Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ 2016

95 - 102
یوسف بن تاشفین(۳)
امیریوسف بن تاشفین نے زلاقہ میں نصرانیوں کی طاقت کوفناکرکے اسلامیانِ اندلس کو نصرانیوںکی غلامی کے خطرے سے نجات دلادی۔ امیرنے یہ جنگ محض اللہ کی رضااورجہاد کے امرِشرعی کی پاسداری کے لیے لڑی تھی۔ ان کے اخلاص اورحسنِ نیت کااس سے بڑھ کرکیاثبوت ہوسکتا ہے کہ معرکے میں حریف کے چھوڑے ہوئے مال ودولت، اسلحے ، سواریوں اوردیگر سازوسامان کے انباریہ کہہ کر ملوک الطوائف کے حوالے کردیے کہ میرا مقصد صرف جہاد اورثواب تھا۔ عالم اسلام کے کونے کونے سے علماء نے یوسف بن تاشفین کو ان فتوحات پر مبارک باد دی۔ امام غزالی نے اپنے مکتوب میں لکھا:
’’محمدبن محمد الغزالی کی طرف سے ابویعقوب یوسف بن تاشفین کے نام ۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے کہ سات آدمیوں کواللہ قیامت کے دن جب کوئی سایہ نہ ہوگا،اپنے عرش کاسایہ نصیب کریں گے ۔ا ن میں پہلاشخص عادل حکمران ہوگا۔ہم امید کرتے ہیں کہ امیرِ محترم بھی ان میں ہوں گے کہ اللہ نے آپ کو سلطنت بھی دی ہے اوراسے عدل وانصاف سے مزین بھی کیاہے۔جناب کی نیک سیرتی کی شہرت چہارسوپھیل چکی ہے۔اندلس کے مسلمان مشرکین کے غلبے کی وجہ سے ذلت وخواری کاشکارتھے اورمسلم امراء اقتدارکی خاطر باہمی لڑائیوں میں مشغول تھے۔ایسی حالت میں انہوں نے آپ کوپکارا توآپ لبیک کہہ کر سمندر پار آئے اورجہادکاحق اداکردیا۔اللہ نے آپ کو مشرکین کے قلع قمع کی توفیق دی۔ دعاہے کہ اللہ امیر کی حکومت اوران کی تائید کوہمیشہ باقی رکھے ۔‘‘
یوسف بن تاشفین اس معاہد ے کے تحت اندلس آئے تھے کہ وہ مقامی حکومتوں سے کوئی تعرض نہیں کریں گے چنانچہ فتح کے بعد وہ خاموشی سے واپس افریقہ چلے گئے۔
ملوک الطوائف کوجنگِ زلاقہ تک ایک اجتماعی ضرورت نے یکجارکھامگر یہ ضرورت پوری ہوتے ہی ان کی سابقہ رقابتیںپھر ابھرآئیں۔ نصرانیوںنے ملو ک الطوائف کی سیاسی بے بصیرتی سے پورافائدہ اٹھایا اورجلد ہی  وہ پوری دلیری سے قرطبہ اورغرناطہ تک لوٹ مارکرنے لگے۔ ان حالات میں اندلس کے علماء وفقہاء اورحاکم اشبیلیہ معتمد کی درخواست پرربیع الاول ۴۸۱ھ میں یوسف بن تاشفین نے ایک بارپھر اندلس میں قدم رکھ دیا۔امیر کے پیغام پر ملوک الطوائف بھی اپنی فوجیں لے کرساتھ ہولیے۔ عیسائیوںنے حصن اللیط میں محصور ہوکرمسلمانوں کا مقابلہ شروع کیا۔کئی ہفتے گزرگئے مگر جنگ کاکوئی نتیجہ نہ نکلا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ملوک الطوائف کی صفوں میں اتحادواتفاق بالکل نہیں تھا۔ انہوںنے مرابطین کی خوراک ورسد بھی بند کردی۔بعض حکام نے نصرانیوں سے سازباز کرلی تھی۔ ان حالات میں یوسف بن تاشفین کے لیے اندلس کے امراء پر اعتماد کرنے کی کوئی گنجائش نہ رہی۔ قلعے کی فتح کے فوراً بعد وہ واپس مراکش چلے گئے۔
ملوک الطوائف یوسف بن تاشفین کے بدلے ہوئے تیوردیکھ چکے تھے اس لیے ا نہوںنے طے کرلیا کہ مرابطین کودوبارہ اندلس میں مداخلت کاموقع نہیں دیں گے۔ان میں سے بعض نے الفانسو سے نامہ وپیام کرکے اسے مرابطین کے خلاف اپنی حمایت کایقین دلایا۔ یہ اطلاعات یوسف بن تاشفین کوبرابرپہنچ رہی تھیں۔وہ سمجھ چکے تھے کہ حالات اسی ڈگر پر چلتے رہے تو اسلامیانِ اندلس بہت جلد عیسائیوں کے غلام بن جائیں گے۔اس صورتحال میں یوسف بن تاشفین نے نہ صرف افریقہ بلکہ دوسرے ممالک کے مشاہیر علماء سے بھی استفتاء کیا کہ آیاملوک الطوائف کومعزول کرنا جائز ہے یانہیں۔جن علماء نے اس کی اجازت کافتویٰ دیا ان میں بغداد کے امام غزالی اور مصر کے ابوبکر طرطوشی جیسے جبالِ علم شامل تھے کیونکہ اس کے بغیر اندلس کے مسلمانوں کوکفار کی غلامی سے بچانے کی کوئی اورصورت نہیں تھی ۔
