پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(2)
مگرایسے میں وزیرِ دفاع غازی انورپاشا کاقومی جوش سب پر غالب آگیا۔وہ اپنی شجاعانہ طبیعت، قومی غیرت اوراسلام پسندانہ نظریات کے باعث یہ ولولہ رکھتاتھاکہ ترکی کودوبارہ سپر پاور بنا کر دکھائے۔یہ اس کاسب سے بڑاخواب تھا جس کے لیے وہ ہر قربانی دینے کے لیے تیارتھا۔
اس نے ایک مدت پہلے زیرِ تربیت افسر کے طورپر جرمنی کا سفر کیا تھا اور اس دوران اس قوم کی فوجی تیاریاں دیکھنے کے بعد اسے یقین ہوگیا تھاکہ دنیا کی کوئی طاقت جرمنی کو شکست نہیں دے سکتی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اس یقین میں اضافہ ہوتا چلا جارہاتھا۔انورپاشا، جرمنی کے تعاون ہی سے جنگِ بلقان میں شکست خوردہ ترکی کے لیے نئی مضبوط ،تازہ دم فوج اورجدیداسلحے سے لیس فوج تیارکرنے میں کامیاب ہواتھا۔اسے یقین تھااگر ترکی اور جرمنی متحد ہوجائیں توروس ، فرانس اور برطانیہ سے دو صدیوں کی شکستوں کا بدلہ لیاجاسکتاہے۔
اسے یہ بھی یقین تھاکہ عالمی طاقتوں کی شکست سے پوری دنیا کے محکوم مسلمان آزادی کی نعمت حاصل کرکے خلافتِ عثمانیہ سے وابستہ ہوجائیں گے۔ وسطِ ایشیاکی ریاستیں،زارِ شاہی سے چھٹکارا پالیں گی ۔ ہندوستان اور مصر کے مسلمانوں کو برطانیہ سے اور تیونس اورالجزائر کوفرانس سے آزادی نصیب ہوجائے گی۔لیبیا سے اٹلی کے قدم اکھڑجائیں گے اورسنوسی مجاہدین کاجہاد فتح سے ہم کنار ہوسکے گا۔غازی انورپاشاکی یہ رائے بنانے میں اہم ترین کرداران جرمن جرنیلوں نے کیا ،جو ترک فوج میں بطورِ مشیر شامل تھے۔جرمنی نے ترک حکام کو یقین دلایا کہ فرانس، برطانیہ اورروس کی شکست کے بعد تمام مسلم علاقوں پر خلیفہ کااستحقاق ہوگا۔
……
عام طورپر کہاجاتاہے کہ ترکی درج ذیل تین وجوہ سے جنگ میں شرکت پر مجبورہواتھا:
(1)برطانیہ نے بلاوجہ ترکی کے ان دوجہازوں کو غصب کرلیاتھاجو برطانوی جہازسازی کے کارخانوں میں تیار کیے گئے تھے اوران کی پیشگی قیمت دی جاچکی تھی ۔
(2)جمال پاشا خلیفہ کاسفیر بن کرفرانس گیاتوفرانسیسی حکام نے اصرارکیاتھاکہ ترکی شام کو خود مختاری دے دے۔
(3)جرمنی کے دو جہاز ،برطانوی بحری بیڑے سے بچنے کے لیے درۂ دانیال میں داخل ہوئے تھے اوربرطانیہ ترکی پر زورد ے رہاتھا کہ انہیں حوالے کر نے کامطالبہ کررہاتھا جبکہ جرمنی ترکی کاحلیف تھا۔
مگر حقیقت بین نگاہ سے دیکھاجائے ،توان میں سے ایک وجہ بھی ایسی نہیں تھی جو ایک بڑی جنگ شروع کرنے کے لیے کافی ہوتی۔ ان وجوہ کی حیثیت وجہِ جوازسے زیادہ نہیں تھی جنہیں کوئی ایسی طاقت ،ا س وقت اختیارکرتی ہے جب وہ فریقِ مخالف پر ہر طرح برتری رکھتی ہو،اور اسے کسی بڑے نقصان کے اندیشے کے بغیر کامل فتح کایقین ہو۔ مگرکیا ترکی کی حیثیت اس وقت ایسی تھی کہ وہ دنیا کی بڑی طاقتوں کوآسانی سے زیر کرنے کی امید کرتا اور کسی نقصان کے اندیشے کے بغیرایک ہولنا ک ترین جنگ میں کودجاتا؟حقیقت یہ ہے کہ اتنی بڑی لڑائی جس کی مثال دنیا کی قدیم وجدید تاریخ میں ناپید ہے،کسی مشاورت اور منصوبہ بندی کے بغیر شروع کی گئی تھی ۔کس طرح ؟اس پرسرارکہانی کی اصل روداد پیشِ خدمت ہے۔
