Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ 2016

18 - 102
سیرتِ نبویہ کے جلسے اورواعظین کے لیے لمحۂ فکریہ
ربیع الاوّ ل کامہینہ شروع ہوچکاہے۔ اس مہینے میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت بھی ہوئی اوروفات بھی۔اس حوالے سے سیرت نبویہ کے جلسے اورپروگرام بکثرت منعقد ہوتے ہیں اور علمائے کرام ،ائمہ مساجد،مقررین اورواعظین جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے مختلف پہلوؤں پرگفتگو کرتے ہیں۔چونکہ آج کل مطالعے اورتحقیق کاذوق بہت کم ہوگیاہے۔ بہت سے لوگ اس اہم موضوع پر بیان کرنے سے پہلے بھی کوئی تیاری نہیں کرتے ۔سیرت یاحدیث کامطالعہ کرنے کا وقت نہیں نکالتے۔بعض حضرات کو خوش آوازی کی وجہ سے زیادہ شہرت مل جاتی ہے،ان کے ایک ہی دن میں کئی کئی پروگرام بھی ہوتے ہیں۔مائک کے سامنے آنے کے بعدجو کچھ ذہن میں آتاہے، وہ اسی کو’’من جانب اللہ‘‘ سمجھ کربے جھجھک بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔راقم نے بکثرت دیکھاہے کہ اس دوران صحیح احادیث اورسیرت کی معتبر کتب کامواد بہت کم پیش کیاجاتاہے۔ اکثر سنی سنائی باتیں ہوتی ہیں ۔ان میں بعض واقعات توبالکل من گھڑت قسم کے ہوتے ہیں اورسمجھ نہیں آتاکہ آخر واعظین حضرات نے انہیں کس حوالے سے نقل کررہے ہیں۔
آج ان سطور میں چند ایسی باتوں کی طرف توجہ دلانامقصود ہے جو تحقیق کے خلاف ہیں مگر عام طورپرانہیں اتنے یقین کے ساتھ بیان کیاجاتاہے جیسے یہ بخاری ومسلم میں موجودہوں۔
(۱)عام طورپر بارہ ربیع الاوّل کو یوم ولادت اوریوم وفات سمجھاجاتاہے جبکہ تحقیقی لحاظ سے یہ دن یوم ِ ولادت ہے نہ یوم وفات۔ولادت میں مشہورقول بارہ ربیع الاول کا ہے مگرمحققین کے مطابق اس سال صفر ۳۰ کا تھااوراس دن اتوارتھا۔اس کے بعد ۹ ربیع الاوّل بروزپیر کو (۲۰اپریل۵۷۱ء)ولادت ہوئی۔ تقویمی حساب سے پیرکوبار ہ تاریخ کسی طرح نہیں بنتی۔ اس موضوع پر قاضی سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ اپنی شہرہ آفاق سیرت’’رحمۃ للعالمین‘‘ میں تفصیلی کلام کرچکے ہیں۔اسے ضروردیکھ لیاجائے۔
(۲)وفات کے بارے میں مشہور قول بارہ ربیع الاوّل کا ہے مگریہ بھی خلافِ تحقیق ہے ۔کیونکہ دوباتیں صحیح روایات کے مطابق طے ہیں۔ایک یہ کہ وفات کاواقعہ پیر کا ہے {بخاری:کتاب المغازی،باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم و وفاتہ} دوسرایہ کہ  اس سے قبل حجۃ الوداع دس ذی الحجہ بروزجمعہ ادا ہواتھا۔ ان دوبنیادوں کوسامنے رکھ کرہرپڑھالکھا شخص حساب لگاسکتاہے کہکسی بھی طرح بارہ ربیع الاول کوپیر کادن نہیں ہوسکتا۔قاضی سلیمان منصور پوری کے علاوہ حضرت مفتی رشید احمد صاحب لدھیانوی رحمہ اللہ نے اپنے بعض مواعظ میں اورحضرت شیخ الحدیث مولانامحمد زکریامہاجرمدنی رحمہ اللہ نے تقریربخاری شریف میں اس مسئلے کوخوب واضح کیاہے۔ اسے دیکھ لیاجائے۔
