ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۳)
ابوالفضل اور اس کے باپ قاضی مبارک نے حبِ مال وجاہ کے لیے اکبر کو بدعقیدگی کے راستے پر لگایا تھا مگر قاضی مبارک ذی قعدہ ۱۰۰۱ھ(اگست ۱۵۹۳ء) میں فوت ہوچکے تھے۔فیضی بھی رخصت ہوگیاتھااوراس خاندان کا تیسرا فرد ابوالفضل شاہ کی نگاہوں میں ذلیل ہورہا تھا۔ یہ ۱۰۰۵ھ (۱۵۹۷ء) کاواقعہ ہے جو اکبرکے لاہور میں قیام کا آخری سال تھا۔ابوالفضل عزت وتوقیر کے بلند مراتب سے پستی میں گرکر سوچتاتھاکہ خانہ بدوشی اختیارکرلے یاخودکشی کرلے۔ رنج وغم کے باعث۱۵شوال ۱۰۰۶ھ( ۲۱مئی۱۵۹۸ء)کواس نے دربار میں آنا ترک کردیا۔کئی ماہ تک وہ عزلت نشین رہا مگر آخریہ طرزِ عمل بے سود دیکھ کر اس نے دوبارہ دربار میں حاضر ہوناشروع کردیا۔
اسلام پسند امراء نے ایک بار پھر اسے دربارسے بے دخل کرنے کی کوشش کی جو کامیاب رہی۔ان امراء میں خانِ اعظم مرزاعزیز کے بعد دوسرے بااثر فرد شیخ فرید عرف بخشی امیر تھے۔اکبر ایک دن شیخ فرید کے ہاں ضیافت پر گیا۔ شیخ فرید نے اس کی شایان شان خاطر مدارات کی۔اس کے صرف ایک ہفتے بعد ۷جمادی الاخری ۱۰۰۷ھ (۵ جنوری ۱۵۹۹ء)کو اکبر کے حکم سے ابوالفضل دکن کے کٹھن محاذ پرجارہاتھا۔ اس کے بعد ابوالفضل کودوبارہ پایۂ تخت میں آنانصیب نہ ہوا۔کوئی بعید نہیں کہ شیخ فرید نے ہی اکبر کو یہ حکم جاری کرنے پرآمادہ کیاہو۔
دکن کی مہم بڑی کٹھن تھی جہاں درباری آسائشوں کے عادی ابوالفضل کی زندگی اجیرن ہوگئی۔ مزیدیہ کہ دکن کے محاذ کاامیر عبدالرحیم خانخاناں شیخ باقی باللہ کامعتقد ہوگیاتھا۔اس نے ابوالفضل کے گرد گھیراتنگ کردیا۔ ابوالفضل نے گھبراکر بادشاہ، شہزادوں اور ملکہ تک کو مراسلے لکھے کہ اسے دکن سے واپس بلوالیاجائے مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ ابوالفضل نے ایسے ایک مراسلے میں لکھاہے کہ کاش میں پیداہی نہ ہواہوتا ،کاش مجھے دکن کے سفر کی اذیتیں نہ سہناپڑتیں۔ابوالفضل نے ایک مراسلے میں شیخ فریدخاص کرہدفِ تنقید بنایاہے ۔
ایک مراسلے میں ابوالفضل اپنی بے چینی اورمایوسی یوں بیان کرتاہے:
’’اس الم ناک داستان کی ایک معمولی جھلک یہ ہے کہ راقم السطور فضول مشاغل کے جہنم میں پھنس کر بندۂ خداکی جگہ بندۂ فطرت بن گیاہے۔ نعوذ باللہ اس کے قریب پہنچ گیاہے کہ اللہ کی بندگی کی بجائے درہم ودینار کابندہ کہلانے لگے۔بندہ اس تحریر میں اپنا یہ غم ظاہرکررہاہے۔ اورسمجھتاہے کہ دینا میں گزارے ہوئے ۴۳برسوں کی احمقانہ بھاگ دوڑسے ،خاص کرابنائے زمانہ کے ساتھ ان ۱۲سالوں کی کش مکش نے مجھے صبر وتحمل سے محروم کردیاہے۔‘‘{انشائے ابوالفضل:دفتر دوم ص۱۰۲}
انہی دنوں اکبر ولی عہد ِ سلطنت شہزادہ سلیم کو نائب السلطنت مقررکرکے خود دکن کے محاذ کی طرف روانہ ہوا۔اُدھر اسلام پسندامراء نے دربارِ اکبری میں قدم جمانے کے بعد اگلا قدم ایک منظم بغاوت کی شکل میں اٹھانے کی منصوبہ بند ی کرلی تھی کیونکہ اکبر کے بے لگام ذہن کوبدلنا بہرحال ان کے بس سے باہر تھا۔ان امراء نے ولی عہدِ سلطنت جہانگیر کواپناہم خیال بنالیاجوان دنوں الہ آباد میں تھا۔جہانگیر پر اثر انداز امراء میں مفتی میراں صدرجہاںؔکو نظر انداز نہیں کیاجاسکتاجوخواجہ باقی باللہ کے مریداورجہانگیر کے استادتھے۔
اکبر دکن کی مہم میں مشغول تھاکہ اسے جہانگیر کی بغاوت کی اطلاع ملی ۔اکبر بڑی تیزی سے آگرہ جاپہنچا۔اس سے یہ مخفی نہیں رہ سکتاتھاکہ شہزادے کے بغاوت کے پسِ پردہ عوامل کیاہیں مگر اس وقت اسلام پسند امراء سلطنت کے اہم ترین تھے۔ اس لیے اکبر نامہ وپیام کے ذریعے شہزاد ے پر قابو پانے کی تدابیر کرنے لگا ۔ شہزادے نے طاقت آزمائی بے سود دیکھی تو باپ سے معافی مانگ لی اوریہ شورش ختم ہوگئی۔
