Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ 2016

13 - 102
اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۲)
مگر ملکی فتوحات سے کہیں بڑھ کراورنگ زیب عالمگیر کاکارنامہ یہ ہے کہ انہوںنے اس سلطنت میں احیائے اسلام کاعظیم کارنامہ انجام دیا۔برصغیر میں اسلام اورمسلمانوں کواپنی اصل شکل میں باقی رکھنے میں اورنگ زیب عالمگیر کے دورکابہت بڑادخل ہے۔ 
اور نگ زیب نے تاج پوشی کے بعد شریعت کے احیاء کی طرف فوری توجہ دی۔ اکبر کے دورمیں آتش پرستوں سے متاثر ہوکر ’’تقویمِ الٰہی‘‘ وضع کی گئی تھی جس میں سال کاآغاز جشن نوروز سے ہوتاتھا۔اورنگ زیب نے اس کی جگہ دوبارہ ہجری تقویم کورواج دیا۔ جشن نوروز پر بھی پابندی لگادی گئی۔تمام غیراسلامی طورطریق اورقوانین موقوف کردیے گئے،شراب خانے اورجواخانے بند کردیے گئے۔دربارمیں چہارتسلیم کی رسم ختم کردی گئی۔حکم دیاگیا کہ غیرمسلموں کی طرح سرپرہاتھ رکھ کرسلام کرنے کی بجائے سنت کے مطابق فقط زبانی السلام علیکم کہا جائے۔حکام بھی عوام وخواص سے ملتے ہوئے فقط سلام کیا کریں۔ تمام غیر شرعی ٹیکس ختم کردیے گئے۔ہندوؤں کی زیارت گاہوں اورسالانہ تہواروں پرلگنے والے بازاروں میں لاکھوں روپے کی خرید وفروخت ہوتی تھی جس کاٹیکس حکومت لیاکرتی تھی ۔عالمگیر نے اسے بھی بند کرادیا۔
 درباروں میں نجومیوں کی بڑی عزت افزائی ہوتی تھی۔سالانہ گوشواروں اورانتظامی کاموں کی ترتیبات کی تاریخ طے کرنے میں نجومیوں سے مشورہ لیا جاتا تھا۔عالمگیر نے نجومیوں کا عمل دخل ختم کردیا۔مغل بادشاہ شاہی محل کے ایک بالاخانے سے عوام کواپنادیدارکراتے تھے جسے جھروکہ درشن کہاجاتاتھا۔ بہت سے لوگ جب تک بادشاہ کادیدارنہ کرلیتے ،کچھ کھاتے پیتے نہ تھے۔اکبر کے دورسے یہ رسم جاری تھی ۔عالمگیر نے اسے ترک کردیا۔
 مغل درباراورشاہی محل میں موسیقاروں اورگلوکاروں کی بڑی عزت افزائی کی جاتی تھی۔ اورنگ زیب نے موسیقی پر پابند ی لگادی۔جب موسیقار اورگویے بادشاہ سے مایوس ہوگئے توانہوںنے ایک جنازے کو بڑی دھوم دھام سے اٹھایااورماتم کرتے ہوئے شاہی محل کے قریب سے گزرے۔عالمگیر نے شوروغل سن کر وجہ دریافت کی تو گویوںنے کہا:’’موسیقی مرگئی ہے ۔اسے دفن کرنے جارہے ہیں۔‘‘عالمگیر نے کہا:’’اتنا گہر ادفن کرناکہ پھر اس کی آواز نہ آئے۔‘‘
عالمگیر نے وکیل شرعی کاعہدہ مقررکیااور اعلان کرایاکہ جس کسی کاحق بادشاہ یاکسی حاکم پر پر ہو،وہ وکیلِ شرعی سے مل کر اپنے حق کاثبوت پیش کرے اوراسے وصول کرلے۔ہر شہر کی عدلیہ میں قاضی کے ساتھ وکیلِ شرعی کاتقررہوا۔
 تمام امورِ سلطنت کو شریعت کے مطابق انجام دینے کے لیے انہوںنے ہندوستان کے جید علماء و مفتیان کی مددسے فقہ حنفی کانہایت جامع ذخیرہ مدون کرایاجسے فتاویٰ عالمگیری کانام دیا گیا۔ عالمگیرنے خود فقیہ اورعالم کی حیثیت سے اس کی تدوین اورتصحیح میں حصہ لیا۔ایک مدت کی عرق ریزی کے بعد یہ مجموعہ تیار ہواجو آج بھی ہر دارالافتاء کی زینت ہے۔اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں فقہی جزئیات اورفقہائے احناف کے مفتیٰ بہ اقوال جمع کرلیے گئے ہیں۔ اس مجموعے کی حیثیت شرعی آئین اورسرکاری قانون کی تھی اورمقدمات میں قاضی اسی کے مطابق فیصلہ کرتے تھے۔ کسی مقدمے میں بادشاہ کالحاظ بھی نہیں ہوتاتھا۔اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ پیشِ خدمت ہے۔
