اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۲)
اورنگ زیب نے ضروری سمجھا کہ اس صورتحال میں خود آگرہ جاکر باپ سے ملاقات کی جائے اور حقائق وخدشات سے آگاہ کرکے داراشکوہ کی بالادستی ختم کرائی جائے۔
اورنگ زیب نے یہ بھی طے کیاکہ اس سفر میں شہزادہ مراد کو( جس نے شاہ جہاں کی موت کی افواہ پھیل جانے پر خود مختاری اختیار کی تھی) ساتھ لے جاکر باپ سے اس کو معافی دلادی جائے ۔چنانچہ اورنگ زیب نے اسے درج ذیل مراسلہ بھیجا:’’داراشکوہ کی بے انصافی کے سبب جو کچھ ہم بھائیوں کے دل میں آیاوہ بجاتھا۔مگر مناسب یہ ہے کہ والد بزرگوار کی زندگی میں ہم دونوں ان کی خدمت میں جائیں اور اس بدمذہب کو سزا دینے کی کوشش کریں ۔ اگر حضور والد بزرگوار کا دیدار میسر ہوا، تو اس فتنے کو مٹانے کی سعی کریں اوروالد محترم کے ادب میں جو کوتاہی ہوئی ہے ،اس کی معذرت کریں۔‘‘
سفارت کاری کے ذریعے شہزادہ مرادکو ہم نوابنانے کے بعداورنگ زیب نے آگرہ جانے کی تیاری کی مگر خطرہ یہ تھاکہ داراشکوہ اسے باپ سے نہیں ملنے دے گابلکہ روکنے کی پوری کوشش کرے گااوراس کے لیے قوت استعمال کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔اس لیے اورنگ زیب نے احتیاطاً فوج کوساتھ لے جانا ضروری سمجھا۔
اورنگ زیب اوراس کے امراء دکن کے قلعہ برہان پورسے آگرہ کی طرف روانہ ہوئے۔مالو ہ میں شہزادہ مراد بھی اپنی فوج سمیت اس جمعیت سے آن ملا۔دونوں شہزادے راجپوتانہ پہنچے تودیکھا کہ داراشکوہ کی طرف سے راجہ جسونت سنگھ بڑے لاؤلشکر سمیت ان کا راستہ روکنے کھڑاہے۔
اورنگ زیب نے اسے مراسلہ بھیجا کہ میں اپنے والد کی زیارت کے لیے جارہاہوں نہ کہ جنگ کرنے۔ مجھے راستہ دو یا میرے ساتھ چلو۔مگر جسونت سنگھ ـلڑنے پر آمادہ تھا۔آخر اُجین کے قریب خونریزجنگ ہوئی جس میں راجپوتوں کو شکست ہوئی ،ان کے چھ ہزارآدمی مارے گئے۔ جسونت سنگھ بھاگ نکلا۔اورنگ زیب نے فتح کے بعد حکم دیاکہ جو مسلمان قیدی بن گئے ہوں ،انہیں امان دی جائے اوران کی عزت وناموس کاخیال رکھاجائے۔
اس شکست کی خبر سن کر داراشکو ہ بپھر گیا ۔ا س نے اورنگ زیب کے خلاف ایک بڑی فوج لے کرلشکر کشی کردی۔شا ہ جہاںچاہتاتھاکہ کسی طرح شہزادوں میں صلح ہوجائے۔اس نے خادموں کوحکم دیاکہ وہ اس کا سازوسامان اورخیمہ لے کرمیدانِ جنگ میں دونوں فوجوں کے پڑاؤ کے درمیان لگادیں ۔اسے امید تھی کہ وہ دونوں شہزادوں کومنالے گا۔ مگر دارا شکوہ شاہ جہاں پراپنے فیصلے مسلط کرنے کا عادی تھا۔اس نے حیلے بہانے بنا کر شاہ جہاں کو قلعے سے باہر نکلنے سے روک دیا۔
آخر شاہ جہاں نے ایک مراسلہ اورنگ زیب کوبھیجاجس میں بہت سی نصیحتوں کے بعدکہاگیاکہ مسلمانوں میں خونریزی کرانا بہت بڑاگناہ ہے۔اس سے بازرہواورجہاں پہنچ گئے ہووہیں قیام کرکے اپنا مدعا اورمقصدبیان کرو۔
اس دوران اورنگ زیب کالشکر پیش قدمی کرکے گوالیارپہنچ گیاتھا۔ جبکہ شاہی لشکر دھول پور کی حدود میں تھا۔جنگ تقریباً یقینی تھی۔اس صورتحال میں اورنگ زیب نے اس کے جواب میں لکھا :
’’ملکی امور حضور کے ہاتھ میں نہ تھے ،توداراشکوہ اپنے اقتدارکو وسعت دینے کے لیے کوشاں ہوا، اپنی خواہش پر ہرکام کرنے لگاجس سے شہروں میں فساد پیداہوتاہے۔اس کی ساری کوشش یہ تھی کہ اپنے بھائیوں کا گلا کاٹے۔اس سے ہمیشہ ایسے کام صادرہوتے ہیں جو دین کے خلاف ہیں ۔میں نے ان دنوں حضور کے حکم کے مطابق بیجاپور پر فوج کشی کی تھی اورقریب تھا فتح نصیب ہوجاتی مگر اس دوران بڑے شہزاد ے نے حاکم بیجاپور کی تسلی کے لیے سفیر بھیج کر اسے مزید دلیر کردیا۔ اس نے امرائے فوج کومحاذ سے واپس بلانے میں اس قدرجلدی کی کہ وہ مجھ سے ملے بغیر چلے گئے۔