Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ 2016

17 - 102
اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۳)
تاہم خاندان کی خواتین کی کوشش اور مزید کچھ گفت وشنید کے بعد تیسرے دن اورنگ زیب نے باپ سے ملنے پر آمادگی ظاہر کردی۔مگر اسی دوران شاہ جہاں کاایک مراسلہ پکڑاگیا جو داراشکوہ کے نام تھا جس میں اسے ہدایت کی گئی تھی کہ وہ دہلی ہی میں رہے ،جہاں فوج اورخزانہ بکثرت ہے۔اس دوران تخت کے وارث کافیصلہ کرلیاجائے گا۔
اورنگ زیب کی بصدقِ دل تمناتھی کہ باپ خوش رہے اورمیں اس کی سرپرستی میں حکومت کروں مگراس مراسلے کو پڑھنے کے بعد انہیں یقین ہوگیاکہ باپ کے دل سے داراشکوہ کی محبت واعتماد کو ختم کرنا ممکن نہیں اورایسی کوئی صورت نہیں بن سکتی کہ وہ باپ کادل جیت کراس کی نیابت میں امورِ سلطنت سنبھال سکیں۔
 چنانچہ اورنگ زیب نے حکومت ہاتھ میں لینے کاقطعی فیصلہ کرلیااور باپ کو شاہی قلعے میں نظر بند کردیا تاکہ اس کی کسی حرکت سے ملک میں خانہ جنگی کو فروغ نہ ملنے پائے۔اورنگ زیب نے باپ کی صحت کاخیال رکھنے کے لیے نامور طبیب مقررکیے اوراچھی کارکردگی پر انہیں خلعت اورنقد انعامات سے بھی نوازا۔شاہ جہاں نے زندگی کے باقی آٹھ سال اسی قلعے میں گزارے۔ اسے ہر سہولت اورآسائش مہیاکی گئی مگر اسے باہر جانے کی آزادی نہ تھی۔
اورنگ زیب کی تخت نشینی کے بعد داراشکو ہ نے دوسرے بھائیوں کواکساکرباربار بغاوت برپا کی۔ان بغاوتوں میں ہندوامراء کابھی بڑاہاتھ تھا۔وہ اورنگ زیب جیسے دین دارمسلمان کی بالادستی قبول نہیں کرناچاہتے تھے ۔اس لیے کبھی ایک شہزادے کومدددیتے ،کبھی دوسرے کو۔اس کے نتیجے میں اورنگ زیب کوبھی فوجیں بھیجناپڑیں ۔بعض معرکوں میں خود قیادت کی۔آخر کارباقی شہزادوں میں سے کوئی میدانِ جنگ میں ماراگیااورکوئی گرفتارہوگیا۔ 
 شاہ جہاں آٹھ سال تک شاہی قلعے میں نظر بند رہااور۲۶رجب ۱۰۷۶ھ ( 1666ء)کو وہ دوہفتے تک بیماررہ کروفات پاگیا۔اس کی عمر ۷۶برس تھی جس میں سے ۳۱سال سلطنت کے تھے۔ اسے اس کی تمنا کے مطابق تاج محل میں،ممتاز محل کے پہلو میں دفن کیاگیا۔اورنگ زیب کویہ اطلاع دہلی میں ملی ۔باپ کی تدفین کے بعدآگرہ پہنچ کرقبر پر حاضری دی اوراشکوں سے تاج محل کے سنگی فرش کو تر کردیا۔
اورنگ زیب کو مؤرخین باپ سے بغاوت اوربدسلوکی پر کتنا ہی موردِ الزام ٹہرائیں ،اور اس کے اقدامات کوکتناہی قابلِ نفریں سمجھیںمگریہ بات یقینی ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا،اس کا بنیادی مقصد ملک وملت اورمذہب کی خیرخواہی تھا ۔حالات ایسے بن گئے تھے کہ اس عالی ظرف قائد کے پاس دوہی راستے تھے۔ یا تو عظیم مغلیہ سلطنت کوہندومت اورویدانت کی لپیٹ میں جاتادیکھ کر صبر کیاجائے یاخاندانی رشتوں ناتوں کوبھلا کر اس فتنے کا راستہ روک لیاجائے۔ اورنگ زیب کے ان جذبات وخیالات پر ان کے درج ذیل مکتوبات سے روشنی پڑتی ہے جوانہوں نے شاہی قلعے میں نظر بند شاہ جہاں کولکھے تھیــ۔ان کاخلاصہ پیشِ خدمت ہے:
