Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ 2016

60 - 102
کس منہ سے(۱)
ایک مدت سے مغربی میڈیا ،اہلِ مشرق کی ہر اس کوشش کو غیرمعمولی پذیرائی دے رہاہے جس سے یہ ثابت ہو کہ مشرق میں انسانی حقوق کس طرح پامال ہوتے آرہے ہیں ،وہاں انسانوں کو کس طرح غلامی کی زندگی جینے پر مجبور کیا جاتاہے ،وہاں عورت کا کس طرح استحصال ہورہاہے ،مذہبی جوش وجذبے نے وہاں جنون کی کیفیت اختیار کی ہوئی ہے۔غریبوں کی زندگی اجیرن ہے۔ مفلسی اورفاقہ کشی کی وجہ سے لوگ خود کشیاں کررہے ہیں اورجسم فروشی عام ہورہی ہے۔شرمین چنائے کو پاکستانی معاشرے کے ایسے ہی موضوعات پر کام کرنے کی وجہ سے دو آسکر ایوارڈ ز مل چکے ہیں ۔مشرق کے ان المیوں سے ہمیں انکارنہیں مگرکیا مغرب انہیں اس لیے نمایاں کررہاہے کہ وہ مشرق کو ان مسائل کے حل کی طرف متوجہ کرناچاہتاہے ؟ اگر ایساہوتا تو پھر مغربی دنیا پوری دیدہ دلیری سے ان سنگین جرائم کاارتکاب نہ کرتی جن سے یہ المیے پیداہوتے آرہے ہیں ۔جن کی وجہ سے چندسرمایہ دار،مشرق کی دولت پرقابض ہوتے چلے جارہے ہیں، جن کے سبب مشرق کا کسان اورزمین دار اپنے رقبے فروخت کرنے پر مجبورہے ۔ افغانستان سے شام تک جگہ جگہ جنگ مسلط کرنے میں مغربی دنیا کاکتنا ہاتھ ہے ۔فلسطین اورشام کے لاکھوں مسلمان کس جرم میں پناہ گزینی کی زندگی گزاررہے ہیں ۔مشرق میں لوگ فاقہ کش ہیں اورعورت کی عزت  نیلام ہورہی ہے توآخر کیوں ؟چند صدیاں پہلے کاخوشحال مشرق ،موجودہ بدحالی تک پہنچاکیسے۔ آج مغرب اپنی اس تاریخ کو چھپانے کے لیے جو بدترینظلم  وستم، مکروفریب اوراستبدادواستحصال کامرقع ہے ،ایسے موضوعات کو چھیڑرہاہے جن سے مشرق بدنام ہو۔ مشرق میں بھی اس کے فکری ونظریاتی حملے کااصل ہدف عالم اسلام اورمسلمان ہیں ۔
اسی ضمن میں آج کل یہ بحث بھی چھیڑی جارہی ہے کہ مسلمانوں نے تلوار سے اسلام پھیلایا، دنیا کو غلام بنایا۔ اسلامی تہذیب وثقافت کادوسرانام غلاموں کی تجارت اورباندیوں کی خرید وفروخت تھا۔ نہ صرف بڑے بڑے بادشاہوں ،شہزادوں ،امراء بلکہ علماء اوربزرگوں کے پاس بھی کئی کئی باندیاں ہوتی تھیں،کئی کئی غلام ہوتے تھے جن سے جانور وں کی طرح خدمت لی جاتی تھی۔  
اس  الزام کے جواب میں اس سے پہلے کہ ہم اپنے دفاع میں کچھ کہیں ،کیوں نہ معترضین کے دامن پر لگے وہ داغ ملاحظہ کیے جائیں ،جنہیں چھپانے کے لیے یہ ساری مہم جاری ہے۔
یہ تصویر کاوہ رخ ہے جس کے لیے آج قلم اٹھنے پر مجبور ہے اوراس حوالے سے مغرب کاچہرہ بے نقاب کرنا چاہتا ہے۔ یونا ن کی تاریخ کودیکھیں کہ عہدِ قدیم کی سب سے متمدن مملکت کہلانے والی اس راج دھانی میں غلاموں کے کیا حقوق تھے۔ وہاں غلاموں کی تعداد آزاد لوگوں سے بڑھ گئی تھی ۔ وجہ یہ تھی کہ ہر پیشہ ور،ہنرمند اورمحنت مزدور ی کرنے والے کووہاں غلام شمار کیاجاتاہے۔یونانی فلاسفہ کے استاذ ارسطو کاکہناتھا:’’’غریب لوگ پیدائشی طورپر امراء کے غلام ہیں۔‘‘تین لاکھ غلاموں اورنوے ہزار آزاد شہریوں کی اس ریاست میں افلاطون بڑے مزے سے آزادی ،مساوات اور جمہوریت پر مقالات پیش کرتاتھااورشاگردوں کی ایک جماعت دادوتحسین کے ڈونگرے برساتی تھی۔
