Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ 2016

2 - 102
فنا فی القرآن 
بارہ ربیع الاول کی شب ،وہ ہستی دنیا سے چلی گئی جس کی انگلی پکڑ ہم دین کی گلی میں داخل ہوئے تھے، جس سے ہم نے قرآن مجید سیکھااورجس کی دعائیں ہم جیسوں کے لیے بہت بڑا سہارا تھیں۔ حضرت قاری محمد یاسین پانی پتی، جنہیں قلم آج ’’ رحمہ اللہ‘‘ اور’’ قدس اللہ سرہ‘‘ لکھنے پر مجبورہے، بے شمار علماء ، قراء ،حفاظ ،اورعلم دین سے وابستہ افرادکو سوگوار چھوڑ کراپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے۔ 
حضرت قاری صاحب ہمارے استاد، ہمارے مربی ، ہمارے محسن اورہمارے مخدوم و محبوب تھے۔ حدیث پاک کے مطابق بہترین انسان وہ ہے کہ جو قرآن پڑھے اورپڑھائے ۔ رشک کیوں نہ آئے اس شخصیت پر جس کی خدماتِ قرآنیہ کا دائرہ لگ بھگ سات دہائیوں پر محیط ہو۔ حضرت قاری صاحب کی ولادت 1935 ء میں پانی پت میں ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد شکار پور تشریف لائے۔ شیخ القراء حضرت قاری فتح محمد صاحب پانی پتی صاحب رحمہ اللہ سے قرآن مجید حفظ کیا اور پھر مجدد قرآت حضرت قاری رحیم بخش صاحب رحمہ اللہ کے پاس ملتان میں گردان کی۔
1950ء کی دھائی میں جب دارالعلوم کراچی ،نانکواڑہ کی محدود عمارت میں تھا، حضرت قاری صاحب نے اپنے اساتذہ کے حکم پر قرآن مجید کی مسند سنبھالی ۔ اس وقت نانکواڑہ کی عمارت میں جہاں حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب نوراللہ مرقدہ اپنی علمی، فقہی وانتظامی شان کے ساتھ رونق افروز ہواکرتے تھے ، وہاںاس عمارت کے درودیوار شیخ القراء حضرت قاری فتح محمد صاحب پانی پتی رحمہ اللہ تعالیٰ کی آہِ سحرخیزی اورقیام اللیل میں تلاوت ِ قرآن سے گونجاکرتے تھے۔ ایسی ہستیوں کی سرپرستی میں حضرت قاری محمد یاسین صاحب رحمہ اللہ نے قرآن مجید کی خدمت کاآغاز کیا۔ اس وقت ان کی عمر 20، 22 سال تھی۔ وہ جس درسگاہ اورجس عمارت میں بیٹھے ،اسی کے ہورہے۔اپنی وفات تک نانکواڑ ہ میں قرآن مجیدکی مسند کو آباد رکھا ۔اس میدان میں وہ محنت ،مجاہدے،اخلاص اور پابندی وقت کے ساتھ مہارتِ فن اورحسنِ انتظام کی اعلیٰ مثال قائم کرگئے۔
راقم حضرت قاری صاحب کے دامن سے اس وقت وابستہ ہوا،جب ان کی تدریسی مہارت کاڈنکا چہارسو بج رہاتھا۔ ہرطرف سے طلبہ کھنچے چلے آرہے تھے۔ راقم نے 1986ء میں نانکواڑہ میں داخلہ لینے کے بعدتیس سال حضرت قاری صاحب کی ان خوبیوں کامشاہدہ کیا،جو ایک استاد، ایک سرپرست اورایک رہبر کی حیثیت سے ان میں کوٹ کوٹ کر ودیعت کی گئی تھیں۔ ان کی ہستی میں جلال بھی تھااورجمال بھی ۔ رعب وہیبت کاپیکربھی تھے اورشفقتِ مجسم بھی۔ وہ اپنے شاگردوں کے لیے معلم ہی نہیں ،والد بھی تھے۔شاگردوں کو اولاد کی طرح سمجھتے تھے۔ 
حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ بہت ہی خوبصورت، باوقار ،پاکیزہ، جامہ زیب اوروضع دارانسان تھے۔ ان کا حسن وجمال لفظوں میں بیان کرنا میرے لیے مشکل ہے۔ان گنہگارآنکھوں نے دنیا میں ہزاروں لاکھوں چہرے دیکھے مگر حضرت قاری صاحب کی بات الگ تھی۔میں اپنا مشاہدہ بیان کررہا ہوں جس میں کوئی مبالغہ نہیں۔ قدوقامت نہایت متناسب ۔ نہ پستہ نہ زیادہ طویل۔آنکھیں بڑی بڑی ، پتلیاں سیاہ اور چمک دار۔ سفید ی نہایت سفید۔ جس میں کبھی کبھی سرخ ڈورے بھی نمایاں ہوجاتے تھے۔ اندازِ نظرایسا رعب دار کہ غضب سے یکھ لیں تو جان نکل جائے ۔ اوراگرپیارسے دیکھیں توجان ہی دے دی جائے۔ناک اونچی اورکسی قدر بڑی جو وقار میں اوراضافہ کردیتی تھی۔رنگت گوری اورنکھری ہوئی۔ اس پر ایک ایسی چمک اورنورانیت جو اس مادی دنیا کی ہرگزنہیں تھی۔ بالوں کارنگ گہرا سیاہ۔ساٹھ سال کی عمر کے بعد میں ڈاڑھی بیشتر سفید ہوگئی مگر وفات کے وقت تک سر کے زیادہ تر بال سیاہ تھے۔شانے چوڑے ۔سینہ فراخ۔ہاتھ پاؤں کی ہڈیا ں اورجوڑ مضبوط۔بدن قوی اور سڈول۔ ہاں آخری عمر میںامراض اورآپریشنوں کے تسلسل  نے کچھ نحیف کردیاتھا۔ مگر اس کے باوجود عموماً چہرے پر ایسی شادابی ہوتی کہ جیسے بالکل صحت مند ہوں۔  
