عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (3)
یہودی اپنی قدیم منصوبہ بندی کے مطابق زارِروس کاتختہ الٹ کروہاں سوشلزم کاتجربہ کرنا چاہتے تھے ،اس لیے 1904ء میں انہوںنے ایک بارپھرزارکے قتل کی سازش کی جوناکام رہی ۔ اس بارروسی حکومت نے یہودیوں سے زیادہ سختی برتی جس کی وجہ سے یہودیوںکی بڑی تعدادکو روس سے بھاگناپڑا۔ یوں روسی شاہی خاندان سے یہودیوں کی دشمنی مزید پختہ ہوگئی۔ادھر لینن نے 1910ء میں سوشلسٹ پارٹی تشکیل دے دی اور پیرس منتقل ہوگیا۔1913ء میں لینن نے ’’بالشویک کانفرنس‘‘ کا پہلا اجلاس ’’پراگ‘‘ میں طلب کیا۔ یہ کانفرنس اللہ کی زمین پر اللہ کے تصوّر کے خلاف ایک اعلانِ جنگ کی تمہید تھی۔
اس سیاسی منظرنامے کو سامنے رکھنے کے بعد ہمیں یہ صاف دکھائی دیتاہے کہ بیسیویں صدی کے اس دوسرے عشرے میں یہودیوں کے تین بڑے دشمن تھے۔پہلادشمن زارِ روس تھا ۔یہودی لینن کی قیادت میں سوشلزم کی تحریک چلاکر زارِ شاہی کی حکومت کاخاتمہ کرنااوروہاں ایک بظاہر لادینی اور درونِ خانہ صہیونیت نوازحکومت بنانا چاہتے تھے ۔
دوسرا دشمن جرمنی کاشاہی خانوادہ تھا جس نے یہودیوں کی سازشوں سے تنگ آکر انہیں سزائیں دی تھیں اوربڑی تعداد میں جلا وطن کیاتھا۔یہ خاندان دنیا کی عظیم ترین طاقت بننے والاتھا جو یہودیوں کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔تیسرادشمن ترکی تھا جہاںجمہوری حکومت قائم ہونے کے بعد بھی خلافت باقی تھی جو فلسطین کے متعلق صہیونی عزائم کی تکمیل میں رکاوٹ تھی۔
یہ تینوں بڑی مہیب طاقتیں تھیں جنہیں آسانی سے ہلایانہیں جاسکتاتھا۔جبکہ یہودی نہ صرف ان کے سیاسی نظام کو بلکہ ان کی تہذیب وتمدن اورنظریات کوبھی مٹادینے کاتہیہ کیے ہوئے تھے ۔یہ مقاصد کسی ایسی بہت بڑی جنگ کے بغیر پورے نہیں ہوسکتے تھے جس میں یہ تینوں طاقتیں پوری قوت سے شریک ہوکر تھک ہارجائیں۔
ایک بڑی جنگ کی آگ لگانے کے لیے بلقان سب سے مناسب جگہ تھی جہاںچندسالوں میں دو جنگیں ہوچکی تھیں اوروہاں کی ریاستوں پر اجارہ داری قائم کرنے میں روس کی آسٹریا سے چپقلش چل رہی تھی ۔ترکی سلطان عبدالحمید کی معزولی،جمعیت اتحادوترقی کے اقتداراور بلقان اورلیبیاکے سقوط کے بعدبیرونی دنیامیں سابقہ آن بان کھوچکاتھا اوراندرونی طورپر اس کے مختلف صوبوں میں علیحدگی پسندی کی تحریکیں چل رہی تھیں۔
جنگ سے پہلے 1913ء تک یہودی سرمایہ داروں،صہیونی زعماء اوران کے حلیف برطانوی سیاست دانوںنے دنیا کی حالت اس عمارت جیسی کردی تھی جس میں جگہ جگہ بارود کے ڈھیر چھپا دیے گئے ہوں ، بس انہیں تاروں کے ذریعے آپس میں جوڑنا اورشعلہ دکھاناباقی ہو۔
روس کو ترکی کے مقابلے میں لانے یا جرمنی اورروس کوباہم جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے کوئی بہانہ پیداکرنامشکل تھا۔ البتہ آسٹریا اورروس کی بلقان کے مسئلے پر کشیدگی چل رہی تھی ،لہٰذا وہ کسی بھی وقت لڑسکتے تھے۔ آسٹریاکی حمایت میں جرمنی کو شریکِ جنگ کرنا مشکل نہیں تھا ،کیونکہ روس کو جرمنی بھی اپنادشمن سمجھتاتھا۔نیزجرمنی سے یہودیوں کے بڑی تعداد میں انخلاء کے باوجودصہیونی لابی خفیہ طورپر فوج کے اعلیٰ افسران کواستعمال کرنے کے قابل تھی اوریہودیوں کا سیاسی عسکری امورمیںخاصا اثر ورسوخ اب بھی باقی تھا۔
