سمندری شیر(1)
امیرالبحرخیرالدین باربروسا ،اسلامی تاریخ کاوہ مایہ ناز جرنیل ہے جس کی ٹیم نے مغربی استعمار کی یلغار کے سامنے ایک صدی تک بند باندھے رکھا۔مستشرقین نے جہاں اس عظیم شخصیت کو قزاق اورڈاکو مشہورکیاہے ،وہاں بعض مسلم مؤرخین نے بھی اس بطلِ جلیل کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ اسے ایک ڈاکوپیشہ غیرمسلم گھرانے کافردقراردیاگیا جس نے ترکوں کے ہاتھوں قید ہونے کے بعد ،فوج میں ملازمت حاصل کرنے کے لیے اسلام قبول کیاتھا مگر اس کی فطرت پھر بھی قزاقی ہی رہی۔
یہ چیزیں پڑھ کرسخت حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح ہماری تاریخ کومسخ کیاگیاہے اورکس طرح آج باربروسا برادران کو’’ولن ‘‘ کے روپ میں پیش کرکے انہیں سنیماسے کمپیوٹر تک ہر اسکرین پرشیطان کے روپ میں دکھایاجاتاہے۔
ترکو ں کی اپنی لکھی ہوئی قدیم تواریخ اٹھاکردیکھیں تو حقیقت واضح ہوجائے گی کہ یہ لوگ کتنے عظیم تھے اوران کے امتِ مسلمہ پرکتنے احسانات ہیں۔ چند ماہ پہلے راقم نے باربروسا برادران میں سے بڑے بھائی شیخ عروج کے حالات پیش کیے تھے۔ حسبِ وعدہ خیرالدین باربروسا کے مستند حالات پیش خدمت ہیںجو ترک مؤرخین نے قلم بند کیے ہیں۔
خیرالدین پاشاکے داداعبداللہ آغا ترک فوج میںافسر تھے۔ان کے بیٹے نور اللہ آغا کے ہاں پانچ بیٹے ہوئے جن میں سے عروج اور خیرالدین خضرپاشا کو سب سے زیادہ شہرت ملی۔یہ دونوں عثمانی فوج کے بحری افسر بنے ۔ ان کی مہمات نے یورپی طاقتوںکو چھٹی کادودھ یاددلادیا۔عروج سالہاسال تک یورپی بحری فوجوں سے برسرِ پیکاررہا ۔1518ء میں وہ اسپین سے جنگ کے دوران دادشجاعت دیتے ہوئیشہید ہوگیا۔
اس کے بعدخیرالدین پاشاکوامیر البحربنادیاگیا۔ اس نے ہسپانوی افواج سے عروج کی شہادت اور اندلسی مسلمانوں پرمظالم کابدلہ لینے میں تاخیر نہ کی۔ 1519ء میں وہ انتہائی جرأت کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنا بحری بیڑہ لے کر اسپین کی بندرگاہ ،بلنسیہ جاپہنچا۔اس کے اچانک حملے میں بندرگاہ پر کھڑے تمام اسپین جہازتباہ ہوگئے۔
اس کے بعد اسپین سے کئی معرکے ہوئے ۔کئی باراسپین کی بحری فوج خلافتِ عثمانیہ کے ماتحت شمالی افریقہ کے صوبوں تیونس ،لیبیااورالجزائر پرحملہ آورہوئیں اورہر بارخیرالدین پاشا نے انہیں عبرت ناک شکست دی۔
خیرالدین باربروساکی مہمات جاری تھیں کہ 1520ء میں استنبول کے تخت پرسلیمان اعظم القانونی تخت نشین ہوا جس کادور سلطنتِ عثمانیہ کاعہدِ زریںماناجاتاہے۔اس کے دورمیں دنیا میں دوعالمی طاقتیں آمنے سامنے آچکی تھیں۔ایک سلطنتِ عثمانیہ ، دوسری ہسپانیہ۔
اسپین میں محکوم مسلمانوں پر جو مظالم ہورہے تھے، وہ سلیمان خان سے مخفی نہ تھے ،اس لیے وہ اسپین کوہرممکن زک پہنچانا چاہتاتھا۔اسپین اس وقت دنیا کی واحد سلطنت تھی جس کابحری بیڑا ،عثمانیوں کی ٹکرکاتھا۔یہ مہیب استعماری طاقت مشرق کی طرف بڑھتے ہوئے وسطی یورپ تک چھاگئی تھی اورمغرب میںبحرِ اوقیانوس کو پارکرکے امریکاتک جاپہنچی تھی۔امریکامیں واقع سونے اورچاندی کی کانوں سے اس قدردولت اسپین پہنچ رہی تھی کہ ہسپانوی نصرانی پوری دنیا کوفتح کرنے کاخواب دیکھ رہے تھے۔ سلیمان اعظم نے تہیہ کرلیاکہ وہ اس عالمگیر طاقت کوٹکڑے ٹکڑے کرکے دم لے گا۔
