سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۳)
کمال اس کے بعد ٹرین کے ذریعے انقرہ پہنچاجہاں ارکانِ پارلیمان محاذسے مسلسل پسپائی پرسخت برافروختہ تھے۔ کمال نے پارلیمان کااجلاس طلب کرکے اعلان کیاکہ ارکان کویقین دلایا کہ ترک فوج اب تک توانااورمضبوط ہے۔ترک فوج دریائے سقاریا کے کنارے مورچے بنائے ہوئے تھی کہ مئی 1921ء میں یونانی آگے بڑھتے ہوئے دریاکے مغربی کنارے پرپہنچے ،جب ان کی جانب سے حملہ شروع ہواتوترک شروع میں دلیری سے لڑے مگر آخرکاروہ یہاں بھی قدم نہ جماسکے اور اندھادھند فرار ہونے لگے۔ صرف فدائی سپاہیوں نے ثابت قدمی دکھائی اورخنجروں سے لڑتے لڑتے کٹ گئے۔ باقی اس ابتری کی حالت میں فرارہوئے کہ 70ہزارمیں سے صرف 30ہزارانقرہ پہنچ سکے ۔شکست کے بعد انقرہ کے سقوط کاخطرہ پیداہوگیااوروزراء مشورے کرنے لگے کہ دارالحکومت کہیں اورمنتقل کردیاجائے۔ خوفزدہ شہریوںنے نقل مکانی شروع کردی۔
مگر اس دوران ایک ناقابلِ یقین بات ہوئی۔ وہ یہ کہ فاتح یونان نے میدان میں کسی شکست ،کسی مزاحمت اورکسی رکاوٹ کا سامنا کیے بغیر اچانک واپسی اختیار کرلی۔ یہ تھی یونان کی وہ شکست اور پسپائی جسے کمال پاشا کے مداح آج تک دلیری اوراولوالعزمی کی ناقابلِ فراموش داستان شمارکرتے ہیں۔مگر حقیقت بین نگاہوں سے یہ مخفی نہیں رہ سکتاکہ فتح مندیونان کی اس واپسی کی وجہ برطانیہ اوراس کے اتحادیوں کے دباؤ کے سواکچھ اورنہیں ہوسکتی ،کیونکہ یہ طاقتیں ہرگزنہیں چاہتی تھیں کہ ان کی مقصدبرآری کرنے والا مستقبل کا’’عظیم ترک لیڈر‘‘ ابتداء ہی میں سیاسی موت کا شکار ہوجائے۔
یونانیوں کاانقرہ کے قریب سے لوٹ جانا،درحقیقت پسپائی نہیں،واپسی تھی ،اسی لیے وہ پورے اطمینان سے سفرکرتے رہے ۔انہیں کسی تعاقب کااندیشہ نہ تھا۔ وہ راستے کے ہردیہات کو نذرآتش کرکے مسلمان مردوزن کاقتل عام کرتے رہے۔ کنوؤں اورپانی کے ذخائر کوتباہ کرکے مال و مویشی سمیٹ کرساتھ لے جاتے رہے۔اس طرح کسی تعاقب کے خدشے کے بغیر وہ 28فروری 1922ء کو واپس ’ازمیر ‘پہنچے۔اپنے اس مفتوحہ شہر کوانہوںنے خود خالی کردیا اور مغربی ساحل کی طرف روانہ ہوگئے۔
ان کے نکل جانے کے چھ ماہ بعدستمبر ۱۹۲۲ء کے آغازمیں ترک فوج ازمیر پہنچی اورایک گولہ داغے یاایک گولی چلائے بغیر شہر پر قابض ہوگئی،جہاں اب کوئی یونانی نہیں تھا۔اس کے صرف پانچ دن بعد استنبول پر قابض برطانوی افسران و اہلکاروںنے خلیفہ وحیدالدین کو گرفتارکر کے اسے ایک رسمی خلیفہ بنانے کی پیش کش کی مگراس نے ایک بے اختیار خلافت قبول کرنے سے انکارکردیا۔ جس پر اسے معزول کردیاگیا۔
معزول خلیفہ اوراس کے بیٹے کو ایک بحری جہازمیں بٹھاکر جزیرہ مالٹابھیجنے کے احکام سنادیے گئے۔خلیفہ کوتمام مال ودولت سے محروم کردیاگیا۔عالم اسلام کایہ آخر ی بااختیار خلیفہ اس حال میں استنبول سے نکلاکہ اس کے پاس ضروری سامان کا صرف ایک صندو ق تھا جسے ایک نوکر اٹھائے ہوئے تھا۔
17نومبر1922ء کووحید الدین کی جگہ اس کے چچاز اد بھائی عبدالمجید ثانی بن عبدالعزیز کو اس عہد وپیمان کے ساتھ مسندِ خلافت پر بٹھا دیا گیا کہ وہ صرف علامتی خلیفہ ہوگا۔