میں بمشکل اس محا ذسے نکل کر آیا۔اگر کچھ ہوجاتاتوسلطنت کونہ مٹنے والا داغ لگ جاتا۔ داراشکوہ میں دور اندیشی بالکل نہیںمگروہ حضور کے مزاج پر اس قد رحاوی ہوچکاہے جو کہتاہے ،حضور اس کے مطابق حکم دیتے ہیں اور جو وہ کہتا ہے ،اسے سچ جانتے ہیں۔جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی تومیں نے ضروری سمجھاکہ خدمت میں حاضر ہوکرتمام احوال دلائل کے ساتھ گوش گزار کردوں۔بادشاہ کے پاس ہرکوئی ملاقات کے لیے آتاجاتاہے ۔داراشکوہ مجھے کیوں روکتا ہے۔اس وقت بھی وہ لشکرِ جرارکے ساتھ آرہاہے اورتمام راستوں کی ناکہ بندی کرچکاہے۔ وہ چاہتاہے کہ میں حضور کی قدم بوسی سے محروم رہوں اورجنگ کے شعلے بھڑک کررہیں۔اگر وہ جنگ کی آگ بھڑکانے کی کوشش کرے گا تو بندہ بھی مجبوراًپیچھے نہیں ہٹے گا۔ الضرورۃ تبیح المحظورات۔بہتر ہوگاکہ حضور کچھ دنوں کے لیے پنجاب تشریف لے جائیں اورمجھے اپنے طورپر سلطنت کی خدمت کرنے دیں۔‘‘
چھ رمضان کو سموگڑھ کے قریب دونوں لشکرقریب آگئے۔ایک لاکھ کے لشکرِ جرارکے مقابلے میں اورنگ زیب کے پاس صرف ۳۵ہزارسپاہی تھے۔ فریقین اس دن صفیں درست کرتے رہے۔اگلے دن شدیدگرمی کے عالم میں دوپہر کو معرکہ شروع ہوا۔داراشکوہ کی فوج نے شدید گولہ باری کی مگراورنگ زیب کی فوج نے سخت نقصانات اٹھانے کے باوجود ہارنہ مانی۔شروع میں شاہی لشکر کاپلہ بھاری رہا۔ راجا روپ سنگھ ہلہ بول کر اورنگ زیب کے ہاتھی تک پہنچ گیا اور ہودج کی رسیاں کاٹنے لگا۔اس کی شجاعت دیکھ کر اورنگ زیب نے آوازلگائی کہ اسے زندہ گرفتارکیاجائے۔ مگر محافظ سپاہی اس کی آواز نہ سن پائے اورراجہ کوماردیا۔
داراشکوہ کی فوج روایتی انداز میں لڑتی رہی جبکہ اورنگ زیب کوشطرنج کی چالوں کی طرح منصوبہ بندی کے ساتھ سپاہیوں کو لڑانے میں مہارت تھی۔ جب شاہی لشکر اپنی پوری طاقت جھونک چکاتو اورنگ زیب کے سالار رُستم خان نے عقب سے ایک طوفانی حملہ کرکے حریف کی صفیںالٹ دیں۔ بڑے بڑے امراء مارے گئے۔ایک گولہ گرنے سے دارا شکوہ زخمی ہوگیا۔ اس دوران اس کی فوج میں یہ افواہ پھیل گئی کہ وہ مارا گیا ہے۔ اس سے فوج کی ہمت ٹوٹ گئی اور اس کے قدم اکھڑ گئے۔داراشکوہ ننگے پاؤں گھوڑے پر سوارہوکرمیدانِ جنگ سے نکل بھاگا۔اس کے پاس صرف دو ہزار خستہ حال اور زخمی سپاہی رہ گئے تھے۔وہ بڑی بری حالت میں آگرہ پہنچااورشرم کے مارے باپ سے بھی نہ ملا۔ شاہ جہاں نے اسے باربارطلب کیاتاکہ تازہ صورتحال پر مشورہ کیاجائے مگر وہ ملاقات کیے بغیر رات کی تاریکی میں اپنے اہل وعیال اور خزانے سمیت دہلی چلاگیا۔
اورنگ زیب نے آگرہ پہنچ کرکسی دقت کے بغیر شہر پرقبضہ کرلیا۔ شکست خوردہ فوج کے بہت سے افسران شہزادے کے خدام میں شامل ہوگئے۔ شاہ جہاں،داراشکوہ کی شکست پر دل گرفتہ اور اورنگ زیب کے آگرہ پرقبضے سے ناراض تھا۔ وہ تذبذب کے عالم میں تھاکہ حالات سے سمجھوتہ کرے یا شکست خوردہ داراشکوہ کو دوبارہ تخت دلوانے کی کوئی ممکنہ تدبیر کرڈالے۔ اورنگ زیب کے بارے میں اب تک وہ داراشکوہ کی دی ہوئی معلومات پریقین کیے ہوئے تھا۔ اورنگ زیب کو باپ سے ملنے کے لیے اجازت کاانتظار تھا۔اس دوران شاہ جہاں کی طرف سے قاصد نے آکریہ پیغام دیاکہ حضوربھی ملاقات کے مشتاق ہیں۔
مگراچانک ایک امیر خلیل اللہ خان آکر اورنگ زیب کو تنہائی میں لے گیااوراطلاع دی کہ والدبزرگوار ملاقات کے وقت آپ کو گرفتاریاقتل کرناچاہتے ہیں۔
اورنگ زیب نے یہ سن کرشاہ جہاں کے قاصد کوکہا:’’اب معاملے کارنگ بدل گیاہے۔حضور کے متعلق مجھے اطمینان نہیں رہا۔خطرہ ہے کہ وہ ملاقات کے وقت انتقام لیں گے ،اس لیے میں حاضرِخدمت نہیں ہوسکتا۔‘‘