اس تہذیب میں غلاموں کوقتل کردینا یا ان کا جنسی استحصال کرنا بھی کوئی جرم نہ تھا۔ نہ صرف انفرادی بلکہ بعض اوقات اجتماعی طورپربھی غلاموں کو قتل کیاجاتاتھا۔ انسانی اقدار کے یونانی معلم افلاطون کے نزدیک غریب لوگ عام انسان نہیں تھے بلکہ ان کی پیدائش ہی غلامی اورمفلوک الحالی کے لیے ہوئی تھی۔وہ اپنی مشہور کتاب،ری پبلک میں کہتاہے:
’’کچھ لوگوں میں حکمرانی کی صلاحیت ہے۔وہ سونے سے پیداہوئے ہیں ۔ کچھ لوگوں میں ان سے تعاون کی ـصلاحیت ہے ۔وہ چاندی سے پیداہوئے ہیں ۔ کچھ لوگ کاشت کار اورہنر مند ہیں ۔وہ پیتل اورلوہے سے پیداہوئے ہیں۔‘‘
عورتیں زرخریدباندیاں سمجھی جاتی تھیں۔ ان کے متعلق افلاطون کاکہناتھا:’’عورت کی فطرت نیکی کے معاملے میں  پست تر ہے۔‘‘ یہی وجہ تھی کہ انصاف اورتعلیم سمیت ان کا کوئی حق نہ تھا۔ یونانی قانون میں عورت کے قتل کی کوئی سزانہ تھی ۔ شوہر اپنی بیوی کوقتل کردیتاتویہ ایساہی تھا جیسے وہ مرغی یابکری ذبح کردے۔اسے اس کاپوراحق تھا۔
یورپ کی دوسری بڑی تہذیب ’’سلطنتِ روما‘‘ کی شکل میں ابھری جس کے گن آ ج بھی گائے جاتے ہیں ۔یہی وہ سلطنت تھی جس سے اسلام کو اپنے ظہور کے ابتدائی برسوں میں پالاپڑااورجسے خلفائے راشدین کے دورمیں ایشیا سے بے دخل کیاگیا۔رومی تہذیب میں جو علاقے فتح کیے جاتے تھے انہیں مکمل طورپر غلام بنالیاجاتاتھا۔ان غلاموں کے حقوق کی بات ایک مذاق سمجھی جاتی تھی ۔ رومی تہذیب اگرچہ فلاسفہ کے تابع نہ تھی مگر فلاسفہ کے بعض افکاران پر اثر انداز ضرور تھے۔افلاطون کہتاتھا:
’’انصاف ،طاقت ور کے مفاد کے سواکچھ نہیں۔د نیا میں ہر جگہ انصاف کا فقط ایک اصول ہے۔ وہ ہے طاقتور کامفاد۔نیز غلاموں کو وہ سزاملنی چاہیے جس کے وہ حق دار ہیں ۔ اگرانہیں امراء کی طرح معمولی تنبیہہ کی جائے گی توان کے دماغ خراب ہوجائیں گے۔‘‘
رومی تہذیب میں افلاطون کایہ اصول غلاموں کے لیے طے شدہ تھا۔جی ایچ ویلز لکھتاہے کہ رومی تہذیب وتمدن میں غلاموں کوسخت سزائیں دی جاتی تھیں۔رات کے وقت انہیں زنجیروں میں جکڑدیاجاتاتاکہ وہ فرار نہ ہوسکیں۔ ان کے سر کے نصف بال موـنڈ دیے جاتے تاکہ وہ فرارہوں تو آسانی سے پہچان لیے جائیں۔ آقا کواجازت تھی کہ سزا کے لیے غلام کو کوڑوں سے مارے یااس کے اعضا ء کاٹ لے ۔چاہے توقتل بھی کردے۔
جب آقا گھوڑے پر سوارہوتاتوغلام ننگے پاؤں آگے آگے بھاگتے تھے۔بعض اوقات آقا اپنے غلام کی پیٹھ پر بھی بڑے شوق سے سواری کیاکرتے تھے اوراس کی سست گامی پر اسے جانور کی طرح کوڑوں سے لہولہان کردیتے تھے۔ تشدد سے تنگ آکرا گر کوئی غلام کبھی آقا کوقتل کردیتاتواس کی سزااس کے پورے گھرانے کودی جاتی اور اس کے بیوی بچوں کوبھی قتل کردیاجاتا۔ایک بار کسی امیر کو قتل کردیاگیا۔یہ معلوم نہ تھاکہ قاتل کون ہے مگر اس کی پاداش میںحویلی میں موجود چارسوغلام سولی پرچڑھادیے گئے کہ ان کے ہوتے ہوئے آقا کیوں قتل ہوگیا۔ 
اس دورمیں رومیوںنے ایشیااوریورپ میں بڑی بڑی جنگیں لڑیں اورفتوحات حاصل کیں ۔فتح کے بعد ایک ہی وقت میں بے شمار قیدی غلام بناکر فروخت کیے جاتے تھے۔ایک بار رومی مملکت میں قیدیوں  کی گنتی کی گئی تووہ چھ کروڑ کے لگ بھگ تھی ۔انسانی تاریخ میں اسیرانِ جنگ کی اتنی بڑی تعداد کہیں اورنہیں ملتی۔ چونکہ ایسے لوگ خود معاشرے پر بوجھ تھے اس لیے ان سے سخت ترین خدمات لی جاتی تھیں ،ان انسانی جانوں کابڑی بے دردی سے استعما ل کیاجاتاتھا اوران کی اجتماعی اموات کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی تھی ۔ اس سلسلے کاسب سے روح فرسا سلسلہ یہ تھا کہ بڑے بڑے اسٹیڈیمز میں جن کے باقیات آج بھی یونان اوراٹلی میں موجودہیں ،ان قیدیوں کو بھوکے درندوں سے لڑایاجاتاتھا۔فریقین میں سے کسی ایک کی موت تک یہ کھیل جاری رہتاتھا۔ سب سے روح فرسا موقع وہ ہوتاتھا جب اجتماعی طورپر انسانوں اوردرندوں کی باقاعدہ جنگ کرائی جاتی تھی۔ ٹیٹس رومی نے ایک بار پچاس ہزاردرندے جمع کرکے انہیں ہزاروں قیدیوں پر چھوڑدیا۔بعض مقابلوں میں بیک وقت گیارہ ہزاردرندے اوردس ہزا ر غلاموں کو لڑایاجاتاتھا۔ اسی طرح کبھی ان غلاموں کو آپس میں لڑایاجاتھا۔کلادیوس نے ایسے ہی ایک کھیل میں ۱۹ہزار غلاموں کو تلواریں دے کر باہم لڑایا۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 استاذ القراء کاسفرِ آخرت 1 1
3 فنا فی القرآن 2 1
4 مثالی استاذ 3 1
5 استاذ گرامی کی کچھ یادیں 4 1
6 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۱) 5 1
7 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۲) 6 1
8 پاک بھارت جنگ کے امکانات …اورمعرکۂ پانی پت 7 1
9 رمضان اورقرآن 8 1
10 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۱) 9 1
11 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۲) 10 1
12 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۳) 11 1
13 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار [1] 12 1
14 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۲) 13 1
15 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق 15 1
16 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۲) 16 1
17 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۳) 17 1
18 سیرتِ نبویہ کے جلسے اورواعظین کے لیے لمحۂ فکریہ 18 1
19 ترک عوام جنہوںنے تاریخ بدل دی 19 1
20 اسلام میں جہاد کاتصور…اسلامی نظریاتی کانفرنس کااجلاس 20 1
21 نعمتوں کی ناقدری 21 1
22 یوم پاکستان اوردینی مدارس 22 1
23 دسمبر سے دسمبر تک 23 1
24 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۱) 24 1
25 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۲) 25 1
26 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۳) 26 1
27 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۴) 27 1
28 اکبر اوردینِ الہٰی 28 1
29 اللہ کی امانت (۱) 29 1
30 اللہ کی امانت (۲) 30 1
31 شیخ النمر کی سزائے موت 31 1
32 سمندری شیر(1) 32 1
33 سمندری شیر(2) 33 1
34 سمندری شیر(3) 34 1
35 ایک دن بھاولپور میں 35 1
36 ایدھی صاحب 36 1
37 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے 37 1
38 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے (۲) 38 1
39 فضلائے مدارس کی کھپت ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۱) 39 1
40 مدارس کے فضلاء ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۲) 40 1
41 صحبتِ یا رآخر شد 41 1
42 صحبتِ یا رآخر شد(۲) 42 1
43 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج 43 1
44 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج(۲) 44 1
45 انصاف زندہ ہے 45 1
46 جرمنی اورعالم اسلام(۱) 46 1
47 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (1) 49 1
