انصاف زندہ ہے
اسلامی تاریخ میںمثالی عدل وانصاف کے ایسے واقعات کم نہیں جن پرمسلمان آج بھی فخر کرسکتے ہیں۔عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے نام سے کون واقف نہیںجن کے دورِ خلافت کاہر ورق سنہرے حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ان کے دور میں سابق خلیفہ ولید بن عبدالملک کے ایک شہزادے روح نے کچھ لوگوں کی دکانیں غصب کررکھی تھیں۔ شہزادے کاکہناتھا کہ اسے یہ دکانیں جاگیر میں ملی ہیں۔ دکان کے اصل مالکان نے شہادتوں اور ثبوتوں کے ساتھ عمر بن عبدالعزیز کے ہاں فریاد کی۔آپ نے شہزادے کو حکم دیا کہ دکانیں واپس کردو۔ وہ بولا:’’میرے پاس خلیفہ ولید بن عبدالملک کی تحریر موجودہے۔‘‘آپ نے فرمایا:’’جب دکانیں ان لوگوں کی ہیں اوراس کے ثبوت موجودہیں تو خلیفہ ولید کی تحریر کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔‘‘
مجلس برخاست ہوئی توروح نے باہر جاکر ان فریادیوں کو دھمکاناشروع کردیا۔انہوں نے عمر بن عبدالعزیز کو آگاہ کردیا۔آپ نے اپنے پولیس افسرسے کہا:
’’شہزادے کے پاس جاؤ۔اگر وہ دکانیںمالکان کے حوالے کردے تو ٹھیک،ورنہ اس کاسر کاٹ لاؤ۔‘‘
شہزادے کویہ اطلاع مل گئی۔اس دوران پولیس افسر بھی آن پہنچا اورتلوار کومیان سے ایک بالشت کھینچ کرکہا:’’ان کی دکانوں کا قبضہ انہیں دے دو…ورنہ …‘‘
روح کانپنے لگا اوردکانیں مالکان کے حوالے کردیں۔
سلطان محمود غزنوی سے بھی ساری دنیا واقف ہے۔وہ فقط فاتح نہیں عادل اوررعایاپرور بھی تھے۔ان کاعدل وانصاف تاریخ کی ایک زندہ حقیقت ہے۔رعایا کا حال معلوم کرنے کے لیے غزنی کے گلی کوچوں میں گشت کرنا سلطان کی عاد ت تھی جبکہ لوگ چین کی نیند سوتے تھے۔سلطان نے کبھی کسی مظلوم کی فریاد اَن سنی نہیں کی اورکبھی کسی کاظلم برداشت نہیں کیاچاہے وہ کتنا ہی بڑاعہدے دارکیوں نہ ہو۔ ایک بارکسی شخص نے سلطان سے فریادکی اورکہا:’’آپ کاایک رشتہ دار رات کو زبرستی میرے گھر میں گھس جاتاہے اورمجھے کوڑے مارمارکر گھر سے نکال دیتاہے اور خواتین کوبے آبروکرتاہے۔‘‘
سلطان کایہ سن کر بے چینی سے براحال ہوگیا۔ اس شخص کوکہا
:’’ جب بھی وہ بدبخت تمہارے گھر میں گھسے تم محل کی اس دیوار کے پاس آکر مجھے آوازدے دینا۔‘‘
تیسری شب سلطان کواس کی پکارسنائی دی:’’اے بادشاہ۔‘‘
سلطان نے جواب میں آوازلگائی :’’میں آرہاہوں۔‘‘
سلطان نے اس کے گھر پہنچ کراپنی آنکھوں سے افسر کو قابلِ اعتراض حالت میںدیکھا۔وہ سلطان کا بھانجاتھا۔کمرے میںشمع جل رہی تھی۔ سلطان نے اسے بجھادیا اورتلوارنکال کر ایک ہی وار میں اپنے بھانجے کا سرقلم کردیا۔ پھرفریادی سے کہا:’’اللہ کے بندے ! اگرایک گھونٹ پانی بھی ہو توفوراً مجھے پلا ۔‘‘
اس نے پیالے میں پانی حاضر کیا۔سلطان پانی پی کر رخصت ہونے لگے تو فریادی نے دامن پکڑکرکہا:’’آپ کو اللہ کی قسم ! یہ توبتادیجیے کہ شمع گل کرنے اورسرقلم کرنے کے فوراً بعدپانی منگوانے میں کیابھید ہے؟‘‘
سلطان نے کہا:’’شمع اس لیے بجھائی تھی کہ کہیں مجھے اپنے بھانجے پر رحم نہ آجائے ۔پانی اس لیے مانگا کہ تمہاری فریاد سن کر میں نے اللہ سے عہد کیاتھا کہ جب تک تمہیں انصاف نہ دلادوں تب تک نہ کچھ کھاؤں گانہ پیوں گا۔‘‘