حضرت قاری صاحب قرآ ن مجید میں فنا تھے۔ اللہ نے بہت خوبصور ت آواز دی تھی ۔ قرآن مجید ایسی خوش الحانی ااوردل سوزی سے پڑھتے کہ پانی پتی لہجے کے مشہورمعروف ہونے کے باوجود،خاص قاری صاحب کی طرح پڑھنا کسی کے لیے ممکن نہ ہوسکا۔تجوید کی باریکیوں کووہ عملی طورپرپوری گہرائی سے جانتے تھے ۔ ایسے لوگ بھی ان کے پاس آتے جنہیں تجوید کی متعدد کتب ازبرہوتی تھیں۔ قاری صاحب کے سامنے وہ طفلِ مکتب ثابت ہوتے۔ قاری صاحب ازسرنوان کے مخارج اورصفات درست کراتے۔ جن قواعدکو وہ صرف درسا ً جانتے تھے قاری صاحب انہیں عمل کاحصہ بنادیتے۔ 
  ایک چیز جس کا میں ہمیشہ مشاہدہ کرتارہا ،یہ تھی کہ حفظ کے ناکام طالب علم جو ہر جگہ سے تھک ہارچکے ہوتے تھے، حضرت قاری صاحب ان کی آخری امید ہوتے تھے۔ جو کہیں نہیں چل پاتاتھا، حضرت قاری صاحب کے پاس آکر اس پر رحمت کے دروازے کھل جاتے تھے۔ ہاں شرط یہ تھی کہ وہ استاد کی محبت وعظمت کے ساتھ زانوے تلمذ تہہ کرے۔ حضرت کے ہاں کندذہنی تو قابلِ معافی تھی بلکہ ایسے گرے ہوئے طلبہ کووہ ہمت دلاکر کھڑاکردینے کے ماہر تھے۔ مگر ان کے ہاں مغرور اوربے ادب طالب علم کی کوئی گنجائش نہ تھی ۔حقیقت میں حضرت قاری صاحب کاپڑھانا ،محض ضابطے کاپڑھانانہیں تھا ۔ وہ خود ایک صاحبِ نسبت بزرگ تھے۔جن کی تربیت حضرت قاری فتح محمدصاحب پانی پتی اور حضرت قاری رحیم بخش صاحب رحمہمااللہ جیسی عظیم ہستیوں نے کی ۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا مہاجرمدنی رحمہ اللہ سے طویل عرصے تک بیعت کاتعلق رہا۔ حضرت شہیدِ اسلام مولانا محمدیوسف لدھیانوی رحمہ اللہ نے انہیں مجازِ بیعت بھی فرمایا۔ ان کے ہاں قرآن مجید پڑھانا صرف قال کے ساتھ نہیں حال کے ساتھ تھا۔اسی لیے حضرت قاری صاحب جب مسندِ درس پر ہوتے توقرآنی جلال کاعکس دکھائی دیتے۔اس وقت کسی کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ ان سے نگاہیں چار کرسکے۔ مگر اس مسند سے ہٹ کرعام زندگی میں وہ اپنی تمام خوبیوں اوررعنائیوں کے باوجود ایک عام انسان کی طرح رہتے تھے۔ایک بار راقم نے بیعت کی درخواست کی۔حضرت قاری صاحب نے بے ساختہ فرمایا:’’مجھ میں اہلیت نہیں۔‘‘ ہر شخص جانتاہے کہ قاری صاحب زبان ودل کے ایک تھے۔ نہایت کھرے آدمی تھے۔ تصنع وتکلف اور بناوٹ سے انہیں کوئی واسطہ نہ تھا۔اس لیے ان کے اس جملے میں بھی کوئی تصنع نہ تھا۔ راقم کی شدید تمنا کے باوجود قاری صاحب نے بیعت نہ فرمایا۔حالانکہ قاری صاحب رحمہ اللہ کا مقام وہ تھاکہ بڑے بڑے اہل اللہ ان کی ولایت کے قائل تھے ،مگرقاری صاحب اتنے بڑے بزرگ ہوکر بھی خود کو عام مسلمان تصور کرتے تھے۔
اگرچہ قاری صاحب ، وعظ و تقریرکے عادی نہیں تھے، مگر ان کی گفتگو بڑی عارفانہ ہوا کرتی تھی۔ انہوں نے بہت سی فقیدالمثال ہستیوں کی صحبت پائی تھی ۔ ان کے واقعات بڑے پیارے اندا زمیں سنایا کرتے تھے۔ اپنے اساتذہ کرام کے علاوہ ، حضرت مفتی محمد شفیع صاحب بانی دارالعلوم کراچی اور حضرت مولاناسید محمدیوسف بنوری کی یادیں ان کااثاثہ تھیں۔حضرت مفتی رشیداحمد لدھیانوی سے بھی عقیدت ومحبت کاایک انوکھا تعلق تھا۔ وہ استاذ الاساتذہ حضرت قاری رحیم بخش صاحب رحمہ اللہ کے داماد بھی تھے۔ ان کے پس ماندگان میں حضرت استانی صاحبہ ،چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ سبھی ماشاء اللہ حافظ ،قاری اورعالم ہیں۔ استانی صاحبہ دامت ظلہا بھی  چھ عشروں سے گھر میں بچیوں کو قرآن مجید پڑھاتی آرہی رہیں۔ ان بچیوں کی تعدادشمار نہیں کی جاسکتی جو اس مدت میں ان کے ہاں سے حافظات اورقاریات بن کر نکلیں۔
