عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (1)
اللہ کاشکر ہے کہ ہمارے وزیراعظم اورسپہ سالار کی صحیح سمت میں سفارتی کوششوں سے ایران اور سعودی عرب کے مابین فوری جنگ کا خطر ہ ایک حدتک ٹل گیاہے۔حکومتِ پاکستان کوابھی اس سفارتی محاذ پر مزید کام کرنا ہوگاکیونکہ کشیدگی اب بھی باقی ہے ، جنگ کی چنگاریاں ابھی بجھی نہیں ہیں اوریہود و نصاریٰ کی سازشیں بدستورجاری ہیں ۔
تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو یہ واضح دکھائی دے گاکہ یہودی اپنی عالمگیر سلطنت کے قیام کی خاطر دنیا کی مختلف طاقتوں کواستعمال کرنے، انہیں دوسری طاقتوں سے لڑاکر کمزورکرنے اوراپنے مذموم مفادات حاصل کرنے کے عادی رہے ہیں۔گزشتہ چارقسطی کالم میں راقم نے جنگِ عظیم اوّ ل کے کچھ حقائق سامنے لانے کے بعد آخر میں اس تباہی کے پسِ پردہ یہود ونصاریٰ کی سازشوں کی رودادسامنے لانے کاوعدہ کیاتھا۔ آج کاکالم اسی موضوع پرہے۔
ایک طویل مدت تک دنیا یہی سوچتی ،سمجھتی اورنشر کرتی رہی کہ جنگ عظیم کاسبب آسٹریاکے ولی عہد کاقتل تھا ،اس کے بعد جو کچھ ہوا،وہ اتفاقیہ طور پر ہو تاچلاگیا۔ بعض اہلِ خردنے،اس خیال کو کمزور محسوس کیا تواتنا کہہ دیا کہ دنیا کے بڑے حصے کو زیرکرنے کے بعد استعماری طاقتوں کی جولان گاہ تنگ ہوچکی تھی ۔ان میں سے ہرملک پوری دنیاکاتنہامالک بننا چاہتاتھا جو زمینی حقائق کے تحت ممکن نہ تھا۔اس لیے مفادات کی امیدوںاورمعاہدوں نے ان کے دوگروہ بنادیے جو آپس میں لڑپڑے۔
مذکورہ تجزیہ اپنی جگہ درست سہی ،مگر سب حقائق سے ماوراء حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ کے اصل کھلاڑی وہ یہودی سرمایہ دار اور سیاست دان تھے ، جو عالمگیر صہیونیت کے لیے سرگرم تھے۔ جنگ کے کئی سالوں بعدصہیونی خفیہ پروٹوکولز اور تلمود کے مندرجات کے ذریعے یہ حقائق پہلی بار منظر عام پر آئے مگرچونکہ ذرائع ابلاغ پر یہودکی اجارہ داری چلی آرہی ہے ، اس لیے یہ حقائق چھپائے جاتے رہے۔ جنگ عظیم کے پیچھے صہیونی لابی کی وہ خاص ذہنیت کام کررہی تھی جوان کی مذہبی کتاب ’تلمود‘ نے انہیں دی ہے،اس کے مطابق بنی اسرائیل کے سوا، تما م لوگ (چاہے وہ مسلم ہوں یا نصرانی ، ہندو ہوں یا بدھسٹ ) بھیڑ بکریوں بلکہ کیڑے مکوڑوں سے زیادہ کچھ نہیں، اس لیے یہودی اپنی اغراض کے لیے جنگیں بھڑکانے، حکومتیں گرانے اور لاکھوں کروڑوں انسانوں کو مروانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ ان تمام معاملات کو وہ’’ بزنس‘‘ تصورکرتے ہیں ۔ اپنی کسی معمولی غرض کے لیے وہ ہزاروں لاکھوں انسانوں کی بھینٹ دینے میں دریغ نہیں کرتے۔ان کے نزدیک دوسری قوموں کے جانی ومالی نقصانات کی حیثیت صفرہے۔ ہاں اپنے مفاد پر زدپڑناوہ برداشت نہیں کرتے ۔
رہایہ سوال کہ آخر یہودی دنیا کو اتنی بڑی جنگ میں جھونک دینے پرقادر کیسے ہوگئے ؟تواس کے جواب میں ہمیں جنگِ عظیم سے دوعشرے پہلے کی تاریخ دیکھنی چاہیے۔انیسویں صدی عیسو ی کے اواخر اوربیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں عالمی صہیونی تحریک پوری دنیا میں سرگرم تھی۔ برطانیہ ، امریکا اوریورپی ممالک کی تجارت،سیاست اورمعیشت میں ان کابہت بڑا ہاتھ تھا۔ ان کے افراد ،نہ صرف سرکاری اعلیٰ مناصب پرفائز تھے بلکہ کلیسا میں بھی ان کے نمائندے گھس چکے تھے۔