۴۸۳ھ میں امیرِ مرابطین نے تیسری بار اندلس میں قدم رکھ دیا۔ اس باروہ مقامی امراء کے بلانے پر نہیں بلکہ انہیں زیرکرنے کے لیے آئے تھے۔ان کی آمد سے پہلے  ملوک الطوائف میں سے معتمد سمیت کئی حکمران الفانسو سے مرابطین کے خلاف متحدہ محاذبنانے کا معاہدہ کرچکے تھے ۔یوسف بن تاشفین نے پھر بھی ملوک الطوائف کو ایک موقع دیااوران میں سے کسی کے خلاف کارروائی کیے بغیر سیدھا نصرانیوں کے علاقوں کارُ خ کیاتاکہ ملوک الطوائف میںکچھ حمیت ِ دینی ہے تو وہ ان کے ساتھ آملیںمگر ملوک الطوائف میں سے کوئی مددکونہ آیا۔یوں الفانسو سے ان کااتحادعملاًثابت ہوگیا۔آخر مرابطیننے ملوک الطوائف کے شہروں کارخ کیااوریکے بعد دیگرے غرناطہ ، قرطبہ اوراشبیلیہ  پر قبضہ کرلیا۔حاکمِ اشبیلیہ معتمد اوراس کی ملکہ رمیکیہ کوقید کرکے  مراکش بھیج دیاگیا۔ اشبیلیہ کے بعد باقی ملوک الطوائف میں کوئی خاص طاقت نہ تھی ۔کچھ ہی مدت میں تقریباً پورامسلم اسپین مرابطین کے قبضے میں آگیا۔اس دوران جنوب مغربی ساحلی شہر وں پر ایک عیسائی حکمران ’’سڈ‘‘ نے مسلمانوں سے سخت جنگیں لڑیں مگرانجام کاراسے بھی شکست ہوئی۔
یہ وہ دن تھے جب یورپ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور انتقام کی آگ میں جلنے لگا تھا۔وہاں  پہلی صلیبی جنگ کابگل بج چکاتھا اورپوپ کے حکم سے ہرعیسائی حکمران اپنے لشکر شام کے ساحلوں کی طرف روانہ کررہا تھا ۔تاہم پوپ نے اسپین کے عیسائیوں کو اس فرض سے مستثنیٰ قرار دے دیاتھا تاکہ وہ مرابطین سے نبرد آزما رہیں۔جب یورپ کے صلیبی لشکر شام میں گھس کر مسلمانوں کی سلامتی خطرے میں ڈال رہے تھے،تب اندلس میں مرابطین آزادی کی نئی تاریخ رقم کررہے تھے۔جب نصرانی بیت المقدس پر صلیبی پرچم گاڑکرمسجدِ اقصیٰ کو مسلمانوں کامذبح خانہ بنارہے تھے تو مرابطین سِڈ اور الفانسو جیسے فرعونوں کاغرورخاک میں ملارہے تھے۔ مرابطین کے ان کارناموں پر پوری دنیا کے مسلمان خوش تھے تاہم شعراء وادباء نے اس کی دل کھول کی ستائش نہیں کی ۔مغربی مؤرخین بھی اسی لیے مرابطین کو تنقید کانشانہ بناتے ہیں کہ وہ فنونِ لطیفہ سے ناواقف اورشاعرانہ حس سے محروم تھے۔ لین پول لکھتاہے:’’شعراء ان بربروں کی سخت مزاجی، تندخوئی اورجہالت سے متنفر تھے۔ کیونکہ وہ اشعار کے حسن کوسمجھنے سے قاصر تھے۔ ‘‘{مورس ان اسپین ،لین پول:۱۲۱}
مگردوسری طرف وہ عوام کی مسرت کاذکریوں کرتاہے:ـ
’’لیکن اندلس کے عوام مرابطین کے اندلس پر قبضے سے نہایت مسرور اور خوش تھے کیونکہ ان کی جانیں اور اموال محفوظ ہوگئے تھے۔چھوٹی چھوٹی بکھری ہوئی حکومتوں کے دورمیں یہ ممکن نہ تھا۔‘‘
۴۹۸ھ میں یوسف بن تاشفین کی طبیعت بگڑگئی۔دوماہ کی بیماری کاٹنے کے بعد آخر کاریکم محرم ۵۰۰ھ کو تاریخِ اسلام کایہ بطلِ جلیل کم وبیش سو سالہ پُرمشقت مگر قابلِ رشک زندگی گزارکر دنیاسے رخصت ہوگیا۔ یوسف بن تاشفین نے مسلمانانِ اندلس کووہ حیاتِ نو دی جس کی توانائی مزید چارسوسال تک باقی رہی۔ اس نے اس سرزمین کو وہ آب وتاب دی کہ مزید چارصدیوں تک یہاں اذانیں گونجتی رہیں اورصلیب سرنگوں رہی۔
