ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۴)
مرزاعزیزالدین کی ان کوششوں کو حضرت مجد درحمہ اللہ نے خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں ایک مکتوب میں تحریرفرمایا:’’آج کے دن ہم آن جناب کی ہستی کوغنیمت سمجھتے ہیں ۔ہاری ہوئی بازی میں آپ کے سواکسی کومردِ میدان نہیں پاتے۔اللہ آپ کاحامی وناصر ہو۔الحمدللہ !اس وقت اسلامی غیرت سے پیداہونے والاجوش آپ ہی کی طبیعت میں محسوس ہوتاہے۔‘‘
حضرت مجدد رحمہ اللہ سے رہنمائی لیتے ہوئے مرزاعزیز اورشیخ فرید جیسے امراء نے دربارِ جہانگیری کے ماحول کواسلام دوست بنانے میں اہم کرداراداکیا۔مرزاعزیزالدین۱۰۳۳ھ میں احمد آباد(گجرات )میں فوت ہوئے ۔حکیم سید عبدالحئی لکھنوی اس کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’وہ شائستہ اخلاق اورخوش کلام تھے۔ اکبر کامقرب ہونے اوراس کی دین اوردیند اروں سے نفرت کے باوجود، دین پرسختی سے عمل پیراتھے۔‘‘{نزہۃ الخواطر:۵ص۵۸۷}
نورجہاں سے شادی کے بعد دربار میں ایرانی امراء کاغلبہ ہونے لگا۔ایسے مطلب پرست لوگوں نے جہانگیر کوحضرت مجددرحمہ اللہ کے خلاف بھڑکادیا۔جہانگیر نے طلب کیاتوآپ دربارِ جہانگیر ی میں تشریف لے گئے اورمجاہدانہ جرأت کاثبوت دیتے ہوئے زمیں بوسی سے انکار کردیا۔
حاسدین نے جہانگیر کوبہکارکھاتھاکہ شیخ نے غروروتکبر کی وجہ سے سجدۂ تعظیمی ترک کیاہے جس کی سزاضروردی جانی چاہیے۔ اسے اس شک میں بھی مبتلاکررکھا تھاکہ حضرت مجدد امرائے سلطنت میں غیرمعمولی مقبولیت کی وجہ سے کوئی باغیانہ تحریک برپا کرنے والے ہیں۔
ان شکو ک وشبہات کی بناء پرا س نے حضر ت مجدد کو گوالیار کے قلعے میں قید کردیا۔اس کے ساتھ ہی آپ کے گھر اور کتب خانے کو بھی لوٹنے کاحکم دیا۔یہ ربیع الثانی ۱۰۲۸ھ کاواقعہ ہے۔
آپ نے صبروتحمل سے کام لیا۔نہ خود جہانگیر کے خلاف لب کشائی کی نہ اپنی اولادیاخادموں کواجازت دی کہ اس کے لیے بددعاکریں۔آپ کی گرفتاری ان بلندپایہ امرائے سلطنت کے لیے نہایت صدمہ انگیز تھی جوآپ کے عقیدت مندتھے ۔اس کاخطرہ تھاکہ وہ اس موقع پر کوئی انتہائی قدم اٹھانے پر آمادہ ہوجاتے،مگر حضر ت مجددرحمہ اللہ نے انہیں بڑی حکمت کے ساتھ تسلی دے کر بالکل ٹھنڈاکردیا۔آپ کو جیل خانے میں ملاقاتوں اورخط وکتابت کی اجازت تھی ۔ آپ اپنی گرفتاری سے دل گرفتہ ایک سالک کوقلعے سے جوابی مکتوب میں لکھتے ہیں:
’’اِ س شخص کی برائی چاہنا اوراس کی برائی کے درپے ہونا عشق کے منافی ہے۔یہ شخص کیااوراس کی حقیقت کیا؟وہ صرف محبوب کے فعل کی عکاسی کررہاہے۔جو لوگ میری ایذاء کے درپے ہیں وہ مجھے مخلوق میں سب سے زیادہ پیارے معلوم ہوتے ہیں۔احباب سے فرمائیے کہ دل کی تنگی دورکریں اوراس جماعت کی تکلیف دہی کاخیال بھی چھوڑدیں۔‘‘
قید کے دورانبے شمارغیرمسلم قیدی آپ کی تعلیمات سن کرمسلمان ہوئے اورسینکڑوں فاسق وفاجرتوبہ تائب ہوئے۔بہت سے بیعت ہوکر سلوک واحسان کے اعلیٰ مقامات تک پہنچے۔
(حضرت مجدد صاحب کے ساتھ اس ابتلاء میں شیخ احمد بن محمد بن الیاس حسینی غورغشتی بھی شریک تھے۔ انہیں بھی سجدۂ تعظیمی نہ کرنے پر قید گوالیارقلعہ میں قید کردیاگیاتھا۔ تین سال قید کاٹ کر وہ ۱۰۳۰ھ میں رہا ہوئے۔ممکن ہے یہ بزرگ غورغشتی چھچھ کے ہوں۔اس کی تحقیق درکار ہے۔)
جہانگیر کے شکوک وشبہات کچھ عرصے میں دورہوگئے۔وہ اپنے کیے پرنادم ہوااور ایک سال بعدجمادی الاخریٰ ۱۰۲۹ھ میںاس نے آپ کوقلعے سے رہاکردیا۔اس کے بعد بھی کچھ عرصہ حضرت مجددجہانگیر کے ساتھ رہے جس کے بہت مثبت اثرات پڑے۔حضرت مجددنے ایک مکتوب میں اپنے صاحبزادے کو جہانگیر کے ہاں قیام کا کچھ حال یوں لکھاہیــ:
