Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ 2016

61 - 102
کس منہ سے(۲) 
یہی غلام تھے جو سلطنتِ روما کی تعمیرات، جنگوں اور مہمات میں تمام سخت کام کرتے تھے مگران بھاری خدمات کے بدلے انہیں جو غذا دی جاتی تھی وہ جانوروں کے چارے سے بھی بدتر ہوتی تھی ۔ انہیں صاف پانی پینے کاحق نہ تھا بلکہ وہ گدلاپانی دیاجاتاتھاجو جانورپیتے تھے۔ رومی تہذیب آٹھ صدیوں تک اپنے عروج پر رہی اوراس نے مشر ق ومغرب کی دولت وثروت کوسمیٹ لیامگر اس کے دامن میں ان غلاموں کے لیے کچھ نہ تھا جوتہذیب وثقافت کی ان عظیم الشان دیواروں تلے دفن ہوتے رہے۔
مغرب میں انسانی حقوق کی پامالی اورغلاموں کی ارزانی کاایک بھیانک دوراس وقت شروع ہواجب ۱۴۹۴ء میں اسپین کایہودی کپتان کولمبس ہندوستان تلاش کرتاہوا، امریکا پہنچ گیا۔ وہاں کے مقامی باشندے جنہیں کولمبس نے ریڈانڈینز کانام دیا ،اس کے مددگار بنے۔ انہوںنے اس کی خاطر تواضع کی اوراسے تحائف سے نوازا۔ کولمبس ان میں سے پچاس افراد کو اسپین ساتھ لے گیا، وہاں اس نے  انہیں غلام بنا کر فروخت کردیا۔ اس کے بعد یورپی ممالک کے تاجروں اورامراء نے جو ق درجوق امریکاکارُخ کیا اوراس کی وسیع اراضی پر قبضے کی ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ شروع ہوگئی۔
لاس کیسس نامی مشہور مشنری اورمؤرخ کولمبس کے امریکا میں پہلاقدم رکھتے وقت اس کاہم سفر تھا، ریڈانڈینز کے بارے میں اپنے ہم قوموں کے سلوک کاذکرکرتے ہوئے اس نے جو لکھاہے ،وہ انتہائی دردناک ہے۔ ذرادل پرہاتھ رکھ کر یہ اقتبا س پڑھیں:
’’ہسپانویوںنے ان بچوں کی ٹانگیں کاٹ دیں جوان سے ڈر کربھاگ رہے تھے۔ انہوںنے لوگوں پر کھولتا ہواصابن انڈیلا  ۔پھر وہ شرطیں لگا کر تلوار کے ایک وار سے انسانی جسموں کو دوحصوں میں تقسیم کرنے کاکھیل کھیلنے لگے۔ خوںخوارکتوں کو سراسیمہ لوگوں پر چھوڑدیاگیاجنہوںنے آناً فاناً انہیں چیر پھاڑ کررکھ دیا۔ کتوں کی کارگزاری پر انہیں انعامی خوراک یہ دی گئی کہ نومولود بچوں کوان کے سامنے پھینک دیاگیا۔‘‘
اس سلوک کے ساتھ ریڈ انڈینز کو ان کی آبادیوں سے بھگاکر ان کی زمینیں چھینی گئیں۔ زمینوں پر قبضہ کرنے کے بعدا نہیں کاشت کرنے کامرحلہ درپیش ہوا۔زمینیں زیادہ تھیں اورکام کرنے والے کم ۔ اس لیے یورپی اقوام نے بڑی بے رحمی سے مقامی ریڈ انڈینز کو غلام بناکران سے اراضی  کاشت کرانے کاسلسلہ شروع کیا۔ریڈ انڈینز غلامی قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔انہوںنے مزاحمتی لڑائیاں شروع کیں ۔یورپی اقوام جدیداسلحے کے بل بوتے پر انہیں پسپا کرتی رہیں ۔ ان کا بے دریغ قتل عام کیاگیا۔ مجبوراًریڈ انڈینز اپنے شہر اوردیہات چھوڑ کر جنگلوں اورپہاڑوں میں بسنے لگے اوران کی تعداد گھٹ کر نصف رہ گئی۔
امریکاکے بابائے قوم جارج واشنگٹن نے اپنے ایک خط میں لکھاتھا: 
’’ہماری آباد کاری کاتسلسل یقینی طورپر جانوروں(ریڈ انڈینز) کو اسی طرح ختم کردے گاجیسے بھیڑیوں کو آخر کار موت آگھیرتی ہے۔شکل وصورت میں مختلف ہونے کے باوجود دونوں کاانجام یکساں ہے۔‘‘
 ریڈ انڈینز کے مشہور قبیلے سینیکا کے سردار ساگواتھا ریڈ جیکٹ نے اپنے ہم وطنو ں کی حالت اوراہلِ مغرب کی وحشیانہ یلغار پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھاتھا:
’’انہوںنے ہمیں بتایاتھاکہ وہ اپنے مذہب کی خاطر بدمعاش قاتلوں سے بچ کریہاں پناہ لینے آئے ہیں ۔لیکن وہ آتے ہی چلے گئے۔ حتی کہ وہ تعداد میں بڑھتے گئے اورہم کم ہوتے گئے۔ اورہماراہی ملک ہمارے ہاتھوں سے جاتارہا۔‘‘