آج بھارت کے استبدادی عزائم میں الفانسو کی روح پوری طرح کار فرما دکھائی دے رہی ہے۔ اس کے مقابلے میں ہمیں یوسف بن تاشفین جیسی جرأت اوربالغ نظر ی کا ثبوت دیناہوگا۔اگر خدانخواستہ ہم ملوک الطوائف کی طرح باہم سرپٹھول میں مشغول رہے تو ہمارا انجام بھی ان سے مختلف نہیں ہوگا۔
{مآخذ:نفح الطیب از علامہ مقری تلمسانی۔سیراعلام النبلاء از حافظ ذہبی۔دولۃ الاسلام فی الاندلس: محمد عبداللہ عنان۔مورس ان اسپین ازلین پول}
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 استاذ القراء کاسفرِ آخرت 1 1
3 فنا فی القرآن 2 1
4 مثالی استاذ 3 1
5 استاذ گرامی کی کچھ یادیں 4 1
6 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۱) 5 1
7 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۲) 6 1
8 پاک بھارت جنگ کے امکانات …اورمعرکۂ پانی پت 7 1
9 رمضان اورقرآن 8 1
10 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۱) 9 1
11 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۲) 10 1
12 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۳) 11 1
13 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار [1] 12 1
14 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۲) 13 1
15 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق 15 1
16 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۲) 16 1
17 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۳) 17 1
18 سیرتِ نبویہ کے جلسے اورواعظین کے لیے لمحۂ فکریہ 18 1
19 ترک عوام جنہوںنے تاریخ بدل دی 19 1
20 اسلام میں جہاد کاتصور…اسلامی نظریاتی کانفرنس کااجلاس 20 1
21 نعمتوں کی ناقدری 21 1
22 یوم پاکستان اوردینی مدارس 22 1
23 دسمبر سے دسمبر تک 23 1
24 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۱) 24 1
25 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۲) 25 1
26 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۳) 26 1
27 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۴) 27 1
28 اکبر اوردینِ الہٰی 28 1
29 اللہ کی امانت (۱) 29 1
30 اللہ کی امانت (۲) 30 1
31 شیخ النمر کی سزائے موت 31 1
32 سمندری شیر(1) 32 1
33 سمندری شیر(2) 33 1
34 سمندری شیر(3) 34 1
35 ایک دن بھاولپور میں 35 1
36 ایدھی صاحب 36 1
37 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے 37 1
38 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے (۲) 38 1
39 فضلائے مدارس کی کھپت ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۱) 39 1
40 مدارس کے فضلاء ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۲) 40 1
41 صحبتِ یا رآخر شد 41 1
42 صحبتِ یا رآخر شد(۲) 42 1
43 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج 43 1
44 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج(۲) 44 1
45 انصاف زندہ ہے 45 1
46 جرمنی اورعالم اسلام(۱) 46 1
47 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (1) 49 1
