پاک بھارت جنگ کے امکانات …اورمعرکۂ پانی پت
اس وقت پاکستان اوربھار ت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی ،کسی جنگ پر منتج ہوگی یانہیں ۔اس کا حتمی جواب آنے والاوقت دے گا۔مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں ملک اپنی اپنی جگہ جنگ کی پوری تیاری کرچکے ہیں ۔بھارت ایک بڑاملک ہے ۔اس کی افواج بھی پاکستان سے زیادہ ہیں۔اس کی بری فوج میں گیارہ لاکھ پیشہ ورسپاہی شامل ہیں۔ساڑھے تین ہزارٹینک ،اتنی ہی بکتر بند گاڑیاں اور چارہزارتوپیںاس کے پاس ہیں۔اس کی فضائیہ میں ۱۳۷۰لڑاکاطیارے ہیں۔پاکستان کی بری فوج ساڑھے پانچ لاکھ جوانوں پرمشتمل ہے جوتین ہزارٹینکوں ،۲۸۰۰ بکتر بند اور ساڑھے تین ہزارتوپوں سے لیس ہے۔لڑاکاطیاروںکی تعدادپانچ سو سے زائد ہے۔
افواج اوراسلحے میں برتری کے باوجود بھارت پاکستان پر حملہ کرنے سے صرف اس لیے کترارہاہے کہ کہیں پاکستان اپنے دفاع میں ایٹمی ہتھیاراستعمال کرنے پر مجبورنہ ہوجائے۔ اس لیے بھارتی قیادت پاکستان پر حملے کے لیے ایسے حملے کی حکمتِ عملی اختیارکرنے کی کوشش ہے جو اس قدرتیز ہوکہ پاکستان کوایٹمی ہتھیاراستعمال کرنے پرغور کرنے کابھی موقع نہ ملے اور نتیجے میں صرف۷۲گھنٹے میں بھارت پاکستان پر قابض ہوجائے۔
یہ بھارتی قیادت کے وہ مکروہ عزائم ہیں جوخدانخواستہ اگر پورے ہوگئے تویہ صرف پاکستان کی نہیں بلکہ پوری دنیامیں مسلمانوں کی اتنی بڑی شکست ہوگی کہ اس کے بعد شاید مسلمانوں کو دوبارہ اپنے پیروں پرکھڑاہونے میں ایک صدی بھی کافی نہ ہو۔
ان خطرات کااندازہ کرنے کے بعد ہماری پہلی ترجیح ان کامقابلہ کرنے کے لیے ہرقربانی دینے کاعزم ہوناچاہیے ۔اوراس بارے میں پہلی قربانی ہے اپنی گروہی،مسلکی،اورنسلی حدبندیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک قوم کی شکل میں متحدومتفق رہنا۔ خاکم بدہن دشمن کواگر ہم پرغلبے کاکوئی موقع ملاتواس کی پہلی وجہ یہی ہوگی کہ ہماری صفوں میںکوئی رخنہ ہو۔میں سمجھتاہوں کہ ایسے موقع پرمسلمانانِ پاکستان کی بقا کاواحد راستہ یہ ہے کہ وہ بھارت کے مقابلے میں ایک نقطے پر جمع ہوجائیں اور وہ ہے ہر قیمت پرملک کادفاع ۔
ماضی میں پانی پت کامعرکہ ایک ایسی مثال ہے جب ہندواستبداداپنی تمام طاقت جمع کرکے مسلمانوں کوللکارنے لگاتھا۔اس وقت احمدشاہ ابدالی کوکم فوج کے باجودفتح اسی لیے ہوئی تھی کہ اس نے برصغیر کے مسلمانوں کوکسی تفریق کے بغیراپنے ساتھ ملانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ احمدشاہ ابدالی افغان تھا اوراس کاساتھ دینے والے اکثر سپاہی روہیلہ پٹھان تھے جوسہارنپور،بریلی اورشاہ جہانپور کے علاقوں میں آباد تھے جسے روہیل کھنڈ کہاجاتاتھا۔ روہیل کھنڈ کے نوابوں نجیب الدولہ ،حافظ رحمت خان اوراحمدخان بنگش کی ادوھ کے نوابوں سے سخت کشیدگی چلی آرہی تھی ۔
مگراس موقع پر احمدشاہ ابدالی نے نواب نجیب الدولہ کو باقاعدہ سفیر بنا کر اودھ کے نواب شجاع الدولہ کے پاس بھیجا۔ شجاع الدولہ دس ہزارسوارلے کر ابدالی کے کیمپ میں پہنچا ۔اس کے بعدپانی پت کی وہ جنگ ہوئی جس میں ساٹھ ہزار کالشکر ساڑھے پانچ لاکھ پر غالب آیا۔۱۴جنوری ۱۷۶۱ء کی اس سہ پہر تک پانی پت کی خاک میں مرہٹوں کا غرور ہمیشہ کے لیے دفن ہوگیاتھا۔ ۲۲ ہزار دشمن قیدی بنائے گئے تھے اوراموالِ غنیمت کاکوئی حساب ہی نہ تھا۔ایک ہندومؤرخ کاشی رائے کے بقو ل :’’ایک ایک افغان سپاہی قیمتی سامان سے لدے ہوئے آٹھ آٹھ، دس دس اونٹ لاتا تھا۔ گھوڑوں کو بکریوںکے ریوڑکی طرح ہانکا جارہا تھا۔ ہاتھیوںکی بھی بہت بڑی تعدادان کے ہاتھ لگی تھی۔ ‘‘