عالمی جنگ چھڑنے کے کچھ ہی دنوں بعد جرمنی کے دو بحری جہاز ،درۂ دانیال کے دھانے پر آئے۔انہوںنے خلیجِ باسفورس عبورکی اوربحیرۂ اسود میں داخل ہوکرروسی بحری جہازوں پر حملہ کردیا۔ اس وقت تک ترکی غیر جانبدار تھا۔ ترک حکومت نے اس موقع پر یہ خبر نشر کی کہ جرمن جہاز ترک حکومت کواطلاع دیے بغیر خلیج میں داخل ہوئے تھے۔ حالانکہ غورکیاجائے تو اس دعوے پریقین کرنا مشکل ہے۔درۂ دانیال پرہمیشہ سخت پہرارہتاتھااور کوئی غیرملکی جہاز بلااجازت وہاں سے نہیں گزر سکتا تھا۔ نیز ہر جہاز تلاشی دے کر اوراسلحہ رکھواکرہی داخل ہوتاتھا۔
ایسے میں یہ سمجھنامشکل نہیں کہ وزیرِ دفاع غازی انورپاشا نے خود جرمن جہازوں سے چشم پوشی کی اورانہیں خلیج سے گزارکر روسی بحریہ پر حملے کاموقع دیاتاکہ ایک طرف دولِ یورپ کو اپنے خلاف لڑائی چھیڑنے کاکوئی بہانہ دیاجائے اوردوسری طرف خلیفہ اور وزراء کویہ یقین دلایاجاسکے کہ یورپ ہمارے خلاف لڑنے پر تلا ہواہے ۔ یوں ترکی کے خلاف فضا بننے کافائدہ اٹھاکرجنگ میں اترنے کا ماحول پیداکیاجائے تاکہ محکوم مسلم ممالک آزاد ہوں اورترکی دوبارہ سپر پاوربن سکے۔
غازی انورپاشا کی توقع کے عین مطابق یہی ہوا۔جب برطانیہ نے ترکی سے مطالبہ کیاکہ وہ جرمن جہازوں کو اس کے حوالے کردے تواس مطالبے کو مسترد کردیاگیا۔کیونکہ انورپاشا کے خیال میںجنگ ناگزیرتھی۔ اس فیصلے کے لیے اس نے اپنے تجزیے اورزاویۂ نگاہ پر انحصار کیا اور کابینہ بلکہ خلیفہ کوبھی اپنی پخت وپز کی بھنک تک نہ پڑنے دی ۔
اُدھرجرمن فوج فرانس میں داخل ہوچکی تھی مگر پیرس سے گزرنے والے دریائے سین کی ایک نہر’مارن‘ کے کنارے اتحادیوں نے بہت بڑی قوت جمع کرلی تھی اس لیے وہاںپہنچ کرجرمنی کی پیش قدمی رک گئی۔ایسے میں جرمنی نے ترکی پر زور دیا کہ وہ جنگ میں شریک ہوکرروس کے مقابلے پر کھڑا ہوجائے تاکہ جرمنی پر جنگ کابوجھ کم ہو اوروہ نہرِ مارن عبورکرکے فرانس کے مزید علاقوں پرقبضہ کر سکے۔اس کے بدلے جرمنی نے نہ صرف ترکی کو پچاس لاکھ طلائی لیرے قرض دینے کی پیش کش کی بلکہ باقاعدہ خفیہ معاہدہ بھی کرلیاکہ فتح کے بعد مصر، لیبیا،تیونس ،الجزائر اور روسی ترکستان کے علاقے ، ترکی میںشامل کردیے جائیں گے۔
وزیرِ دفاع انورپاشا پہلے ہی میدانِ جنگ میں اترنے کے لیے تیارتھا۔اس نے امیرالبحر جما ل پاشاکو حکم دیاکہ وہ بحیرۂ اسودمیں روسی بحیرہ پر حملہ کردے۔اس وقت تک جمال پاشا بھی جنگ میں شرکت کی رائے سے متفق نہیں تھا مگر انورپاشا نے کسی نہ کسی طرح اسے ساتھ دینے پر آماد ہ کرلیا۔ غالباً وسطِ ایشیا پر قبضے اورمصر وتیونس کی بازیابی کی امید سامنے رکھ کرہی جمال پاشا نے یہ حکم مانا۔اس نے بحیرہ ٔ اسودکی بندرگاہ ’اوڈیس‘ پرروس کا ایک جنگی جہاز ڈبودیا۔اُدھر جرمنی کے ایک بحری جہاز نے روسی بندرگاہ’’ سیباستیبول ‘‘پر حملہ کرکے ،ایک دخانی جہاز کو غرق کردیا۔
یہ تھا دنیا کی سب سے بڑی جنگ میں ترکی کاپہلاقدم جس کے لیے ،پارلیمان میں بحث ہوئی ، نہ ارکانِ کابینہ سے رائے لی گئی ۔حدیہ کہ خلیفہ سے بھی اجازت نہیں لی گئی۔بلکہ خلیفہ کوکانوں کان اطلاع نہیں تھی کہ ترکی جنگ چھیڑ چکاہے۔
روسی جہازوں کی غرقابی کے بعدخلیفہ کو پتاچلاکہ ترکی جنگ میں ملوث ہوچکاہے۔ اب بھی وقت تھاکہ خلیفہ سفارتی ذرائع استعمال کرکے ترکی کواس جنگ سے بچالیتا۔مگر مجلسِ مشاورت میں ترکوں کا روایتی جوش وجذبہ غالب رہااور ایسا ماحول بن گیا کہ خلیفہ نے اپنی ذاتی رائے کے خلاف جنگ جاری رکھنے پر آمادگی ظاہر کردی۔ یوں نومبر 1914ء میں ترکی نے باقاعدہ اعلانِ جنگ کردیا ۔