تاریخِ اندلس کاآخری باب (۲)
شہزادہ ابوعبداللہ محمد،فرڈی ننڈ کی قید میں تھااوراسے یہ یقین دلایاجاچکاتھاکہ غرناطہ چنددنوں کا مہمان ہے، لہٰذا اس سے پہلے کہ نصرانی افواج غرناطہ پر قابض ہوکر مسلمانوں کاقتل عام کریں ، کسی ایسے معاہدے پر غورکرلیاجائے جو ابوعبداللہ اوراس کے خاندان کوبھی تحفظ فراہم کرے اورمسلمانوں کو بھی۔ ابوعبداللہ محمدمایوس ہوچکا تھا۔ اس نے مسلمانوں کی جان ومال کے تحفظ اوراپنے لیے خاص مراعات کے بدلے غرناطہ حوالے کرنے پر آمادگی ظاہر کردی۔ یہ بات ابوعبداللہ اورفرڈی ننڈ دونوں جانتے تھے کہ غرناطہ کاموجودہ حکمران الزغل کسی معاہدے پر رضامند نہیں ہوگا بلکہ آخر دم تک لڑنے کی کوشش کرے گا۔غرناطہ کو انجام تک پہنچانے کے لیے ضروری تھا کہ وہاں فرڈی ننڈ کی سوچ سے ہم آہنگ حکمران تخت نشین ہو،جس کے ہاتھوں یہ ’ کارنامہ ‘عمل میں آئے۔ چنانچہ فرڈی ننڈ نے شہزادہ ابوعبداللہ محمدہی کویہ مہم سونپی اوراسے غرناطہ کا جائز حاکم اور اپنادوست قراردیتے ہوئے آزاد کردیا۔
۶شوال ۸۹۱ھ کو ابوعبداللہ محمد غرناطہ پہنچا اور وہاں کچھ لوگوںنے اس کی بیعت کرلی۔ نصرانیوں سے صلح کااعلان کردیاگیامگر غرناطہ کے اکثر شہریوںنے اس اعلان کومسترد کردیا۔اس پر دونوں گروہوں میں جنگ شروع ہوگئی۔ فرڈی ننڈدیرتک اس تماشے سے لطف اندوز ہوتارہا۔اس کے بعداس نے ایک نہایت خطرناک چال چلی اور ربیع الآخر میں یکدم مالقہ کی طرف لپکا جو مملکتِ غرناطہ کا آخری ساحلی شہر تھاجس پر عیسائیوں کے قبضے سے مسلمانوں کی سمندر پار آمدورفت کاہر امکان مسدود ہوجاتا۔ سلطان الزغل مالقہ پر فرڈی ننڈ کی یلغار کی خبر سن کر رہ نہ سکا۔ اس نے غرناطہ میں اپنے حامیوں کو ابوعبداللہ کے مقابلے میں جمے رہنے کی تاکید کی اور فوج کا بڑا حصہ ساتھ لے کرمالقہ کی سمت روانہ ہوگیا۔مگروہاں پہنچ کر اس نے دیکھاکہ نصرانی اتنا سخت محاصرہ کر چکے ہیں کہ اہلِ شہرکوکمک پہنچانے کاکوئی راستہ نہیں بچا۔ الزغل یہ دیکھ کر اپنی فوج کولے کرتیزی سے غرناطہ واپس روانہ ہوا مگر راستے میں یہ اطلاع ملی کہ پانچ دن پہلے ابوعبداللہ محمد غرناطہ پر قبضہ کرچکاہے۔الزغل یہ اطلاع ملنے پر مایوس ہوکر کوہ البشارۃ عبورکرکے وادی آش چلاگیا اوروہاں کے قلعوں کادفاع کرنے لگا۔
الزغل کے پاس اتنی قوت نہ تھی کہ وہ مالقہ کامحاصرہ توڑسکتا۔آخر مالقہ کی مزاحمت دم توڑ گئی۔یہ المیہ شعبان ۸۹۲ھ کے اواخر میں پیش آیا۔اس کے بعد پورے اندلس میں غرناطہ شہر کے سوا مسلمانوں کے پاس کوئی بڑا شہرنہیں رہا جو آزاد اور خودمختارہو۔ فرڈی ننڈ کی فوجیں اب وادی آش پہنچیں۔ الزغل اپنی شجاعت وبسالت کے باوجود،اب کچھ کرنے کے قابل نہ تھا۔اس کے پاس مٹھی بھر مجاہدین اورمختصر سی فوج کے سوا کچھ نہ تھاجوایک شہر کوبمشکل سنبھالے ہوئے تھی۔کہیں سے کوئی کمک ملنے کاامکان نہ تھا۔مایوس ہوکراس نے وادی ٔ آش کونصرانیوںکے حوالے کردیا۔یہ صفر ۸۹۵ھ کاواقعہ ہے۔
