بانی ٔ رُہتاس (۲)
اس کی اصول پسندی کایہ حال تھاکہ ایک موقع پر جب اس کا باپ اسے اپنی جاگیر کامنتظم بنا کر رخصت کرنے لگاتو نوجوان فریدخان نے کہا:’’دنیا کے ہرکام کادارومدارانصاف پر ہے،خاص کر سرداری اورامارت اسی پر منحصر ہے۔اگرآپ مجھے جاگیر کی نگرانی کے لیے بھیج رہے ہیں تو میں انصاف سے نہیں ہٹوں گا۔ آپ کے اکثر نوکرآپ کے قریبی عزیز ہیں۔ان میں سے بھی جو کوئی بھی بے انصافی کرے گا ،میں اسے ضرورسزادوںگا۔‘‘
باپ یہ سن کر بہت خوش ہوااوراسے پورے اختیارات کے ساتھ جاگیر پر بھیج دیا۔
کئی سال بعدفریدخان بہارکے سلطان بہادرخان کاافسر بن گیا۔ایک دن سلطان شکارکھیل رہاتھاکہ ایک شیر اچانک سامنے آگیا۔ فریدخان،سلطان کوبچانے کے لیے تلوارسونت کرسامنے آگیا اور بڑی دلیر سے مقابلہ کرکے شیر کومارڈالا۔اس کارنامے پر اسے شیرخان کاخطاب ملا ۔لوگ فرید خان کوبھو ل گئے ۔شیرخان کو سب نے یادرکھا۔
انہی دنوں مغل شہزادے ظہیرالدین بابر نے لودھی خاندان کو شکست د ے کر ہندوستان میں مغل حکومت کی بنیاد رکھی۔ شیرخان بہار سے نکلااورنوخیز مغلیہ سلطنت سے وابستہ ہوگیا۔ جلدہی وہ بابر کے قریبی امراء میں شمار کیا جانے لگا۔مگرکچھ ہی دن گزرے تھے بابر کو شیرخان کی غیرمعمولی صلاحیتوں سے تشویش لاحق ہونے لگی ۔
ایک دن شیرشاہ ،بابر کے دسترخوان پرذرادور بیٹھاتھا۔اس کے سامنے ایک خاص طریقے سے پکی ہوئی مچھلی لاکر رکھی گئی ۔ شیرشاہ اس کے کھانے کے طریقے سے بالکل آگاہ نہ تھا۔اگر وہ نہ کھاتا تو یہ شاہی دسترخوان کے احترام کے خلاف تھا اور غلط طریقے سے کھانا،مضحکہ خیز شمار ہوتا ۔ شیرشاہ نے اپنی ذہانت سے کام لیا ،چاقوا ٹھاکر بڑے سلیقے سے اس کے قتلے بنائے اورکھانے لگا۔ بابر نے دونوں باتیں تاڑلیں ۔یہ بھی کہ شیرشاہ نے پہلی باریہ پکوان دیکھاہے ، اور یہ بھی کہ اس نے آناً فاناً یہ نفیس طریقہ ایجاد کرکے کھانے سے انصاف کیاہے۔
بابر نے اسی وقت اپنے ساتھ بیٹھے وزیر سے سرگوشی کرتے ہوئے کہا:’’شیرخان سے غافل مت ہونا، ہر وقت اس پر نگا ہ رکھنا۔ اس کے اندازواطوارمیں بادشاہت کی جھلک دکھائی دے رہی ہے۔میں نے افغانوں کے بڑے بڑے رئیس دیکھے ہیں مگرایسا وقار اورجلال کسی میں نہیں دیکھا۔ میں سوچ رہاہوں کہ اسے گرفتارکرلیا جائے۔‘‘
وزیر نے عرض کیا:’’حضورکو کچھ وہم ہوگیاہے۔ اس شیرخان کے پاس کوئی فوج ہے نہ دولت۔ اس بیچارے کوگرفتارکیاتولشکر میں شامل باقی افغان بددل ہوجائیں گے ،انہیں حضور کے وعدوں پر یقین نہیں رہے گا۔‘‘
یہ سن کر بابر خاموش ہوگیا۔ شیرخان اس دوران بادشاہ کی نگاہوں کو پڑھ چکاتھا۔گھر جاتے ہی اس نے اہلِ خانہ سے کہا :’’آج بادشاہ نے مجھے عجیب نگاہوں سے دیکھاہے اوروزیر کے کان میں میرے متعلق کچھ کہاہے۔میرایہاں رہنا ٹھیک نہیں ۔‘‘
یہ کہہ کراسی وقت وہ مغلوں کی راجدہانی چھوڑکر بہار روانہ ہوگیا۔
بابر نے اسی دن دوسرے وقت شیرخان کو مجلس میں نہ دیکھاتوا س کی تلاش میں آدمی دوڑائے مگر وہ ان کی پہنچ سے دورنکل چکاتھا۔ بابر سمجھ گیاکہ تقدیر کچھ اورلکھ چکی ہے ۔اس نے وزیر سے کہا:
’’اگرتم منع نہ کرتے تومیں اسے گرفتارکرچکاہوتا۔‘‘
پھراس کے منہ سے نکلا:’’ کچھ نہ کچھ ہونے والاہے۔‘‘
