Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ 2016

3 - 102
مثالی استاذ
چند دن قبل دارالعلوم کراچی کے قدیم ترین اساتذہ میں سے ایک عظیم ہستی،ہمارے استاذ گرامی حضرت قاری محمد یاسین صاحب پانی پتی  ،دنیا سے رخصت ہوگئے۔بلاشبہ وہ ایک مثالی استاد تھے جن کی کمی پوری ہونا مشکل ہے۔شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی  صاحب مدظلہ نے ان کی وفات پر فرمایاکہ وہ ہمارے بانیوں میں سے تھے۔
راقم اس کالم میں مختصر طورپر ان کے کچھ حالات وکمالات نقل کرناچاہتاہے جو ہم سب کے لیے نہایت مفیداورسبق آموز ہوں گے۔
حضرت قاری صاحب 1935ء(1354ھ) میں متحدہ ہندوستان کے علاقے پانی پت میں پیداہوئے اور23دسمبر2015ء (12ربیع الاول1437ء)کو ان کی رحلت ہوئی ۔اس طرح ان کی حیات شمسی تقویم کے اعتبار سے 80اورقمری تقویم کے مطابق تقریباً 83برس بنتی ہے۔
قاری صاحب نے زندگی کے بارہ برس اپنے آبائی علاقے پانی پت میں گزارے ۔ حضرت قاری صاحب،مجاہدانہ طبیعت کے انسان تھے۔بچپن ہی سے بہادر،نڈ ر،توانااورزورآورتھے۔سپاہیانہ ورزشوں اورریاضتوں میں بہت دلچسپی لیتے تھے۔ کشتی لڑنے کے ماہر تھے۔ان کی دلیری کایہ واقعہ قابلِ ذکرہے کہ جب1947ء میں جب پاکستان بنا توحضرت قاری صاحب اس وقت بارہ برس کے تھے اور اپنے ہی کسی ہم عمردوست کے ساتھ ،سیر وتفریح کے لیے دہلی گئے ہوئے تھے۔اسی دوران تقسیم کااعلان ہوااورہرطرف قتل وغارت کاطوفان امنڈ آیا۔ پانی پت کے مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ہجرت پر مجبورہوگئی جن میں حضرت قاری صاحب کاخاندان بھی شامل تھا۔قاری صاحب  کاان سے رابطہ بالکل منقطع ہوگیا ۔بارہ برس کی عمر ہی کیاہوتی ہے؟مگراس کے باوجود قاری صاحب نے تنہا بڑی ہمت کے ساتھ آگ وخون کایہ دریاعبور کیااورپاکستان پہنچ گئے۔
پاکستان آکر شکارپور میں قیام ہوا۔ پانی پت کے مشہور قاری شیخ القراء حضرت قاری فتح محمد صاحب رحمہ اللہ بھی قافلۂ پانی پت کے ساتھ شکارپور آچکے تھے۔ہمارے استاذ مرحوم کوان سے طبعاً بڑی عقیدت تھی ،اسی محبت نے رفتہ رفتہ تلامذہ کی صف میں پہنچادیااورقرآن مجید سے وہ عشق وورافتگی نصیب ہوئی کہ کلام اللہ آخر ی سانس تک کے لیے ان کااوڑھنا بچھونا بن گیا۔ 
 حفظ کی تعلیم کے دوران استاذمرحوم کی عمر لگ بھگ سولہ سترہ سال ہوچکی تھی۔حضرت شیخ القراء نے بعض نمازوں ،خصوصاً عشاء کی امامت بھی انہی کے سپرد کی ہوئی تھی۔ہمارے استاذمرحوم سبق اتنا پختہ یادکرتے تھے کہ شیخ القراء کوسنانے کے بعدعشاء کے فرائض میں اسی سبق کی قرأت کرتے جو صبح سنایا تھا۔ہمارے استاذمرحوم نے شیخ القراء رحمہ اللہ کی بیٹوں سے بڑھ کر خدمت کی اوربیش ازبیش دعائیں لیں جو ان کے لیے آگے چل کر ترقی ،مقبولیت اورمحبوبیت کاذریعہ بنیں۔
حفظِ قرآن مجید کی تکمیل کے بعد شیخ القراء نے ان سے فرمایا کہ میرے شاگرد قاری رحیم بخش کے پاس ملتان چلے جاؤ۔چنانچہ ہمارے استاذمرحوم نے ملتان جاکر حضرت قاری رحیم بخش صاحب رحمہ اللہ کی شاگردی اختیار کی ،قرآن مجید کی پختگی اورتجوید میں کمال حاصل کیا۔