امریکن ارکانِ کانگریس، ارکانِ کابینہ اورمشیرانِ صدرمیں یہودیوںیایہودیوں کے لیے کام کرنے والے کی تعداد اچھی خاصی تھی۔یہود کی ہزارہابرس قدیم آرزو محض ایک آزادوطن حاصل کرنانہیں تھی۔ بلکہ انہیں فلسطین چاہیے تھا جسے مرکز بناکروہ پوری دنیا پر راج کرنے کاخواب دیکھتے آئے تھے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ ایک عالمگیر یہودی بادشاہ کے ظہورکے بعد پوری دنیا ان کی غلام ہوگی مگراس بادشاہ کا ظہور تب ہوگاجب وہ بیت المقدس فتح کرکے وہاں ہیکلِ سلیمانی تعمیر کرلیں گے۔ یہودیوں کے ساتھ ایک بڑامسئلہ باربارکی نقل مکانی کاتھا۔ اس کی وجہ بھی وہ خود تھے۔وہ دنیا کے جس ملک میں آباد ہوتے ،وہاں کی معیشت وتجارت ہی نہیں بلکہ سیاسی تانے بانے پر بھی اثر ہونے لگتے تھے اور حکومتوں کو بنانے اور گرانے میں خفیہ سازشوں کے ذریعے اہم کرداراداکرتے تھے ،اس لیے دنیا کی مختلف حکومتیں انہیں جلاوطن کرتی رہیں۔
انیسویں صدی کے اواخر میں روس کا بادشاہ مقامی یہودیوں کی ایسی ہی ایک سازش کاشکارہوکرقتل ہوااورروس میںیہودیوں کی پکڑدھکڑ شروع ہوگئی ۔اس لیے بہت سے یہودی روس سے بھاگ کر دربدر ہوگئے۔ ایسے میں یہودیوں کاایک مہرہ ان کے بہت کام آیا جسے دنیا’’ ڈزرائیلی‘‘(بنیامین ڈزرائیلی)کے نام سے جانتی ہے۔یہ یہودی دو مرتبہ منتخب ہوکربرطانیہ کا وزیراعظم بنا۔ وہ ایک مفکر، ادیب اورسیاست دان تھا۔1804ء میں پیدا ہوا اور 1881ء میں وفات پائی۔اس کاناول’’ کو ننگزبی‘‘ (Commimgsby) دنیاکے مشہورترین ناولوںمیںسے ایک ہے۔وہ ملکہ وکٹوریہ کا چہیتا تھا ،ملکہ ہی نے اسے’’ لارڈ بیکسنز فیلڈ ‘‘کا خطاب دیاتھا۔وہ1837ء میں پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوا۔1867 ء میں برطانوی وزیرا عظم مقررہوا۔ دوسری مرتبہ اس کی وزارت عظمیٰ 1874ء سے 1880ء تک رہی۔ ڈزرائیلی نے ،امریکہ کے دو مشہورترین یہودی سرمایہ داروں مونیٹوری اور روتھ شیلڈ کے ساتھ مل کر فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری کی سرتوڑ کوشش کی ۔ڈزرائیلی نے اپناسیاسی اثرورسوخ پوری طرح استعمال کیااوریہودی سرمایہ داروں نے پانی کی طر ح دولت بہائی مگر اس وقت یہود کی فلسطین میں آبادکاری کاخواب پورانہ ہوسکا۔
1896ء میں عالمگیر صہیونی تحریک کا بانی آسٹریاکاصحافی ’’تھیوڈورہرٹزل‘‘ (1860ء تا 1904ء )ابھر کر سامنے آیا۔ اس نے اپنی تصنیف ’’الدولۃ الیھودیۃ‘‘ میں دریائے نیل سے لے کردریائے فرات تک ایک عظیم یہودی ریاست قائم کرنے، فلسطین کو مرکزبنانے اورعالمگیریہودی بادشاہ کے اقتدارکی راہیںہموارکرنے کا تفصیلی منصوبہ پیش کیا۔ہرٹزل ہی نے صہیونیوں کی سالانہ کانفرنس کی داغ بیل ڈالی۔پہلی مشہور کانفرنس 1897ء میں سوئزرلینڈ کے شہرباسل میں منعقد ہوئی۔ اس میں تین سوایسے منتخب یہودی رہنماؤںکو بُلایاگیاجودنیابھرمیںیہود کے غلبے کے لیے سرگرم تھے۔اس کانفرنس میں ہرٹزل نے اعلان کیا کہ ہم نے یہودیت کے غلبے کا پہلا پتھر نصب کر دیا ہے، اور عن قریب دنیا ہمارے تابع ہوگی۔اسی کانفرنس میں پہلی بار’’حکمائے صہیون کے پروٹوکولز‘‘ پیش کیے گئے اور نہایت اہم قراردادیں منظور کی گئیں جن کا خلاصہ تین نکات تھے:
1۔ہم فلسطین میں آزاد یہود مملکت قائم کریں گے۔
2۔ہم دنیا کی اقتصادیات میں یہود کو غالب کریں گے یعنی دولت کے تمام سرچشمے ہمارے ہاتھ میں ہوںگے۔
3۔ قدیم عبرانی زبان و ثقافت جو دنیا میں ناپید ہو گئی تھی،پھر سے زندہ کی جائے گی۔
(جاری ہے)