Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ 2016

43 - 102
حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج
عام طورپر یہ سمجھاجاتاہے کہ جو علماء اسٹیج یامیدان میں سرگرم ہیں ،وہی دین کے محافظ اورخادم ہیں۔مدرسوں ،حجروں اورکنجِ عزلت میں بیٹھے اہلِ علم کااسلامی معاشرے کی تشکیل اورحفاظت میں کوئی خاص کردار نہیں سمجھاجاتا۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ میدان میں کام کرنے والوں کوبھی علمی وفکری غذا،انہی گوشہ نشینوں سے میسر آرہی ہوتی ہے۔
 اسلامی تاریخ میں تیسری اورچوتھی صدی ہجری کازمانہ اس لحاظ سے  بڑا نازک اورپرآشوب تھاکہ خلافت ِ عباسیہ کی حدود سمٹ چکی تھیں اوراکثراسلامی ملکوں پر قرامطہ،بنوبویہ اوربنوعبیدقابض ہوچکے تھے۔ امام احمد بن حنبل ؒ اوراس دور کے بعض علماء کی کوششوں سے خلقِ قرآن کامسئلہ توختم ہوچکا تھا مگر اعتزال کا فتنہ ابھیباقی تھا۔ معتزلی علماء کا معاشرے میں اثرورسوخ باقی تھا اور خلافتِ بنوعباس کے دورِ زوال میں وہ بڑے بڑے عہدوں پر تھے۔اعتزال ایک عقلیت پسند دینی مکتبِ فکر کے طور پر اب بھی باقی تھا اور معتزلہ کی چھیڑی ہوئی کچھ دوسری بحثیں اب بھی علمی حلقوں میں زیرِ بحث رہتی تھیں۔ان حالات میں علمائے دین نے اسلام کی اصل شکل کی حفاظت کے لیے جو مثالی کردار اداکیا ،وہ آج بھی ہمارے لیے قابلِ رشک اورقابلِ تقلید ہے۔ ان میں برسرِ میدان کام کرنے والے حضرا ت بھی تھے اورمسجد ومدرسہ تک محدود بزرگ بھی۔اس دورِ فتن میں علمی کاوشوں کی چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں۔
ان میں سے ایک شخصیت وہ ہے جسے دنیا امام طحاوی کے نام سے جانتی ہے ۔امام ابوجعفر احمدبن محمد الطحاوی ؒ۲۳۹ھ میں مصر کے ایک گاؤں ’’طحا‘‘ میں پیداہوئے تھے۔ وہ مشہور شافعی محدث ابراہیم مزنی کے بھانجے تھے اور انہی سے پڑھتے تھے۔ ایک دن ماموں نے غصے میں آکرکہہ دیا :’’تم سے کچھ نہیں ہوگا۔‘‘ یہ ناراض ہوکر قاضیٔ مصر احمد بن ابی عمران کے حلقہ ٔدرس میں چلے گئے۔ رفتہ رفتہ علمائے احناف کی فکر ونظر سے متاثر ہوکر فقہ حنفی کے قائل ہوگئے اوراس میں اتنی مہارت حاصل کی کہ اپنے دور میں احناف کے ترجمان کہلائے ۔جب انہیں مصرکاقاضی بنایاگیاتو ان کی عمر تیس سال سے کچھ اوپر تھی ۔ان کا انتقال۳۲۱ھ میں ہوا۔
امام طحاوی ؒکی تصانیف بکثرت ہیں جن میں شرح معانی الآثار، مشکل الآثار،اختلاف الفقہاء ، المختصر فی الفقہ ، احکام القرآن اورالوصایا مشہور ہیں۔ حافظ ذہبی ؒفرماتے ہیں :’’جو شخص اس امام کی تصانیف کامطالعہ کرے گاوہ ان کے علمی مقام اوروسعتِ نظری کاقائل ہوجائے گا۔‘‘ 
علمِ حدیث میں ان کی تصنیف ’’شرح معانی الآثار‘‘ تمام کتبِ حدیث سے الگ طرز کی ہے۔ اس میں وہ ہر باب میںباہم متعارض روایات کو الگ الگ گروپ کی شکل میں پیش کرتے ہیںاورآخر میں اپنی ’’نظر‘‘پیش کرکے ثابت کرتے ہیں کہ فقہ حنفی عقل ونقل اوراصولِ شرع سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے۔
مگر امام طحاوی ؒ کوسب سے زیادہ مقبولیت علم عقائدکے متعلق ایک مختصرسے رسالے سے ملی ۔ انہوںنے اہل سنت و الجماعت کے تمام مکاتبِ فکر کے متفقہ عقائد پرمشتمل ایک مختصر مگر جامع متن مرتب کیا جو ’’العقیدۃ الطحاویہ ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ آج تک اسے اہلِ سنت کے ’’سرنامے‘‘کی حیثیت حاصل ہے کیونکہ یہ ایک ایسے بلندپایہ مجتہد کاپیش کردہ متن ہے جس کی جلالتِ قدر،علمی شان اورامانت ودیانت پر سب کااتفاق ہے۔  