چونکہ ریڈ انڈینز اچھے غلا م ثابت نہیں ہورہے تھے ،اس لیے یورپی اقوام نے اس مسئلے کایہ حل نکالا کہ افریقہ کے ساحلی علاقوں سے لوگوں کو پکڑ نااوربیچناشروع کردیا۔سب یہ سلسلہ بڑھاتو مغربی افریقا کا ساحلی شہر ’’گینیا‘‘ اس خرید وفروخت کاسب سے بڑامرکز بن گیا۔ یہاں باقاعدہ غلاموں کے باڑے بنے ہوئے تھے ۔ یہ سب پیدائشی آزاد لوگ تھے جن کی بستیوں کو نذرآتش کردیاگیاتھااوران بدقسمت مکینوں کو گرفتارکرکے ان باڑوں میں ٹھونس دیاگیاتھا۔انہیں غلاموں کی فیکٹریاں کہاجاتاتھا۔
روزانہ ان گنت غلام یہاں لاکر پھینک دیے جاتے تھے۔ غلاموں کے تاجرانہیں خرید کرامریکالے جاتے۔ امریکا کاساحلی شہر جیمز ٹاؤن غلاموں کی پہلی منڈی بنا۔ سب سے پہلے ۱۶۱۹ء میں وہاں بیس سیاہ فام غلام فروخت کیے گئے۔ امریکامیں زمینیں آباد کرنے والے انہیں بہت سستے داموں خریدلیتے تھے۔اس طرح امریکامیں زرعی رقبے ان غلاموں کے خون پسینے سے سیراب ہونے لگے۔بعض اوقات غلاموں کی رسد، طلب کی بہ نسبت بہت بڑھ جاتی تھی ،اسی لحاظ سے ان کی قیمت بہت گرجاتی ۔ بعض اوقات انہیں پیاز کی ایک گھٹی کے بدلے بیچ دیاجاتاتھا۔ امریکا میں جمہوری نظام قائم ہونے کے بعد بھی یہ سلسلہ باقی تھا۔۱۸۷۰ ء میں امریکا میں سیاہ فام غلاموں کی تعداد ایک کروڑ،چودہ لاکھ اسی ہزار شمار کی گئی تھی۔
اس دوران ریڈ انڈینز کااستحصال بھی جاری رہا۔ چونکہ وہ قابض اقوام کے خلاف مزاحمت کررہے تھے اس لیے ان کی نسل کشی کے لیے عجیب وغریب طریقے اختیار کیے گئے۔انہیں متعدی امراض میں مبتلا کرنے کی منصوبہ بندیاں ہوئیں ۔یورپ کے ہسپتالوں سے خسرہ ،چیچک اورٹی بی میں مبتلا مریضوں کے لباس، لحاف ،کمبل اوربستر منگوائے گئے اورانہیں امدادی ورفاہی مہم کے نام سے ریڈانڈینز میں بطورِ امداد تقسیم کیاگیا۔اس طرح ان بیماریوں کے جراثیم ریڈ انڈینز میں پھیل گئے اوران کی بستیوں کی بستیاں ان امراض میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوگئیں۔
یہ داستان بہت طویل ہے اورکالم کی گنجائش کم۔ مگر انسانی حقوق کی علم برداراقوام مغرب کاچہرہ دیکھنے کے لیے اتنا بھی کافی ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے جس سے اہلِ مغرب کبھی پیچھانہیں چھڑاسکتے۔ دوسری طرف ہم اپنی تاریخ بلکہ اپنے موجود ہ معاشرے پر بھی (اس کے بعض منفی یاقابلِ اصلاح پہلوؤں کے اعتراف کے باوجود)فخر کرسکتے ہیں ۔ہم اللہ کاشکر اداکرتے ہیں کہ ہم یورپ وامریکاکی ان نسلوں سے تعلق نہیں رکھتے جن کے دامن پر کروڑوں انسانوں کاخون ہے۔
مسلمانوں میں اگر کبھی کوئی کمزوریاں رہیں یاآج بھی دکھائی دے رہی ہیں تویہ یقینا معاشرے کے بعض افراد کی غلطیاں ہیں۔ اسے اسلامی نظام یامسلم معاشرے کی خصوصیات کے طورپرمتعارف کرانا ، بہت بڑادجل اورفریب ہے۔ اگر اسلام کی اصل شکل دیکھناچاہے تو اسے اسلامی تعلیمات کے اصل مآخذ یعنی قرآن وسنت کی طرف رجوع کرناچاہیے،نیز سیرتِ نبویہ اورسیرِ صحابہ کامطالعہ کرناچاہیے۔ حضوراکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت ہر مسلمان کومعلوم ہے کہ آخری لمحات میں ارشاد تھا:
الصلوۃ الصلوۃ ۔وماملکت ایمانکم
(نما ز کاخیال رکھنااوراپنے ماتحتوں کا)
