامی کردار کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔وہ جہاں بھی ہیں ، ان کی حیثیت اسلام کے ایک داعی اورمدرسے کی سپاہی کی ہے،اورانہیں اپنی اس ذمہ داری کو حکمت اورخوش اسلوبی سے انجام دیناچاہیے۔ 
ہمارے فضلاء کی ایک بڑی تعدا د عصری تعلیم کے شعبے کی طرف جارہی ہے۔ ہم میں سے کچھ لوگ انہیں تنقیدی نگاہ سے دیکھتے ہیں اورانہیں مدارس کی محنت اکارت کرنے کامجرم سمجھتے ہیں ۔ لیکن اس سے کچھ حاصل نہیں ،سوائے اس کے کہ ان میں اورمدارس میں فاصلے مزید بڑھ جائیں۔ 
ہونایہ چاہیے کہ ایسے ساتھیوں کے لیے ایک الگ سیٹ اَپ بنایاجائے ۔انہیں باہم مربوط کیا جائے۔ یہ ریکارڈ رکھاجائے کہ مدارس کے فضلاء کہاں کہاں کن کن اسکولوں ،کالجوں اوریونی ورسٹیوں میں کام کررہے ہیں۔وہاں بہتر اندازمیں کام کے حوالے سے ان کے لیے مدارس میں ورکشاپس منعقدکیے جائیں۔ اگر وفاق کی سطح پر یہ کام ہوتوبہت بہتر ہوگا۔ ورنہ ہرجامعہ اپنے اپنے فضلاء کاایساریکارڈ رکھ کرانہیں باہم مربوط کرسکتی ہے اوران سے بہت مفید کام لے سکتی ہے۔
مدارس کے فضلاء کے کھپت کے مسئلے پر بہت سنجیدگی سے غور کیاجاناچاہیے۔طلب ورسد کے فطری اصول کومدنظر رکھاجائے توہمیں اپنے نظا م میں اصلاح کی بہت گنجائش دکھائی دے گی۔
اس وقت راقم کی رائے میں بڑے شہروں میں طلب کم اور رسد زیادہ ہوچکی ہے۔چھوٹے شہروں میں تناسب تقریباً برابر ہے،جبکہ دیہاتوں اورپس ماندہ بستیوں میں رسدنہ ہونے کے برابر ہے اور ضرور ت بہت زیادہ۔مگر ہمارے پاس فضلاء کی تشکیل کاکوئی ایسانظام نہیں جس کے ذریعے ہم اس بحران پر قابو پاسکیں۔
دیہاتوںسے شہروں میںجاکر عالم بننے والے طلبہ لاکھوں ہیں ۔ہر سال فارغ ہونے والوں میں ایک بڑی تعدادان کی ہوتی ہے۔ مگر ان کی اکثریت شہروں ہی میں رہ جاتی ہے۔ اگر کوئی ہمت کرکے گاؤں واپس بھی آتاہے تو نامساعد حالات اسے بہت جلد شہرواپس دھکیل دیتے ہیں ۔ راقم دیہی علاقے میں کام کرنے کی وجہ سے اس صورتحال کاچشم دیدگواہ ہے۔یہاں دینی کاموں سے تعاون کرنے والے برائے نام ہی ہوتے ہیں ۔اگر کسی مدرسے کو شہر کے کسی  مخیر فرد کی طرف سے مستقل تعاون میسر ہے یاوہ کسی بڑے مدرسے کی شاخ کے طورپر قائم ہے تواس کانظام چلتارہتاہے ،ورنہ مدرسے قائم ہوتے ہیں اورکچھ دنوں بعد بند ہوجاتے ہیں ۔کام کرنے والے شہروں میں جابیٹھتے ہیں جہاں پہلے ہی کام کرنے والوں کی بہتات ہے۔ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 استاذ القراء کاسفرِ آخرت 1 1
3 فنا فی القرآن 2 1
4 مثالی استاذ 3 1
5 استاذ گرامی کی کچھ یادیں 4 1
6 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۱) 5 1
7 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۲) 6 1
8 پاک بھارت جنگ کے امکانات …اورمعرکۂ پانی پت 7 1
9 رمضان اورقرآن 8 1
10 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۱) 9 1
11 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۲) 10 1
12 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۳) 11 1
13 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار [1] 12 1
14 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۲) 13 1
15 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق 15 1
16 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۲) 16 1
17 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۳) 17 1
18 سیرتِ نبویہ کے جلسے اورواعظین کے لیے لمحۂ فکریہ 18 1
19 ترک عوام جنہوںنے تاریخ بدل دی 19 1
20 اسلام میں جہاد کاتصور…اسلامی نظریاتی کانفرنس کااجلاس 20 1
21 نعمتوں کی ناقدری 21 1
22 یوم پاکستان اوردینی مدارس 22 1
23 دسمبر سے دسمبر تک 23 1
24 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۱) 24 1
25 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۲) 25 1
26 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۳) 26 1
27 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۴) 27 1
28 اکبر اوردینِ الہٰی 28 1
29 اللہ کی امانت (۱) 29 1
30 اللہ کی امانت (۲) 30 1
31 شیخ النمر کی سزائے موت 31 1