حقیقت یہ ہے کہ امام طحاوی ؒنے یہ متن لکھ کر اہلِ سنت کے عقائد ونظریات کے دفاع کے لیے نہایت قابلِ قدرکام کیا۔ اس متن کی متعدد شروح لکھی گئیں اورآ ج تک اہلِ سنت کے عقائد کاحوالہ دینے کے لیے العقیدۃ الطحاویہ کو سب سے پہلے پیش کیاجاتاہے۔
امام طحاوی کے کام کے باوجود امت کو ایک ایسی شخصیت کی ضرورت تھی جو جدید ذہن کو سامنے رکھتے ہوئے نئے شکوک وشبہات کودورکرتی۔چونکہ معتزلی علماء عقلی دلائل کے ساتھ بحث کرتے تھے اس لیے عام طورپر وہ ذہین اورنکتہ رس مشہورہوگئے تھے۔ نئے فقہاء ومحدثین نے عقلی طریقۂ بحث سیکھنے کی طرف توجہ نہیں کی جس کی وجہ سے عام تاثریہ پھیلنے لگاتھا کہ فقہاء ومحدثین کے دلائل کمزورہوتے ہیں۔اس صورتِ حال کو بدلنے کے لیے کسی ایسے عالم کی ضرورت تھی جو علم ، ذہانت،عقل، زبان آوری اور ذہنی سطح کے اعتبار سے وقت سے کہیں آگے ہو۔
ایسے میں اللہ نے امام ابوالحسن اشعری (۲۶۰ھ۔۳۲۴ھ) کو علمائے حق کی نمائندگی کے لیے کھڑا کردیا۔وہ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کی اولاد میں سے تھے۔پہلے وہ ایک مشہورمعتزلی عالم تھے۔ چالیس سال کی عمر تک فقہا ء اور محدثین سے مناظرے کرتے رہے۔ انہیں معتزلہ کی زبان مانا جاتا تھا۔ مگرمناظرے کرتے کرتے انہیں یہ محسوس ہونے لگا کہ یہ عقلی دلائل محض ایک ذہانت کے اظہار کے سواکچھ نہیں۔حقیقت وہی ہے جو فقہاء ومحدثین بتاتے ہیں اور جو صحابہ کرام کامسلک تھا ۔انہوں نے کچھ دن غوروفکرمیں گزارے اور پھرا یک دن بھرے مجمعے میں معتزلی عقائد سے توبہ تائب ہونے کااعلان کیا۔ اس کے بعد ان کی زندگی علمائے حق کے مسلک کی اشاعت کے لیے وقف ہوگئی۔
انہوںنے معتزلہ کو مشتعل کرنے یا ان کی تحقیر کے درپے ہونے کے بجائے پوری سنجیدگی سے انہیں اپنی بات سمجھانے کی کوشش کی ۔اس کے لیے انہوںنے معتزلہ اورمحدثین کے مابین ایک معتدل طریقہ اختیارکیا۔ نہ تو انہوں نے معتزلہ کی طرح عقل کو حرفِ آخر مانا،نہ ہی فقہاء ومحدثین کی طرح عقلی دلائل کو بے کارقراردیتے ہوئے زیرِ بحث اعتقادی مسائل میں سکوت اورتوقف کو واجب کہا۔ان کاکہناتھا کہ جس طرح عوام سے عوامی زبان میں بات کرنا ضروری ہے اسی طرح اہلِ عقل سے ان کی زبان اوراصطلاحات میں بحث کرنا لازمی ہے۔
انہوںنے مناظروں ،مباحثوں اوراپنی تحریروں میں اہلِ سنت کے عقائد کو عقلی دلائل سے واضح کیااورباطل فرقوں کے ایک ایک نظریے کوانہی کی زبان واصطلاحات کے ساتھ اورانہی کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں غلط ثابت کردیا۔عقائد کے ثبوت کا یہ عقلی ،منطقی اورفلسفیانہ طرز ’’علمِ کلام ‘‘ کہلاتاہے اوراہلِ سنت میں اس کے بانی ابوالحسن اشعری ہیں۔ ان کی کوششوں نے معتزلہ کو پسپاہونے پر مجبورکردیااور اہلِ حق سے احساسِ کمتری کودورکرکے ان کے قدموں کوجمادیا۔عقائد ،علم کلام اوردیگر دینی موضوعات پرابوالحسن الاشعریؒ کی کتب کی تعداد اڑھائی سوتک بتائی جاتی ہے۔ ان میں سے الابانۃ،رسالۃ الیٰ اہل الثغراورمقالات الاسلامیین آج بھی موجودہیں اوراپنے مصنف کے علمی کمالات کی گواہ ہیں۔ان کے دلائل کاآج تک جواب نہیں دیاجاسکا۔
