شہ سواری اورتیراندازی
عیدالاضحی سے کچھ دنوں پہلے فیصل ٹاؤن (واہ کینٹ) میں نیزہ بازی کامقابلہ تھا۔ ملک ریاض صاحب مجھے یہ تماشادکھانے لے گئے۔ مقابلے کے منتظم جناب راجا ثاقب نے ہماراخیرمقدم کیا اور اگلی نشستوں پر بٹھادیاجہاں سے میدان کامنظر بخوبی دکھائی دیتا تھا۔ایک سے ایک شاندار اور تیزرفتار گھوڑے ہمارے سامنے تھے جن پر شملہ دارپگڑیوں والے جوان سواری کررہے تھے۔اپنی اپنی باری پر یہ گھڑسوارمیدان کے ایک سرے سے گھوڑاسرپٹ دوڑاتے ہوئے آتے۔ میدان کے وسط میں گڑی ہوئی ایک چھ انچ کی لکڑی کو نیز ے کی اَنی میں پروکرلے جاناان کاہدف تھا۔اس تیز رفتاری کے ساتھ گھوڑادوڑانا بھی آسان نہیں مگراس کے ساتھ جھکنے،تواز ن قائم رکھنے اورایک چھوٹی سی لکڑی کو نیزے کاہدف بنانے میں جس عقابی نگاہ،پھرتی اورمہارت کی ضرورت ہے ،ا س پر دسترس رکھناکمال کی بات ہے ۔مقابلے کے دوران بھی حاضرین اچھے گھڑسواروں کی کارکردگی پر انہیں پانچ پانچ سو اور ہزار ہزار کے نقد انعامات دے رہے تھے۔ مقابلے کے کئی مراحل تھے اورقواعد کے مطابق پوائنٹس ملتے تھے۔کِلّہ اکھاڑکرلے جانے پر چارپوائنٹس طے تھے۔ ایک مرحلے کے کامیاب سوار اگلے میں جاتے تھے۔ اس طرح آخری مرحلے میں چند سواررہ گئے جن میں سے اول ،دوم اور سوم کو مہمانِ خصوصی چیرمین یونین کونسل ملک علی اصغر اعوان اورسیاسی وسماجی رہنما جناب فیصل اقبال نے انعامات سے نوازا۔
مقابلے میں حصہ لینے والے یہ جوان کسی نہ کسی گھڑسواری کے کلب سے تعلق رکھتے تھے مثلاً دلدار ہارس رائڈنگ کلب ٹیکسلا،الغازی ہارس رائڈنگ کلب ہری پور،اعوان ہارس رائڈنگ کلب واہ کینٹ اورالاعوان ہارس رائڈنگ کلب اٹک۔ایسے کلبوں کے اچھے گھڑسواراس قسم کے مقابلوں میں حصہ لے کر عوام سے خراجِ تحسین وصول کرتے ہیں۔ آج کے دورمیں جب کہ گھڑسواری کارجحان بہت کم رہ گیاہے ،یہ سرگرمیاں غنیمت ہیں۔ گھڑسواری مردانہ ورزشوں میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔ احادیث میں اس کی اتنی ترغیب ہے کہ اس کے متعلق کتب حدیث میںمستقل ابواب موجودہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے : گھوڑے کی پیشانی میں قیامت تک کے لیے خیر رکھ دی گئی ہے۔{مشکوٰۃ}
قرآن مجید میں بھی گھوڑے پالنے اورا ن کی سواری کی مشق کاحکم ہے:
’’اورجس قدرتم سے ہوسکے،ہتھیار سے اورپلے ہوئے گھوڑوں سے سامان درست رکھو۔‘‘(الانفال)