’’جب تک حکومتی اختیارات حضور کے پاس تھے ،میں اللہ کے فرمان کوپیشِ نظر رکھتے ہوئے ، جناب کے حکم کے بغیر کسی مہم میں مشغول نہ ہوااوراپنی حد سے باہر قدم نہیں رکھا۔اس بات کااللہ گواہ ہے۔جب مجھے یقینی طورپرمعلوم ہواکہ حضورکی بیماری کے دنو ں میں بڑے شہزادے نے خودمختاری حاصل کرلی تھی۔وہ ہندوؤں کے قوانین ترویج اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی جڑیں اکھاڑنے پر کمر بستہ تھا۔اس نے مملکت میں بے دینی پھیلائی اورانتظام کی باگ ہاتھ سے نکل گئی، حضور کے خدام میں سے کسی کوہمت نہیں تھی کہ وہ یہ صورتحال حضور سے عرض کرتا۔میں نے خطرہ محسوس کیاکہ اگر اس فساد کی اصلاح میں تاخیر ہوئی تومملکت میں خرابی ہوگی اورآخرت میں اس پر بازپرس ہوگی۔اسے پیشِ نظر رکھ کرمیں برہان پور سے اس سمت روانہ ہوا۔اس وقت دینِ اسلام کے اس دشمن کے سوا، درمیان میں کوئی نہ تھا۔اطاعت کانتیجہ اللہ کی اعانت ہے جس کی وجہ سے فتح وظفر نصیب ہوئی ہے۔اگر حضور کی سرپرستی میں اس بدمذہب کامنصوبہ عملی جامہ پہن لیتا تو دنیا کفر وسرکشی سے تاریک ہوجاتی ۔شریعت کی رونقیں جاتی رہتیں اورآخر ت میں اس کاجواب دینا بہت مشکل ہوتا۔پس جو مالک الملک کی تقدیر میں طے تھا،وہ وجود میں آیا۔اس کاشکر واجب ہے۔ حضور کی تربیت کے حقوق میرے ذمہ اس سے کہیں زیادہ ہیں کہ ان کاشکر اداہوسکے۔‘‘
ایک اورمرسلے میں تحریرکیاہے:
’’مجھ فداکار کا مقصد آگرہ آنے سے ہرگزیہ نہیں تھاکہ مسلمانوں کے بادشاہ سے بغاوت کروں ۔ اللہ گواہ ہے کہ کوئی خلافِ شرع مقصد ہرگز میرے دل میں نہ تھا۔بلکہ بیماری کے دورمیں اختیارات حضورکے ہاتھ سے نکل گئے تھے۔بڑے شہزادے میںمسلمانی کاکوئی رنگ نہ تھا۔اس نے خودمختاری حاصل کی اورملک میں کفر والحاد کاپرچم بلند کردیاجسے ختم کرنا شرعاً،عقلاً اورعرفاً واجب تھا۔اس بات کو فرض سمجھ کرمیں نے آگرہ کارخ کیا توپہلی جنگ ان کافروں سے ہوئی جنہوںنے مساجد گراکر بت خانے بنائے تھے۔دوسری جنگ ان بے دینوں سے ہوئی جو بدکردار تھے۔ میری نیت نیک تھی اس لیے تھوڑی سی فوج کے ساتھ کامیاب ہوگیا۔مگر حضور نے مجھے مجرم قراردیااوریہ نہ دیکھا کہ دین اور ملک کی مصلحت کیاہے۔حضور نے کوشش کہ فرعون مزاج شہزادہ دوبارہ میدان میں آئے اوربے دینی کو رواج دے۔اس صورت میں لگام کوڈھیلا چھوڑناشہریوں اورملک کوخراب کرنے کے مترادف تھا۔اس فرض کے اجر وثواب نے مجھے اس بھاری بوجھ کواٹھانے پر آمادہ کیاجو سب سے پہلے رعایا کی حفاظت اورپھردین اسلام کی ترویج کے لیے تھا۔اہلِ بصیرت سمجھ سکتے ہیں کہ دنیا میں نیک نامی اوراخروی سعادت کے لیے اس سے بڑھ کرکچھ نہیں۔‘‘
باپ کے نام ایک اورمراسلے کے درج ذیل اقتباس سے بات بالکل واضح ہوجاتی ہے:
’’اس خطرناک منصب کو قبول کرنا اپنے اختیار سے نہیں ہوا۔کیونکہ آخرت کی ہلاکتوں کااندیشہ ہوشمندوں کے جگر کو خون کردیتاہے۔اس بندے کواس کی خواہش نہیں تھی۔ جو عقل سلیم کامالک اورصحیح فطرت کاحامل ہواورآخرت کی بازپرس پریقین رکھتاہو،وہ اپنی پسند سے اس منصب پر کس طرح راضی ہوسکتاہے۔اپنے اعضاء اوربدن کو بھی عدل پر قائم رکھنا مشکل ہے ۔پھر ایک دنیا کو عدل کے ساتھ چلانا کس قدر کٹھن ہے۔اس لیے (سلیم الفطرت شخص)دنیا کابوجھ اپنی گردن پر نہیں لیتااورحساب کے دن کے جواب کی تیاری کرتاہے۔مگر موروثی مملکت کے اہم انتظامات کانظم ونسقبگڑ چکا تھا۔ لوگ حوادث سے پامال ہو رہے تھے۔اسلامی احکام معطل کردیے گئے تھے۔ اس لیے تقدیر سے مجبور ہو کر اس خطرناک منصب کوقبول کیااورجہاندار ی کی ذمہ داری کواداکیاجس کے بغیر کچھ بھی کرنادشوارتھا۔
