Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ 2016

26 - 102
تاریخِ اندلس کاآخری باب (۳)
رضاکاروں پرمشتمل مسلمانوں کی پیادہ فوج ناتجربہ کارتھی،وہ جوش وجذبے کے باوجود ،عیسائیوں کادباؤ برداشت نہ کرسکی اورجنگ کے قہرانگیز لمحات میں ان کے پاؤں اکھڑ گئے۔یہ دیکھ کرسرکاری فوج بھی جم کرنہ لڑسکی ۔موسیٰ بن ابی الغسان آخر ی لمحے تک مجاہدین کو دوبارہ منظم کرکے قدم جمانے کی کوشش کرتارہا تاہم یہ کوشش بے سود رہی اورنہایت غم وغصے اورصدمے کی حالت میں شہر کی طرف پلٹ گیا۔اس ناکام معرکے کے بعد غرناطہ پر مایوسی کے بادل چھاگئے۔
امرائے سلطنت کے اجلاس میںوزیرابوالقاسم نے آگاہ کیاکہ ہماری گھڑسوارفوج کابہترین حصہ کام آچکاہے،دفاع کی امید ختم ہوچکی ہے، اناج ختم ہونے کوہے اورکہیں سے کوئی کمک ملنے کاکوئی امکان نہیں۔ان حالات میں تمام امراء نے اتفاق کیاکہ دشمن سے باعزت شرائط پر صلح کرلینی چاہیے۔تاہم موسیٰ بن ابی الغسان نے بلند آواز سے اس رجحان کی مخالفت کی ۔اس نے گرج کر کہا : ’’ابھی راستے بند نہیں ہوئے۔ایک ایسا راستہ ہے جس سے کوئی کرشمہ دکھایاجاسکتاہے۔ ہماری مایوسی نے ہمیں اس حال تک پہنچایاہے۔ہم عوام کو لڑنے مرنے پر آمادہ کریں گے،ان کے ہاتھوں میں اسلحہ تھمادیں گے،ہم آخری سانس اورآخری جان تک دشمن سے لڑیں گے۔میں یہ گوارانہیں کرسکتاکہ غرناطہ کو دشمن کے سامنے سرنگوں دیکھوں۔مجھے اس پر فخر ہوگاکہ میری لاش ان لوگوں میں ملے جو غرناطہ کے دفاع میں قربان ہوگئے۔ ‘‘
مگر اس بار موسیٰ بن ابی الغسان کی شعلہ نوائی ،دربارکے ماحول میںکوئی تبدیلی نہ لاسکی۔لوگ اس حالت سے گزررہے تھے جس میں بہادروں کی للکاراورشعراء کے رجز کی جگہ بوڑھوں کی نصیحت پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔
صلح کے حامی امراء نے کہا:’’ہماری کمک و رسد بند ہے۔اب موسم سرما شروع ہوگیا ہے۔ اس وقت دشمن نے اپنی فوج بکھیر دی ہے۔ابھی اگر ہم مذاکرات کریں توہمارے تمام مطالبات مان لیے جائیں گے۔اگرہم نے دیر کی اورموسم بہارشروع ہوگیاتو تب تک حریف کا بکھراہوالشکر دوبارہ جمع ہوجائے گا اورہم مزید کمزورہوچکے ہوں گے،ایسی حالت میں وہ ہمارے مطالبے نہیں مانے گا۔‘‘
امراء نے باہم مشورے سے یہ طے کیاکہ چند بہترین سفارت کارفرڈی ننڈ سے صلح کی بات چیت شروع کریں ۔ذی الحجہ ۸۹۶ء (اکتوبر۱۴۹۱ء) میں مذاکرات شروع ہوئے ۔مسلمانوں کے تمام مفادات کے مکمل تحفظ پر مبنی ایک معاہدہ طے پاگیا۔اس میں کچھ خفیہ دفعات بھی تھیں جن میں ابو عبداللہ ،اس کے امراء اوران کے سب کے اہل وعیال کے لیے ممکنہ مراعات اورسہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا تھا۔ صلح نامے کے اہم شرائط یہ تھیں: 
٭امیر غریب ،چھوٹے بڑ ے تمام مسلمانوں کو جان ومال کا بلاامتیازتحفظ دیاجائے گا۔٭مسلمانوں کی اجتماعی املاک،اوقاف،مینار اورمنابر کوتحفظ حاصل ہوگا۔مساجد کی جائدادیں حسبِ سابق محفوظ ہوں گی۔ان امور میں عیسائی مداخلت نہیں کریں گے۔٭مسلمانوں کے باہمی تنازعات کے فیصلے اسلامی قوانین کے مطابق کیے جائیں گے جس کے مجاز صرف مسلمان قاضی ہوںگے۔
٭مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔
٭کسی مسلمان کوعیسائیت قبول کرنے پر مجبورنہیں کیاجائے گا۔
٭مسلمانوں کوشاہی فوج میں شمولیت پر مجبورنہیں کیاجائے گا۔
٭مسلمانوں اورعیسائیوںکے مذبح خانے الگ ہوں گے۔