اگر اجمالی طورپر بھی اسلام میں غلاموں اورباندیوں کے حقوق دیکھ لیے جائیں تو معلوم ہوگاکہ اسلام نے سب سے پہلے اس مـظلوم طبقے کوانسان تسلیم کیااورانہیں تمام انسانی حقوق مہیا کیے۔پہلی اوردوسری صدی ہجری کے نامور محدثین اورفقہاء میں ایک بڑی تعداد ان کی ہے جو غلام تھے مگر خوش قسمتی سے عبداللہ بن عمر،عبداللہ بن عباس ،عبداللہ بن زبیر ،امام شعبی،علقمہ بن قیس ،ابراہیم نخعی اور حسن بصری جیسے بزرگوں کے سایۂ عاطفت میں آئے اورپھر علم کے بحرِ ذخار بن کردنیا کو سیراب کرنے لگے۔اسلامی تاریخ میں ہندوستان کے خاندانِ غلاماں اورمصر وشام  کی دولتِ ممالیک ہی کودیکھ لیں تواندازہ ہوگاکہ اس غلامی پربادشاہوں کو رشک آتاتھا۔اہلِ مغرب آج اسلام پر تہمت دھر کراپنی تاریکی کواجالا ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں مگر کس منہ سے؟
{کالم کی تیاری میں دوکتب سے بطورخاص مددلی گئی ہے۔
غلامی ایک تاریخی جائزہ:میاں محمدا شرف……ہوئے تم دوست جس کے۔ ڈاکٹر حقی حق}
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 استاذ القراء کاسفرِ آخرت 1 1
3 فنا فی القرآن 2 1
4 مثالی استاذ 3 1
5 استاذ گرامی کی کچھ یادیں 4 1
6 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۱) 5 1
7 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۲) 6 1
8 پاک بھارت جنگ کے امکانات …اورمعرکۂ پانی پت 7 1
9 رمضان اورقرآن 8 1
10 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۱) 9 1
11 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۲) 10 1
12 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۳) 11 1
13 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار [1] 12 1
14 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۲) 13 1
15 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق 15 1
16 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۲) 16 1
17 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۳) 17 1
18 سیرتِ نبویہ کے جلسے اورواعظین کے لیے لمحۂ فکریہ 18 1
19 ترک عوام جنہوںنے تاریخ بدل دی 19 1
20 اسلام میں جہاد کاتصور…اسلامی نظریاتی کانفرنس کااجلاس 20 1
21 نعمتوں کی ناقدری 21 1
22 یوم پاکستان اوردینی مدارس 22 1
23 دسمبر سے دسمبر تک 23 1
24 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۱) 24 1
25 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۲) 25 1
26 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۳) 26 1
27 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۴) 27 1
28 اکبر اوردینِ الہٰی 28 1
29 اللہ کی امانت (۱) 29 1
30 اللہ کی امانت (۲) 30 1
31 شیخ النمر کی سزائے موت 31 1
32 سمندری شیر(1) 32 1
33 سمندری شیر(2) 33 1
34 سمندری شیر(3) 34 1
35 ایک دن بھاولپور میں 35 1
36 ایدھی صاحب 36 1
37 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے 37 1
38 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے (۲) 38 1
39 فضلائے مدارس کی کھپت ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۱) 39 1
40 مدارس کے فضلاء ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۲) 40 1
41 صحبتِ یا رآخر شد 41 1
42 صحبتِ یا رآخر شد(۲) 42 1
43 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج 43 1
44 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج(۲) 44 1