48 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (2) 50 1
49 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (3) 51 1
50 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (4) 52 1
51 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(1) 53 1
52 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(2) 54 1
53 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(3) 55 1
54 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(4) 56 1
55 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت 57 1
56 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت (۲) 58 1
57 ایک قابلِ توجہ مسئلہ 59 1
58 کس منہ سے(۱) 60 1
59 کس منہ سے(۲) 61 1
61 سفر وسیلۂ ظفر 62 1
62 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے 63 1
63 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے (۲) 64 1
64 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۱) 65 1
65 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۲) 66 1
66 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۳) 67 1
67 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۴) 68 1
68 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (1) 69 1
69 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۲) 70 1
70 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۳) 71 1
71 بانی ٔ رُہتاس 72 1
72 بانی ٔ رُہتاس (۲) 73 1
73 بانی ٔ رُہتاس (۳) 74 1
74 شہ سواری اورتیراندازی 75 1
75 شام کی صورتحال اورمستقبل کے خطرات 76 1
76 تبدیلی کی کوشش(۱) 77 1
77 تبدیلی کی کوشش(۲) 78 1
78 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۱) 79 1
79 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۲) 80 1
80 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۳) 81 1
81 تطہیر الجنان۔ایک لاجواب شاہکار 82 1
82 تہذیب حجاز ی کامزار(1) 83 1
83 تہذیب حجاز ی کامزار (2) 84 1
84 تہذیب حجاز ی کامزار (3) 85 1
85 تہذیب حجاز ی کامزار (4) 86 1
86 تہذیب حجاز ی کامزار (5) 87 1
87 تہذیب حجاز ی کامزار (6) 88 1
88 تہذیب حجاز ی کامزار (7) 89 1
89 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۱) 90 1
90 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۲) 91 1
91 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۳) 92 1
92 یوسف بن تاشفین(۱) 93 1
93 یوسف بن تاشفین(۲) 94 1
94 یوسف بن تاشفین(۳) 95 1
95 جرمنی اورعالم اسلام (۲) 47 1
96 جرمنی اورعالم اسلام (۳) 48 1
97 شیخ محمد بن عبدالوہاب ،آلِ سعود اورایرانی حکومت 96 1
98 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا 97 1
99 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا (۲) 98 1
100 خود احتسابی اور سروے کا طریقِ کار 99 1
101 اونچی اڑان 100 1
102 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین 101 1
103 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین (۲) 102 1
104 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۳) 14 1
Flag Counter