٭فرڈی ننڈ اورازابیلا مسلم اکثریتی علاقوں میں ایسے حکام تعینات کریں گے جو مسلمانوں سے عزت واحترام کے ساتھ پیش آئیں گے۔
یہ معاہدہ(۲۵نومبر ۱۴۹۱ء)کوہوا۔اس میں ۶۷شقیں تھیں۔اس پرابوعبداللہ ،ابوالقاسم عبدالملک ،فرڈی ننڈ، ازابیلا اور قسطالیہ کے کاتب فرنانڈوزافرا کے دستخط تھے۔فرڈی ننڈ اورازابیلا نے اپنے تمام بڑے امراء سمیت عہد کیاکہ اس معاہد ے کی کبھی بھی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی،اس میں کبھی بھی کوئی کمی بیشی نہیں ہوگی۔{اس کی اصل اسپین کے’’ سیمانکا ز آرکائیو‘‘ میں محفوظ ہے۔} 
غرناطہ کے سفیر معاہدے کی دستاویز کوفرڈی ننڈ سے منظورکرانے کے بعد غرناطہ پہنچے۔ایک بار پھر قصرِ الحمراء میں امرائے غرناطہ کااجلاس ہوا۔معاہدے کی دستاویز کو حتمی مان لیا گیا۔صرف موسیٰ بن ابی الغسان نے اس کی مخالفت کی اورمستقبل کانقشہ کھینچتے ہوئے کہا:
’’نوحہ وزاری کاکام عورتوں اور بچوں کے لیے چھوڑدو۔ہم مرد ہیں ۔ہم آنسو نہیں خون بہانے لیے پیدا ہوئے ہیں۔میں دیکھ رہاہوں کہ حریت کی روح مرچکی ہے اورغرناطہ کوبچانا محال ہوگیاہے۔مگر ایک چیز باقی ہے جسے غیور انسان پسند کریں گے۔وہ ہے عزت کی موت۔ہم اپنی آزادی کی خاطر اوردشمن سے انتقام کے لیے کٹ مریں گے۔فاتحین کے ہاتھوں ظلم کی زنجیریں پہننے سے کہیں بہتر ہے کہ مادرِوطن ہمیں آزادی کے لیے لڑتاہوا  اپنی آغوش میں لے لے۔ اگر ہماری ہڈیوں کوایک قبر کی پناہ نہ ملے توبھی اس آسمان کاسایہ ان پر باقی رہے گا۔اللہ نہ کرے کہ کل کوئی یہ کہے کہ غرناطہ کے شرفاء اپنے دفاع کے لیے مرمٹنے سے ڈرتے تھے۔‘‘
ابوعبداللہ نے دربار پر نگاہ ڈالی ،سبھی کے چہروں پرمایوسی کھنڈی ہوئی تھی۔اس کے منہ سے نکلا:’’اللہ اکبر!…لاالٰہ الااللہ،محمدرسول اللہ…اللہ کی تقدیر کوکون ٹال سکتاہے۔یقینامیںبدبخت ہوں…یہ مملکت میرے ہاتھوں سرنگوں ہونی تھی۔‘‘
موسیٰ بن ابی غسان نوشتۂ تقدیر پڑھ چکاتھا۔اس نے آخری بار امرائے غرناطہ کومخاطب کرکے واشگاف الفاظ میں کہا:’’اپنے آپ کو دھوکا مت دو۔کیاتم گمان کرتے ہوکہ نصرانی معاہدے کی پاسداری کریں گے!شاہِ نصاریٰ کی شان وشوکت پرمت ریجھو!یہ لوگ ہمارے خون کے پیاسے ہیں۔ہمیں خوف زدہ کرنے والی چیزوں میں موت سب سے آسان ہے۔ہمارے سامنے ہے اپنے شہروں کی تباہی وبربادی ،اپنی مساجد کی بے حرمتی ،اپنے گھروں کی پامالی ، اپنی عورتوں کی عصمت دری۔ ہمارے سامنے ہے کھلم کھلا ظلم اورپاگل پن کی حدتک تعصب ۔ہمارے سامنے ہیںکوڑے ، طوق ،بیڑیاں ،جیل خانے ،عقوبت خانے اورآگ کے الاؤ۔بہت جلد ہم ان تمام مظالم کے لیے تختۂ مشق ہوں گے۔جو بزدل لوگ آج ایک باعزت موت سے ڈررہے ہیں وہ عن قریب یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے ۔مگر میں ہرگزیہ نہیں دیکھوں گا۔‘‘
موسیٰ بن ابی الغسان یہ کہہ کرتیزی سے دربار سے باہرنکل گیا۔ سب خاموشی سے اسے تکتے رہ گئے۔ موسیٰ نے سرسے پاؤں تک بھاری زرہ پہنی، اسلحہ لگایا،نیزہ تھام کراپنے برق رفتارگھوڑے پرسوار ہوا اورغرناطہ سے باہر نکل گیا۔اس کے بعدکسی نے اسے نہیں دیکھا۔تاریخی روایات بتاتی ہیں کہ اسی دن شہر سے باہر ایک زرہ پوش نے دریائے شنیل کے کنارے پہرہ دینے والے پندرہ نصرانیوں کی ایک ٹولی پر تن تنہا حملہ کردیا۔اس نے نیزے کے پے درپے وارکرکے کئی نصرانیوںکو مار گرایا۔ جوابی حملے میں وہ خود بھی شدید زخمی ہوامگراسی طرح بے جگری سے لڑتارہا۔