اللہ کی امانت (۲)
مگر اب حفصہ کوایک مضبوط دلیل مل گئی تھی۔
’’چچاجان !دیکھامیں اتنی بیمار بھی نہیں ہوں۔اب تو آپ مجھے امتحان دینے دیں ۔‘‘
’’اچھاٹھیک ہے ۔‘‘ میں نے بادلِ نخواستہکہا۔
’’مگر امتحان کے فوراً بعد تم نے دادی جان کے ساتھ گاؤں آناہے اوررمضان تک وہیں رہناہے۔‘‘
میں نے اس سے وعدہ لیناچاہا۔
’’اللہ چچاجان! رمضان تک ۔ہمارے اگلے سال کی پڑھائی توامتحان کے کچھ دنوں بعدپھر سے شروع ہوجائے گی۔‘‘
’’اچھاایک مہینے کے لیے توضرورآناہے۔ٹھیک ہیـ۔‘‘
اس نے جواب میں مسکراکرسرجھکالیااورپڑھنے میں مصروف ہوگئی۔
۲۸مارچ کودن کے سواایک بجے میں اسلام آبادکے لیے نکل رہاتھا۔ حفصہ نقاہت کے باوجود گھر کے دروازے تک رخصت کرنے آئی۔ مجھے نہیں معلوم تھاکہ میں اپنی بچی کوآخری باردیکھ رہاہوں۔
میں نے والدہ سے کہا:’’امی جان ! یاد رکھیے گا۔حفصہ کے امتحان ختم ہوتے ہی آپ اسے لے کرگاؤں آئیں گی۔‘‘یہ کہہ کرمیں گھر سے نکل آیا۔
حسن ابدال آکر میں امی جان سے حفصہ کے بارے میں پوچھتارہا۔حفصہ کی حالت نہیں سنبھل رہی تھی۔ آخر ایک دوسری لیبارٹری سے ٹیسٹ کرائے گئے۔
اس دن امی جان نے مجھے فون پر کہا:’’بیٹا! ٹیسٹ میں ٹائی فائڈ پتاچلاہے۔‘‘
’’ٹائی فائڈ۔جان لیوامرض۔‘‘ میرے اعصاب جھنجھنا گئے۔
’’امی جی آپ کسی بھی طرح بچی کوامتحان دینے سے روکیں ۔اسے لے کریہاں آجائیں۔‘‘‘
’’بیٹا وہ مانے بھی توسہی۔اس کاوہی اصرار ہے کہ مجھے امتحان دینے دو۔‘‘
’’اچھا امی ۔اس کابہت خیال رکھیے گا۔‘‘
’’ہا ں بیٹا۔ اس کی فکر میں تومیری حالت بھی کیاسے کیا ہوگئی ہے۔ ہر وقت اسے دیکھ کر گھلتی رہتی ہوں۔‘‘
۲اپریل کوحفصہ کاپہلا پرچہ تھا۔جب وہ امتحانی ہال میں بیٹھی تو چیکنگ کرنے والی نگران نے اس کے پاس آکر کہا:’’آپ تووہ نہیں ہیں جس کی کارڈ پر تصویر ہے۔‘‘
’’میڈم ! میں بہت بیمار ہوں۔ مجھے ٹائی فائڈ ہے۔‘‘حفصہ نے بمشکل کھڑے ہوکر کہا۔
نگران بھی اس کی حالت اوراس پر یہ ہمت دیکھ کرحیران رہ گئی۔
اس کے پیپر اچھے ہورہے تھے۔وہ ساری رات جاگ کرپڑھتی تھی۔دوسراپرچہ بھی اچھاہوگیا۔اتوار کی شب بھائی رشید احمد نے حفصہ سے فون پر با ت کی ۔فون بند کرکے وہ بڑے فکر مند لگ رہے تھے۔ میں نے وجہ پوچھی توکہنے لگے:
’’حفصہ کی آواز سن کر میں بہت بے چین ہوگیاہوں۔ آواز بہت نحیف ہے۔ ‘‘
اس کے بعدا نہوںنے کراچی فون کرکے بھائی عبدالرحمن سے پوچھا:
’’لگتاہیحفصہ کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہے۔ میں کراچی آتاہوں ۔‘‘
مگر حکیم صاحب نے اطمینان دلایاکہ ٹائی فائڈ کا علاج جاری ہے ،ان شاء اللہ ٹھیک ہوجائے گی۔