غرناطہ کانیابادشاہ ابوعبداللہ محمدسمجھتا تھاکہ اس نے امن پسندانہ حکمتِ عملی سے نصرانیوں کو اپنامخلص دوست بنالیاہے ۔تاہم یکایک اس کی سوچ میں غیرمعمولی تبدیلی ظاہر ہوئی اوروہ فرڈی ننڈ کے مقابلے پر کمربستہ ہوگیا۔مؤرخین کاکہناہے کہ ابوعبداللہ محمد کی سوچ میں تبدیلی کے پیچھے غرناطہ کے سپہ سالار موسیٰ بن ابی الغسان کابڑاہاتھ تھا۔موسیٰ بن ابی الغسان غرناطہ کی تاریخ کے آخری ایام میں مسلمانوں کی حریت، آزادی اورجذبۂ جہاد کاوہ روشن مینار تھا جس کی عظمت وشجاعت کااعتراف ساری دنیانے کیا ہے۔اس حالت میں جبکہ غرناطہ ہرطرف سے گھر چکا تھا، موسیٰ بن ابی الغسان واحد شخص تھا جو اسلامیانِ اندلس کوآخری سانس تک لڑنے کاپیغام دے رہاتھا۔وہ شاہی خاندان کافرد اورابوعبداللہ محمد کاقریبی تھا۔اس کی خطابت میں جذبات کارُخ پھیرنے کی زبردست طاقت تھی۔وہ ابوعبداللہ کو مسلسل ترغیب دیتارہاکہ یہ وقت قومی ودینی غیرت سے آراستہ ہوکر میدانِ جہادمیں اترنے کاہے۔ابوعبداللہ شاید موسیٰ کی باتوں سے اتنی جلد متاثر نہ ہوتا مگر۸۹۵ ھ کے وسط میں جب فرڈی ننڈ نے اپنے چہرے سے دوستی کا نقاب اتارا تو ابوعبداللہ کو موسیٰ بن ابی الغسان کی رائے ماننا پڑی۔
فرڈی ننڈ نے یکایک غرناطہ سے صلح کا معاہدہ توڑ ڈالا اور ابوعبداللہ کو پیغام بھیجا کہ وہ شاہی محل قصر الحمراء،سرکاری عمارات اورغرناطہ کامرکزی حصہ اس کے سپرد کردے اوراس کامطیع بن کر غرناطہ میں مقیم رہے یا اندلس کے کسی اورشہر میں رہائش اختیار کرلے۔اس کی بھرپورمالی کفالت کی جاتی رہے گی۔موسیٰ بن ابی الغسان سمیت اکثرامراء نے فرڈی ننڈ کامطالبہ مسترد کردینے پر زوردیا۔انہیں امید تھی کہ عیسائیوں کوپسپا کیا جاسکتا ہے۔آخر ابوعبداللہ نے فرڈی ننڈ کوجواب دیاکہ معاملہ اس کے بس سے باہرہے۔وہ غرناطہ اس کے سپرد نہیں کرے گا۔ایسا کیاگیاتو امراء بغاوت کردیں گے۔
پھراس نے پہلی بار فرڈی ننڈ کے خلاف تلواربے نیام کی اور غرناطہ کے مجاہدین کولے کرمقابلے پر نکل آیا۔یہ اس کاایک نیاکردار تھاجس کی فرڈی ننڈ کوہرگزتوقع نہ تھی۔ ربیع الاول سے رجب ۸۹۵ ھ تک فریقین کے درمیان کئی جھڑپیں ہوئیں۔موسیٰ بن ابی الغسان اورابوعبداللہ کی قیادت میںغرناطہ کو اپنا آخری حصار سمجھ کر لڑنے والے مسلمانوں کے جوش و جذبے کے آگے صلیب پرستوں کو بار بار پسپا ہونا پڑا۔ آخر کار فرڈی ننڈ اپنالشکر لے کرواپس ہوگیا۔ ابوعبداللہ نے اس کی واپسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی قلعے فتح کرلیے۔