آخر اس کے گھوڑاکو ایک کاری زخمی لگا اور اس کے ساتھ وہ بھی زمین پر آ گرا۔ نصرانیوں نے اسے زندہ گرفتارکرنے کی کوشش کی مگر اس حالت میں بھی وہ گھنٹوں کے بل اٹھ کرخنجر چلاتارہااور جب لڑنے کی رمق ختم ہوگئی تواس نے خود کودریائے شنیل میں گرادیا۔بھاری زرہ بکتر کی وجہ سے وہ تیرنہ سکااوردیکھتے ہی دیکھتے ڈوب گیا۔اس کی لاش نہ مل سکی۔قسطالیہ کے لشکر میں شامل بعض عربوں نے جنہیں جبراً عیسائی بنایاگیاتھا، مرے ہوئے گھوڑے کودیکھ کر گواہی دی کہ یہ موسیٰ بن ابی الغسان کی سواری تھی۔
۲ ربیع الاول ۸۹۷ھ (۲جنوری ۱۴۹۲ء) کومؤذنوںنے آخری بار اندلس کے اس آخری آزاد شہر میں صدائے توحید ورسالت بلند کی ۔چند ساعت بعد وہاںغلامی کی اندھیری رات چھاگئی۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 استاذ القراء کاسفرِ آخرت 1 1
3 فنا فی القرآن 2 1
4 مثالی استاذ 3 1
5 استاذ گرامی کی کچھ یادیں 4 1
6 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۱) 5 1
7 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۲) 6 1
8 پاک بھارت جنگ کے امکانات …اورمعرکۂ پانی پت 7 1
9 رمضان اورقرآن 8 1
10 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۱) 9 1
11 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۲) 10 1
12 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۳) 11 1
13 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار [1] 12 1
14 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۲) 13 1
15 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق 15 1
16 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۲) 16 1
17 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۳) 17 1
18 سیرتِ نبویہ کے جلسے اورواعظین کے لیے لمحۂ فکریہ 18 1
19 ترک عوام جنہوںنے تاریخ بدل دی 19 1
20 اسلام میں جہاد کاتصور…اسلامی نظریاتی کانفرنس کااجلاس 20 1
21 نعمتوں کی ناقدری 21 1
22 یوم پاکستان اوردینی مدارس 22 1
23 دسمبر سے دسمبر تک 23 1
24 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۱) 24 1
25 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۲) 25 1
26 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۳) 26 1
27 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۴) 27 1
28 اکبر اوردینِ الہٰی 28 1
29 اللہ کی امانت (۱) 29 1
30 اللہ کی امانت (۲) 30 1
31 شیخ النمر کی سزائے موت 31 1
32 سمندری شیر(1) 32 1
33 سمندری شیر(2) 33 1
34 سمندری شیر(3) 34 1
35 ایک دن بھاولپور میں 35 1
36 ایدھی صاحب 36 1
37 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے 37 1
38 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے (۲) 38 1
39 فضلائے مدارس کی کھپت ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۱) 39 1
40 مدارس کے فضلاء ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۲) 40 1
41 صحبتِ یا رآخر شد 41 1
42 صحبتِ یا رآخر شد(۲) 42 1
43 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج 43 1
44 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج(۲) 44 1
45 انصاف زندہ ہے 45 1
46 جرمنی اورعالم اسلام(۱) 46 1