فراغت کے بعد دوبارہ شکار پورآگئے اورزمین داری وتجارت میں مشغول ہوگئے۔ اس وقت عمر لگ بھگ بیس سال تھی ۔زندگی کے اس مرحلے کاایک واقعہ قابلِ ذکر ہے جس سے حضرت کی پرہیزگاری اوراتباعِ شریعت کا والہانہ جذبہ عیاں ہوتاہے۔ حضرت قاری صاحب نے گزشتہ سال پہلی بارراقم کویہ واقعہ سنایا۔
فرمایا کہ شکارپورکے تین دوستوںنے مجھے ساتھ ملا کر دیہی علاقے میں پٹے پر وسیع زرعی رقبہ لے لیا کہ اسے کاشت کرکے جو پیداوارآئے گی ،وہ مارکیٹ میں فروخت کرکے بہت نفع ہاتھ آئے گا۔ہر ایک نے چند چند ہزارروپے ملائے تھے جوآج کل کی بہت بڑی رقم تھی۔ ہم وہاں مزارعے ماتحت رکھ کر دن بھر کام کرتے تھے۔ رہائش بھی وہیں زرعی رقبے میں تھی۔دوردورتک کوئی مسجد نہیں تھی۔جب نماز کاوقت ہوتا تومیں اذان دیتا مگر ساتھی باجماعت نماز کے لیے جمع نہیں ہوتے تھے۔ میں کچھ عرصے تک توانہیں کہتارہا کہ جماعت کااہتمام کرو۔ مگر جب وہ مسلسل ٹال مٹول کرتے رہے تو میں نے انہیں کہا: تمہاری وجہ سے میں بھی جماعت کے ثواب سے محروم ہوں۔ یاتو نماز باجماعت کا اہتمام کرو۔ یامجھے اس کاروبار سے الگ کردو۔ و ہ کہنے لگے:اب تو تھوڑی سی مدت رہ گئی ہے۔ فصل نکلنے والی ہے۔ابھی اگر کاروبار چھوڑوگے تو بہت نقصان اٹھاؤگے۔ میں نے کہا :نقصان کی پروا نہیں مگر جماعت نہیں چھوڑ سکتا۔انہوںنے کہا :ابھی رقم ملی جلی ہے ،حساب مشکل ہوگا۔اس لیے ہم صرف تمہارااصل سرمایہ لوٹائیں گے ۔نفع کچھ بھی نہیں ملے گا۔ میں نے اسی کو ترجیح دی اوراپنے چند ہزارروپے لے کرشکارپورآگیا۔
جماعت کی نماز کے لیے ،پورے کاروبار پر لات ماردینا ، کوئی معمولی بات نہیں ۔یہ تقویٰ اللہ کے خاص بندوں ہی کونصیب ہوتاہے ۔ قاری صاحب کی ساری زندگی ایسی ہی تھی۔
اس واقعے کاتتمہ بھی عرض کرتاچلوں جو حضرت قاری صاحب ہی نے سنایاکہ ایک طویل زمانے بعداپنے ان شراکت داروں میں سے ایک سے ملاقات ہوئی۔ وہ نہایت ابتر حالت میں تھا ۔ اس نے کہا کہ تم چلے گئے ،فائدے میں رہے۔ ہماری وہ ساری فصل تباہ ہوگئی ،سارا سرمایہ ضایع ہوگیااوراب مشکل سے محنت مزدوری کرکے دو وقت کی روٹی حاصل کررہے ہیں۔
 من کان للہ کان اللہ لہ
حضر ت قاری صاحب کی سبزی کی دکان چل نکلی تھی کہ ان کے استاذ گرامی حضرت قاری رحیم بخش صاحب کواطلاع ہوگئی۔انہوںنے اس پر ناراضی ظاہر کی اورقرآن مجید کی خدمت میں لگنے کاحکم دیا۔
ہمارے استاذمحترم فرماتے ہیں:
’’ میں اپنے کسب سے کماناچاہتاتھا ،اس لیے مدرسے کی ملازمت طبعا پسند نہ تھی مگر استادوں کے حکم کے آگے کچھ کہنامشکل تھا۔حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہٗ بانی دارالعلوم کراچی کی دعو ت پر حضرت قاری فتح محمدصاحب رحمہ اللہ پہلے ہی شکار پورسے آچکے تھے اورنانکواڑہ کی قدیم عمارت میں شعبۂ قرآن ان کے سپردتھا۔ میںبھی ان کے ساتھ قرآن پڑھانے میں لگ گیا۔تنخواہ لینا طبعاً پسند نہ تھا ، نیت یہ کرلی کہ ایک سو بچوںکوقرآن مجیدکاخوب پکاحافظ بناکر،دوبارہ کاروبار شروع کروں گا۔بڑی توجہ اورمحنت سے پڑھانے لگا۔آخر چند سالوں میں الحمد للہ ایک سو بچے پکے حافظ بن کر فارغ ہوگئے۔تب میں نے حضرت قاری رحیم بخش صاحب سے عر ض کی کہ میں سو حفاظ بنانے کی نیت کرکے بیٹھاتھا۔ آپ کی امانت امت تک پہنچادی ۔اب آپ اجازت دیں کہ میں شکارپورواپس جاکرمعاش میں لگوں۔‘‘