اس نے اسپین پر دو طرفہ ضرب لگانے کامنصوبہ ترتیب دیا۔خشکی میں وسطی یورپ کے محاذ پراس نے خود جنگ کی کمان کافیصلہ کیااورسمندر میں اس نے یہ مہم خیرالدین باربروسا کو سونپی ۔اس کے منصوبے کے مطابق جنگوں کاجوسلسلہ شروع ہواوہ دوعشروں تک جاری رہا۔
ترکوں کومسلسل کامیابیاں ہورہی تھیں کہ الجزائر کے مقامی امراء نے سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت کی تیاری شروع کردی۔ یہ اطلاع ملنے پر خیرالدین پاشانے ان امراء کوجمع کیااورکہا:
’’ہم یہاں مسلمانوں کاخون بہانے نہیں،جہاد کے لیے آئے ہیں۔مسلمانوں کی گردنیں کٹنے کاوبال تمہارے اوپر ہوگا۔دیکھتے ہیں تم مسلمانوں کوکفارسے کیسے بچاتے ہو۔‘‘
یہ کہہ کراس رجلِ عظیم نے الجزائر کے دارالحکومت کی چابیاں مقامی امراء کے حوالے کردیں اوراپنے بحری بیڑے میں کسی اورمنزل کی طرف روانہ ہوگیا۔خیرالدین کے پاس چالیس جہازتھے، مسلمانوں کی حفاظت کے لیے اسے سمندر میں کوئی مضبوط بندرگاہ بہرحال چاہیے تھی
الجزائرسے ترکوں کے انخلاء کے بعد وہاں ہسپانوی پھر حملے کرنے لگے ۔امرائے الجزائر مجبوراًخیرالدین سے درخواست کر نے لگے کہ وہ واپس آکر ملک کاانتظام اپنے ہاتھ میں لے لے۔ چارسال بعد خیرالدین پاشادوبارہ الجزائر پہنچا جہاں اس کاشاندار استقبال ہوا۔
اسپینی فوج نے ’’پینن‘‘میں ایک عظیم قلعہ تعمیر کرکے اسے اپنا ہیڈکوارٹر بنارکھاتھا۔مشہورہسپانوی جرنیل ڈان مارٹن جس سے جنگ میں باربروساکا بھائی عروج شہید ہواتھا،یہیں مقیم تھا۔خیر الدین پاشا نے اس قلعے کوگھیرلیااوربیس دن کی گولہ باری کے بعد27مئی 1529ء کو اس کی ناقابلِ تسخیر فصیل کے پرخچے اڑادیے۔قلعے پر قبضے کے ساتھ ہی ڈان مارٹن اوراس کے سپاہی قیدی بنالیے گئے۔
خیرالدین پاشا کے ان کارنامو ں کود یکھتے ہوئے سلیمان اعظم نے اسے پوری سلطنتِ عثـمانیہ کاامیرالبحرمقررکردیا۔وسیع اختیارات پانے کے بعداس مردِ مجاہدنے سب سے زیادہ توجہ بحری سپاہیوں پر دی ،انہیں سخت ترین تربیت کے ذریعے پیراکی،غوطہ خوری،جہازرانی،خنجر زنی ،شمشیرزنی، نشانہ بازی اورگولہ باری سمیت بحری جنگوں کے تمام امورکاماہر بنادیا۔ اس نے پرانی توپوں کی جگہ نئی توپیں ڈھلوائیں ۔پرانے جہازوں کو چھوڑکر نئے جہاز تیارکرائے جومضبوطی کے باوجود ہلکے ہونے کے سبب تیز رفتارتھے۔اس طرح سلیمان اعظم کے دورمیں خلافتِ عثمانیہ کی بحریہ اتنی مضبوط ہوگئی کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کے بعد بھی دوصدیوں تک عثمانی بحریہ کامعیاریہی رہااوریورپی طاقتیں اس سے خوف کھاتی رہیں۔
نئی فوج کی سخت ترین تربیت کے بعدا س نے اسپین کے مسلمانوں کی مدد کے لیے ایک اورمہم شروع کی اوراپنے شاگرد رئیس بن احمدکو اس کی کمان سونپی جسے مسلمان ’’ضارب الکفار‘‘کہتے تھے جبکہ ہسپانوی اسے ’’شیطان ‘‘کہہ کریادکرتے تھے۔
رئیس بن احمد نے اسپین کی بندرگاہ بلنسیہ پر حملہ کیااور ہزاروں مظلوم مسلمانوں کوآزادکراکے ساحل سے دورنکلنے لگا۔مگر راستے میںاسپین کے ایڈمرل فرنانڈونے تعاقب کرکے اسے گھیرلیا اور مطالبہ کیاکہ جہاز میں سوار تمام اندلسی مسلمانوں کواس کے حوالے کردیاجائے تاکہ انہیں قتل کرکے باقی اندلسی مسلمانوں کو عبرت دلائی جائے۔رئیس بن احمد نے یہ مطالبہ مسترد کردیامگر وہ یہ بھی جانتاتھاکہ مسافروں سے بھرے ہوئے جہازوں کے ساتھ ، ہسپانوی بحریہ سے مقابلہ ممکن نہیں۔