کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۳)
موصوف کی تیسری غلط فہمی جودراصل ایک شدید قسم کی بدگمانی ہے ،اوروہی ان کی کج فکری کی اصل جڑ ہے ،یہ ہے کہ حدیث پر کام کرنے والی جماعت علماء کی تھی الگ تھی اور تاریخ وسیرت کاکام کرنے والی جماعت الگ۔ اوریہ کہ تاریخ وسیرت پرکام کرنے والی جماعت عجمی تھی ،نسلی تعصب کاشکارتھی۔
دینی مدارس کاایک معمولی فاضل بھی جانتاہے کہ قرآن،حدیث، فقہ، سیرت، رجال، علم تاریخ، ان سب علوم پر کام کرنے والی اہلِ حق کی ایک جماعت ہے،جو الحمدللہ شروع سے ایک چلی آرہی ہے۔ علوم میں تخصص کے لحاظ سے امتیا ز اس وقت بھی تھااورآج بھی ہے مگرتابعین کرام،ائمہ حدیث اور ماہرینِ جرح وتعدیل کی بہت بڑی تعدادبیک وقت محدث، فقیہ ،سیرت نگاراورمؤرخ بھی تھی۔ اسی لیے سیرت اورتاریخ کے سینکڑوں راوی حضرات کتبِ حدیث میں بھی جگہ جگہ دکھائی دیں گے، اسی طرح حدیث کے سینکڑوں راوی ،تاریخ اورسیرت کی کتب میں دکھائی دیں گے۔ (یہ بات اپنی جگہ ہے کہ معیار اورمقام کے لحاظ سے تمام راوی یکساں نہیں جیساکہ ہرعلم کے علماء میں فرقِ مراتب ہوتاہی ہے۔)
جن تاریخی راویوںکوکالم نگارموصوف نے ’’نسلی تعصب سے لتھڑے ہوئے‘‘ کہاہے ،ان کی اکثریت شریف النسل عرب تھی۔امام طبری سے نصف صدی پہلے اسلامی تاریخ پر آٹھ جلدیں لکھنے والے امام محمد بن سعد(م ۲۳۰ھ)قریشی ،ہاشمی تھے۔خلیفہ بن خیاط (م ۲۴۰ھ)جواپنے شاگردامام بخاری سے پہلے اپنی تاریخ کورواج دے چکے تھے،عرب تھے۔
ان اخباری حضرات میں عروہ بن زبیر بھی تھے۔ کیاوہ عجمی النسل تھے؟صدیق ِ اکبر رضی اللہ عنہ کے نواسے تھے۔ان کی روایات کابہت بڑاحصہ سیرت اورصحابہ کی تاریخ پر ہی تومشتمل ہے۔
انہی بزرگوں میں امام ابن شہاب الزہری بھی تھے ۔عجمی نہیںقریشی تھے۔اوّلین مؤرخینِ اسلام میں سے ایک ہیںجن سے امام طبری سمیت مؤرخین نے بے دریغ سیرت اور تاریخ کی روایات لی ہیں۔ یہی زہری صحیح مسلم کی چارسو سے زائد اوربخاری شریف کی چھ سوسے زائد احادیث کے راوی ہیں۔کیا زہری اوران سے استفادہ کرنے والے محدثین بھی’’ لتھڑے ہوئے‘‘تھے ؟
اب محمدبن اسحق کودیکھئے ۔ محمد بن اسحق بن یسار بن خیار۔پوراشجرہ نسب ہی عربی ہے۔ رہے بھی بچپن سے مدینہ میں۔تابعی ہیں۔مکحول،قاسم بن محمداورسعید بن المسیب کے شاگرد ہیں۔علی بن مدینی فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کادارومدارچھ افرادپر ہے اوران چھ کا دار و مدار بارہ راویوں پر ہے جن میں سے ایک محمد بن اسحق ہیں۔‘‘(اوریاجان صاحب کادل چاہے توکسی کی ایک آدھ کی جرح کاپتھر اٹھاکرعلی بن مدینی جیسے جرح وتعدیل کے امام پر بھی دے ماریں)