جمعہ 25دسمبر کو بعد نمازِ جمعہ دارالعلوم کراچی میں صدرِ دارالعلوم کراچی ،مفتی اعظم پاکستان ،حضرت مولانامفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی اقتداء میں حضرت قاری صاحب کی نمازِ جنازہ  اداکی گئی ۔ حضرت صدرِ دارالعلوم نے اس موقع پر مرحوم کی خدما ت کوخراج تحسین پیش کیااور ان کی وفات پر گہر ے رنج وغم کااظہار کرتے ہوئے فرمایا:’’حضرت قاری صاحب کے جانے کے بعد سمجھ نہیں آتاکہ ان کاخلا ء کس طرح پر ہوگا۔‘‘
نیز فرمایا:’’ اللہ نے حضرت قاری صاحب مرحوم کو بہت ہی نیک سیرت اولاد سے نوازاہے۔ بیٹے بییٹیاں سب ہی قرآن مجید کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔‘‘
ہم تلامذہ کے لیے حضرت قاری صاحب سچ مچ ایک مینارۂ نور تھے۔ ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھے۔ ان کے جانے کے بعد ان کی ایک ایک ادایاد آکر تڑپارہی ہے۔اللہ تعالیٰ  ان سے اس کرم وعطا کے مطابق اعلیٰ سے اعلیٰ معاملہ فرمائے جس کااس نے اپنے کلام کے خدام کے لیے وعدہ فرمایاہے۔ان کے پس ماندگان کوصبرِ جمیل اوراجرکریم سے نوازے۔اورخانوادۂ رحیمی کے فیض کومزید عام وتام فرمائے ۔آمین ثم آمین
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 استاذ القراء کاسفرِ آخرت 1 1
3 فنا فی القرآن 2 1
4 مثالی استاذ 3 1
5 استاذ گرامی کی کچھ یادیں 4 1
6 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۱) 5 1
7 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۲) 6 1
8 پاک بھارت جنگ کے امکانات …اورمعرکۂ پانی پت 7 1
9 رمضان اورقرآن 8 1
10 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۱) 9 1
11 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۲) 10 1
12 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۳) 11 1
13 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار [1] 12 1
14 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۲) 13 1
15 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق 15 1
16 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۲) 16 1
17 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۳) 17 1
18 سیرتِ نبویہ کے جلسے اورواعظین کے لیے لمحۂ فکریہ 18 1
19 ترک عوام جنہوںنے تاریخ بدل دی 19 1
20 اسلام میں جہاد کاتصور…اسلامی نظریاتی کانفرنس کااجلاس 20 1
21 نعمتوں کی ناقدری 21 1
22 یوم پاکستان اوردینی مدارس 22 1
23 دسمبر سے دسمبر تک 23 1
24 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۱) 24 1
25 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۲) 25 1
26 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۳) 26 1
27 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۴) 27 1
28 اکبر اوردینِ الہٰی 28 1
29 اللہ کی امانت (۱) 29 1
30 اللہ کی امانت (۲) 30 1
31 شیخ النمر کی سزائے موت 31 1
32 سمندری شیر(1) 32 1
33 سمندری شیر(2) 33 1
34 سمندری شیر(3) 34 1
35 ایک دن بھاولپور میں 35 1
36 ایدھی صاحب 36 1
37 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے 37 1
38 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے (۲) 38 1
39 فضلائے مدارس کی کھپت ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۱) 39 1
40 مدارس کے فضلاء ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۲) 40 1