{لو ک داستانوں میں مشہور ہے کہ سلیم ایک کنیز انارکلی کی محبت میں مبتلاہوکراسے بیگم بنانا چاہتا تھا مگر اکبر آڑے آگیا۔ اس پر سلیم نے باپ سے بغاوت کردی ۔تاریخ میں اس افسانے کا کوئی ثبوت نہیں۔ }
اگر معاملے کو بغور دیکھاجائے تواندازہ ہوگاکہ اسلام پسند طبقے نے احتیاط پر مبنی اپنی کامیاب پالیسی کوترک کرکے غلطی کردی تھی۔کابل سے دکن تک حاوی اکبر کی اس طاقت کو پارہ پارہ کرنا جس میں ہندوراجاؤں کی افواج کی بہت بھاری نفری شامل تھی ، آسان کام نہ تھا۔بغاوت نہ ہوتی تو اکبرزیادہ سے زیادہ ایک دوعشرے مزید حکومت کرکے مرجاتااوراگلی حکومت اسلام پسندوں ہی کی ہوتی۔مگر ناکام بغاوت کی صورت میں پوراخطرہ تھاکہ اکبرجوشاید بے دینی کی انتہاء سے اب آہستہ آہستہ واپس آسکتاتھا، ایک بارپھرملحداوربے دین لوگوں کو غالب کرنے پر تل جاتا۔
اسلام پسندوں نے یہ بھاری خطرہ مول لے لیا۔بغاوت بھی ناکام ہوئی اورایک سخت ابتلاء سر پر آن کھڑاہوا۔
اکبراب کوئی سخت ترین پالیسی نافذ کرناچاہتاتھا۔اس کے لیے اسے ابوالفضل کے مشوروں کی ضرورت محسوس ہوئی ، لہٰذا اسے دکن سے آگرہ حاضرہونے کاحکم دیا۔شہزادہ سلیم جانتاتھاکہ ابوالفضل فتنوں کی جڑ ہے ۔ وہ پایۂ تخت پہنچ کر دربار کی فضا ایک بارپھر خراب کردے گا اور اکبر کوا س پر آمادہ کردے گاکہ وہ بغاوت میں ملوث طبقے کو باقی نہ چھوڑے۔
سلیم نے مشیروں سے اس خدشے کااظہار کیاتواسے مشورہ دیاگیاکہ ابوالفضل کو آگرہ پہنچنے سے پہلے ہی ٹھکانے لگادیاجائے۔چنانچہ سلیم نے ابوالفضل کے راستے میں پڑنے والے ایک شہر کے حاکم راجا نرسنگھ راؤ کو حکم دیاکہ وہ ابوالفضل کوقتل کردے۔
راجانے حکم پر عمل کیااور اس سے پہلے کہ ابوالفضل آگرہ پہنچتا،اسے راستے میں قتل کردیا۔یہ ۱۰۱۱ھ (۱۶۰۲ء) کا واقعہ ہے۔اس کاسر شہزادہ سلیم کے پاس بھیج دیاگیا۔ اکبر کوابوالفضل کے قتل کی خبرملی تو سخت غضب ناک ہوا۔مگر سیاسی مصلحتوں کالحاظ کرتے ہوئے سلیم کو کچھ نہ کہا۔
ابوالفضل کے قتل کے بارے میں جہانگیر نے خود لکھاہے:
’’میرے باپ کے آخری ایام سلطنت میں ابوالفضل نے اس کے دل پر یہ نقش کردیاتھاکہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن پر میری ہزاروں جانیں قربان ہوں،ایک عرب فصیح وبلیغ آدمی تھے اور قرآن مجیدان کی تصنیف ہے ،وہ کلامِ الٰہی نہیں ہے۔ اس وجہ سے میں نے ایک آدمی مقررکیاجس نے ابوالفضل کوقتل کیااوراس کاسرمیرے پاس بھیج دیا۔ ابوالفضل کے مرنے کے بعد میراباپ کسی حدتک راہِ مستقیم پر آگیااوراس نے جا ن لیاکہ ابوالفضل کی بات غلط تھی۔‘‘
{یہاں یہ یاد رکھاجائے کہ آخری ایام میں اکبر کے کسی حدتک صراطِ مستقیم پرآنے کایہ قول صرف جہانگیر سے منقول ہے۔دیگر ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی ۔اسی طرح مرنے سے پہلے اس کا سورۂ یاسین سننا اورکلمہ شہادت پڑھنا بھی صرف جہانگیر سے اقبال نامہ میں منقول ہے ۔ تاریخ دعوت وعزیمت ج ۴ ص ۷۶کے حاشیے پرحضرت مولاناابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے بھی اسے نقل کیاہے۔مگر اس کی تصدیق کی ہے نہ تردید۔}
ابوالفضل کاقتل ،ہندوستان میں الحاد کاپرچم اٹھانے والوں کی عبرت ناک شکست تھی ۔ یہ اس مہم کی پہلے مرحلے کی تکمیل تھی جس کے لیے خانِ اعظم مرزاعزیزنے دوبارہ دربار ِ اکبری میںشمولیت قبول کی تھی ۔اس لیے ابوالفضل کے قتل پر مرزاعزیز نے تاریخِ وفات کہتے ہوئے یہ مصرعہ کہا:
’’تیغِ اعجازِ نبی اللہ ،سرِ باغی برید۔‘‘
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معجزانہ شمشیر نے اس باغی کاسر کاٹ ڈالا۔)