مگرچونکہ ان مسائل کی باریکیوں کو عوامی جلسوں میں سمجھانامشکل ہے ،اس لیے اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ عوام کے سامنے یہ تقویمی حسابات پیش کیے جائیں۔بلکہ جہاں مخالفت اورہنگامے کااندیشہ ہو،وہاں اس موضوع کوچھیڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ 
مگر یہ بھی درست نہیں ہوگاکہ خلافِ تحقیق باتوں کوہم من وعن دہراتے چلے جائیں۔بہتر صورت یہ ہے کہ عوامی اجتماعات میں اجمالاً صرف یہ بیان کیاجائے کہ ربیع الاوّل میں ولادت ہوئی اوراسی مہینے میں وفات ہوئی۔ گفتگوکازیادہ رُخ سیرت کے ان پہلوؤں سے کی طرف رکھاجائے جن سے عوام کی ایمانی ونظریاتی اصلاح ہوتی ہواورجن سے انہیں کوئی عملی سبق ملتاہو۔
(۳) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ عالیہ کو زیادہ سے زیادہ بیان کیاجائے کیونکہ اس وقت معاشرے میں اخلاقی انحطاط ناقابلِ بیان حدکو چھوررہاہے۔ شاید کہ کچھ دل نرم ہوجائیں اورکچھ لوگ انسانی اقدار کی طرف لوٹ آئیں۔
(۴) حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ کے حوالے سے دو واقعات بہت زیادہ بیان کیے جاتے ہیں۔ہم جب اسکول پڑھتے تھے تو اس وقت یہ درسی کتب میں بھی موجودتھے۔
ایک واقعہ یہ ہے کہ ایک بڑھیا اپنا سامان اٹھائے چلی جارہی تھی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھاتوماجراپوچھا۔اس نے بتایاکہ اس شہر میں ایک شخص ہمارے دین کی مخالفت کرتاہے۔اس کی باتوں میں آکرلوگ بہک جاتے ہیں ۔اس لیے اپنا دین بچانے کے لیے میں یہاں سے جارہی ہوں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کابوجھ خود اٹھالیا اورساتھ ساتھ چلے ۔اس اس کی منزل پر پہنچادیا۔ جب اس نے آخر میں پوچھا کہ بیٹاتم کون ہو۔ تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپناتعارف کرایاکہ میں وہی ہوں جس کے ڈر سے آپ نے شہر چھوڑاہے۔ اس پر وہ بڑھیامسلمان ہوگئی۔
دوسراواقعہ یہ ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس میں ایک بڑھیاتھی جو روزانہ اپنی چھت سے آپ پر کچراپھینک دیاکرتی تھی۔ایک دن اس نے کچرانہ پھینکا توحضورصلی اللہ علیہ وسلم اس کاحال احوال پوچھنے گھر میں چلے گئے ۔دیکھا تو وہ بیمار ہے۔ آپ نے اس کی بیمار پرسی کی اورکہا کہ آج کچرانہیں گراتومیں خیریت پوچھنے چلا آیا۔اس پر اس بڑھیانے کلمہ پڑھ لیا۔
یہ دونوں واقعات اتنے مشہور ہیں کہ بچہ بچہ انہیں جانتاہے۔ جب واعظین انہیں نقل کرتے ہیں توبعض لوگوں کے آنسونکل پڑتے ہیں۔آج کل انہیں نعتوں کاحصہ بھی بنادیاگیاہے ۔یہاں تک سناگیاہے کہ بعض غیرمسلم انہیں سن کرمسلمان ہوگئے۔
یہ سب کچھ اپنی جگہ درست ۔مگر سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ ان کاکوئی سنداً ثبوت بھی ہوناچاہیے۔کئی سال پہلے راقم ایک موقع پر ان دونوں واقعات کونقل کرناچاہتاتھا۔مگر پہلے خیال آیا کہ ان کی سند دیکھ لی جائے۔چنانچہ پہلے سیرت کی کتابیں دیکھیں ،پھراحادیث کی ۔پھر تاریخ کی ۔ آخر میںتفاسیر بھی چھانتارہا۔میراہدف یہ نہ تھاکہ یہ روایات صحیح سند سے ثابت ہوں۔ فقط یہ دیکھناتھا کہ آیا کسی ضعیف سند سے یابلاسند بھی کہیں کسی قدیم عربی مأخذ میں یہ موجودبھی ہیں !!
