Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ 2016

40 - 102
مدارس کے فضلاء ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۲)
بڑے شہروں میں طلب کی کمی اوررسد کی زیاتی نے ایسی صورتحال پیداکردی ہے کہ اسے دیکھ کر دل غم واندوہ میں ڈوب جاتاہے۔ پہلے مساجد والے امام وخطیب کواور مدارس والے مدرس کو ڈھونڈاکرتے تھے ، اب امام اور مدرس کو جگہ تلاش کرناپڑتی ہے اورامیدواروں کی قطار میں کھڑ ارہنا پڑتاہے۔ حسبِ مطلب کام نہ پانے والے ساتھیوں میں سے جو خالص دنیوی کاروبار یاملازمت میں لگ جاتے ہیں۔ راقم کے خیال میں یہ بھی غنیمت ہے ورنہ ایسے بھی کم نہیں جو پریشانی سے تنگ آکر ’’ہرپریشانی کے علاج‘‘ کی دکانیں کھول لیتے ہیں یاکوئی اورایساسلسلہ اختیارکرلیتے ہیں جو شرعی اوراخلاقی لحاظ سے کسی بھی طرح قابلِ تعریف نہیں کہاجاسکتا۔ 
راقم کے سامنے ایسے فضلاء کے حالات بھی ہیں جو  اکثر کلا س میں پوزیشن لیتے رہے،ممتاز نمبروں سے دورۂ حدیث کیا ،اس کے بعد ان کی اوران کے والدین کی نیت صرف یہی تھی کہ وہ دینی خدمت میں مشغول ہوں مگر جب فراغت کے بعدانہوںنے مدارس میں تدریس کی درخواست دی تو اکثرجگہ سے یہی جواب ملا کہ تدریس کی نشستیں پر ہوچکی ہیں، ہمارے پاس اپنے فضلاء کے لیے بھی جگہ نہیں ، کہیں اورکوشش فرمالیں۔کہیں یہ شرط لگائی گئی کہ فلاں فلاں تخصص کرلیں تو پھر سوچاجاسکتاہے۔
دورۂـ حدیث کے بعد پہلا سال بہت ہی اہم ہوتاہے۔ اس سال میں جس طرف رُخ ہوگیا ،عموماً زندگی اسی سانچے میں ڈھل جاتی ہے۔ میرے سامنے ایسی مثالیں بکثرت ہیں کہ دورہ حدیث کے بعد پہلا سال اسی کوشش میں گزرگیاکہ کہاں جائیں اورکیا کریں۔ تدریس کی جگہ نہ ملنے پر یہ سوچ کر تخصص  میں داخلہ لے لیاکہ اب آسانی سے جگہ مل جائے گی ۔ایک یا دو سال فقہ یا دیگر تخصصات پر بھی لگادیے گئے۔اس کے بعد کچھ کو کام مل گیا مگرپسند کانہیں ۔جواعلیٰ درجے کا کتابی مدرس بن سکتاتھا، اسے کسی جگہ امامت پر اکتفاکرناپڑا۔جس کاخواب مسندِ افتاء تھا،اسے تدریس کے ساتھ سمجھوتہ کرناپڑا۔
راقم جو حقائق پیش کررہاہے ،ان کا مقصد مدارس کے کردار اورمقام پر اعتراض ہرگزنہیں۔ منشاء صرف یہ ہے کہ ہم اپنے نظام پر اس حوالے سے غور کریں کہ کس طرح فضلاء کو زیادہ کارآمد بنایا جاسکتا ہے اورکس طرح ان پر خرچ کی جانے والی خطیر رقم سے بہتر ثمرات حاصل کیے جاسکتے ہیں۔اب تک ہم اپنے فضلاء پرکسبِ معاش اورطلبِ دنیا کے حوالے سے تنقید کرتے ہی آرہے ہیں جس کاکوئی نتیجہ نہیں نکل رہا۔ کیایہ بہتر نہ ہوگا ہم ان کی مجبوریوں پر بھی غور کریں کہ وہ فارغ ہوکر آخرکن حالات سے نبر دآزماہوتے ہیں اورکیا ساراقصوران کی نیت کے فساد کاہے یاان حالات میں ان کے پاس کوئی اورراستہ نہیں رہتا۔
کسی بھی تعلیمی ادارے سے فارغ ہونے والوں کی حیثیت کنوئیں سے نکلنے والے پانی کی سی ہے۔ پانی کو راستہ چاہیے۔ اگر راستہ نہیں ملے گاتو وہ ادھر اُدھربہہ جائے گا۔جہاں تک میں سمجھاہوں ، ہمارے ہاں پالیسی کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ ہم نے یہ تصور کررکھاہے کہ مدرسے کااصل مقصدتوطالب علم کوصرف ،نحو، فقہ اورحدیث کا مدرّس بناناہوتاہے۔جو اس صلاحیت کانہ ہو، وہ پھر امام یاخطیب بن جائے۔ہماراسارانصاب اورنظام اسی نکتے کے گرد گھومتادکھائی دیتاہے۔
اس میں شک نہیں کہ ایک دورمیں یہی پالیسی صحیح تھی کہ اس وقت مدارس تھے ہی اکادُکا۔مدرّس نہ ہوتے تو مزید مدارس کیسے قائم ہوتے اورعلم کاسلسلہ کیسے آگے چلتا۔
مگر اب ہم اکیسویں صدی میں ہیں جس میں تقاضے بہت بدل چکے ہیں۔ دینی تعلیم کی ضرورت آج بھی ہے اورپہلے سے بڑھ کر۔مگراس کا میدان بہت وسیع ہوچکاہے۔ آج معاشرے میں ایک ہزار مدرّسین کی ضرورت ہے تو عصری تعلیمی اداروں میں دین کی صحیح تعلیم دینے والے پانچ ہزار مدرّسین چاہییں۔ اگرمساجدمیں ہزاروں ائمہ وخطباء درکارہیں تواسی طرح میڈیا پر اسلام کی صحیح ترجمانی کرنے والے ، تصنیف وتحقیق کے میدان میں کام کرنے والے بھی چاہییں۔ معیشت و تجارت ، زراعت ،صنعت وحرفت ،سیاست ، قانون ،قانون کے محافظ اداروں اورفوج تک میں ایسے ہزاروں رجالِ کارکی ضرورت ہے جودینی تعلیم سے بھی آراستہ ہوں اورعصری علوم وفنون میں بھی قابلِ رشک صلاحیت رکھتے ہوں۔ 
