جرمنی اورعالم اسلام (۳)
ہٹلر کی موت کے بعد جرمنی ایک بارپھر پامال ہوگیا۔برطانیہ ،فرانس ،روس اورامریکا اس کے مستقبل کے مالک ہوگئے ۔جرمنی میں ان چاروں ملکوں کی فوجیںبٹھادی گئیں۔ان ملکوں نے سارے جنگی اخراجات جرمنی سے وصول کرکے اسے بالکل قلاش کردیا۔جرمنی کے ایک ایک شہر کو تہہ وبالا کردیا گیا۔ پھر اس ملک کوباقاعدہ دوالگ الگ ریاستوں میں تقسیم کردیاگیا۔ مشرقی جرمنی میں روس نے اپنی سوشلسٹ حکومت قائم کرلی جبکہ مغربی جرمنی برطانیہ اورامریکاکاباج گزار بن گیا۔
جرمنی میں صرف امریکا کے ایک لاکھ فوجی مستقل رہتے تھے ۔ان کے سارے مصارف جرمنوں کو اداکرنا پڑتے تھے۔مگر جرمنوںنے ہمت نہیں ہاری ۔انہوںنے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھااورایک ایک قدم کرکے سیاسی خودمختاری اورمعاشی استحکام کی طرف قدم بڑھاتے رہے۔دنیا کی تین جابر طاقتوں روس ، امریکااوربرطانیہ کے چنگل میں رہنے کے باوجود ،وہ مایو س نہ ہوئے۔ ہٹلر نے انہیں غرو روتکبر کاجو سبق پڑھایاتھا،وہ بہت جلد اس کے نقصانات سے آگاہ ہوگئے اوراپنے دھیمے اور ٹھنڈے مزاج کی طرف لوٹ آئے۔انہوںنے اشتعال انگیز نعروں پر توجہ دینا چھوڑدی۔ نازی پارٹی کی مقبولیت ختم ہوگئی اورمعتدل مزاج لیڈروں کی پذیرائی ہوئی۔
جرمن قوم تباہی سے خوش حالی کی معراج پر یونہی نہیں پہنچ گئی ۔ قوم کے ایک ایک فرد نے حتیٰ کہ غریب مزدوروںنے بھی اپنی ذمہ داری کوسمجھا۔۔ ۱۹۵۲ء میں بھارتی وزیراعظم جواہرلال نہرو جرمنی کے دورے پر گئے۔اس وقت جرمنی کاکوئی شہر ایسانہیں تھاجسے اتحادیوںنے تباہ نہ کردیاہو۔ ہر جگہ ملبہ ہی ملبہ دکھائی دیتاتھا۔ جواہر لال نہرونے سناتھاکہ جرمنی کے کارخانوں میں کبھی ہڑتال نہیں ہوتی ۔ وہ ایک کارخانے کی سیر کے لیے چلے گئے اوروہاں کے مزدوروں سے پوچھا:
’’تم لوگ مطالبات کے لیے ہڑتال کیوں نہیں کرتے؟‘‘
وہ بولے:’’ہم ملک کی دوبارہ تعمیر کافرض انجام دے رہے ہیں ۔ جب جرمنی کچھ بن جائے گاتو پھر ہم مطالبات کریں گے۔ ابھی توہمارافرض ملک کی تعمیر ہے۔‘‘
یہ تھا وہ جذبہ جس نے جرمنوں کو دوبارہ دنیا کی مضبوط قوموں میں لاکھڑاکیا۔ اس قوم کاہرفرد ملک کی ترقی کے لیے جٹ گیا۔ حب الوطنی کے جذبے نے انہیں متحد کردیا۔ انہوںنے قابض فوجوں کے اخراجات اپنے خون پسینے سے اداکیے مگر کبھی کسی ملک سے قرض نہیں لیا۔اپنی معاشی حالت کواتنا مستحکم کیا کہ ترقی یافتہ ممالک اس پر رشک کرنے لگے۔
جرمنی ،خود اپنے سب سے بڑے دشمن روس سے انتقام نہ لے سکامگر ۴۵سال بعد یہ کام افغانستان کے غیورمسلمانوں نے کردکھایا۔ مسلمانوں پر جرمنی کاایک قرض تھا۔ جرمنی نے خود تباہ ہوکرمسلم ممالک کے لیے آزادی کے دروازے کھول دیے تھے۔ مسلم دنیانے افغانستان کے میدان میں سوویت یونین کی طاقت کا جنازہ نکال کر ، جرمنی کو سوشلزم کے تسلط سے نجات دلادی۔
۱۹۸۹ء میں روسی فوجیں افغانستان سے واپس ہوئیں ،روس کی ساکھ مٹی میں مل گئی اوراس کا سر نیچاہوتے ہی دنیاسوشلز م کی زنجیروں سے آزاد ہونے لگی۔جرمنوںنے متحد ہوکر دیوار ِبرلن گرادی۔ ۱۲ستمبر ۱۹۹۰ء کومغربی اورمشرقی جرمنی پھر متحد ہوگئے۔