پانی پت کی جنگ میںاڑھائی لاکھ مرہٹے تہہ تیغ ہوئے تھے جبکہ پچاس ہزارکودیہات کے مظلوم باشندوں نے فرار ہوتے ہوئے گھیرگھارکرقتل کیاکیوںکہ اس لشکرنے ان کے گھربارلوٹے اورجلائے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دیہاتوںکے یہ باشندے مسلمان نہیں،ہندو تھے مگر مرہٹہ افواج کے مظالم سے یہ بھی تنگ تھے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ مرہٹوں کی فوجی مہمات کسی قسم کے مذہبی خلوص سے بھی خالی تھیں۔یہ صرف ناموری اورہوسِ مال وزر کی مہمات تھیں۔ اگرانہیںمذہب کاپا س ہوتاتوکم ازکم اپنے ہم مذہبوںکو تختہ ستم نہ بناتے۔ دوسری طرف تاریخ میں یہ بھی محفوظ ہے کہ بہت سے زخمی مرہٹوں کو مسلمانوںنے انسانیت کے ناطے پناہ دی اور انہیں سفرکاخرچ د ے کر ان کے ملک بھیجنے کاانتظام کیا۔
ساڑھے پانچ لاکھ مرہٹوں میں سے صرف ایک لاکھ افراد بڑی بری حالت میں واپس آسکے۔اس عبرتناک شکست کی خبر پوناپہنچی تو مرہٹوں کے پیشوا بالاجی پیشوا پر سکتہ طاری ہوگیا ۔اس نے حکمرانی چھوڑ دی اورباقی زندگی پوجاپاٹ میں گزاردی۔یوںمرہٹو ں کے اکھنڈ ہندوستان کاخواب ہمیشہ کے لیے خاک میں مل گیا۔
معرکہ پانی پت کے بعد ہماری قومی یک جہتی کی دوسری بڑی مثال پاکستان کاقیام ہے۔اس میں کوئی شک نہیںکہ تحریکِپاکستان کی تحریک بھی اسی لیے کامیاب ہوئی کہ جناب محمدعلی جناح کی قیادت میں مسلمانانِ ہند مجتمع ہوگئے تھے اورتفریق کی ہرکوشش ناکام بنادی گئی تھی۔اسی ضمن میں ہم ۱۹۶۵ء کی جنگ کوبھی نہیں بھول سکتے جس میں میجر عبدالعزیزبھٹی جیسے شہیدوں اورمحمد محمود عالم جیسے غازیوں کے پیچھے قوم کے اتحاد واتفاق کی طاقت ہی کارفرماتھی۔
آئیے عہد کریں کہ ان نازک لمحات میں ہم افترا ق کی ہردیوارگرادیں گے اورایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح بھارتی جبرواستبداد کے سامنے ڈٹ جائیں گے۔ اللہ ہماراحامی وناصر ہو۔
نوٹ: راقم کی طرف سے اس سوال کے جواب میں کہ آیا ’’تاریخی موضوعات پر کالم جاری رہیں یا حالاتِ حاضرہ کوموضوع بنایاجائیـ‘‘قارئین کی بھاری اکثریت نے تاریخی موضوعات پر کالم جاری رکھنے کی رائے دی ہے۔اب تک تین سوکے قریب مسیج اوربرقی مراسلے آچکے ہیں ۔بیس کے قریب قارئین نے یہ رائے دی ہے کہ دونوں پر لکھاجائے ۔اورتین ساتھیوں نے صرف حالاتِ حاضرہ کوموضوع بنانے کامشورہ دیاہے۔قارئین ان تمام احباب کابے حدشکرگزارہے جنہوںنے اپناقیمتی وقت صرف کرکے رائے دہی میں حصہ لیا۔بعض بزرگوںنے بھی اپنی قیمتی رائے سے نوازا اورحوصلہ افزائی کی جن میں مانسہر ہ کے نامور عالم دین حضرت قاضی محمداسرائیل صاحب مدظلہ بھی شامل ہیں۔راقم ان کاتہہ دل سے مشکور ہے۔ تمام آراء پر غور کرنے کے بعد یہی مناسب لگتاہے کہ تاریخی سلسلہ جاری رہے ۔ البتہ کبھی کبھارحسبِ ضرورت حالاتِ حاضرہ پر بھی قلم اٹھایاجائے۔
(rehanbhai@ghmial.com)