پانچ سال سے یہ تلاش جاری ہے مگر آج تک ان دونوں واقعات کا کہیں پتانہ چل سکا۔ حتیٰ کہ ’’موضوعات‘‘ پر علماء نے جو کتب لکھی ہیں ،اس ذخیرے میں بھی ان کاکوئی سراغ نہیں ملاجس سے خیال ہوتاہے کہ شاید انہیں قریبی ایک ڈیڑھ صدی میں وضع کیا گیاہے۔
جو حضرات اپنے مواعظ وخطبات میں ان واقعات کونقل کررہے ہیں ،ان سے گزارش ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی سند ہے توراقم کوبھی آگاہ کرکے عنداللہ ماجور ہوں۔( مجھے ہمہ دان ہونے کادعویٰ ہرگزنہیں،ہوسکتاکہ کسی کوان کی سندمعلوم ہو)اگرنہیں توپھر آپ بھی اس تلاش میں شریک ہوجائیں۔ جب تک سند نہ ملے ،انہیں نقل کرنے سے اجتناب کیاجائے۔
مگر بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی۔ یہاں سے توبات شروع ہوتی ہے۔ یہ سوال بڑی شدت سے اٹھتاہے کہ آیا ہم اتنے عرصے سے سیرت اورحدیث کے حوالے سے جوجو باتیں لوگوں کومجمعِ عام میں سنارہے ہیں ،کیاہمیں بتاسکتے ہیں کہ ان میں سے کونسی بات کہاں منقول ہے؟کیاایساتونہیں کہ بڑھیاکی روایات جیسی اوربھی بہت سی روایات ہوں جو ہم سنی سنائی کے فارمولے پرآگے نقل کررہے ہوں اورسنانے والوںنے بھی انہیں اسی اصول پر نقل کیاہو۔حقیقت میں ان کی کوئی سند ہونہ ثبوت۔
اگر ایساہے تویہ بہت خطرے کی بات ہے۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف من گھڑت باتوں کی نسبت بہت سخت گناہ ہے۔ارشادنبوی ہے:جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا ،اس نے کفر کیا ۔‘ ‘(مشکوٰۃ)
صحابہ کرام اسی لیے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے حالات وواقعات نقل کرنے میں سخت احتیاط کرتے تھے۔ بلکہ یہ ذمہ داری اداکرتے ہوئے صحابہ اورتابعین کی حالت غیر ہوجاتی تھی کہ کہیں کوئی روایت نقل کرنے میں کچھ کمی بیش نہ ہوجائے۔ اگرکوئی بات خلافِ اصول یاخلافِ عقیدہ نہ ہوبلکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے عین مطابق ہو،تب بھی اس کاسند سے ثابت ہونا اور سیرت یاحدیث کی کسی کتاب میں منقول ہوناضروری ہے۔اس کے بغیر چاہے کوئی بات بظاہر کتنی ہی اعلیٰ معلوم ہو، اسے مشتہر کرنا اوربلاتحقیق سناتے جانا،بالکل غلط ہے۔ یہ جاہلوں کاکام ہے،علماء کوہرگزایسازیب نہیں دیتا۔آئیے ہم یہ عہد کریں کہ اس ربیع الاوّل سے لے کرتادمِ آخر ہم سیرت کے حوالے سے وہی بات نقل کریں گے ،جو واقعی ثابت ہو۔
(rehanbhai@gmail.com)
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 استاذ القراء کاسفرِ آخرت 1 1
3 فنا فی القرآن 2 1
4 مثالی استاذ 3 1
5 استاذ گرامی کی کچھ یادیں 4 1
6 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۱) 5 1
7 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۲) 6 1
8 پاک بھارت جنگ کے امکانات …اورمعرکۂ پانی پت 7 1
9 رمضان اورقرآن 8 1
10 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۱) 9 1
11 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۲) 10 1
12 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۳) 11 1
13 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار [1] 12 1
14 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۲) 13 1
15 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق 15 1
16 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۲) 16 1
17 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۳) 17 1
18 سیرتِ نبویہ کے جلسے اورواعظین کے لیے لمحۂ فکریہ 18 1
19 ترک عوام جنہوںنے تاریخ بدل دی 19 1
20 اسلام میں جہاد کاتصور…اسلامی نظریاتی کانفرنس کااجلاس 20 1
21 نعمتوں کی ناقدری 21 1
22 یوم پاکستان اوردینی مدارس 22 1
23 دسمبر سے دسمبر تک 23 1
24 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۱) 24 1
25 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۲) 25 1
26 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۳) 26 1
27 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۴) 27 1
28 اکبر اوردینِ الہٰی 28 1
29 اللہ کی امانت (۱) 29 1
30 اللہ کی امانت (۲) 30 1