یہ اتحاد کوئی آسان نہیں تھا۔ ۴۵برسوں میں مشرقی جرمنی کامغربی جرمنی سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔مشرقی جرمنی کی زبان تک تبدیل ہوچکی تھی اورنسلِ نور وسی زبان بولتی تھی۔تمدن ،ثقافت ،کلچر سب بدل گیاتھا مگر پھر بھی وہ متحد ہوگئے۔
اب ہم ایک پاکستانی اورایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے خود کودیکھیں ،کیاہمیں شرم نہیں آئے گی کہ ہماراکلمہ ایک، قبلہ ایک ، ایمان ایک، تہذیب وثقافت ایک۔مگراس کے باوجود ہم ہمیشہ الگ ہونے کی بات کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے ملک سے کوئی مطلب ہے نہ ملت سے۔ صر ف ہم نہیں عالم اسلام کے اکثر ملکوں کایہی حال ہے ،کہ وہاں مذہبی، صوبائی ،لسانی اورعلاقائی اختلافات کی خلیجیں روزبروز وسیع ہورہی ہیں۔جرمن غیرمسلم ہیں ۔ان کے پاس وہ آفاقی ہدایات اوروہ نورانی منشور کہاں جو قرآن وسنت نے ہمیں دیاہے ،اس کے باوجود ،وہ لگ بھگ نصف صدی الگ رہ کر پھر ایک ہوگئے۔ اس کے مقابلے میں ہم اپنے ملک ہی کی تاریخ دیکھ لیں کہ لاکھوں جانیں قربان کرکے حاصل کردہ مملکت میں ہم پچیس سال بھی متحد نہ رہ سکے۔ مشرقی اورمغربی پاکستان دوالگ الگ ملک بن گئے۔ شایدہم غیرتِ ملی سے دست کش ہوچکے ہیں ۔ہمیں اپنی دنیا آپ پیداکرنے والے نہیں، اپنا نشیمن آپ برباد کرنے والے ہیں۔ ہم قرض لے کر ترقی کرناچاہتے ہیں اورمزید معاشی بدحالی کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ ہم کہتے بہت کچھ ہیں مگر کرنے میں ہم جرمنی کے ان مزدوروں جیسا احساسِ ذمہ داری بھی نہیں رکھتے جنہوںنے اپنے مطالبات کو تعمیرِ وطن کے لیے فراموش کیے رکھا۔ اس جذبے کے سبب جرمن قوم ایک بارپھر اپنے پیروں پر کھڑی ہوگئی۔ آج کا جرمنی چھپن ہزار۹سو ۴۵کلومیٹر پر مشتمل یورپ کاخوشحال ترین ملک ہے۔ خودکفیل ہونے کے اعتبار سے وہ معاشی طورپر امریکا سے زیادہ مستحکم ہے۔جرمن مارک کی قدر امریکی ـڈالر سے اوپر ہے۔جرمن چانسلر (سربراہِ مملکت) کودنیا کی مؤثرترین شخصیات میں سے ایک شمارکیاجاتاہے۔جرمنی ایک بارپھر سائنس اور ٹیکنالوجی کی شاہراہ پرآگے ہی آگے بڑھ رہاہے۔ دنیا بھر میں آج جرمن مشینری کی مانگ ہے۔ قارئین کے لیے یہ بات دلچسپی کی ہوکہ دنیا کاپہلا موٹر کارگیراج جرمنی میں قائم ہواتھا۔یہ ۱۸۰۰ء کی بات ہے۔اس کابانی کارل بینرتھا۔ اسی گیراج میں اس نے مرسڈیز ایجاد کی جو آج بھی دنیا کی بہترین کاروں میں شمار کی جاتی ہے۔
عالم اسلام کے بارے میں جرمنوں کی سوچ اب بھی باقی یورپی دنیا اورامریکاسے مختلف ہے۔وہاں کیتھولک چرچ کاتعصب نہیں ۔جرمنوں میں امریکی یابرٹش گوروں جیسا احساسِ تفاخر بھی نہیں۔ نصف صدی کی غلامی نے انہیں حقیقت آشنابنادیاہے۔ وہ دوست اوردشمن کوپہچانتے ہیں ۔عالم اسلام سے قدیم رشتوں کااب بھی وہاں احتر ام ہے۔ سلیمان اعظم کے احسان کووہ اب بھی نہیں بھولے۔ ترکی کے ساتھ اتحاد کی طویل تاریخ انہیں یاد رہے۔ مسلم دنیا خصوصاً پاکستان کو جرمنی کی شکل میں یور پ میں ایک اچھا معاون مل سکتاہے۔قومی عزت ووقار کے ساتھ اس رخ پر کوشش ضرور ہونی چاہیے۔ ترکی اس سلسلے سب سے مناسب رابطہ کار بن سکتاہے۔ اقتصادی کوریڈور کے اثرات یورپ تک جائیں گے۔ ان یورپی ممالک میں اگر جرمنی کوترجیح دی جائے تو شایداپنی تاریخ کودیکھتے ہوئے ،یہ ایک اچھی پالیسی ہوگی۔