منگل ۱۲اپریل کو کیمسٹری کا پرچہ تھا۔حفصہ نے رات گئے تک جاگ کر تیاری کی۔ حسبِ معمول پیپر دینے گئی مگرپرچے کاکچھ حصہ لکھنے کے بعداس کی طبیعت زیادہ ناساز ہوگئی ۔دل ودماغ اورآنکھوں پر شدید بوجھ آگیا۔وہ بہت رک رک کرلکھ رہی تھی۔ سوالات پورے حل کرنے سے پہلے پیپر کاوقت مکمل ہوگیا۔ وہ گھرآئی توعام دنوںسے کہیں زیادہ نڈھال تھی۔اس نے بڑے افسوس کے ساتھ بڑی بہن کوبتایاکہ پرچہ پوراحل نہیں ہوسکا ۔ظہر سے عصر تک اس نے آرام کیا۔ نمازیں اداکیں ۔
مغرب کی نماز پڑھ کر وہ یکدم ایک کرسی پرگرگئی۔اس کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو رہے ہیں۔اس کی سانس کی تکلیف کے پیشِ نظر گھر میں آکسیجن مشین رکھ لی گئی تھی ۔ اسے ماسک لگایا گیا۔کچھ دیر بعد ماسک ہٹایاگیا۔وہ اٹھی اورسجدے کی حالت میں چلی گئی۔یہ اس کاآخری عمل تھا۔اس کی والدہ نے اسے سیدھاکیاتو وہ غنودگی کے عالم میں تیز تیز سانس لے رہی تھی۔ اس دوران حکیم صاحب کوفون پر اطلا ع کردی گئی تھی۔وہ ایمبولنس لے کرآئے ۔بچی کو لے کرلیاقت نیشنل ہسپتال کی طرف لپکے۔مگر راستے میں اس کی نبضیں تھم گئیں۔وہ دنیامیں اتناہی وقت لے کرآئی تھی ۔
ان للہ مااخذ ولہ مااعطیٰ وکل عندہ باجل مسمیٰ
اک پھول تھا وہ
وہ پھول جوہم سے روٹھ گیا……… وہ ہاتھ سے اپنے چھوٹ گیا
وہ چھوڑگیااس چلمن کو…اس محفل کواس گلشن کو
اب کب وہ ملے …………اس دنیا میں
یہ دنیا کتنی فانی ہے………ہر جان یقینا جانی ہے
اس دنیا میں ………کچھ کرجائیں
گر نام پہ اس کے ………مرجائیں
جوسارے جہاںکا……خالق ہے
جومالک ہے ……جو رازق ہے
گر اس کاکرم ……پھر ہوجائے
وہ پھول دوبارہ …مل جائے
اُس دنیا میں …اُس جنت میں
اِس فانی نگر میں اب توکہیں …وہ ہم کو دوبارہ ملتانہیں
جو پھول کہ ہم سے روٹھ گیا……… وہ ہاتھ سے اپنے چھوٹ گیا
اس ناگہانی سانحے پر اس کے والد،والدہ اوردادا،دادی نے جس طرح صبر کیا،وہ اللہ ہی کی دین تھی۔ بچی کے لیے تعزیت کے لیے اتنے لوگ آئے کہ توقع نہیں تھی۔بچی کی استانیاں ،مدرسے کی مجلسِ منتظمہ ،سب ہی آئے۔کراچی میں ہماری نسبی یاسسرالی برادری کچھ نہیں۔مگر علماء ، فضلاء، بزرگ ،تبلیغی ساتھی، اساتذہ اورصحافی بڑی تعدادمیں آئے۔یہی دینی حلقہ ہماری اصل برادری ہے۔باجی ریحانہ تبسم فاضلی اپنی عمر رسیدگی اورعلالت کے باوجود تشریف لائیں۔کتنے ہی بزرگوں اوراحباب نے فون پر اورفیس بک پر تعزیت کی ۔اللہ ان سب کوبہترین جزائے خیر نصیب فرمائے۔
حفصہ کے لیے میںایک لفظ میں اتناکہوں گاکہ وہ ’’شہیدۂ علم ‘‘تھی۔ دکھ توہے کہ اس نے شدید بیماری میں بھی آرام نہیں کیا مگر فخر ہے کہ اس نے علم کے لیے محنت وریاضت کی ایک مثال قائم کردی، تعلیم کوہرچیز پر حتیٰ کہ اپنی جا ن پر بھی ترجیح دی۔ کسی کو تعلیم کے لیے خراش آئی جس پرمتاعِ ضمیر وناموسِملت کاسوداکرکے شہرت اوردولت کمائی گئی۔ اس بچی نے تعلیم کے لیے جان دے دی مگر یہاں رب کی رضا کے سواکچھ مقصودنہیں۔اس کاقبلہ کچھ اورتھا ،اس کی منزل کچھ اور۔
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کاجہاں اورہے شاہیں کاجہاں اور