شیرخان کوبہار پہنچ کرایک بارپھر دربار میں اچھاعہد ہ مل گیا۔حاکم بہار سلطان محمود کے انتقال کے بعد وہ بنگال اور بہار کے پٹھانوں کے رہنما کے طورپر ابھر کر سامنے آیا۔ کچھ عرصے بعد اسے چنار گڑھ کا قلعہ بھی مل گیاجواتنا مستحکم تھاکہ لودھی خاندان کے شاہی خزانے وہیں محفوظ کیے جاتے تھے۔ یہ قلعہ بھی دلچسپ طریقے سے ملا ۔یہاںکاقلعہ دار تاج خان گھریلوتنازعے کے باعث اپنے بیٹے کے ہاتھوں قتل ہوگیا۔شیرخان نے اس کی بیوہ لاڈ بیگم سے نکاح کرلیاجس کا قلعے پر پورا حکم چلتا تھا۔ نکاح کے بعد بیوی نے نہ صرف شیرخان کویہ قلعہ بخش دیابلکہ لودھیوں کے محفوظ خزانوں میں سے سات من موتی اور ایک سوپچاس من سونا بھی دے دیا۔اس دولت وثروت نے شیرخان کو نئی افواج مرتب کرنے میں بڑی مدد دی۔اس نے بہت جلد بہارپر اوربنگال کے خاصے حصے کوزیرِ نگیں کرلیا۔
اس کازورتوڑنے کے لیے بابر کے جانشین ہمایوں کوفوج کشی کرنا پڑی مگر یہاں بھی شیرخان کوفتح نصیب ہوئی اورآخر کاراس کش مکش کے نتیجے میں ہمایوں ملک بدرہوااورشیرخان ،شیرشاہ کالقب اختیارکرکے بنگال ،بہار،جونپور،دہلی اورآگرہ پر مشتمل سلطنت کا حکمران بن گیا۔
ہمایوں کے تعاقب کے علاوہ شیرشاہ اپنی عمل داری کومحفوظ ومستحکم بنانے کے لیے ،مزید فتوحات کی ضرورت محسو س کر رہا تھا ۔چنانچہ کچھ مدت بعد وہ پنجاب روانہ ہوگیا۔مغل شہزادے اس کی آمد کی خبر سن کر لاہور سے سندھ کی طرف نکل گئے۔ شیرشاہ ان کے تعاقب میں خوشاب تک آیا۔اسی مہم کے دوران اس نے دریائے جہلم کے پار گکھڑوں کی سرکشی کا سدباب کرنے کے لیے یہ عظیم الشان قلعہ بنوایا ۔اس قلعے کانام ،بہار کے سرحدی قلعے کے نام پر ’رُہتاس ‘ رکھاگیا۔
شیرشاہ دوبرس تک کبھی آگرہ اورکبھی دہلی میں قیام پذیررہا ۔اس کے بعد اس نے بہاراوربنگال کادورہ کیا،جہاں اسے شدید بخارنے آلیا۔اسے بڑھاپے میں بادشاہت ملی تھی ۔ بخارکی نقاہت نے مزید ضعیف کردیا۔ وہیں اسے کسی نے بتایاکہ کہ راجپوتانہ کے راجاپورن مل نے سادات خاندان کی کچھ لڑکیاںاغواء کرکے اپنی خواب گاہ کی زینت بنا رکھی ہیں۔ اس خبر سے شیرشاہ کابراحال ہوگیا۔ سخت بیماری میں بھی سوتے جاگتے اسے یہی فکر لگی رہتی تھی۔ایک دن اس کے دوست ہمایوں نیازی نے دیکھاکہ شیرشاہ چارپائی پر سو تے سوتے یکدم اٹھ گیااور ایک ٹھنڈی آہ بھرکربولا :’’افسوس‘‘
نیازی نے کہا:’’پہلے تم فرید تھے ،اب اللہ نے تمہیں بادشاہ کردیاہے۔پھرکس بات کاافسوس!‘‘
شیرشاہ نے کہا:’’اس بات کاکہ سادات کی بیٹیوں کوراجپوتوںنے باندیاں بنارکھاہے۔‘‘
بنگال اوربہار کے اس دورے میں و ہ باربار کہتاتھا:’’بہت غلطی کی کہ میں اس طرف آیا۔اللہ تعالیٰ مجھے اپنے فضل سے شفادے تومیں چندیر ی جاکر راجہ پورن مل کومزاچکھاؤں،جس نے خاندانی مسلمانوں کو باندیاں بنایا ۔میں ان لوگوں کوایسی سزائیں دوں گاکہ کسی ہندوکوپھرکبھی مسلمانوں پر ایسی زیادتی کی ہمت نہیں ہوگی۔‘‘
جونہی شیرشاہ کی طبیعت ذراسنبھلی ،وہ بہار سے آگرہ پہنچااورلشکرتیارکرکے۹۵۰ھ میںراجپوتانہ پر یلغار کردی۔ راجہ پورن مَل نے گھبراکرصلح جوئی کی کوشش شروع کی ۔شیرشاہ نے کہا:’’تم نے جن مسلمان عورتوں اوربچوں کو قید کررکھاہے ،انہیں ہمارے حوالے کردو۔میں تمہیں بنارس کی حکومت دے دوں گا۔‘‘