Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ 2016

88 - 102
تہذیب حجاز ی کامزار (6)
کچھ مسلمان اب بھی صقلیہ کے دفاع کے لیے آخر دم تک لڑناچاہتے تھے۔ ایک دلیر امیر ابن بعباع اس تحریک کا رہنما تھا۔ مسلمان اس کی قیادت میں جگہ جگہ نارمنوں سے برسرِ پیکاررہے اورکئی معرکوں میںانہوںنے اپنی روایتی شجاعت کا سکہ جمادیا۔ مصر کی دولتِ بنوعبید نے ابن بعباع کوکامیابی کی طرف گامزن دیکھتے ہوئے اسے حکم نامہ بھیجاکہ اس سے قبل سسلی کے فرمانروا،دربارِ بنوعبید میں خراج بھیجاکرتے تھے۔اسے قانونی حکمران تبھی ماناجائے گاجب وہ بھی اسی طرح خراج بھیجے۔ ابن بعباع ایک آزاد رہنماتھا ،اس نے بنوعبید کاپیغام ٹھکرادیا۔کاش کہ وہ اس وقت مصـلحت بینی سے کام لیتااورنارمنوں کوشکست دینے تک بنوعبید سے کھلی لڑائی مول نہ لیتا۔ 
ابن بعباع کے انکارکے ردعمل میںبنوعبید نے صقلیہ کے اس آخر ی محافظ کے خلاف محاذ بنالیا۔ انہوں نے نارمن سرداروں سے اتحاد کرتے ہوئے انہیں پیغام بھیجاکہ جس طرح بھی ہوسکے ابن بعباع کوصقلیہ سے بے دخل کردو۔ہماری طرف سے پوراصقلیہ تمہارے نام کیاجاتاہے۔(بنوعبید کے اس سیاہ کارنامے پر جتنابھی افسوس کیاجائے کم ہے۔)
اس پیغام پر نصرانی حملہ آوروں کویقین ہوگیاکہ صقلیہ کے مسلمانوں کااب کوئی بیرونی مددگار نہیں رہا۔ وہ یورپ کے طول وعرض سے جمع ہوکر،اس سرزمین میں گھس گئے ۔یکے بعددیگرے متعدد شہر فتح کرتے ہوئے انہوںنے دارالحکومت ’بلرم‘ کا محاصرہ کرلیا۔ ابن بعباع نہایت دلیری سے شہر کادفاع کرتارہا۔پانچ ماہ کی محصورانہ جنگ میں مسلمانوں نے حملہ آوروں کواتنے سخت نقصانات پہنچائے کہ وہ فتح کو خواب وخیال سمجھ کر واپسی کی تیاری کرنے لگے۔
 مگراتنے میں مقامی نصرانیوںنے غداری کرکے حملہ آوروں کو فصیل کے کمزور حصوں کا پتا بتا دیا۔ اس کے بعد نارمنوں نے پوری قوت اس رُخ پر جھونک دی اور قریب تھا کہ شہر بزورِ شمشیر سر کر لیا جاتا، مسلمانوںنے صلح کی شرائط پیش کرکے مذاکرات شروع کردیے۔ شرائط یہ تھیں:
٭مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی دی جائے گی۔
٭بلرم کی تمام مساجد باقی رکھی جائیں گی۔
٭مسلمانوں کے لیے اسلامی قوانین نافذ رہیں گے۔
٭مسلمانوں کے مقدمات کافیصلہ مسلمان قاضی کرے گا۔
نارمنوں نے تمام شرائط منظور کرلیں جس کے بعد بلرم کے دروازے فاتحین کے لیے کھول دیے گئے۔بلرم کے بعد مازراور طرابنش بھی اسی قسم کی شرائط پر دشمن کے حوالے کردیے گئے۔
قزاق پیشہ راجر،نصرانی صقلیہ کاپہلاحکمران بنا۔ اس نے چار سال حکومت کی۔مسلمانوں کا جذبۂ مقاومت ابھی تک ختم نہیں ہواتھااورمضبوط فصیلوں والے بعض شہراب تک ان کے پاس تھے۔ راجران کی تسخیر میں مشغول رہا۔اس نے شمالی صقلیہ کے دو ناقابلِ تسخیر اسلامی شہروں کوطبرمین اورسرقوسہ کووہاں کے مسلمانوں کی بے مثال مزاحمت کے باوجود فتح کرلیا۔481ھ میں جرجنت اور484ھ میں قصریانہ بھی سخت ترین لڑائیوں کے بعد سرکرلیے گئے۔ اس طرح پورے صقلیہ پر عیسائی قابض ہوگئے اوروہاں کے مسلمان نارمنوں کی رعایابن گئے۔
نارمن حکمران راجرنے صقلیہ پر قبضے کے کچھ عرصے بعد نہ صرف مسلمانوں کے حقوق بری طرح پامال کرناشروع کردیے۔ جنوبی شہروں بلرم ،نوطس اورجرجنت میں مسلمانوں کواپنے مذہب پر چلنے کی آزادی تھی مگر شمالی شہروں قصریانہ ،مسینااورسرقوسہ وغیرہ میں ان کی زندگی دوبھر کردی گئی تھی۔ ایک ایسی پالیسی اپنائی جارہی تھی کہ مسلمان رفتہ رفتہ اپنا وجود کھوبیٹھیں۔ راجر نے اس سلسلے میں درج ذیل اقدامات کیے تھے۔
٭ناروے سے اورجنوبی اٹلی سے نارمنوں اوردوسری نسل کے نصرانیوں کو بڑی تعداد میں یہاں لاکر بسایا گیا تاکہ یہ نصرانی اکثریتی علاقہ بن جائے۔
 ٭اسلام کی اشاعت پر پابندی لگادی گئی۔
٭صنعت وحرفت ،تجارت اورزمین داری کے دروازے مسلمانوں پر بند کردیے گئے۔
