تہذیب حجاز ی کامزار (7)
سقوطِ بلرم کے بعددو صدیوں تک مسلمانانِ صقلیہ حالات کی متلاطم موجوں کی زد میں رہے ۔ ان کی حیثیت شکستہ جہاز سے سمندرمیں گرنے والے مسافروں کی سی تھی۔ آہستہ آہستہ صقلیہ کے حکمرانوں اورنصرانی عوام کامزاج ان کے بارے میں سخت ہوتاگیا۔ مشرق میں چھڑی ہوئی صلیبی جنگیں ماحول میں اس شدت کابڑاسبب تھیں۔چھٹی صدی ہجری میں پاپائے روم کے بھڑکانے پر صقلیہ کے عیسائیوںنے مسلمانوں کے خلاف مسلح مہم شروع کردی ۔نتیجے میں مسلمانوںنے بھی مزاحمت کی۔ا س کشت وخوں میں ہزاروں انسان کٹ گئے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد اس کے بعد بلرم سے نکل کر پہاڑی علاقوں میں قلعہ بند ہوگئی اوراس نے عیسائیوں کے خلاف وقتاً فوقتاً گوریلاجنگ جاری رکھی۔
ساتویں صدی ہجری کے وسط میں، فریڈرک دوئم کی حکومت کے دوران ایک بارپھر عیسائیوںنے مسلم نسل کشی کی مہم شروع کی ،جس میں فوج پوری طرح شریک تھی ۔ جنگلوں اور پہاڑوںکو گھیر کران کاچپہ چپہ چھاناگیااورمسلمانوں کا ہر مورچہ اورقلعہ تباہ کردیاگیا۔ باقی ماندہ مسلمانوں نے جاں بخشی کے وعد ے پر ہتھیارڈال دیے ۔فریڈر ک دوئم نے انہیں اٹلی کے علاقے نواسیر ا کی طرف جلا وطن کردیا،ان مسلمانوں کی تعداد ساٹھ ہزارتھی۔
مگرجب1261ء میںصقلیہ کی حکومت چارلس دوئم کے پاس آئی تواس نے سابقہ تمام حکمرانوں سے بڑھ کرمسلم دشمنی کاثبوت دیا۔ وہ صقلیہ اوراٹلی کامشترکہ حکمران تھا۔اس نے نواسیر ا کے مسلمانوں کو دواختیاردیے ۔عیسائیت قبو ل کرو۔ یاموت کوگلے لگالو۔اس طرح ان مسلمانوں کو جبراً عیسائی بنادیاگیا۔جنہوںنے انکارکیا ،وہ ختم کردیے گئے۔غرض ساتویں صدی ہجری کے اختتام تک مسلمانانِ صقلیہ کاذکر صرف کتبِ تاریخ میں باقی رہ گیاتھا۔
آخر میں ہم ایک ایسے عظیم عالم دین کاذکر کرتے ہیں جو صقلیہ کے دورِ غلامی میں پیدا ہوئے۔ اس وقت صقلیہ سے مسلمانوں کاتقریباً خاتمہ ہوچکاتھا۔بچے کھچے لوگوں کو نصرانی بنانے کی مہم عروج پر تھی ۔ انکار کی کم ازکم سزاقید وبند تھی۔ ایسے میں مسّینہ کے ایک عالم حسین بن عبداللہ نامی کو بھی ان کی بیوی سمیت گرفتارکرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔یہ560ھ کاواقعہ ہے۔ اس وقت ان کی بیوی امید سے تھی۔ایک مدت تک دونوں سزائیں جھیلتے رہے۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے ان کو رہائی نصیب فرمادی ۔ بچے کی ولادت ہوئی تواس کانام عبداللہ رکھاگیا۔والدین کواس کی جان اور ایمان کی فکر لاحق تھی۔ کئی سال بعد اللہ نے انہیں اس اندھیری نگری سے نکلنے کاموقع دے دیا۔
570ھ میں وہ مصر آگئے۔جہاں سلطان صلاح الدین ایوبی کی حکومت تھی۔یہاں اس بچے نے ابتدائی تعلیم کے بعد اپنے دورکے عظیم ترین محدث ابوطاہر سلفی ؒسے علم حدیث میں مہارت حاصل کی۔ جب یہ بچہ عالم بناتودنیااسے’’ابن رواحہ ‘‘ کی کنیت سے جاننے لگی۔ان کی وفات ۶۴۶ھ میں ہوئی اورحماہ میں مدفون ہوئے۔ ان کے حالات سیراعلام النبلاء میں موجودہ ہیں۔
صقلیہ ،پہلی حکومت تھی جومسلمانوں کے ہاتھوں سے گئی ۔ اس کے فوراً بعد عیسائیوںنے جری ہوکر صلیبی جنگوں کاسلسلہ شروع کیا۔ کئی صدیوں بعدصقلیہ کے سقوط کی طرح یورپ کی پہلی اسلامی مملکت اندلس کاسقوط ہوا۔ وہاں کے مسلمانوں کی داستان بھی اہلِ صقلیہ سے کچھ مختلف نہیں۔
آج اس مملکت کویاد کرتے ہوئے،دل مٹھی میں آجاتاہے۔ غم وحزن کی یہ کیفیت (جو بخار کی وجہ سے شاید مجھے کچھ زیادہ محسوس ہورہی ہے)ظاہرکرنے کے لیے اقبال کے ان اشعارسے بڑھ کوئی ترجما ن نہیں۔
غلغلوں سے جس کے لذت گیر اب تک گوش ہے
کیا وہ تکبیر اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے
نالہ کش شیراز کابلبل ہوابغداد پر
داغ رویا خون کے آنسو جہان آباد پر
آسماں نے دولتِ غرناطہ جب برباد کی
ابنِ بدروں کے دلِ ناشاد نے فریاد کی
غم نصیب اقبال کو بخشا گیا ماتم ترا
چن لیا تقدیر نے وہ دل کہ تھا محرم ترا
ہے ترے آثار میں پوشیدہ کس کی داستاں
تیرے ساحل کی خموشی میں ہے اندازِ بیاں
درد اپنا مجھ سے کہہ ،میں بھی سراپادردہوں
جس کی تومنزل تھا،میں اُس کارواں کی گرد ہوں
رنگ تصویرِ کہن میں بھرکے دکھلادے مجھے
قصہ ایام ِ سلف کا کہہ کے تڑپادے مجھے