ایک دن بھاولپور میں
برادرِ مکرم مولانا جمیل الرحمن عباسی صاحب کااصرارتھاکہ معقول وقت لے کر بھاولپور آؤں۔ سالِ گزشتہ اسی موسم میں بندہ کراچی سے واپسی پر بھاولپوررُکاتھاتو مگر یوں سمجھیں کہ خوابوں کایہ شہر ، خواب ہی میں دیکھا۔ کیونکہ جب ٹرین سے اترا،تو رات کے دوبجے رہے تھے اورنیند سے براحال تھا۔ مولانا جمیل الرحمن عباسی صاحب کی مسجد کے حجرے میں پہنچے ،اورسوگئے۔ نمازِ فجر کے لیے اٹھے اورنما زپڑھ کرپھر بستر پر۔ ۹بجے ناشتہ کیااوردس بجے پھر پنڈ جانے والی ڈائیو پر۔ مولاناکوشکایت تھی کہ یہ آنا بھی کوئی آناہوا۔مجھے بھی یہ حسرت تھی کہ بھاولپو میں کچھ وقت جاگتے بھی گزاراجائے۔
اس لیے اس بارمولاناسے وعدہ کیاکہ تقریباً چوبیس گھنٹے نکالے جائیں گے۔مولانانے فرمایاکہ جامعہ مدنیہ میں آپ کالیکچر رکھاجائے گاجس کاعنوان ہوگاتاریخ کی ضرورت اورمطالعہ کاطریقِ کار۔
منگل۱۵مارچ کی شب سواآٹھ بجے ڈائیو اڈے پر اتراتوایک بارپھربھاولپور کی نیم خنک ہوانے استقبال کیا۔ مولانا جمیل الرحمن عباسی صاحب کی طرف سے گزشتہ مرتبہ کی طرح اس باربھی قاری یعقوب صاحب لینے آئے تھے۔مولانا کی مسجد میں پہنچے۔وہ حسبِ عادت پرتپاک طریقے سے ملے۔ نمازِ عشاء اورطعام کے بعد مولانااپنے مدرسے جامعہ عباسیہ لے گئے۔ مدرسے کے علماء اورطلبہ مہمان خانے میں جمع ہوگئے ۔ ان سے کچھ دیرگفتگو ہوتی رہی۔ مولاناجمیل الرحمن صاحب نے یاددلایاکہ کل جامعہ مدنیہ میں ساڑھے دس بجے آپ کالیکچر ہے، جس کااشتہار روزنامہ اسلام میں لگ چکاہے ۔
اگلے دن صبح ناشتے کاپروگرام جامعہ نظامیہ میں تھا۔ یہ بہاولپور کاقدیم دینی ادارہ ہے جویہاں کے ایک رئیس نظام الدین حیدرصاحب کے نام سے موسوم ہے۔ وہاں مدرسے کی انتظامیہ اوراساتذہ کرام سے ملاقات ہوئی ۔ماشاء اللہ یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ نامساعد حالات کے باوجود جگہ جگہ دین کے ان قلعوں میں اسلام کی حفاظت واشاعت کاکام بڑی محنت اورجانفشانی سے ہورہاہے۔
جامعہ نظامیہ میں جب ناشتے کادسترخوان دیکھا توسمجھ نہ آیاکہ ناشتہ ہے یا پرتکلف ضیافت۔ چھولے، پراٹھے، نہاری ،حلوہ ، تلے ہوئے انڈے،ایک ایک نعمت ایسی تھی بندہ انگلیاں چاٹتارہ جائے۔پھران سب کے بعد بھاولپور کاتازہ دہی پیش کیاگیا جو دہی نہیں ملائی معلوم ہوتاتھا۔ یہ سب ان حضرات کی طرف سے بے لوث محبت واکرام کا مظاہرہ تھا جسے راقم بھلانہیں سکتا۔