٭مسلم زمین داروں سے تمام اراضی غصب کرلی گئی ۔مسلمانوں کو صرف مزدور اورکاشت کاربنادیاگیا۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوںنے صقلیہ کو جو فقط ایک زرخیز زمین تھی ،اڑھائی صدیوں میں اپنے خون پسینے سے سینچ کر گل وگلزاربنایاتھا۔ یہاں کی زرعی ،معاشی ،صنعتی اورتجارتی ترقی ان کی ہنرمندی اورتجربے کے مرہونِ منت تھی ۔ غیرجانب دار مغربی مؤرخین تسلیم کرتے ہیں کہ صقلیہ میں روشن ہونے والی تہذیب ِ نو کی جو شمع مسلمانوں نے روشن کی تھی ،اس سے یورپ میں علوم وفنون کی بند راہوں کوکھولا۔مسلمانوں کی پامالی کے بعد صقلیہ کی ترقی بھی زوال پذیر ہوگئی۔
496ھ میں راجر کابھائی راجر دوئم حکمران بنا۔ اس نے بہت جلد محسوس کرلیاکہ مسلمانوں کے خاتمے کی پالیسی درحقیقت ملک کو مفلس بنانے کے مترادف ہے۔اس نے مسلمانوں کودوبارہ تجارت وصنعت سمیت تمام شعبوں میں شرکت کی اجازت دے دی۔اس طرح مسلمانانِ صقلیہ کی سانسیں بحال ہوگئیں۔مسلمانوں کے اشتراکِ عمل نے صقلیہ کو ایسی خوشحال مملکت بنا دیاکہ راجر دوئم کو 524ھ میں شاہ ِ صقلیہ واٹلی کا خطاب مل گیا۔کلیسائے روم کی جانب سے اس کی تاج پوشی ہوئی اوراسے یورپ کاسب سے معززحکمران ماناگیا۔
چھٹی ہجری کے اواخر میں اس کاپوتا ولیم دوئم برسرِ اقتدار آیا۔ اس کی پرورش میں مسلمان خدام اورامراء شریک تھے،اس لیے وہ مسلمانوں کے لیے نرم گوشہ رکھتاتھا۔مشہورمسلم سیاح ابن جبیراندلسی ، اسی کے دورمیں صقلیہ کی سیر کے لیے آیاتھا ۔اس نے لکھاہے کہ ولیم دوئم مسلمانوں کو ملازم رکھتاااوران پراعتماد کرتاہے۔اس کے باورچی خانے کانگران بھی مسلمان ہے،نیز بہت سے حبشی مسلمان غلام اس کے پاس رہتے ہیں۔تاہم مسلمانوں کومذہب کی تبلیغ کی آزادی نہیں ہے۔ابن جبیر نے یہ الم انگیز حقیقت بھی لکھی کہ بعض مسلمان اب عیسائی ہونے کوترجیح دے چکے ہیں ۔
اس نے یہ بھی دیکھاکہ بہت سے مسلمانوںنے عیسائیوں جیسے نام رکھے ہوئے ہیں،مگر دل سے اہلِ ایمان ہیں۔ ان میں سے ایک نے جس کانام عبدالمسیح تھا، ابن جبیر سے کہا:’’تم علانیہ مسلمان ہو۔جوکرناچاہو ،آزادی سے کرسکتے ہو۔ مگر ہماری یہ حالت ہے کہ اپنے عقیدے کو چھپانے پر مجبورہیں۔ہمیں جان کاخوف رہتاہے۔ عبادت چھپ کراداکرتے ہیں۔غلامی کاطوق ہمارے گلے میں ہے۔ ‘‘
ابن جبیر لکھتاہے:’’مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کرہم پر رقت طاری ہوگئی۔‘‘
ولیم ثانی586ھ میں فوت ہوگیا۔ اس کے بیٹے صقلیہ کی حفاظت نہ کرسکے اورشاہِ جرمنی فریڈرک اوّل کے لڑکے ہنری ششم نے صقلیہ پر قبضہ کرلیا۔ یوں نارمنوں کادور اختتام پذیر ہوگیا۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 استاذ القراء کاسفرِ آخرت 1 1
3 فنا فی القرآن 2 1
4 مثالی استاذ 3 1
5 استاذ گرامی کی کچھ یادیں 4 1
6 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۱) 5 1
7 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۲) 6 1
8 پاک بھارت جنگ کے امکانات …اورمعرکۂ پانی پت 7 1
9 رمضان اورقرآن 8 1
10 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۱) 9 1
11 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۲) 10 1
12 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۳) 11 1
13 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار [1] 12 1
14 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۲) 13 1
15 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق 15 1
16 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۲) 16 1
17 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۳) 17 1
18 سیرتِ نبویہ کے جلسے اورواعظین کے لیے لمحۂ فکریہ 18 1
19 ترک عوام جنہوںنے تاریخ بدل دی 19 1
20 اسلام میں جہاد کاتصور…اسلامی نظریاتی کانفرنس کااجلاس 20 1
21 نعمتوں کی ناقدری 21 1
22 یوم پاکستان اوردینی مدارس 22 1
23 دسمبر سے دسمبر تک 23 1
24 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۱) 24 1
25 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۲) 25 1
26 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۳) 26 1
27 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۴) 27 1
28 اکبر اوردینِ الہٰی 28 1
29 اللہ کی امانت (۱) 29 1
30 اللہ کی امانت (۲) 30 1
31 شیخ النمر کی سزائے موت 31 1
32 سمندری شیر(1) 32 1