ابوالحسن اشعری ۳۲۴ھ میں فوت ہوئے۔علماء نے انہیں اس دورکامحافظِ سنت قراردیاہے ۔ابوبکر اسماعیلی نے دین کی حفاظت کے سلسلے میں امام احمدبن حنبل ؒکے بعدانہی کانام ذکرکیاہے۔
ابوالحسن اشعری ؒ کے طرز پر اہلِ سنت کے عقائد کی وکالت کرنے والے ’’اشاعرہ ‘‘ کہلاتے ہیں۔وہ خود فقہ شافعی کے پیروکارتھے،اس لیے شافعی علماء ،متکلمین اورمناظرین نے زیادہ تر ان کی پیروی کی۔اسی لیے آج تک شوافع کی اکثریت اعتقادی واصولی لحاظ سے اشعری چلی آرہی ہے۔چونکہ ابوالحسن اشعری ؒ نے عالم اسلام کے مرکز بغدادمیں کام کیاتھااورمعتزلہ سے براہِ راست ٹکرلی تھی ،اسی لیے عالم اسلام میںان کے علم کلام کو غیرمعمولی شہرت ومقبولیت نصیب ہوئی۔
(جار ی ہے)
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 استاذ القراء کاسفرِ آخرت 1 1
3 فنا فی القرآن 2 1
4 مثالی استاذ 3 1
5 استاذ گرامی کی کچھ یادیں 4 1
6 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۱) 5 1
7 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۲) 6 1
8 پاک بھارت جنگ کے امکانات …اورمعرکۂ پانی پت 7 1
9 رمضان اورقرآن 8 1
10 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۱) 9 1
11 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۲) 10 1
12 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۳) 11 1
13 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار [1] 12 1
14 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۲) 13 1
15 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق 15 1
16 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۲) 16 1
17 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۳) 17 1
18 سیرتِ نبویہ کے جلسے اورواعظین کے لیے لمحۂ فکریہ 18 1
19 ترک عوام جنہوںنے تاریخ بدل دی 19 1
20 اسلام میں جہاد کاتصور…اسلامی نظریاتی کانفرنس کااجلاس 20 1
21 نعمتوں کی ناقدری 21 1
22 یوم پاکستان اوردینی مدارس 22 1
23 دسمبر سے دسمبر تک 23 1
24 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۱) 24 1
25 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۲) 25 1
26 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۳) 26 1
27 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۴) 27 1
28 اکبر اوردینِ الہٰی 28 1
29 اللہ کی امانت (۱) 29 1
30 اللہ کی امانت (۲) 30 1
31 شیخ النمر کی سزائے موت 31 1
32 سمندری شیر(1) 32 1
33 سمندری شیر(2) 33 1
34 سمندری شیر(3) 34 1
35 ایک دن بھاولپور میں 35 1
36 ایدھی صاحب 36 1
37 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے 37 1
38 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے (۲) 38 1
39 فضلائے مدارس کی کھپت ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۱) 39 1
40 مدارس کے فضلاء ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۲) 40 1
41 صحبتِ یا رآخر شد 41 1
42 صحبتِ یا رآخر شد(۲) 42 1
43 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج 43 1
44 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج(۲) 44 1
45 انصاف زندہ ہے 45 1
46 جرمنی اورعالم اسلام(۱) 46 1
47 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (1) 49 1