بلاشبہ وفاق المدارس العربیہ کے تحت ’’دراساتِ دینیہ ‘‘ کاشعبہ ایک حدتک یہ ضرورت پوری کرتا ہے مگر کیا ایسانہیں ہوسکتاکہ ہر مدرسے میں یابڑی جامعات میں دورۂ حدیث کرنے والے فضلاء کے لیے ایسے کورسز رکھے جائیں کہ وہ اپنی دلچسپی ،شوق اورصلاحیت کے مطابق مختلف محاذوں پر بلاجھجھک پوری تیاری کے ساتھ پہنچ سکیں۔ 
راقم صرف توجہ دلانے کے لیے یہ سطور لکھ رہاہے۔فردِ واحد کی فکرِ نارسا یاچند کالموں سے یہ مسئلہ  طے نہیں ہوسکتا۔راقم کی گزار ش ہے کہ جو اہلِ علم صورتحال کے اس پہلو کو دیکھ رہے ہیں ،وہ مہرِ سکوت توڑیں اوراپنافرض سمجھتے ہوئے ،اظہارِ رائے فرمائیں ۔مختلف آراء سامنے آنے کے بعد اس سنجیدہ مسئلے کواکابر سے مشاورت اور طویل غوروخوض کے لیے ذریعے حل کیاجاسکتاہے۔ مگراس کے ساتھ ایسے  فضلا ء جو اس وقت کسبِ معاش میں لگے ہوئے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ اگر نظام کچھ  مختلف ہوتاتو وہ عملی میدانوں میں بہتر کارکردگی کے ساتھ کام کرسکتے تھے،کے ایک نمائندہ پینل کومدعو کرناضروری ہوگا ۔
یہ حقیقت توہم سب کومعلوم ہے کہ  اسلام جہاں تحصیلِ علم کی ترغیب دیتے ہوئے کہتاہے طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم ۔(علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔){ابن ماجہ}وہاں کسبِ حلال کی بھی تعلیم دیتے ہوئے اعلان کرتاہے کسب الحلال فریضۃ بعدالفریضۃ( دیگر فرائض کے بعد حلال کمانا بھی فرض ہے۔){مشکوٰۃ}
اس لیے اسلام کی حدودوقیود کے اندر کسبِ معاش میں لگاہواکوئی شخص قابلِ الزام نہیں چاہے وہ عامی ہویاعالم۔ ہاں یہ بات ضرورمحلِ نظر ہے کہ آخر عالم کو کن حالات نے مجبور کیاکہ وہ ایک عامی شخص کی جگہ کام کرے اور اس حالت میں وہ اپنے علمی مقام سے کس طرح انصاف کرسکتاہے۔ 
  اس ساری خامہ فرسائی کاحاصل بس یہی ہے کہ ہم اس مسئلے کو دیکھنے اوراس کاحل نکالنے پرتوجہ دیں تاکہ دینی مدارس کی عظیم الشان محنت کے بہتر سے بہتر نتائج سامنے آئیں۔ اس سلسلے میں ہم  تنظیم المدارس العربیہ اوردینی تعلیم کے دیگر بورڈز کی حکمت ِ عملی کو بھی سامنے رکھ کر ان کے تجربات سے  فائدہ اٹھاسکتے ہیں جن کی توجہ اس پر مرکوز ہے کہ کس طرح ہر شعبے میں دینی فضلاء کو نمائندگی دی جائے  اور سیکولر لابی کے اثرا ت کوکم سے کم کیاجائے۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 استاذ القراء کاسفرِ آخرت 1 1
3 فنا فی القرآن 2 1
4 مثالی استاذ 3 1
5 استاذ گرامی کی کچھ یادیں 4 1
6 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۱) 5 1
7 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۲) 6 1
8 پاک بھارت جنگ کے امکانات …اورمعرکۂ پانی پت 7 1
9 رمضان اورقرآن 8 1
10 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۱) 9 1
11 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۲) 10 1
12 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۳) 11 1
13 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار [1] 12 1
14 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۲) 13 1
15 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق 15 1
16 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۲) 16 1
17 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۳) 17 1
18 سیرتِ نبویہ کے جلسے اورواعظین کے لیے لمحۂ فکریہ 18 1
19 ترک عوام جنہوںنے تاریخ بدل دی 19 1
20 اسلام میں جہاد کاتصور…اسلامی نظریاتی کانفرنس کااجلاس 20 1
21 نعمتوں کی ناقدری 21 1
22 یوم پاکستان اوردینی مدارس 22 1
23 دسمبر سے دسمبر تک 23 1
24 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۱) 24 1
25 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۲) 25 1
26 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۳) 26 1
27 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۴) 27 1
28 اکبر اوردینِ الہٰی 28 1
29 اللہ کی امانت (۱) 29 1
30 اللہ کی امانت (۲) 30 1
31 شیخ النمر کی سزائے موت 31 1