33 سمندری شیر(2) 33 1
34 سمندری شیر(3) 34 1
35 ایک دن بھاولپور میں 35 1
36 ایدھی صاحب 36 1
37 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے 37 1
38 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے (۲) 38 1
39 فضلائے مدارس کی کھپت ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۱) 39 1
40 مدارس کے فضلاء ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۲) 40 1
41 صحبتِ یا رآخر شد 41 1
42 صحبتِ یا رآخر شد(۲) 42 1
43 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج 43 1
44 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج(۲) 44 1
45 انصاف زندہ ہے 45 1
46 جرمنی اورعالم اسلام(۱) 46 1
47 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (1) 49 1
48 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (2) 50 1
49 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (3) 51 1
50 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (4) 52 1
51 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(1) 53 1
52 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(2) 54 1
53 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(3) 55 1
54 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(4) 56 1
55 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت 57 1
56 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت (۲) 58 1
57 ایک قابلِ توجہ مسئلہ 59 1
58 کس منہ سے(۱) 60 1
59 کس منہ سے(۲) 61 1
61 سفر وسیلۂ ظفر 62 1
62 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے 63 1
63 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے (۲) 64 1
64 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۱) 65 1
65 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۲) 66 1
66 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۳) 67 1
67 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۴) 68 1
68 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (1) 69 1
69 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۲) 70 1
70 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۳) 71 1
71 بانی ٔ رُہتاس 72 1
72 بانی ٔ رُہتاس (۲) 73 1
73 بانی ٔ رُہتاس (۳) 74 1
74 شہ سواری اورتیراندازی 75 1
75 شام کی صورتحال اورمستقبل کے خطرات 76 1
76 تبدیلی کی کوشش(۱) 77 1
77 تبدیلی کی کوشش(۲) 78 1
78 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۱) 79 1
79 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۲) 80 1
80 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۳) 81 1
81 تطہیر الجنان۔ایک لاجواب شاہکار 82 1
82 تہذیب حجاز ی کامزار(1) 83 1
83 تہذیب حجاز ی کامزار (2) 84 1
84 تہذیب حجاز ی کامزار (3) 85 1
85 تہذیب حجاز ی کامزار (4) 86 1
86 تہذیب حجاز ی کامزار (5) 87 1
87 تہذیب حجاز ی کامزار (6) 88 1
88 تہذیب حجاز ی کامزار (7) 89 1
89 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۱) 90 1
90 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۲) 91 1
91 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۳) 92 1
92 یوسف بن تاشفین(۱) 93 1
93 یوسف بن تاشفین(۲) 94 1
94 یوسف بن تاشفین(۳) 95 1
95 جرمنی اورعالم اسلام (۲) 47 1
96 جرمنی اورعالم اسلام (۳) 48 1
97 شیخ محمد بن عبدالوہاب ،آلِ سعود اورایرانی حکومت 96 1
98 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا 97 1
99 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا (۲) 98 1
100 خود احتسابی اور سروے کا طریقِ کار 99 1
101 اونچی اڑان 100 1
102 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین 101 1
103 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین (۲) 102 1
104 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۳) 14 1
Flag Counter