حضرت قاری صاحب نے فرمایا:خدمتِ قرآن میں لگے رہو۔ اللہ تنخواہ سے مستغنی  کردے گا۔‘‘
استاد کے اس حکم کے بعدتوکسبِ دنیا کا خیال ہی نکل گیا۔ سب کچھ بھلا کر اسی محنت میں لگ گیا۔
فرماتے تھے : 1960 ء کے عشرے میں ایک مخلص دوست نے جو بڑے رئیس  تھے،مجھے کہا :
’’ قاری صاحب ،آپ اپنا مدرسہ بنالو۔ طارق روڈ پر میری زمین ہے ،وہ آپ کے نام کرتاہوں۔ آدھی پر آپ اپناگھر بنالیں۔ آدھی پر مدرسہ بنالیں ۔آرام سے رہیں گے۔‘‘
مجھے خدمتِ قرآن میں اتناانہماک تھا کہ کہا :
’’بھائی میرے پاس ان چیزوں کے لیے وقت نہیں ہے۔‘‘
دس بیس سال بعد وہ زمین لاکھوں کروڑوں کی ہوگئی۔ ایک بار پھر وہی دوست ملے اورکہنے لگے:
’’آپ نے طارق روڈپر نہیں رہناتھا،نہ رہتے ۔ مگر کم ازکم زمین تواپنے نام کرالیتے۔آج کام آتی۔‘‘
میں نے کہا:’’اس وقت ان باتوں کوسوچنے کابھی وقت نہیں تھا۔‘‘
یہ تھی وہ یکسوئی اورخدمتِ قرآن کی لگن جس نے حضرت قاری محمد یاسین صاحب کوایک مثالی استاد بنایا۔ہم جیسوں کے لیے ،جو دینی خدمات میں لگ کر بھی ،دنیا کاسوچتے رہتے ہیں ،ان واقعات میں بڑی عبرت ہے۔
ہمارے حضرت استادِ محترم کے لیے حضرت قاری رحیم بخش صاحب کایہ فرمانابھی سچ ثابت ہواکہ اللہ تنخواہ سے مستغنی کردے گا۔قاری صاحب کے ایک دوست نے جو لوہے کاکاروبار کرتاتھا،اوراس کاکام دیکھابھالاتھا، انہیں کاروبار میں رقم لگانے کی پیش کش کی ۔قاری صاحب نے اس میں شراکت کرلی۔اس کام میں اللہ نے بڑی برکت دی ۔وہ شخص بھی بڑادیانت دارتھا۔ قاری صاحب کے پاس کاروبار پر توجہ دینے کا وقت کہاں تھا۔ صبح مدرسے تشریف لاتے اورعموماً عشاء کے بعد ہی واپس جاتے۔ وہ شخص نفع کاحصہ پہنچادیتاتھا۔قاری صاحب کے جملہ اخراجات اس سے پورے ہوجاتے تھے ۔ دارالعلوم سے جوتنخواہ ملتی تھی ،قاری صاحب اسے اپنے ان شاگردوں کے حوالے کردیتے تھے جوان کے ساتھ معاون کے طورپر درسگاہ میں بیٹھاکرتے تھے۔یادرہے کہ قاری صاحب کی یہ ایک درسگاہ ،آج کل کی حفظ کی پانچ چھ درسگاہوں کے برابر تھی۔ اس میں ، ایک سو سے زائد طلبہ ہوتے تھے۔قاری صاحب دوتین معاون اساتذہ کے ساتھ اسے سنبھالتے تھے،ان میں حضرت قاری محمد یعقو ب مرحوم نے تقریباً38سال تک حضرت قاری صاحب کا ساتھ نبھایااور2013ء میں وفات پائی۔ 
حضرت قاری صاحب معاملات کے بہت صاف تھے۔کسی کوکسی مدکے لیے رقم دیتے تواس کا پورا حساب لیتے۔اگرچہ دنیوی تعلیم  خاص نہ تھی مگر پڑھنالکھنا اچھا جانتے تھے۔ خط اچھا اورخوبصورت تھا۔حساب میں ماہر تھے۔ فرماتے تھے :’’حساب پائی پائی کا،بخشیش لاکھوں کی۔‘‘
طبیعت کے بادشاہ تھے۔ سخاوت ان کا نمایاں وصف تھی۔اپنے ماتحت اساتذہ کااحتساب بھی کرتے اوران پر عنایات بھی فرماتے۔ ضرورت مند طلبہ کاخود خیال کرتے تھے۔محنتی اورخدمت گارطلبہ کو اپنی جیب سے بہت کچھ دیتے رہتے۔ نانکواڑہ کے طلبہ  کی کتنی ضروریات قاری صاحب نے اپنے ذمے لے رکھی تھیں۔ اگر طلبہ کے لیے کسی کی مددقبول بھی کرتے تو بڑے استغناء کے ساتھ۔