یہی وجہ تھی کہ حضور کے کاندھوں سے اس بھاری بوجھ کو ہٹا کر اپنے سر پر لاد لیا اور ہزار قسم کے رنج اور تکلیف میں مبتلا ہوا۔ اگر انصاف کی نگاہ سے دیکھئے تو شکایت کا موقع نہیں ۔اگر تقدیر سے کوئی دوسرا شخص ان امور میں مجھ سے بہتر مشغول ہوتاتوسوال ہی پیدانہیں ہوتاتھا کہ یہ فداکار اس شکنجے میں گرفتارہوتا۔‘‘
{مآخذ:منتخب اللباب ازخافی خان ۔مآثرعالمگیری ۔رقعاتِ عالمگیری ۔مآثر الامراء۔ تاریخِ ہندوستان از مولوی ذکاء اللہ دہلوی 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 استاذ القراء کاسفرِ آخرت 1 1
3 فنا فی القرآن 2 1
4 مثالی استاذ 3 1
5 استاذ گرامی کی کچھ یادیں 4 1
6 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۱) 5 1
7 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۲) 6 1
8 پاک بھارت جنگ کے امکانات …اورمعرکۂ پانی پت 7 1
9 رمضان اورقرآن 8 1
10 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۱) 9 1
11 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۲) 10 1
12 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۳) 11 1
13 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار [1] 12 1
14 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۲) 13 1
15 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق 15 1
16 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۲) 16 1
17 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۳) 17 1
18 سیرتِ نبویہ کے جلسے اورواعظین کے لیے لمحۂ فکریہ 18 1
19 ترک عوام جنہوںنے تاریخ بدل دی 19 1
20 اسلام میں جہاد کاتصور…اسلامی نظریاتی کانفرنس کااجلاس 20 1
21 نعمتوں کی ناقدری 21 1
22 یوم پاکستان اوردینی مدارس 22 1
23 دسمبر سے دسمبر تک 23 1
24 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۱) 24 1
25 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۲) 25 1
26 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۳) 26 1
27 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۴) 27 1
28 اکبر اوردینِ الہٰی 28 1
29 اللہ کی امانت (۱) 29 1
30 اللہ کی امانت (۲) 30 1
31 شیخ النمر کی سزائے موت 31 1
32 سمندری شیر(1) 32 1
33 سمندری شیر(2) 33 1
34 سمندری شیر(3) 34 1
35 ایک دن بھاولپور میں 35 1
36 ایدھی صاحب 36 1
37 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے 37 1
38 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے (۲) 38 1
39 فضلائے مدارس کی کھپت ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۱) 39 1
40 مدارس کے فضلاء ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۲) 40 1
41 صحبتِ یا رآخر شد 41 1
42 صحبتِ یا رآخر شد(۲) 42 1
43 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج 43 1
44 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج(۲) 44 1
45 انصاف زندہ ہے 45 1
46 جرمنی اورعالم اسلام(۱) 46 1
47 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (1) 49 1