سورت (گجرات) کے ایک رئیس محمد محسن نے دعویٰ پیش کیاکہ شہزادہ مراد نے گجرات کی صوبے داری کے زمانے میں اس سے پانچ لاکھ روپیہ قرض لیاتھاجوابھی تک واپس نہیں کیا گیا۔ یہ روپیہ ایک صندوق میں شہزادہ مراد کی مہرلگاکرخزانے میں داخل کردیاگیاتھا اوراب تک اسی حال میں موجود ہے۔ دعوے کے جواب میںعالمگیر نے کہا:’’دعویٰ ثابت کرو اوراپناروپیہ لے لو۔‘‘
اس نے کہا:’’ثبوت دیوانی عدالت کے مطابق پیش کیاجائے یاشریعت کے ۔‘‘
عالمگیر نے کہاــ:’’کسی بھی طرح ثابت کردو۔‘‘
مدعی نے ثبوت پیش کردیے۔قاضی نے فتاویٰ عالمگیری دیکھی ۔اس کی روسے ثابت ہواکہ جب میت کاترکہ وارثوں میں سے کسی کے ہاتھ میں ہوتومیت کاقرض اداکرنااس پر واجب ہے۔
 اورنگ زیب نے پانچ لاکھ اداکرنے کاحکم جاری کردیا۔یہ سن کرمحمد محسن نے کہا:’’ہم غلاموں کاحق ہماری درخواست کے مطابق ثا بت ہوگیا۔اب ہم یہ روپیہ حضور پر نثار کرتے ہیں۔‘‘
اورنگ زیب نے اعلان کیا:’’محمد محسن اپناحق ہمیں بخشتاہے۔ ‘‘
اس کے بعد اسے ایک ہاتھی ،ایک گھوڑے اورخلعت سے نوازاگیا۔
اس درویش صفت بادشاہ کے معمولات یہ تھے کہ صبح صادق سے پہلے بیدارہوکر مسجد جاتے۔ فجر کی نماز کے بعدکلام اللہ کی تلاوت اورذکرووظائف میں مشغول رہتے۔اس کے بعد خلوت گاہ میں آکر قریبی امراء اورعدلیہ کے منتظمین کوطلب کرتے اوران کی مددسے ملکی وعدالتی امور انجام دیے جاتے۔اس کے بعد فوج کی پریڈ ملاحظہ کی جاتی۔کچھ دیر بعد دربارعام منعقد ہوتا جس میں دوردراز کے امراء ،سفیر اورضرورت مند حاضری دیتے۔
 ظہر کی نماز سے ایک گھنٹہ پہلے دیوانِ خاص میں الگ خصوصی مجلس منعقد ہوتی جس میں اہم فرامین لکھے جاتے۔ظہر کی اذان پر وہ مسجد میں جاکر نوافل ،سنتوں اوروظائف میں مشغول ہوجاتے۔ فرض نماز کے بعد خلوت خانے میں جاکر عصرتک وہیں رہتے۔اس دوران قرآن مجید کی کتابت اور تلاوت جاری رہتی ۔کبھی بیگمات آکر مستحق خواتین کے لیے امداد اورمظلوم عورتوں کی درخواستیں لے کر حاضر ہوتیں۔اس خلوت میں دینی کتب خصوصاً فقہ اور رسائلِ تصوف کا مطالعہ ہوتا۔کبھی اہم مشورے کے لیے امراء کووہیں طلب کرلیاجاتا۔ عصر کی نماز کے بعد دیوانِ خاص میں اہم ملکی امور انجام دیے جاتے۔مغرب کی نماز کے بعد کچھ دیر وظائف ادا کیے جاتے۔ پھر دیوانِ خاص میں وزیر اعظم سے مشاورت ہوتی ۔عشا ء کی نماز کے بعد امراء اورافسران کورخصت کردیاجاتا۔ رات کوتین چارگھنٹے سے زیادہ نہ سوتے اور زیادہ وقت عبادت میں گزارتے۔۴۵سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کرنا شرو ع کیااورکچھ ہی مدت میں اس نعمت کی تکمیل کرلی۔
بیماری کی حالت میں بھی معمولات ترک نہیں ہوتے تھے۔سخت گرمی کے روزوں میں بھی بلاتکان عبادت کرتے۔ ایک ماہِ رمضان کاحال ایک وقائع نگاریوں لکھتاہے:
’’رمضان کامہینہ تھا۔ سخت لوچلتی تھی۔ دن بڑے ہوتے تھے۔ بادشا ہ سلامت دن کوروزہ رکھتے۔ وظائف پڑھتے۔تلاوت وکتابت وحفظ کلام مجید کرتے۔ اپنی عدالت اورسلطنت کے کاموں کوانجام دیتے۔شام کوروزہ افطارکرکے موتی مسجد میں نمازوتروایح اورنوافل پڑھتے۔آدھی رات کو تھوڑی سی غذا کھاتے۔ رات کوبہت کم سوتے۔ اکثر عبادت کرتے۔بعض بابرکت راتوں میں ساری رات عبادت کرتے۔اسی طرح سارا مہینہ گزارا ۔‘‘ 