 قاری صاحب کے ایک پرانے شاگرد نے بتایا:’’ ایک سیٹھ صاحب نانکواڑہ کے لیے طلبہ کے لیے ہرمہینے کچھ رقم دیاکرتے تھے۔رقم صابن اوراس جیسی چیزوں کے لیے مختص ہوتی تھی ۔میں حضرت قاری صاحب کے کہنے پر ان کے پاس جاکر رقم لے آتا ۔ایک بار میں گیا تو سیٹھ صاحب نے رقم دیتے ہوئے کہہ دیا:’قاری صاحب سے کہیں مجھ اکیلے پر بوجھ زیادہ ہوگیاہے، کسی اورکوبھی ساتھ شریک فرمالیں۔‘ان شاگرد کاکہناہے کہ میں نے جاکر حضرت قاری صاحب کویہ بات بتائی توان کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ مجھے کہاکہ یہ رقم سیٹھ صاحب کوواپس کرکے آؤ ۔ ہمیں اس کی بھی ضرورت نہیں۔ میں  طلبہ کی یہ خدمت میں خود کروں گا۔‘‘
حضرت قاری صاحب،اپنے استاد حضرت قاری فتح محمد صاحب رحمہ اللہ کے بارے میں بتاتے تھے کہ ان کاحافظہ ضرب المثل تھا۔ فرمایا:ایک بار بڑے قاری صاحب نانکواڑہ کے وضو خانے میں وضو فرما رہے تھے کہ اچانک زورسے ایک طرف منہ کرکے کہا:خدابخش ۔ (یادرہے کہ حضرت بڑے قاری صاحب نابیناتھے)مسجد کے دروازے سے اندرداخل ہونے والاایک شخص چونک اٹھااورپھر جلدی سے آکر ان سے ملا۔بعد میں بڑے قاری صاحب سے پوچھاگیا کہ آپ کوکیسے پتاچلاکہ خدابخش اندر آیاہے ،توفرمایا:اس شخص سے تیس سال بعد ملاہوں۔ میں نے اس کے سانس کی آواز سے اسے پہچان لیاتھا۔‘‘
راقم عرض کرتاہے کہ ہمارے استاذمحترم حضر ت قاری یاسین صاحب کوبھی اللہ نے غیرمعمولی قوت حافظہ سے نوازاتھا۔راقم اس بارے میں ایک چشم دید واقعہ پیش کررہاہے۔
کوئی چارسا ل پہلے کی بات ہے،ان کے ایک قدیم شاگرد قاری نصیرالدین ، مجھے کہنے لگے :
’’45سال ہوگئے ہیں ،حضرت سے نہیں ملا۔پندرہ سولہ سال کاتھا جب نانکواڑہ سے فارغ ہواتھا۔ اس کے بعدسے یہ سوچ کرحاضری میںتاخیر درتاخیر ہوتی رہی کہ قاری صاحب پوچھیں گے ، اتنے دنوں بعد ملنے آیاہے تو کیاجواب دوں گا۔‘‘
قاری نصیر مجھے کہنے لگے:’’اب آپ کوئی صورت بنائیں۔ مجھے ساتھ لے جائیں ۔ اب تو قاری صاحب شاید پہچانیں گے بھی نہیں۔ مگر یاددلانے سے یاد آجائے گا۔آپ پہلے بات کرکے انہیں بتائیے گاکہ یہ فلاں شاگرد ہے ،اس کے فلاں فلاں اعذارتھے ،اس لیے حاضرنہیں ہوسکا۔‘‘ 
میں نے قاری نصیر صاحب سے تعاون کی حامی بھر لی۔
ہم دونوں ایک دن ظہر کی نماز کے وقت نانکواڑہ پہنچ گئے۔ نما زکے بعد حضرت قاری صاحب کے خدام سے ملاقات کی اجازت حاصل کی اور حجرے میں چلے گئے۔ میں نے السلام علیکم کہا اورمڑکر قاری نصیرکی طرف دیکھا اورچاہاکہ حضرت قاری صاحب کوبتاؤں کہ یہ میرے ساتھ آئے ہیں،ابھی میرے منہ سے  کوئی لفظ نکلنے نہ پایاتھا کہ حضرت قاری صاحب نے پہلی نگاہ پڑتے ہی کہا:
’’آ بھئی نصیر ،کہاں تھا اتنے دنوں تک‘‘
قاری نصیر صاحب کایہ حال کہ کاٹوتوبدن میں لہو نہیں۔
بڑی مشکل سے انہوںنے خود کوسنبھالااورقدموں میں بیٹھ کرکچھ معذرت کے الفاظ کہنے لگے۔ 
حضرت استادمحترم نے بڑی محبت سے انہیں اوپر بٹھایا۔ کچھ دل بستگی کی باتیں کیں ۔ایسالگتاتھا کہ قاری نصیر کل ہی مدرسہ چھوڑکرگئے ہیں۔ ہمارے استاد کو ان کی ایک ایک بات یاد تھی۔مجھے مخاطب کرکے کہنے لگے:مولوی اسماعیل تمہیں پتاہے ،یہ قاری نصیر بہت اچھی نعت پڑھتاہے۔ ہاں بھئی نصیر کوئی نعت توسنا۔ـ‘‘
