استاذ گرامی کی کچھ یادیں
1952ء میں حضرت مفتی محمدشفیع صاحب قدس سرہ نے نانکواڑہ میں دارالعلوم کی بنیاد رکھی تھی ۔ اس کے کچھ عرصے بعد(غالباً1953ء میں) حضرت مفتی صاحب نے دارالعلوم میں ایک جلسہ منعقد کیا جس میں پورے پاکستان سے نامورقراء کومدعوکیاگیا۔ مقصدیہ تھاکہ ان میں سے بہترین قاری کو دارالعلوم کے شعبۂ حفظ کے لیے منتخب کیاجائے۔شکارپور سے حضرت بڑے قاری صاحب کوبھی بلایا گیا۔ حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ نے انہی کوپسند کرلیااوروہ شکارپور سے یہاں دارالعلوم کراچی نانکواڑہ میں منتقل ہوگئے۔ا ن کے لیے یہاں رہائش گاہ بھی تعمیر کرادی گئی۔
ہمارے استاذگرامی حضرت قاری محمد یاسین صاحب شیخ القراء کیبھیشاگرد تھے اوران کے جانشین حضرت قاری رحیم بخش صاحب رحمہ اللہ کے بھی۔ استاذثانی نے ،اپنے استاذکی سہولت کالحاظ کرتے ہوئے حضر ت قاری یاسین صاحب رحمہ اللہ کوحکم دیا کہ وہ نانکواڑ ہ جاکر بڑ ے قاری صاحب کاہاتھ بٹائیں۔اس حکم پر ہمارے استاذگرامی بھی نانکواڑہ تشریف لے آئے اورحضرت بڑے قاری صاحب رحمہ اللہ کے معاون کے طورپر مسندِ درس سنبھال لی۔
بڑے قاری صاحب کی رہائش گاہ دومنزلہ تھی ۔نیچے حضرت بڑے قاری صاحب رہتے تھے اوراوپر ہمارے استاذ گرامی کی دو کمروں پر مشتمل رہائش تھی۔غالباً 1972ء تک ہمارے استاذگرامی دارالعلوم کے احاطے ہی میں مع خاندان مقیم رہے ۔اس کے بعد برنس روڈ کے ایک فلیٹ میں منتقل ہوگئے۔کئی سال وہاں رہائش رہی ۔پھرغالباً1981ء کے آس پاس،ناظم آبا د میںا یف ایم اپارٹمنٹ میں ایک فلیٹ خرید ا،اورآخر تک یہی ان کامسکن رہا۔
دارالعلوم میں دوکمروں پر مشتمل رہائش گاہ بھی آخر تک حضرت قاری صاحب کے استعمال میں رہی۔ حضرت دارالعلوم تشریف لاکر دوپہر کووہیں آرام کرتے تھے ۔ مہمان وغیرہ بھی ملنے کے لیے وہیں آجاتے تھے۔ نچلی رہائش گاہ ، حضرت قاری فتح محمد صاحب کے استعمال میں رہی ۔ 70ء کی دھائی میں جب بڑے قاری صاحب مدینہ منورہ منتقل ہوگئے توکچھ عرصے یہ گھر خالی رہا۔ اس کے بعد
اس میں حضرت قاری یاسین صاحب کے شاگرد اورہمارے استاد حضر ت قاری یعقوب صاحب اپنی وفات تک رہائش پذیر رہے۔
ناظم آباد منتقل ہونے کے بعدہمارے استاذ حضرت قاری صاحب ایک نیلے رنگ کی ہائی روف میں صبح دارالعلوم نانکواڑ ہ تشریف لاتے اورعموماًعشاء کے قریب یابعد واپس تشریف لے جاتے۔ 2000ء کی دھائی میں ایک سیاہ رنگ کی عمدہ کار حضرت قاری صاحب کے زیرِ استعمال رہی۔ حضرت قاری صاحب خود بہت اچھی ڈرائیونگ کرتے تھے ۔تاہم ضعف اکثر کوئی ڈرائیور ان کے ساتھ ہوتا۔ یہ خدمت مختلف اوقات میں مختلف افرادانجام دیتے رہے جن میں سے اکثر حضرت کے شاگرد تھے۔
دارالعلوم نانکواڑہ پوری طرح حضرت قاری صاحب کے زیرِ انتظام چل رہاتھا۔ غالباً1960ء اور 1970 کی دھائی میں ان کے معاصر قاری نواب علی صاحب بھی دارالعلوم میں ہواکرتے تھے۔ مگر ہمارے دارالعلوم میں داخلے سے بہت پہلے ان کی وفات ہوچکی تھی ۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے یہی دیکھا کہ دارالعلوم نانکواڑہ کے تمام مدرسین حضرت قاری صاحب کے تلامذہ تھے۔ ہاں ایک قاری فضل الحق ا س سے مستثنیٰ تھے ۔ چند سال پہلے ان کی وفات ہوگئی۔ اور یہ کلاس بھی حضرت قاری صاحب کے شاگردوں کی کلاسوں میں ضم ہوگئی۔
جب ہم دارالعلوم نانکواڑہ میں ، داخل ہوئے تو قاری فضل الحق کی کلاس کو چھوڑکرتین کلاسیں تھیں۔ ایک حضرت قاری صاحب کی۔ایک قاری ریاض صاحب کی ۔ایک قاری بشیر صاحب کی۔ یہ دونوں حضرت قاری صاحب کے ان شاگردوں میں سے تھے جو 1970ء کی دھائی میں فارغ ہوئے۔ ان کے علاوہ حضرت قاری صاحب کی اپنی کلاس بھی بہت بڑی تھی جس میں لگ بھگ سواسو طلبہ پڑھتے تھے۔کلاس میں حضرت کے نائب حضرت قاری یعقوب صاحب ان کے بائیں ہاتھ کی مسند پر مستقل بیٹھاکرتے تھے۔ ان کے علاوہ قاری محمدزکریا،قاری عبدالرحیم اورقاری محمد اسحق (یہ تینوں بھائی ہیں)بھی اس کلاس کو سنبھالتے تھے۔ بعد میں طلبہ کی کثرت کے باعث ،قاری محمد زکریا صاحب کی کلاس الگ کردی گئی۔