تصوف سے ان کی دلچسپی کایہ حال تھاکہ حضرت مجدد رحمہ اللہ کے صاحبزادے اورمجاز حضرت خواجہ محمد معصوم رحمہ اللہ کے پاس خودحاضر ہوکربیعت کی اورشاہی محل میں ہم نشینی کی درخواست کی ۔ جب اصراربڑھاتوخواجہ صاحب نے اپنے بیٹے شیخ سیف الدین کو بادشاہ کی باطنی تربیت کے لیے بھیج دیا۔شیخ سیف الدین ،عالمگیر کے حالات سے اپنے والدگرامی کومطلع رکھتے تھے۔ایک مراسلے میں بادشاہ میں آثارِ ذکر ظاہر ہونے اوربعض منازلِ سلوک طے کرنے کی بھی اطلاع دی۔عالمگیر نے اس کے بعد بھی کئی بارخوجہ معصوم رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضری دی ۔جہاں جگہ ملتی وہاں بیٹھ جاتے ، زبانی گفتگو کی جرأت نہ ہوتی ،جو کہناہوتا،لکھ کر پیش کردیتے۔انہی خواجہ سیف الدین نے دہلی میں خانقاہِ مجددیہ کی بنیاد رکھی جس کی مسندِ ارشاد اگلے دور میں مغل شہزادے مرزا مظہرِ جانِ جاناں نے سنبھالی ۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 استاذ القراء کاسفرِ آخرت 1 1
3 فنا فی القرآن 2 1
4 مثالی استاذ 3 1
5 استاذ گرامی کی کچھ یادیں 4 1
6 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۱) 5 1
7 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۲) 6 1
8 پاک بھارت جنگ کے امکانات …اورمعرکۂ پانی پت 7 1
9 رمضان اورقرآن 8 1
10 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۱) 9 1
11 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۲) 10 1
12 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۳) 11 1
13 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار [1] 12 1
14 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۲) 13 1
15 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق 15 1
16 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۲) 16 1
17 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۳) 17 1
18 سیرتِ نبویہ کے جلسے اورواعظین کے لیے لمحۂ فکریہ 18 1
19 ترک عوام جنہوںنے تاریخ بدل دی 19 1
20 اسلام میں جہاد کاتصور…اسلامی نظریاتی کانفرنس کااجلاس 20 1
21 نعمتوں کی ناقدری 21 1
22 یوم پاکستان اوردینی مدارس 22 1
23 دسمبر سے دسمبر تک 23 1
24 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۱) 24 1
25 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۲) 25 1
26 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۳) 26 1
27 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۴) 27 1
28 اکبر اوردینِ الہٰی 28 1
29 اللہ کی امانت (۱) 29 1
30 اللہ کی امانت (۲) 30 1
31 شیخ النمر کی سزائے موت 31 1
32 سمندری شیر(1) 32 1
33 سمندری شیر(2) 33 1
34 سمندری شیر(3) 34 1
35 ایک دن بھاولپور میں 35 1
36 ایدھی صاحب 36 1
37 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے 37 1
38 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے (۲) 38 1
39 فضلائے مدارس کی کھپت ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۱) 39 1
40 مدارس کے فضلاء ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۲) 40 1
41 صحبتِ یا رآخر شد 41 1
42 صحبتِ یا رآخر شد(۲) 42 1
43 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج 43 1
44 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج(۲) 44 1
45 انصاف زندہ ہے 45 1
46 جرمنی اورعالم اسلام(۱) 46 1