اس دورمیں یہ واقعات سن کریہ سمجھا جاتاہے کہ یہ گزشتہ دورکی کہانیاں تھیں ۔ایساعدل وانصاف اب کہاں نصیب ہوسکتاہے ۔مگر سعودی حکمران شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے انصاف کی کہنہ روایت کوپھر اس شان سے زندہ کیاکہ ساری دنیا اسے رشک اورحیرت کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔
تین سال پہلے سعودی عرب کے شہزادے ترکی بن سعودالکبیر نے دارالحکومت ریاض کے قریب علاقے ثمامہ میں ایک گروہی تنازعے کے دوران ایک عام شہری عادل بن سلیمان کو قتل کردیاتھا۔ مقدمہ چلتارہا اورجرم ثابت ہوگیا۔ شہزادے نے جرم کااعتراف بھی کرلیا۔اسلامی شرع میں قتلِ عمد کی سزا قصاص ہے۔تاہم ورثاء معاف کردیں تو سزاساقط ہوجاتی ہے۔مگر ورثاء قصاص پر مصر تھے۔ا س لیے عمومی عدالت نے شہزادے کوسزائے موت سنادی۔
اس کے بعد مقدمہ عدالتِ عظمیٰ میں گیا۔وہاں بھی سزابرقراررکھی گئی۔اس کے بعد شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی طرف سے سزاکے اجراء کاحکم نامہ جاری کردیاگیا۔ شہزادے کی طرف سے ورثاء کوراضی کرنے کی کوششیں آخرتک ہوتی رہیں۔مقتول کے والدکو بہت بڑی رقم کی پیش کش کی گئی،لاکھوں ریال ان کے ہاتھ پر رکھ دیے گئے ۔ مگر انہوںنے معاف کرنے سے انکارکردیا۔آخرکارشہزادہ ترکی بن سعود کوشہر کے چوک میں سزائے موت دی گئی ۔
ہمیں شہزادہ ترکی کے لواحقین سے بھی ہمدردی ہے ۔وہ یقینا اس توقع میں حق بجانب ہوںگے کہ مقتول کے ورثاء صلح کرلیتے۔ مگریہاں اہم ترین پہلویہ تھاکہ اگر ایساہوتاتو آئندہ بھی ہر دولت مند یہ سوچ کرکسی کی جان لینے میں بے خوف ہوتاکہ جان کی قیمت میری جیب میں ہے۔
اب قصاص کے ذریعے انصاف کی یہ مثال قائم ہوجانے کے بعد ان شاء اللہ کسی بڑے سے بڑے شخص کوبھی یہ ہمت نہیں ہوگی کہ وہ کسی انسانی جان کی قیمت اپنی دسترس میں سمجھ سکے۔ یہی قصاص کی حکمت ہے۔ شرعی سزائیں جو بھی ہیں ،انسانیت کے لیے سراسر رحمت ہیں۔اسی لیے قرآن مجید نے فرمایا:’’تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے اے عقل والو،تاکہ تم ڈرو۔‘‘{البقرۃ}
ایک جان کے بدلے ایک جان لینے سے ،باقی جانیں محفوظ ہوجاتی ہیں ورنہ بدلے کاسلسلہ نسل درنسل چلتاہے اورایک کی جگہ درجنوں انسان انتقام کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
اوراسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ کی حدود میں سے ایک حدکاقائم ہوجانا ،اللہ کی زمین پرچالیس ایام کی بارش سے بہتر ہے۔‘‘{ابن ماجہ}
بارش سے زمین سرسبزوشاداب ہوتی ہے ،انسانوں کواناج میسر آتاہے۔ جبکہ اللہ کی حدودکاقیام انسانوں کی جان ومال اورعزت کومحفوظ بناکردنیا کوامن وامان کاگہوارہ بناتاہے۔ اگر یہ امن نہ ہوتوچاہے خوشحالی کے لاکھ اسباب میسر ہوں ،انسانی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔
سعودی عرب میں قصاص کی اس مثال سے ان لوگوں کوبھی عبرت ہوئی ہوگی جوکچھ مدت پہلے سعودی عرب کے ایک شیعہ عالم نمر بن النمر کی موت کو ظلم قراردے رہے تھے۔ جس ملک میںقانون قریبی رشتوں کالحاظ نہیں کرتا،جہاں۱۹۷۵ء میں شہزادہ فیصل بن مسعید کواپنے تایاشاہ فیصل بن عبدالعزیز کے قتل پر سزائے موت ہوئی تھی اوراسے سے بڑھ کراب ایک عام شخص کی جان لینے پر شہزادہ ترکی کوقتل کردیاگیاہے ،وہاں قانون توڑنے ،بغاوت کرنے اوردہشت گردی میں ملوث ہونے پر کسی اورکوبھلاکیا رعایت مل سکتی ہے۔
الحمدللہ سعودی عرب میں انصاف زندہ ہے۔ اللہ کرے ہمارے ملک میں بھی احیائے عدل کی ایسی مثالیں قائم ہوں تویہاں کاامن وامان بھی مثالی بن جائے گا۔