جامعہ نظامیہ کے بعد جامعہ مدنیہ میں حاضری ہوئی۔ وہاں کے حضرت مہتمم صاحب نہایت سادہ منش اللہ والے بزرگ ہیں ۔ مدرسے کے صحن میںعام سی چارپائی پربیٹھے حساب کتاب کررہے تھے۔ یہ بزرگ جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کے مفتی ابوبکر سعیدالرحمن صاحب مدظلہ کے برادرِ بزرگوار ہیں۔ بڑی شفقت سے ملے۔ ان سے مدرسے کے نظام تعلیم کی تفصیل سن کر بڑی مسرت ہوئی۔ یہاں جامعہ معہدالخلیل الاسلامی کے فاضل مولانا محمودتمیمی صاحب بھی مل گئے۔ وہ بھی اسے خانوادے کے چشم وچراغ ہیں ۔ایک مدت بعد ان سے اچانک ملاقات کابڑالطف آیا۔ یہ سوچ کر اللہ کاشکر ادا کیا کہ ہماری مادرعلمی جامعہ معہد الخلیل کافیضان کہاں کہاں تک پھیلاہواہے۔
اسی مدرسے میں لیکچر تھا ۔ ساڑھے دس بجے بندہ اس ہال میں پہنچ گیا۔ طلبہ کی خاصی تعداد وہاں جمع تھی ۔ راقم نے تقریباًایک گھنٹے تک دیے گئے موضوع پر گفتگو کی ۔تاریخ کی اہمیت سمجھانے کے بعد راقم نے طلبہ کوکہا کہ تاریخ کامطالعہ کرتے وقت سب سے اہم اورضروری بات یہ ہے کہ اسے تاریخ سمجھ کرہی پڑھاجائے۔اس سے عقائد اورایمانیات کی تشکیل کاکام نہ لیاجائے ،ورنہ یہ ایساہی ہوگا جیسے کوئی تاریخی کی کتاب سے طبی مسائل تلاش کرنے لگے۔علماء نے ہر فن کی کتب مدون کرتے وقت ان کی تعریف ، موضوع اورغرض وغایت کواسی لیے بیان کیاہے تاکہ حدودکالحاظ رہے اورخلطِ مبحث نہ ہو۔ عقائد کامأخذ قرآن وسنت ہے جن سے استدلال کرکے علماء نے الفقہ الاکبر ،العقیدۃ الطحاویۃ ، شرح عقائد نسفیہ اورالعقیدۃ الواسطیہ جیسی کتب مدون کردی ہیں۔ عقائد کووہاں دیکھیں۔ تاریخ کی غرض وغایت ،عبرت ہے۔ہم گزشتہ لوگوں کے حالات سے سبق حاصل کرنے کے لیے تاریخ پڑھیں۔تاریخ بتاتی ہے کہ اچھے لوگوں کاانجام بھلاہوتاہے ۔ ہدایت یافتہ قومیں فلاح ونجاح کی منزل تک پہنچتی ہیں۔ برے لوگوں کاانجام براہوتاہے۔ گمراہ قومیں تباہ وبرباد ہوتی ہیں۔ تاریخ سے یہ سبق حاصل کرناچاہیے۔۔
راقم نے یہ بھی کہا کہ دنیا میں جو بھی واقعات ہوئے ،انہیں آپ دوحیثیتوں سے دیکھ سکتے ہیں ۔ایک یہ کہ وہ کام شرعی لحاظ سے ٹھیک تھے یا نہیں ۔یہ تشریعی حیثیت ہے۔ تاریخی واقعات میں شرعی پہلو اکثر بہت واضح ہوتاہے اورہمیں معلوم ہوتاہے۔مثلاً کسی نے ظلم کیاتویقینا غلط کیا۔کسی نے دشمن کو قومی رازبتادیے تو اس نے بالکل ناجائز کیا۔ کسی نے جہاد کیا یا عدل وانصاف کیا تویقینا اجرعظیم کاحق دار بنا۔ مگرتشریعی پہلو کے ساتھ ساتھ ایک تکوینی پہلو بھی ہے۔یعنی جوکچھ بھی ہوا،وہ اللہ کے حکم سے ہوا۔ یہاں صحیح یاغلط کاسوال نہیں ہوگاکیونکہ اللہ حکیم ہے اوراس کاکوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔
عام طورپر تاریخ پڑھ کربہت سے مقامات پر انسان طبعاً رنجیدہ اورغمزدہ ہوتاہے ،کیوںکہ ہر جگہ فتح نہیں ،بہت سی جگہوں پر شکست بھی ہے۔اسی طرح کہیں غداریاں ہیںکہیں محلاتی سازشیں ، کہیں کسی حاکم کاظلم وستم ہے اورکہیں بغاوتیں ۔مسلم معاشرہ بھی ایک انسانی معاشرہ تھا۔وہاں بھلے برے حالات ہمیشہ پیش آتے رہے۔ جیساکہ ہر فرد کوذاتی زندگی میں بھی اچھے برے حالات سے سابقہ پڑتاہے۔ ہمیں اپنی زندگی کے سانحوں سے سبق ضرورلیناچاہیے مگر مایوس نہیں ہوناچاہیے ۔غورکریں گے توہر غم کے پس پردہ اللہ کی کوئی حکمت دکھائی دے گی۔اسی طرح امت مسلمہ کو پیش آنے والے بڑے بڑے مصائب کودیکھیں تو وہاں بھی مشیت کی حکمتیں ظاہر ہوں گی۔ دورِ صحابہ میں اختلافات کا پڑھ کرلوگ پریشان ہوتے ہیں۔حالانکہ ایسانہ ہوتاتواُمت کے سامنے اختلاف کے وقت کے شرعی احکام اورآداب کیسے آتے۔ تاتاریوں نے عالم اسلام کوتباہ کرڈالا۔ کتنا بڑاصدمہ تھا،لیکن اس حادثے نے اسلام کونیاخون عطاکیا،مسلمانوں سے گھل مل کریہ پوری قوم ایک صدی کے اندراندرمشرف بااسلام ہوگئی ۔ورنہ منگولیا کے صحراؤں میں اس قوم کوکہاں ہدایت نصیب ہوتی۔
پھراستعمار نے ہمیں دبالیا اورہماری بڑی بڑی حکومتیں چھین لیں ۔لیکن اس زوال نے ہی سوئی ہوئی امت کودوبارہ جگایا۔مسلمانوں میں آزادی کی تحریکیں ابھریں ۔ مجددین امت پیداہوئے ۔اگر اڑھائی تین سوسال قبل کے حالات سے موازنہ کیاجائے تواس وقت مسلمانوں کی حالت ہر میدان میں روبہ تنزل تھی جبکہ آج مسلمانوں کامذہبی،ایمانی ،علمی وسیاسی شعورالحمدللہ روبہ ترقی ہے۔
جامعہ مدنیہ سے فارغ ہوکر ہم نورمحل پہنچے۔ بھاول پور کے نوابوں کایہ محل شہر کے وسط میں ایک بہت بڑے باغ میں واقع ہے۔ اس کی خوبصورتی دیکھ کرانسان دنگ رہ جاتاہے۔ محل کی عمارت سفید رنگ کی ہے جبکہ اس کے گنبدوں پر سنہر احاشیہ ہے۔اس کے ستون،محرابیں، مدورچھتیں،تہہ خانے اور سرنگیں ہر چیزحیرت انگیز ہے۔ انسان حیران ہوتاکہ پرانے معمار کتنے ماہرِ فن ہواکرتے تھے۔
بھاولپور میں جس شخص سے بھی ملاقات ہوئی ،وہ ان قدیم نوابوں کامداح دکھائی دیا۔یہ نواب دین دار وضع داراوراپنی قوم کے خیرخواہ تھے ۔ غریبوں کے کام آتے تھے۔ انہوںنے انگریزسامراج کے دورمیں بھی اپنے عوام کوبدحال نہیں ہونے دیا۔ آج وہ نہیں مگر ان کے چاہنے والے بکثرت ہیں۔ نیکی کبھی ضایع نہیں جاتی اوراچھے کام رہتی دنیاتک یادرکھے جاتے ہیں۔گزرنے والے لوگوں کے حالات ہوںیا ہم پرگزرنے والے یہ لمحے …سب ہم سے ایک ہی مطالبہ کررہے ہیں۔
’’اٹھونیکی کرو‘‘