45 انصاف زندہ ہے 45 1
46 جرمنی اورعالم اسلام(۱) 46 1
47 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (1) 49 1
48 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (2) 50 1
49 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (3) 51 1
50 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (4) 52 1
51 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(1) 53 1
52 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(2) 54 1
53 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(3) 55 1
54 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(4) 56 1
55 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت 57 1
56 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت (۲) 58 1
57 ایک قابلِ توجہ مسئلہ 59 1
58 کس منہ سے(۱) 60 1
59 کس منہ سے(۲) 61 1
61 سفر وسیلۂ ظفر 62 1
62 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے 63 1
63 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے (۲) 64 1
64 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۱) 65 1
65 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۲) 66 1
66 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۳) 67 1
67 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۴) 68 1
68 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (1) 69 1
69 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۲) 70 1
70 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۳) 71 1
71 بانی ٔ رُہتاس 72 1
72 بانی ٔ رُہتاس (۲) 73 1
73 بانی ٔ رُہتاس (۳) 74 1
74 شہ سواری اورتیراندازی 75 1
75 شام کی صورتحال اورمستقبل کے خطرات 76 1
76 تبدیلی کی کوشش(۱) 77 1
77 تبدیلی کی کوشش(۲) 78 1
78 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۱) 79 1
79 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۲) 80 1
80 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۳) 81 1
81 تطہیر الجنان۔ایک لاجواب شاہکار 82 1
82 تہذیب حجاز ی کامزار(1) 83 1
83 تہذیب حجاز ی کامزار (2) 84 1
84 تہذیب حجاز ی کامزار (3) 85 1
85 تہذیب حجاز ی کامزار (4) 86 1
86 تہذیب حجاز ی کامزار (5) 87 1
87 تہذیب حجاز ی کامزار (6) 88 1
88 تہذیب حجاز ی کامزار (7) 89 1
89 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۱) 90 1
90 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۲) 91 1
91 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۳) 92 1
92 یوسف بن تاشفین(۱) 93 1
93 یوسف بن تاشفین(۲) 94 1
94 یوسف بن تاشفین(۳) 95 1
95 جرمنی اورعالم اسلام (۲) 47 1
96 جرمنی اورعالم اسلام (۳) 48 1
97 شیخ محمد بن عبدالوہاب ،آلِ سعود اورایرانی حکومت 96 1
98 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا 97 1
99 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا (۲) 98 1
100 خود احتسابی اور سروے کا طریقِ کار 99 1
101 اونچی اڑان 100 1
102 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین 101 1
103 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین (۲) 102 1
104 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۳) 14 1
Flag Counter