32 سمندری شیر(1) 32 1
33 سمندری شیر(2) 33 1
34 سمندری شیر(3) 34 1
35 ایک دن بھاولپور میں 35 1
36 ایدھی صاحب 36 1
37 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے 37 1
38 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے (۲) 38 1
39 فضلائے مدارس کی کھپت ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۱) 39 1
40 مدارس کے فضلاء ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۲) 40 1
41 صحبتِ یا رآخر شد 41 1
42 صحبتِ یا رآخر شد(۲) 42 1
43 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج 43 1
44 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج(۲) 44 1
45 انصاف زندہ ہے 45 1
46 جرمنی اورعالم اسلام(۱) 46 1
47 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (1) 49 1
48 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (2) 50 1
49 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (3) 51 1
50 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (4) 52 1
51 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(1) 53 1
52 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(2) 54 1
53 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(3) 55 1
54 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(4) 56 1
55 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت 57 1
56 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت (۲) 58 1
57 ایک قابلِ توجہ مسئلہ 59 1
58 کس منہ سے(۱) 60 1
59 کس منہ سے(۲) 61 1
61 سفر وسیلۂ ظفر 62 1
62 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے 63 1
63 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے (۲) 64 1
64 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۱) 65 1
65 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۲) 66 1
66 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۳) 67 1
67 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۴) 68 1
68 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (1) 69 1
69 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۲) 70 1
70 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۳) 71 1
71 بانی ٔ رُہتاس 72 1
72 بانی ٔ رُہتاس (۲) 73 1
73 بانی ٔ رُہتاس (۳) 74 1
74 شہ سواری اورتیراندازی 75 1
75 شام کی صورتحال اورمستقبل کے خطرات 76 1
76 تبدیلی کی کوشش(۱) 77 1
77 تبدیلی کی کوشش(۲) 78 1
78 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۱) 79 1
79 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۲) 80 1
80 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۳) 81 1
81 تطہیر الجنان۔ایک لاجواب شاہکار 82 1
82 تہذیب حجاز ی کامزار(1) 83 1
83 تہذیب حجاز ی کامزار (2) 84 1
84 تہذیب حجاز ی کامزار (3) 85 1
85 تہذیب حجاز ی کامزار (4) 86 1
86 تہذیب حجاز ی کامزار (5) 87 1
87 تہذیب حجاز ی کامزار (6) 88 1
88 تہذیب حجاز ی کامزار (7) 89 1
89 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۱) 90 1
90 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۲) 91 1
91 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۳) 92 1
92 یوسف بن تاشفین(۱) 93 1
93 یوسف بن تاشفین(۲) 94 1
94 یوسف بن تاشفین(۳) 95 1
95 جرمنی اورعالم اسلام (۲) 47 1
96 جرمنی اورعالم اسلام (۳) 48 1
97 شیخ محمد بن عبدالوہاب ،آلِ سعود اورایرانی حکومت 96 1
98 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا 97 1
99 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا (۲) 98 1
100 خود احتسابی اور سروے کا طریقِ کار 99 1
101 اونچی اڑان 100 1
102 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین 101 1
103 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین (۲) 102 1
104 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۳) 14 1
Flag Counter