پچاس پچپن سال کی عمر تک حضرت قاری صاحب اتنے صحت مند تھے کہ لگتاتھاکبھی بیمار نہیں ہوں گے اور عمر بھر بالکل تند رست رہیں گے۔اس وقت تک ڈاڑھی کے اکثر بال کالے تھے۔مگر اللہ نے انہیں امراض کی آزمائش میں بھی ڈالا۔اایک بارہرنیاکا آپریشن ہواتھا ،یہ ہمارے دارالعلوم میں داخلے سے پہلے کی بات ہے یعنی غالباً 1983ء یا84ء کی۔ پھر 1988ء میں1.m.oہسپتال نزدمکی مسجدکراچی میں اپنڈکس کا آپریشن ہوا۔ مگر ان آپریشنز کے بعد قاری صاحب بظاہر پہلے کی طرح توانا تھے۔
اس کے بعد1994ء میں دل کاعارضہ لاحق ہوا۔تکلیف اتنی بڑھی کہ جان کی امید ختم ہونے لگی۔ پہلے آغاخان ہسپتال میں داخل رہے۔ پھرلند ن لے جائے گئے۔ آخر میں امریکا جا کر علاج ہوا۔الحمد للہ زندگی بچ گئی ۔پاکستان واپس آئے اورکچھ مدت تک آرام کے بعد دوبارہ دارالعلوم جانے لگے۔ تاہم اب ضعف ونقاہت کے آثار محسوس ہوتے تھے۔اس کے باوجود اپنی خدمات میں کوئی فرق نہیں آنے دیا۔
حضر ت قاری صاحب زندگی کے آخری اکیس سالوں میںمتعددبیماریوں اورامراض کامقابلہ کرتے ہوئے، بے پناہ ایمانی ہمت اورروحانی طاقت کے ساتھ تدریس میں منہمک رہے۔
کمر کادرد لاحق رہا۔ ایک آپریشن اس کابھی ہوا۔گھٹنوں اورٹانگوں میں شدیددردرہتاتھا۔ نسیں ابھری ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔ایف ایم اپارٹمنٹ میں سیکنڈفلور پر گھر تھا۔چونکہ وہاں لفٹ کاکوئی انتظام نہیں،اس لیے روزانہ سیڑھیاں اترناچڑھنا ،سخت مجاہدہ تھا۔دونوں صاحبزادے مولانارشید احمد صاحب اورقاری ساجد صاحب ان کی خدمت کے لیے مستعد رہے ،وہ نیچے اتارتے ،گاڑی میں بٹھاتے اور دارالعلوم لے جاتے۔دارالعلوم میں بھی قاری صاحب کاکمرہ پہلی منزل پر تھا۔ کلاس سے کمرے تک آمدورفت کے لیے سیڑھیاں چڑھنا اترنا بھی مستقل ریاضت تھی ،حضرت قاری صاحب کبھی لاٹھی کے سہارے اورکبھی کسی شاگرد کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر آتے جاتے۔اپنی تکلیف کو دبانے اوربرداشت کرتے اورکبھی ظاہر نہ ہونے دیتے کہ کیا حالت ہے۔ ہمیشہ چہرے پر ایک تازگی اورچمک دکھائی دیتی۔ خندہ پیشانی سے ملتے اوریوں گفتگو فرماتے جیسے بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں۔
حضرت کے ما شاء اللہ چار صاحب زادے ہیں۔ بڑے صاحبزادے حضرت مولانا محمد زاہد صاحب نے خیرالمدارس میں اپنے ناناجان حضرت قاری رحیم بخش صاحب رحمہ اللہ سے حفظ وگردان کی تکمیل کی ،پھر جامعہ امدادیہ میں داخلہ لیااورجید عالم بنے۔ دوسر ے صاحبزادے قاری محمد عابد صاحب نے دارالعلوم نانکواڑہ میں حفظ کیااورخیرالمدارس میں اپنے ماموں حضرت قاری عبیداللہ صاحب رحمہ اللہ سے گردان کی۔ 2000ء میںمولانا زاہد صاحب امریکا منتقل ہوگئے۔ اس کے بعد دوسرے صاحبزادے قاری عابد صاحب بھی انہی کے پا س چلے گئے۔ دونوں حضرات بالٹی مور میںایک دینی درسگاہ چلا رہے ہیں جس میں حفظ وتجوید کی نہایت معیاری تعلیم دی جاتی ہے۔
منجھلے صاحبزادے مولانارشید احمد حافظ وقاری ہونے کے علاوہ رائے ونڈ کے فاضل ہیں ۔وہ بھی قرآن مجید کی خدمت میں منہمک ہیں۔ چھوٹے صاحبزادے قاری محمد ساجد ،کاروبارکررہے ہیں اورساتھ ساتھ دین کی خدمت بھی۔ ماشاء اللہ سبھی متقی ،پرہیزگار اوردین دارہیں۔
اللہ تعالیٰ اس گھرانے کے فیض کو مزید عام وتام فرمائے اورتمام مسلمانوں کوایسے اولیاء واتقیاء کی روشن زندگیوں سے سبق حاصل کرنے کی توفیق دے۔آمین