48 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (2) 50 1
49 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (3) 51 1
50 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (4) 52 1
51 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(1) 53 1
52 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(2) 54 1
53 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(3) 55 1
54 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(4) 56 1
55 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت 57 1
56 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت (۲) 58 1
57 ایک قابلِ توجہ مسئلہ 59 1
58 کس منہ سے(۱) 60 1
59 کس منہ سے(۲) 61 1
61 سفر وسیلۂ ظفر 62 1
62 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے 63 1
63 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے (۲) 64 1
64 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۱) 65 1
65 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۲) 66 1
66 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۳) 67 1
67 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۴) 68 1
68 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (1) 69 1
69 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۲) 70 1
70 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۳) 71 1
71 بانی ٔ رُہتاس 72 1
72 بانی ٔ رُہتاس (۲) 73 1
73 بانی ٔ رُہتاس (۳) 74 1
74 شہ سواری اورتیراندازی 75 1
75 شام کی صورتحال اورمستقبل کے خطرات 76 1
76 تبدیلی کی کوشش(۱) 77 1
77 تبدیلی کی کوشش(۲) 78 1
78 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۱) 79 1
79 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۲) 80 1
80 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۳) 81 1
81 تطہیر الجنان۔ایک لاجواب شاہکار 82 1
82 تہذیب حجاز ی کامزار(1) 83 1
83 تہذیب حجاز ی کامزار (2) 84 1
84 تہذیب حجاز ی کامزار (3) 85 1
85 تہذیب حجاز ی کامزار (4) 86 1
86 تہذیب حجاز ی کامزار (5) 87 1
87 تہذیب حجاز ی کامزار (6) 88 1
88 تہذیب حجاز ی کامزار (7) 89 1
89 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۱) 90 1
90 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۲) 91 1
91 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۳) 92 1
92 یوسف بن تاشفین(۱) 93 1
93 یوسف بن تاشفین(۲) 94 1
94 یوسف بن تاشفین(۳) 95 1
95 جرمنی اورعالم اسلام (۲) 47 1
96 جرمنی اورعالم اسلام (۳) 48 1
97 شیخ محمد بن عبدالوہاب ،آلِ سعود اورایرانی حکومت 96 1
98 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا 97 1
99 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا (۲) 98 1
100 خود احتسابی اور سروے کا طریقِ کار 99 1
101 اونچی اڑان 100 1
102 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین 101 1
103 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین (۲) 102 1
104 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۳) 14 1
Flag Counter