خلافت کے بے اختیارہونے کے صرف تین دن بعد20نومبر1922ء کواتحادیوںنے لوزان کانفرنس طلب کرلی۔ اس میں برطانیہ کے علاوہ ،فرانس، اٹلی ،امریکا،یونان اورجاپان کے نمائندے بھی شریک تھے۔ سلطنتِ عثمانیہ سے تعلق رکھنے والے دو غدار یہودی ماتھر سالم اورقرہ صو(فری میسن گرینڈ ماسٹر)بھی موجود تھے۔ اختیارات برطانیہ کے ہاتھ میں تھے۔باقی سب تماشائی اورحمایتی تھے۔ برطانوی وزیرِ خارجہ لارڈ کرزن نے ترکی کوخود مختار ملک کی حیثیت دینے اوراستنبول سے اتحادی افواج کے انخلاء کے لیے درجِ ذیل چار شرائط پیش کیں:
٭ترکی کااسلام سے تعلق قطع کر کے اسے سیکولر مملکت بنادیاجائے۔
٭خلافت ِ اسلامیہ کو بالکل ختم کردیاجائے۔
٭خلیفہ اورخلافت کے مددگاروں کوترکی سے نکال دیاجائے۔خلیفہ کامالی احتساب کرکے اس پرتاوان عائد کیاجائے۔
٭ترکی ،عثمانیوں کے دورکاشریعت ِ اسلامیہ پر مبنی دستور ختم کرکے ،ایک جدید شہری دستور وضع کرے۔
برطانوی وزیرِ خارجہ کی پیش کردہ یہ شرائط ،مغربی طاقتوں کے اس مشترکہ ایجنڈے کی تکمیل کے لیے تھیں جس کا مقصد ترکی کااسلامی تشخص ختم کرناتھا۔یہ محض کوئی وقتی ضدنہ تھی بلکہ صلیبی دنیا اس ہدف کو سامنے رکھ کر صدیوں سے عالم اسلام پر جنگیں مسلط کررہی تھی۔ نصرانی چاہے ، روس اور یونان کے آرتھوڈکس ہوں یا برطانیہ ،فرانس اورامریکا کے کیتھولک،ا ن کی اصل دشمنی اسلام سے تھی۔اپنے باہمی تنازعات کے باوجود وہ اسلام کومٹانے کے لیے ایک ذہن رکھتے تھے۔ جب تک خلافتِ اسلامیہ تواناتھی ،وہ اس مذموم خواہش کوپورانہیں کرسکتے تھے مگر اب وقت کی باگ ان کے ہاتھ میں تھی۔ لوزان جانے والاترک وفدکے قائد عصمت انونو نے یہ مطالبات قبو ل کرنے سے انکار کردیا مگرمصطفی کمال پرلے درجے کاسیکولر تھا اور اسلامی شعائر و احکام سے اسے کوئی مطلب نہ تھا۔ اسے پارلیمان کی مخالفت کابھی ڈرنہیں تھا کیونکہ وہ فوجی طاقت کے ذریعے ہر کسی کو دبانے کی طاقت رکھتاتھا۔اس نے ازخودفیصلہ کرتے ہوئیمعاہدہ ٔ لوزان کو قبول کرلیا۔
اس معاہدے کے مطابق ترکی کو زمین توواپس مل گئی جس پر آج کاترکی مشتمل ہے،مگر ترکی کی روح ختم ہوگئی اوراس کی اسلامی شناخت مٹ گئی۔ 3مارچ 1924 ء کو خلافت کے خاتمے کااعلان کرکے آخری خلیفہ عبدالمجید ثانی کوبھی ملک بدرکر دیا گیا۔ اسلامی قانون کومعطل کردیا۔یوں مغربی طاقتوں کی خواہش کے عین مطابق ،خلافتِ اسلامیہ کاخاتمہ ہوگیااورترکی اپنی اسلامی پہچان سے محروم ہوکر ایک سیکولر اور مغرب زدہ ملک بن گیا۔علامہ اقبال مرحوم نے کہا:
چاک کردی ترکِ ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی اپنوں کی دیکھ ،غیروں کی عیاری بھی دیکھ
ترکی میں اسلام کی طرف رجوع کاسفر ایک نئی آب وتاب سے جاری ہے ۔اس کے باوجود سقوطِ خلافت کی یادیں دل میں چبھتی ہیں ۔تاہم ماضی کے یہ حقائق عبرت ناک اورسبق آموز بھی ہیں۔ جب قائدین ہی دوست اوردشمن کوپہچاننے میں غلطیاں کرنے لگیں تو پھر قوم کی ناؤغرق ہوکررہتی ہے۔ خلیفہ وحیدالدین نے ایک جرنیل پر اندھااعتماد کرکے درحقیقت اتنی بڑی غلطی کی تھی کہ پھر اس کا مداوا کسی طرح ممکن نہ ہوا۔سیاسی غلطیاں کبھی بانجھ نہیں ہوتیں ۔وہ کتنے ہی خلوص اورنیک نیتی سے سرزد ہوئی ہوں ،ان کاخمیازہ نسل درنسل بھگتنا پڑتاہے۔