48 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (2) 50 1
49 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (3) 51 1
50 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (4) 52 1
51 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(1) 53 1
52 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(2) 54 1
53 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(3) 55 1
54 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(4) 56 1
55 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت 57 1
56 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت (۲) 58 1
57 ایک قابلِ توجہ مسئلہ 59 1
58 کس منہ سے(۱) 60 1
59 کس منہ سے(۲) 61 1
61 سفر وسیلۂ ظفر 62 1
62 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے 63 1
63 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے (۲) 64 1
64 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۱) 65 1
65 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۲) 66 1
66 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۳) 67 1
67 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۴) 68 1
68 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (1) 69 1
69 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۲) 70 1
70 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۳) 71 1
71 بانی ٔ رُہتاس 72 1
72 بانی ٔ رُہتاس (۲) 73 1
73 بانی ٔ رُہتاس (۳) 74 1
74 شہ سواری اورتیراندازی 75 1
75 شام کی صورتحال اورمستقبل کے خطرات 76 1
76 تبدیلی کی کوشش(۱) 77 1
77 تبدیلی کی کوشش(۲) 78 1
78 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۱) 79 1
79 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۲) 80 1
80 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۳) 81 1
81 تطہیر الجنان۔ایک لاجواب شاہکار 82 1
82 تہذیب حجاز ی کامزار(1) 83 1
83 تہذیب حجاز ی کامزار (2) 84 1
84 تہذیب حجاز ی کامزار (3) 85 1
85 تہذیب حجاز ی کامزار (4) 86 1
86 تہذیب حجاز ی کامزار (5) 87 1
87 تہذیب حجاز ی کامزار (6) 88 1
88 تہذیب حجاز ی کامزار (7) 89 1
89 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۱) 90 1
90 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۲) 91 1
91 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۳) 92 1
92 یوسف بن تاشفین(۱) 93 1
93 یوسف بن تاشفین(۲) 94 1
94 یوسف بن تاشفین(۳) 95 1
95 جرمنی اورعالم اسلام (۲) 47 1
96 جرمنی اورعالم اسلام (۳) 48 1
97 شیخ محمد بن عبدالوہاب ،آلِ سعود اورایرانی حکومت 96 1
98 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا 97 1
99 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا (۲) 98 1
100 خود احتسابی اور سروے کا طریقِ کار 99 1
101 اونچی اڑان 100 1
102 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین 101 1
103 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین (۲) 102 1
104 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۳) 14 1
Flag Counter