41 صحبتِ یا رآخر شد 41 1
42 صحبتِ یا رآخر شد(۲) 42 1
43 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج 43 1
44 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج(۲) 44 1
45 انصاف زندہ ہے 45 1
46 جرمنی اورعالم اسلام(۱) 46 1
47 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (1) 49 1
48 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (2) 50 1
49 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (3) 51 1
50 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (4) 52 1
51 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(1) 53 1
52 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(2) 54 1
53 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(3) 55 1
54 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(4) 56 1
55 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت 57 1
56 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت (۲) 58 1
57 ایک قابلِ توجہ مسئلہ 59 1
58 کس منہ سے(۱) 60 1
59 کس منہ سے(۲) 61 1
61 سفر وسیلۂ ظفر 62 1
62 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے 63 1
63 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے (۲) 64 1
64 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۱) 65 1
65 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۲) 66 1
66 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۳) 67 1
67 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۴) 68 1
68 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (1) 69 1
69 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۲) 70 1
70 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۳) 71 1
71 بانی ٔ رُہتاس 72 1
72 بانی ٔ رُہتاس (۲) 73 1
73 بانی ٔ رُہتاس (۳) 74 1
74 شہ سواری اورتیراندازی 75 1
75 شام کی صورتحال اورمستقبل کے خطرات 76 1
76 تبدیلی کی کوشش(۱) 77 1
77 تبدیلی کی کوشش(۲) 78 1
78 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۱) 79 1
79 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۲) 80 1
80 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۳) 81 1
81 تطہیر الجنان۔ایک لاجواب شاہکار 82 1
82 تہذیب حجاز ی کامزار(1) 83 1
83 تہذیب حجاز ی کامزار (2) 84 1
84 تہذیب حجاز ی کامزار (3) 85 1
85 تہذیب حجاز ی کامزار (4) 86 1
86 تہذیب حجاز ی کامزار (5) 87 1
87 تہذیب حجاز ی کامزار (6) 88 1
88 تہذیب حجاز ی کامزار (7) 89 1
89 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۱) 90 1
90 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۲) 91 1
91 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۳) 92 1
92 یوسف بن تاشفین(۱) 93 1
93 یوسف بن تاشفین(۲) 94 1
94 یوسف بن تاشفین(۳) 95 1
95 جرمنی اورعالم اسلام (۲) 47 1
96 جرمنی اورعالم اسلام (۳) 48 1
97 شیخ محمد بن عبدالوہاب ،آلِ سعود اورایرانی حکومت 96 1
98 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا 97 1
99 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا (۲) 98 1
100 خود احتسابی اور سروے کا طریقِ کار 99 1
101 اونچی اڑان 100 1
102 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین 101 1
103 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین (۲) 102 1
104 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۳) 14 1
Flag Counter