فرڈی ننڈ اورازابیلا کویقین تھا کہ جب تک غرناطہ فتح نہیں ہوجاتا،اندلس کے مسلمانوں میں حریت کی شمع جلتی رہے گی،اس لیے جمادی الاخریٰ ۸۹۶ھ (اپریل۱۴۹۱ء)کے موسم بہار میں وہ اس عزم کے ساتھ کہ اس بار الحمراء فتح کیے بغیر ہرگزواپس نہیں جائیں گے،۸۰ہزار سپاہی لے کر غرناطہ پہنچ گئے۔غرناطہ کے مسلمان ایک مدت تک فرڈی ننڈ کی ٹڈی دل افواج کاجم کرمقابلہ کرتے رہے۔ ان کی ہمت بڑھانے میں سپہ سالار موسیٰ بن ابی الغسان پیش پیش تھا ۔اس کایہ نعرہ ہر کسی کی زبان پر تھا :
’’عیسائی بادشاہ جان لے کہ عرب گھڑسواری اورنیزہ بازی کے لیے ہی پیداہوئے ہیں۔‘‘
تاہم کسی شاندار فتح کا دور دورتک امکان نہ تھا۔ بیرونی کمک کی ہر توقع ختم ہوچکی تھی۔نصرانیوں کو دوردراز کے شہروں سے مسلسل کمک مل رہی تھی جبکہ مسلمانوں کی افرادی قوت محدودتھی ۔برف باری شروع ہوئی توالبشرات سے رسدکاراستہ بند ہوگیا۔غرناطہ میں مقامی آبادی کے ساتھ گردونواح کے لاکھوں بے گھر افرادجمع ہوچکے تھے ،اس لیے رسدبندہوتے ہی شہر میںبہت جلد قحط کی سی صورتحال پیداہوگئی۔ اہلِ شہر میدانِ جنگ میں شکست نہ کھاسکے مگر فاقوں نے انہیں لاچارکردیا۔
آخرابوالقاسم عبدالملک نے دربار میں اعلان کیاکہ صرف چند دنوں کاراشن باقی رہ گیاہے ،فوج اورعوام ہمت ہارچکے ہیں۔مزید مزاحمت بے سود ہے۔موسیٰ بن ابی الغسان واحد شخص تھا جس نے ہتھیار ڈالنے پر غورکرنے سے انکار کردیا اور پورے شد ومد سے کہا کہ شہر کادفاع ہم پر فرض ہے۔ اس نے امرائے سلطنت کو آخری دم تک لڑنے پر ابھارا۔ابوعبداللہ نے مایوس کن حالات کے باوجود ،اس کی بات مانتے ہوئے لڑائی جاری رکھنے کی اجازت دی۔
شہر کے دروازے ایک مدت سے بند تھے۔موسیٰ نے انہیں کھولنے کاحکم دیااورکہا:’’ہم اپنے جسموں سے دروازوں کی حفاظت کریں گے۔‘‘اس کے الفاظ نے شہر میں ایک نیاجوش پیداکردیااورہر طرف اسلحے کی جھنکار گونجنے لگی۔یہ فوج دن رات لشکرِ صلیب پر بجلیاں گراتی رہتی۔جب بھی عیسائیوں کا کوئی دستہ شہر کے قریب آتا،یہ لوگ عقابوں کی طرح اس پر ٹوٹ پڑتے۔موسیٰ اپنے سپاہیوں سے کہتاتھا:’’ہمارے لیے اس کے سواکوئی زمین نہیں جس پر ہم کھڑے ہیں۔اسے کھو کرہم اپنانام ونشان ،گھربار اور وطن سب کچھ گم کردیں گے۔‘‘
آخرکار فرڈی ننڈ نے شہر پر بڑے حملے کاحکم دیا۔عیسائی ایک ریلے کی طرح صفیں بناکر غرناطہ کی فصلیوں کی طرف بڑھے۔اُدھر سے مسلمان بھی سرپرکفن باند ھ کرنکل آئے۔ ابوعبداللہ محمد سرکاری سپاہیوں کی قیادت کررہاتھا جبکہ موسیٰ بن ابی الغسان کے پاس مجاہدین کی کمان تھی۔فریقین میں نہایت خوںریزجنگ شروع ہوگئی۔