ایک صدی پہلے تک جنگوں میں سب سے زیادہ انحصار گھڑسوارفوج پر ہی ہوتا تھا۔مشینی انقلاب کے بعدگھوڑوں کی جنگی اہمیت کم ہوگئی اورافواج کی منتقلی کاکام ٹرینوں،ٹرکوںاورطیاروں سے لیاجانے لگا مگر اب بھی میدانِ جنگ میں گھوڑے کی افادیت ختم نہیں ہوئی۔اسی لیے ہر فوجی چھاؤنی میں گھوڑے پالے جاتے ہیں اورگھڑسوارسپاہیوں کے دستے فوج ہی نہیں پولیس میں بھی رکھے جاتے ہیں۔کیونکہ جنگلوں اورپہاڑوں میںجہاں سڑکیں یاکشادہ راستے نہیں ہوتے،جیپیں بھی ناکام ہوجاتی ہیں اورایسے میں دشمنوں کے تعاقب کے لیے گھوڑے سب سے زیادہ کام آتے ہیں۔
نیزہ بازی اورگھڑسواری کے مقابلوں میں شریک یہ جوان اس لحاظ سے قابلِ تعریف ہیں کہ وہ ایک ایسی صحت بخش سرگرمی میں مصروف ہیں جوشرعاً مطلوب اورپسندیدہ ہے۔ساتھ ہی مجھے یہ خیال آتارہا کہ زندگی میں ایک بارہی سہی ،سنت پر عمل کی نیت سے علماء وطلبہ ،سالکینِ طریقت اورعشاقِ سنت کو بھی اس کی کوشش ضرورکرنی چاہیے۔ہمارے اکابر میں سے بہت سے تھے ،جو اس قسم کی ریاضتوں کامعمول رکھتے تھے۔ حضرت شاہ اسماعیل شہید اورحضرت سیداحمد شہید کی داستانِ جہاد کا تو آغاز ہی ایسی مشقوں کے ذکر سے ہوتاہے۔ان اکابر کے تربیت یافتہ لوگ ۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی میں بھی شریک ہوئے۔ان کی مہارت کایہ عالم تھاکہ بیس بیس تیس تیس میل گھوڑادوڑاتے تھے اور آنکھوں پر پٹی باندھ کرصرف آواز پر صحیح نشانہ لگاتے تھے۔ قریبی دورکے اکابر میں سے جنہیں ہم نے دیکھاہے،حضرت مفتی رشیداحمد صاحب قدس سرہ گھڑسواری ،نشانہ بازی،شمشیر زنی اوربنوٹ کے ماہر تھے۔ دورِحاضر کے اکابر میں سے شیخ الحدیث حضرت مولاناسلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتہم بھی اپنے دورِ جوانی میں شہ سواررہے ہیں۔
گھڑسواری کے ساتھ ایک اورمتروکہ فن کو بھی زندہ کرنے کی ضرورت ہے ۔یہ ہے تیر انداز ی ۔اس کے بارے میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ترغیب موجودہے:
’’اولادِ اسماعیل !تیر انداز ی کیاکرو۔ تمہارے باپ اسماعیل بھی تیرانداز تھے۔‘‘{مشکوٰۃ}
مانا کہ ڈیڑھ دوصدیوںسے بندوق اورتوپ نے تیراندازی کی اہمیت ختم کردی ہے مگرآج بھی نشانہ بازی کے استادوں کاکہناہے کہ ابتدائی نشانہ پکاکرنے کے لیے تیراندازی سے بڑھ کر کوئی مشق مفید نہیں ۔جس کی نگاہ اورہاتھ اس پر پختہ ہوجائے ،اس کے لیے جدید ہتھیاروں سے صحیح نشانہ لگانا کھیل تماشا ہے۔غالباً یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا میں تیراندا زی کے کلب بڑی تیزی سے قائم ہورہے ہیں۔ امریکا میں ہر قسم کے تیرکمان تیار کرنے کی بڑی بڑی فیکٹریاں قائم ہیں جہاں سے یہ چیزیں پوری دنیاکوسپلائی ہوتی ہیں ۔ان میں معمولی قسم کے تیرکمان بھی ہیں جو صرف نشانہ پکاکرنے کے لیے ہیں۔ بھاری بھرکم نوع بھی ہے جس سے ریچھ اورشیر تک گرائے جاسکتے ہیں۔ چین بھی یہ سامان تیار کر رہا ہے اگرچہ اس کامعیار امریکی برانڈ سے فروتر ہے۔