’’یہاں کے حالات قابلِ شکر ہیں۔عجیب وغریب ملاقاتیں ہوتی ہیں۔الحمدللہ ان ملاقاتوں میں اسلامی عقائد کے متعلق بادشاہ سے جو گفتگو ہوتی ہے ،اس میں بال برابر بھی چشم پوشی یاخوشامد کو دخل نہیں ہوتا۔ جو باتیں خصوصی مجالس میں بیان کی جاتی تھیں ،وہی انہی الفاظ میں بادشاہ سے کی جاتی ہیں۔ آج ۱۷رمضان کی شب کو انبیائے کرام کی بعثت کے ضروری ہونے،ہر مسئلے کے حل کے لیے عقل کے ناکافی ہونے،آخرت کے عذاب وثواب پرایمان لانے،حق تعالیٰ کے دیدار،حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت،مجددین اورخلفائے راشدین کی پیروی ،تراویح کے مسنون ہونے ، سات جنم کا عقیدہ باطل ہونے ،جنات کے موجود اورمکلف ہونے کے متعلق اچھی طرح بیان کیاگیا اورخو ب اچھی طرح سناگیا۔‘‘{مکتوب نمبر ۴۳۔دفتر دوئم}
جہانگیر کے لشکر سے واپسی کے بعدآپ سرہند تشریف لاکر دس ماہ نودن تک بقیدِ حیات رہے۔ حضرت مجدد رحمہ اللہ کے ایک اورمکتوب سے جو خواجہ نعمان کے نام لکھاگیاہے ،اورغالباً آپ کے آخری ایام کاہے،جہانگیر کی طبیعت میں تبدیلی پر کچھ روشنی پڑتی ہے۔ مکتوب کے چندا ہم اقتباسات درجِ ذیل ہیں۔
’’آپ کے مراسلے میں سلطانِ وقت کی خداپرستی اوراحکامِ شریعت کے مطابق عدل وانتظام کا حال لکھا ہوا تھا۔ اس کے مطالعے سے بہت خوشی ہوئی اورخوب لطف آیا۔اللہ تعالیٰ نے جس طرح بادشاہِ وقت کوعدل وعدالت کے نور سے منور کیاہے،اسی طرح ملتِ محمدیہ کو بھی بادشاہ کے حسنِ انتظام سے نصرت وعزت بخشے۔شریعت تلوار کے نشان کے نیچے ہے۔شریعت کی ترقی اورترویج عظیم الشان بادشاہوں کے انتظام پر منحصر ہے۔جب سے یہ پہلو کمزورہواہے ، اسلام بھی کمزور ہوگیا ہے ۔ ‘‘ {مکتوب ۹۲۔ دفتر دوئم۔بنام خواجہ نعمان}
اسی طرح جہانگیر کے نام آپ نے تحریرفرمایا:
’’کمترین اس امن وآرام کی نعمت کاشکر بجالاتاہے جو جناب کے غلاموںکی دولت واقبال سے عوام وخواص کے شاملِ حال ہے۔فقیردعاکی قبولیت کے اوقات اورسالکین کے اجتماعات میں لشکرکی فتح ونصرت کی دعائیں مانگتاہے کہ سلطنت کااستحکام جہاد کرنے والے لشکر پر منحصر ہے۔‘‘
اس مراسلے کے آخر میں فوجیوں کی حوصلہ افزائی اوران کے لیے دعاکوسعادت قراردیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ کمترین اگرچہ اس لائق نہیں کہ اپنے آپ کولشکر کے لیے دعاکرنے والوں میں داخل کرے لیکن فقیری کے نام اوردعاکی قبولیت کے احتمال پر اپنے آپ کوحکومت کے لیے دعاسے خالی نہیں رکھ سکتا۔اورحالاً وقالاًسلامتی کی دعا سے زبان ترر ہتی ہے۔‘‘{دفتر سوم ۔مکتوب ۴۷}
۲۷صفر۱۰۳۴ھ کو آپ کی وفات ہوئی اورسرہند میں ہی تدفین ہوئی۔ عمر ۶۳برس تھی۔
اسلامی معاشرے کی اصلاح کے لیے حضرت مجدد اوران کے شیخ خواجہ باقی باللہ کاطرزِ جدوجہد ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اگرہم ملک میں سیکولرازم اورلبرل ازم کے سیلاب کوروکنے میں واقعی سنجیدہ ہیں توہمیں وقتی جو ش وخروش ، جلسے جلوسوں ،غم وغصے سے بھرپور نعروں سے آگے بڑھ کر مستقل بنیادوں پر بہت کچھ کرناہوگا۔ معاشرے میں حضرت مجدد کے حقیقی اورقابل ورثاء آج بھی علم ومعرفت کی مسندوں پر موجود ہیں۔ مگر ضرورت ہے کہ شیخ فرید بخاری اورمرزاعزیزالدین تلاش کیے جائیں ۔ اس کے بغیر اہلِ معرفت کی رہنمائی پوری طرح مؤثر ہوگی اورنہ علماء کے فتاویٰ اوربیانات۔
{مآخذومراجع :نزہۃ الخواطر۔ذخیرۃ الخوانین۔ مآثر الامراء:منتخب اللباب ازخافی خان ۔منتخب التواریخ۔دربارِ اکبری از محمد حسین آزاد۔زبدۃ المقامات۔اکبر نامہ از ابوالفضل۔اقبال نامہ عرف چھوٹی توزک ۔تاریخِ ہندوستان ازذکاء اللہ دہلوی : ج ۶ ۔ تزکِ جہانگیری۔}