47 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (1) 49 1
48 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (2) 50 1
49 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (3) 51 1
50 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (4) 52 1
51 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(1) 53 1
52 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(2) 54 1
53 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(3) 55 1
54 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(4) 56 1
55 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت 57 1
56 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت (۲) 58 1
57 ایک قابلِ توجہ مسئلہ 59 1
58 کس منہ سے(۱) 60 1
59 کس منہ سے(۲) 61 1
61 سفر وسیلۂ ظفر 62 1
62 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے 63 1
63 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے (۲) 64 1
64 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۱) 65 1
65 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۲) 66 1
66 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۳) 67 1
67 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۴) 68 1
68 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (1) 69 1
69 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۲) 70 1
70 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۳) 71 1
71 بانی ٔ رُہتاس 72 1
72 بانی ٔ رُہتاس (۲) 73 1
73 بانی ٔ رُہتاس (۳) 74 1
74 شہ سواری اورتیراندازی 75 1
75 شام کی صورتحال اورمستقبل کے خطرات 76 1
76 تبدیلی کی کوشش(۱) 77 1
77 تبدیلی کی کوشش(۲) 78 1
78 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۱) 79 1
79 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۲) 80 1
80 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۳) 81 1
81 تطہیر الجنان۔ایک لاجواب شاہکار 82 1
82 تہذیب حجاز ی کامزار(1) 83 1
83 تہذیب حجاز ی کامزار (2) 84 1
84 تہذیب حجاز ی کامزار (3) 85 1
85 تہذیب حجاز ی کامزار (4) 86 1
86 تہذیب حجاز ی کامزار (5) 87 1
87 تہذیب حجاز ی کامزار (6) 88 1
88 تہذیب حجاز ی کامزار (7) 89 1
89 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۱) 90 1
90 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۲) 91 1
91 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۳) 92 1
92 یوسف بن تاشفین(۱) 93 1
93 یوسف بن تاشفین(۲) 94 1
94 یوسف بن تاشفین(۳) 95 1
95 جرمنی اورعالم اسلام (۲) 47 1
96 جرمنی اورعالم اسلام (۳) 48 1
97 شیخ محمد بن عبدالوہاب ،آلِ سعود اورایرانی حکومت 96 1
98 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا 97 1
99 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا (۲) 98 1
100 خود احتسابی اور سروے کا طریقِ کار 99 1
101 اونچی اڑان 100 1
102 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین 101 1
103 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین (۲) 102 1
104 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۳) 14 1
Flag Counter