ایک طرف یہ صورتحال ہے اوردوسری طرف ہمارے اکثر احباب کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتاکہ تیر کمان کیا ہے اورکس سائنسی اصول پر کام کرتاہے۔حدیث پڑھتے پڑھاتے وقت جب تیر اوراس کے مختلف اجزاء(ریش، نصل وغیرہ )کا ذکرآتاہے یاکمان (قوس) اوراس کی ’’قاب‘‘ کوسمجھانے کی ضرورت پیش آتی ہے تو طلبہ حیران وپریشان ہوجاتے ہیں۔اسی طرح ترمذی پڑھتے وقت جب ’’باب ماجاء فی صفۃ سیف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘کے تحت’’قبیعۃ‘‘ کاذکرآتاہے تو طلبہ بمشکل ہی اسے سمجھ پاتے ہیں۔کیونکہ کسی بھی عملی چیز کوصحیح طورپر سمجھنے کے لیے تصورنہیں مشاہدے کی ضرورت ہے۔
جدید طریقِ تدریس کے مطابق ایسے مواقع پر جہاں تک ممکن ہو،اصل یااس کی نقل کامشاہدہ کرانا چاہیے۔ہماری جامعات کے لیے کوئی مشکل نہیں کہ وہ چندہزارروپے خرچ کرکے دورۂ حدیث کے درجات میں ایک شوکیس آویزاں کرائیں جس میں تیر کمان، تلوار اوراس قسم کے قدیم اسلحے کے کچھ نمونے رکھ دیے جائیں۔ کراچی میںاچھے تیرکمان بندرروڈ پر اسپورٹس کی دکانوںمثلاً ملک سنزسے آٹھ دس ہزار میں مل جائیں گے ۔مگریہ خیال رہے کہ کھلونا تیرکمان نہ اٹھالائیں۔دکاندار کوبتائیں کہ ہمیں اسپورٹس مقابلوں میںاستعمال کی جانے والی بڑی کمان چاہیے۔اس میں بھی خیال رہے کہ قدیم وضع کی ہی کمان لی جائے۔ جدید کمانوں میں چرخیاں وغیرہ بھی لگی ہوتی ہیں لہٰذا جسمانی ریاضت نہیں ہوپاتی۔قیمت بھی کئی گنا زیادہ ہوتی ہے ۔ تیر دوسوروپے کامل جائے گا۔ تلوارکمانوں سے زیادہ سستی ہے۔ وزیرآباد کے کاری گراڑھائی تین ہزارمیں ایک شمشیرتیار کردیتے ہیں۔لازم ہے کہ اسے دھارکے بغیر بنوایاجائے تاکہ لائسنس کی ضرورت نہ ہو ۔ہاں اچھے گھوڑے ضرورمہنگے ہیں مگر جنہیںاللہ نے اچھے مالی وسائل اورکھلی زمین سے نوازاہے وہ دوتین گھوڑے ضروررکھ سکتے ہیں۔ تیرکمان کے چند سیٹ خرید رکھنا تواوربھی آسان ہے اوراس کی مشق کے لیے زیادہ جگہ کی بھی ضرورت نہیں۔ اس قسم کی مشقوں کو اضاعتِ وقت نہیں سمجھناچاہیے۔ سنت کی اتباع کی نیت سے ان شاء اللہ اس میں ثواب بھی ہوگا۔نیز اس میں جسمانی ریاضت بھی ہے جو دماغی کام کرنے والوں کے لیے بہت ضروری ہے۔اس میں مسنون تفریح بھی ہے جو ڈپریشن،ذہنی تناؤاوردماغی تکان سے نجات دینے کے لیے ہزاردواؤں سے بڑھ کرہے۔