مگر یہ بات یہیں تک نہیں رکے گی ،ان تحقیقات ِ جدید ہ کے بانیوں سے ان کے پیروکار یہ سوال ضرورکریں گے کہ جب بخاری ومسلم سمیت کوئی بھی کتابِ حدیث مردود روایات سے محفوظ نہیں توساراذخیرہ حدیث ہی مشکوک ہوگیا ہے۔اس کی صفائی اور تدوینِ حدیث کاکام ازسرِنوشروع کریں۔ اس طرح اصلاحِ دین اوردفاعِ شخصیاتِ مقدسہ کے نام پرپورے دین کی عمار ت ہی ڈھادی جائے گی تب ہی کہیں جاکر تحقیقات کابھوت اترے گا۔
آخری میں ایک مسلمہ نکتے پربات ختم کرتاہوں۔ یہ توموصوف کالم نگاربھی مانتے ہیں کہ علم الرجال معتبرہے اوراسی کے ذریعے حدیث کی حفاظت ممکن ہوئی ہے جیساکہ وہ علمائے رجال کے متعلق فرماتے ہیں:’’ ایک ایک راوی کے کردار،اخلاق اورایمان کوزیرِ بحث لائے۔ ‘‘
سوال یہ ہے کہ یہ علم رجال کیاآسمان سے نازل ہواتھا۔نہ یہ وحی ہے ،نہ یہ حدیث ہے ۔یہ لوگوں کے اقوال ہیں جو لوگوں کے بارے میں ہیں۔لوگوں کے حالات کایہ علم تاریخی مواد ہی تو ہے ۔ اگر یہ فلسفہ مان لیاجائے کہ تاریخ غیرمعتبر ہے توفنِ رجال کہاں جائے گاجس میں ایک بہت بڑا حصہ اخباری راویوں کی روایات اورانسانی آراء کا ہے۔ علم رجال کاانتہائی اہم مأخذ محمد بن سعد کی ’’الطبقات الکبریٰ‘‘ ہے۔ بعد کے تمام ائمہ فنِ رجال نے اس سے استفاد ہ کیاہے۔اس کا بیشتر مواد تاریخی روایات پر ہے۔ اس میں صحیح السند روایات کے ساتھ ساتھ محمد بن اسحق اورواقدی سمیت سینکڑوں ضعیف راویوں سے مروی ہزاروں روایات ہیں۔محمد بن سعدشخصیات کاذکرکر کے آخر میں اپنی رائے بتاتے ہیں کہ وہ ثقہ ماناگیا ہے یاضعیف ۔یہ محمدبن سعد،واقدی کے سب سے نامور شاگرد ہیں جو علمائے اسلام کے نزدیک معتبر مؤرخ اورہمارے جدیدمحققین کے نزدیک سبائی ایجنٹ تھے۔ اسی طرح بعد میں مدوّن کی گئی فنِ رجال کی کتب جن میں تمام آراء کوجمع کیاگیاہے دیکھ لیں ، مثلاً سیراعلام النبلاء ۔اس کابہت بڑا حصہ تاریخی اسناد کی روایات پر مشتمل ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ فنِ رجال کے ان جلیل القدرائمہ نے ایسی کتب بھی مدون کی ہیں جن میں بیک وقت تاریخ بھی ہے اورعلم رجال بھی۔رجال کے سب سے بڑے امام جن کے کاندھوں پراس علم کی عمارت کھڑی ہے،حافظ شمس الدین ذہبی ہیں۔۴۵جلدوں میں ان کی تاریخِ الاسلام اٹھاکردیکھ لیں۔ہر جلد میں دوحصے کیے گئے ہیں۔ایک حصے میں تاریخی واقعات سن واراورباقاعدہ’’ نیت باندھ کر‘‘ نقل کیے گئے ہیں۔محمدبن اسحق، زہری ،طبری،بلاذری ،سبھی کی روایات نہایت عمدہ ترتیب سے لی گئی ہیں۔ دوسرے حصے میں رجال کاعلم ہے ۔راویوں اورشخصیات پر بھرپور بحث کی گئی ہے ۔
اب اگر کوئی خود کوحافظ ذہبی سے بڑا،ماہرِ رجال سمجھتاہے اوراس کاخیالِ خام یہ ہے کہ ان جیسے علماء کوتوکچھ پتاہی نہیں تھاکہ وہ کیا کچھ جمع کرتے چلے گئے اورکس کس کوثقہ ہونے کی سند پکڑاتے گئے اوریہ کہ تاریخ کی کمزوریوں کو آج ’’عظیم تحقیقی کتاب ‘‘ والے موصوف نے پرکھاہے، تووہ کس منہ سے
سنت کومحفوظ سمجھنے کادعویٰ کرتاہے۔ایسی ذہنیت والے کے لیے بس دعائے ہدایت ہی کی جاسکتی ہے۔