قاری نصیر صاحب نے’’تجھ ساکوئی نہیں تجھ ساکوئی نہیں۔‘‘ پڑھنا شروع کی تو حضرت آبدیدہ ہوگئے۔
حضرت قاری صاحب کی باتیں بہت ہیں اورکالم کادامن تنگ ۔نمونے کے طورپر یہ کچھ واقعات نقل کردیے ہیں۔ا کثر باتیں وہ ہیں جو براہِ راست حضرت سے سنی ہیں یادیکھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان اکابر کے اخلاق وکردارکاکوئی ذرہ نصیب فرمادے آمین
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 استاذ القراء کاسفرِ آخرت 1 1
3 فنا فی القرآن 2 1
4 مثالی استاذ 3 1
5 استاذ گرامی کی کچھ یادیں 4 1
6 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۱) 5 1
7 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۲) 6 1
8 پاک بھارت جنگ کے امکانات …اورمعرکۂ پانی پت 7 1
9 رمضان اورقرآن 8 1
10 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۱) 9 1
11 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۲) 10 1
12 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۳) 11 1
13 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار [1] 12 1
14 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۲) 13 1
15 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق 15 1
16 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۲) 16 1
17 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۳) 17 1
18 سیرتِ نبویہ کے جلسے اورواعظین کے لیے لمحۂ فکریہ 18 1
19 ترک عوام جنہوںنے تاریخ بدل دی 19 1
20 اسلام میں جہاد کاتصور…اسلامی نظریاتی کانفرنس کااجلاس 20 1
21 نعمتوں کی ناقدری 21 1
22 یوم پاکستان اوردینی مدارس 22 1
23 دسمبر سے دسمبر تک 23 1
24 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۱) 24 1
25 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۲) 25 1
26 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۳) 26 1
27 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۴) 27 1
28 اکبر اوردینِ الہٰی 28 1
29 اللہ کی امانت (۱) 29 1
30 اللہ کی امانت (۲) 30 1
31 شیخ النمر کی سزائے موت 31 1
32 سمندری شیر(1) 32 1
33 سمندری شیر(2) 33 1
34 سمندری شیر(3) 34 1
35 ایک دن بھاولپور میں 35 1
36 ایدھی صاحب 36 1
37 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے 37 1
38 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے (۲) 38 1
39 فضلائے مدارس کی کھپت ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۱) 39 1
40 مدارس کے فضلاء ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۲) 40 1
41 صحبتِ یا رآخر شد 41 1
42 صحبتِ یا رآخر شد(۲) 42 1
43 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج 43 1
44 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج(۲) 44 1
45 انصاف زندہ ہے 45 1
46 جرمنی اورعالم اسلام(۱) 46 1
47 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (1) 49 1
48 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (2) 50 1
49 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (3) 51 1