جرمنی کی خاطر ترکی کا جنگ میں کودنامشکل مگر امکان سے باہر نہ تھا ،کیونکہ وہاںجن جرنیلوں کاحکم چلتا تھا ،وہ سیاسی تجربے اور دوراندیشی سے عاری مگرجوش وجذبات سے بھرپور تھے ۔انہیں غلط معلومات دے کراورسبزباغ دکھا کے ، مستقبل کے متعلق گمراہ کرنافری میسنری کارندوں اورصہیونی ذرائعِ ابلاغ کے لیے کوئی بڑی بات نہ تھی۔ یہ بھی بعید نہیں کہ ترکی کا وزیرِ دفاع انورپاشا جس نے ترکی کو جنگ کی آگ میں دھکیلاتھا، فری میسنری یااسی قسم کی کسی خفیہ یہودی تنظیم کے زیرِاثرآکر دھوکے کا شکار ہواہو،ادنیٰ امکان یہ بھی ہے کہ وہ انہی کاکارندہ ہو،اگرچہ اس کاثبوت نہیں ملتا ۔ انورپاشا کا ظاہری کرداریہی گواہی دیتاہے کہ وہ سلام پسنداورمحب ِ وطن تھامگر فریبِ فکرونظر میں مبتلاہوگیاتھا۔
صہیونی لابی کے لیے برطانیہ اورفرانس اورامریکا کو جنگ میںشامل کرنا بہت آسان تھا کیونکہ وہاں یہودی سرمایہ داروںکے وزرائے اعظم ،صدوراورافواج کے سربراہوں تک سے گہرے روابط تھے۔
یہودیوں نے جنگ سے درج ذیل اغراض وابستہ کررکھی تھیں:
٭اپنے دشمن روس کی زارشہنشاہیت کاخاتمہ اوروہاں کیمونسٹ نظام کاتجربہ
٭اپنے دشمن جرمنی کی شکست وریخت
٭خلافت کاسقوط اورسلطنتِ عثمانیہ کی تقسیم وتحلیل
٭ فلسطین میں اپنے لیے وطن کی راہ ہموارکرنا
چونکہ یہ تمام امور جرمنی اورترکی کی شکست اور زارِ شاہی کی طاقت مضمحل ہونے پر منحصرتھے۔اس لیے یہ بھی طے تھا کہ پہلے جرمنی کو کھل کر لڑنے دیاجائے گاتاکہ روس کمزورتر ہوجائے اورلینن وہاں کامیاب بغاوت کرسکے۔ یہ بھی طے تھا کہ جرمنی کو آخرمیں شکست دلواناہوگی۔ اس کے لیے جرمنی کے کچھ کمانڈرخریدلیے گئے تھے جن سے جنگ کے آخری مرحلے میں کام لیاگیا حالانکہ جرمنی بظاہر فتح حاصل کرنے والاتھا۔ترکی سے جنگ کواس حدتک طول دینے کافیصلہ کرلیا گیا تھا کہ اس کی طاقت بالکل فنا ہوجائے اور وہ اتحادیوں کے ہر فیصلے کے سامنے سرجھکادے، چاہے اس طرح انسانی جانوں کا ضیاع کئی گنابڑھ جائے۔
جنگ کے تیسرے سال ا س کے نتائج سامنے آگئے۔ اکتوبر 1917ء میں لینن جلاوطنی ترک کرکے ماسکوپہنچااورانقلابی تحریک چلاکر نومبرمیںزار شہنشاہیت کاخاتمہ کردیا۔ مارچ 1918ء میں ’’کریملین‘‘ کو مرکز بناکر سوویت حکومت تشکیل دے دی گئی۔یہ دراصل یہودیوں کی فتح تھی جواس تحریک کے قائدبھی تھے اوراس کے لیے مالی وسائل بھی مہیا کرتے رہے تھے۔ لینن کا قریبی دوست اور مشہور امریکی مصنف لوئی فشر اپنی تصنیف ’’لائف آف لینن‘‘ میں انکشاف کرتا ہے کہ لینن یہودی تھا۔ یہودی اسے اس حیثیت سے خوب جانتے ہیں۔ اس کی بیوی بھی یہودن تھی۔
ماسکو کے سرخ انقلاب سے چند ماہ پہلے جون1917 میں جب کہ جنگ کے نتائج کااندازہ ہوچکاتھا،یہودکی عالمی کانفرنس میں کہا گیا:
’’ہم نے ظالم عسکری طاقتوں کو لڑواکر اُن کی طاقتوں کو توڑ دیا ہے(ظالم عسکری طاقتوں سے مراد مسلمانوں کی خلافتِ عثمانیہ ،،روس اور جرمنی ہیں)ہم نے قیصری طاقتوں کو توڑ دیا ہے،اور چند بقیہ حکومتوں کو بھی اُکھاڑ دیں گے ، یعنی پوری دنیا میں نو آبادیات قائم ہوں گی، دنیا کا نقشہ اور جغرافیہ تبدیل ہو جائے گا، اب ایک بالا دست عالمی اقتدار وجود میں لایا جاسکتا ہے‘‘۔