32 سمندری شیر(1) 32 1
33 سمندری شیر(2) 33 1
34 سمندری شیر(3) 34 1
35 ایک دن بھاولپور میں 35 1
36 ایدھی صاحب 36 1
37 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے 37 1
38 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے (۲) 38 1
39 فضلائے مدارس کی کھپت ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۱) 39 1
40 مدارس کے فضلاء ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۲) 40 1
41 صحبتِ یا رآخر شد 41 1
42 صحبتِ یا رآخر شد(۲) 42 1
43 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج 43 1
44 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج(۲) 44 1
45 انصاف زندہ ہے 45 1
46 جرمنی اورعالم اسلام(۱) 46 1
47 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (1) 49 1
48 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (2) 50 1
49 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (3) 51 1
50 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (4) 52 1
51 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(1) 53 1
52 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(2) 54 1
53 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(3) 55 1
54 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(4) 56 1
55 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت 57 1
56 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت (۲) 58 1
57 ایک قابلِ توجہ مسئلہ 59 1
58 کس منہ سے(۱) 60 1
59 کس منہ سے(۲) 61 1
61 سفر وسیلۂ ظفر 62 1
62 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے 63 1
63 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے (۲) 64 1
64 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۱) 65 1
65 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۲) 66 1
66 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۳) 67 1
67 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۴) 68 1
68 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (1) 69 1
69 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۲) 70 1
70 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۳) 71 1
71 بانی ٔ رُہتاس 72 1
72 بانی ٔ رُہتاس (۲) 73 1
73 بانی ٔ رُہتاس (۳) 74 1
74 شہ سواری اورتیراندازی 75 1
75 شام کی صورتحال اورمستقبل کے خطرات 76 1
76 تبدیلی کی کوشش(۱) 77 1
77 تبدیلی کی کوشش(۲) 78 1
78 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۱) 79 1
79 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۲) 80 1
80 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۳) 81 1
81 تطہیر الجنان۔ایک لاجواب شاہکار 82 1
82 تہذیب حجاز ی کامزار(1) 83 1
83 تہذیب حجاز ی کامزار (2) 84 1
84 تہذیب حجاز ی کامزار (3) 85 1
85 تہذیب حجاز ی کامزار (4) 86 1
86 تہذیب حجاز ی کامزار (5) 87 1
87 تہذیب حجاز ی کامزار (6) 88 1
88 تہذیب حجاز ی کامزار (7) 89 1
89 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۱) 90 1
90 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۲) 91 1
91 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۳) 92 1
92 یوسف بن تاشفین(۱) 93 1
93 یوسف بن تاشفین(۲) 94 1
94 یوسف بن تاشفین(۳) 95 1
95 جرمنی اورعالم اسلام (۲) 47 1
96 جرمنی اورعالم اسلام (۳) 48 1
97 شیخ محمد بن عبدالوہاب ،آلِ سعود اورایرانی حکومت 96 1
98 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا 97 1
99 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا (۲) 98 1
100 خود احتسابی اور سروے کا طریقِ کار 99 1
101 اونچی اڑان 100 1
102 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین 101 1
103 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین (۲) 102 1
104 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۳) 14 1
Flag Counter