50 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (4) 52 1
51 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(1) 53 1
52 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(2) 54 1
53 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(3) 55 1
54 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(4) 56 1
55 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت 57 1
56 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت (۲) 58 1
57 ایک قابلِ توجہ مسئلہ 59 1
58 کس منہ سے(۱) 60 1
59 کس منہ سے(۲) 61 1
61 سفر وسیلۂ ظفر 62 1
62 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے 63 1
63 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے (۲) 64 1
64 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۱) 65 1
65 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۲) 66 1
66 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۳) 67 1
67 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۴) 68 1
68 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (1) 69 1
69 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۲) 70 1
70 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۳) 71 1
71 بانی ٔ رُہتاس 72 1
72 بانی ٔ رُہتاس (۲) 73 1
73 بانی ٔ رُہتاس (۳) 74 1
74 شہ سواری اورتیراندازی 75 1
75 شام کی صورتحال اورمستقبل کے خطرات 76 1
76 تبدیلی کی کوشش(۱) 77 1
77 تبدیلی کی کوشش(۲) 78 1
78 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۱) 79 1
79 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۲) 80 1
80 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۳) 81 1
81 تطہیر الجنان۔ایک لاجواب شاہکار 82 1
82 تہذیب حجاز ی کامزار(1) 83 1
83 تہذیب حجاز ی کامزار (2) 84 1
84 تہذیب حجاز ی کامزار (3) 85 1
85 تہذیب حجاز ی کامزار (4) 86 1
86 تہذیب حجاز ی کامزار (5) 87 1
87 تہذیب حجاز ی کامزار (6) 88 1
88 تہذیب حجاز ی کامزار (7) 89 1
89 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۱) 90 1
90 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۲) 91 1
91 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۳) 92 1
92 یوسف بن تاشفین(۱) 93 1
93 یوسف بن تاشفین(۲) 94 1
94 یوسف بن تاشفین(۳) 95 1
95 جرمنی اورعالم اسلام (۲) 47 1
96 جرمنی اورعالم اسلام (۳) 48 1
97 شیخ محمد بن عبدالوہاب ،آلِ سعود اورایرانی حکومت 96 1
98 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا 97 1
99 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا (۲) 98 1
100 خود احتسابی اور سروے کا طریقِ کار 99 1
101 اونچی اڑان 100 1
102 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین 101 1
103 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین (۲) 102 1
104 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۳) 14 1
Flag Counter