48 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (2) 50 1
49 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (3) 51 1
50 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (4) 52 1
51 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(1) 53 1
52 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(2) 54 1
53 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(3) 55 1
54 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(4) 56 1
55 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت 57 1
56 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت (۲) 58 1
57 ایک قابلِ توجہ مسئلہ 59 1
58 کس منہ سے(۱) 60 1
59 کس منہ سے(۲) 61 1
61 سفر وسیلۂ ظفر 62 1
62 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے 63 1
63 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے (۲) 64 1
64 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۱) 65 1
65 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۲) 66 1
66 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۳) 67 1
67 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۴) 68 1
68 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (1) 69 1
69 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۲) 70 1
70 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۳) 71 1
71 بانی ٔ رُہتاس 72 1
72 بانی ٔ رُہتاس (۲) 73 1
73 بانی ٔ رُہتاس (۳) 74 1
74 شہ سواری اورتیراندازی 75 1
75 شام کی صورتحال اورمستقبل کے خطرات 76 1
76 تبدیلی کی کوشش(۱) 77 1
77 تبدیلی کی کوشش(۲) 78 1
78 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۱) 79 1
79 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۲) 80 1
80 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۳) 81 1
81 تطہیر الجنان۔ایک لاجواب شاہکار 82 1
82 تہذیب حجاز ی کامزار(1) 83 1
83 تہذیب حجاز ی کامزار (2) 84 1
84 تہذیب حجاز ی کامزار (3) 85 1
85 تہذیب حجاز ی کامزار (4) 86 1
86 تہذیب حجاز ی کامزار (5) 87 1
87 تہذیب حجاز ی کامزار (6) 88 1
88 تہذیب حجاز ی کامزار (7) 89 1
89 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۱) 90 1
90 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۲) 91 1
91 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۳) 92 1
92 یوسف بن تاشفین(۱) 93 1
93 یوسف بن تاشفین(۲) 94 1
94 یوسف بن تاشفین(۳) 95 1
95 جرمنی اورعالم اسلام (۲) 47 1
96 جرمنی اورعالم اسلام (۳) 48 1
97 شیخ محمد بن عبدالوہاب ،آلِ سعود اورایرانی حکومت 96 1
98 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا 97 1
99 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا (۲) 98 1
100 خود احتسابی اور سروے کا طریقِ کار 99 1
101 اونچی اڑان 100 1
102 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین 101 1
103 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین (۲) 102 1
104 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۳) 14 1
Flag Counter