31 شیخ النمر کی سزائے موت 31 1
32 سمندری شیر(1) 32 1
33 سمندری شیر(2) 33 1
34 سمندری شیر(3) 34 1
35 ایک دن بھاولپور میں 35 1
36 ایدھی صاحب 36 1
37 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے 37 1
38 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے (۲) 38 1
39 فضلائے مدارس کی کھپت ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۱) 39 1
40 مدارس کے فضلاء ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۲) 40 1
41 صحبتِ یا رآخر شد 41 1
42 صحبتِ یا رآخر شد(۲) 42 1
43 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج 43 1
44 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج(۲) 44 1
45 انصاف زندہ ہے 45 1
46 جرمنی اورعالم اسلام(۱) 46 1
47 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (1) 49 1
48 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (2) 50 1
49 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (3) 51 1
50 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (4) 52 1
51 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(1) 53 1
52 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(2) 54 1
53 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(3) 55 1
54 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(4) 56 1
55 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت 57 1
56 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت (۲) 58 1
57 ایک قابلِ توجہ مسئلہ 59 1
58 کس منہ سے(۱) 60 1
59 کس منہ سے(۲) 61 1
61 سفر وسیلۂ ظفر 62 1
62 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے 63 1
63 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے (۲) 64 1
64 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۱) 65 1
65 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۲) 66 1
66 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۳) 67 1
67 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۴) 68 1
68 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (1) 69 1
69 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۲) 70 1
70 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۳) 71 1
71 بانی ٔ رُہتاس 72 1
72 بانی ٔ رُہتاس (۲) 73 1
73 بانی ٔ رُہتاس (۳) 74 1
74 شہ سواری اورتیراندازی 75 1
75 شام کی صورتحال اورمستقبل کے خطرات 76 1
76 تبدیلی کی کوشش(۱) 77 1
77 تبدیلی کی کوشش(۲) 78 1
78 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۱) 79 1
79 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۲) 80 1
80 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۳) 81 1
81 تطہیر الجنان۔ایک لاجواب شاہکار 82 1
82 تہذیب حجاز ی کامزار(1) 83 1
83 تہذیب حجاز ی کامزار (2) 84 1
84 تہذیب حجاز ی کامزار (3) 85 1
85 تہذیب حجاز ی کامزار (4) 86 1
86 تہذیب حجاز ی کامزار (5) 87 1
87 تہذیب حجاز ی کامزار (6) 88 1
88 تہذیب حجاز ی کامزار (7) 89 1
89 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۱) 90 1
90 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۲) 91 1
91 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۳) 92 1
92 یوسف بن تاشفین(۱) 93 1
93 یوسف بن تاشفین(۲) 94 1
94 یوسف بن تاشفین(۳) 95 1
95 جرمنی اورعالم اسلام (۲) 47 1
96 جرمنی اورعالم اسلام (۳) 48 1
97 شیخ محمد بن عبدالوہاب ،آلِ سعود اورایرانی حکومت 96 1
98 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا 97 1
99 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا (۲) 98 1
100 خود احتسابی اور سروے کا طریقِ کار 99 1
101 اونچی اڑان 100 1
102 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین 101 1
103 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین (۲) 102 1
104 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۳) 14 1
Flag Counter