47 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (1) 49 1
48 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (2) 50 1
49 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (3) 51 1
50 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (4) 52 1
51 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(1) 53 1
52 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(2) 54 1
53 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(3) 55 1
54 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(4) 56 1
55 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت 57 1
56 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت (۲) 58 1
57 ایک قابلِ توجہ مسئلہ 59 1
58 کس منہ سے(۱) 60 1
59 کس منہ سے(۲) 61 1
61 سفر وسیلۂ ظفر 62 1
62 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے 63 1
63 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے (۲) 64 1
64 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۱) 65 1
65 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۲) 66 1
66 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۳) 67 1
67 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۴) 68 1
68 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (1) 69 1
69 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۲) 70 1
70 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۳) 71 1
71 بانی ٔ رُہتاس 72 1
72 بانی ٔ رُہتاس (۲) 73 1
73 بانی ٔ رُہتاس (۳) 74 1
74 شہ سواری اورتیراندازی 75 1
75 شام کی صورتحال اورمستقبل کے خطرات 76 1
76 تبدیلی کی کوشش(۱) 77 1
77 تبدیلی کی کوشش(۲) 78 1
78 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۱) 79 1
79 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۲) 80 1
80 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۳) 81 1
81 تطہیر الجنان۔ایک لاجواب شاہکار 82 1
82 تہذیب حجاز ی کامزار(1) 83 1
83 تہذیب حجاز ی کامزار (2) 84 1
84 تہذیب حجاز ی کامزار (3) 85 1
85 تہذیب حجاز ی کامزار (4) 86 1
86 تہذیب حجاز ی کامزار (5) 87 1
87 تہذیب حجاز ی کامزار (6) 88 1
88 تہذیب حجاز ی کامزار (7) 89 1
89 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۱) 90 1
90 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۲) 91 1
91 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۳) 92 1
92 یوسف بن تاشفین(۱) 93 1
93 یوسف بن تاشفین(۲) 94 1
94 یوسف بن تاشفین(۳) 95 1
95 جرمنی اورعالم اسلام (۲) 47 1
96 جرمنی اورعالم اسلام (۳) 48 1
97 شیخ محمد بن عبدالوہاب ،آلِ سعود اورایرانی حکومت 96 1
98 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا 97 1
99 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا (۲) 98 1
100 خود احتسابی اور سروے کا طریقِ کار 99 1
101 اونچی اڑان 100 1
102 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین 101 1
103 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین (۲) 102 1
104 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۳) 14 1
Flag Counter