تہذیب حجاز ی کامزار (3)
ابوالعباس کی مہمات جاری تھیں کہ دارالحکومت تیونس میں اس کے والد کو دماغی بیماری لاحق ہوگئی اور اسی حالت میں اس نے کچھ بے قصورافرادکوقتل کرادیا۔ اس کے عجیب وغریب فیصلوں سے درباری سخت مضطرب رہنے لگے اور انہوںنے عباسی خلیفہ معتضد باللہ کو جسے اغلبی خانوادہ اپنا سرپرست مانتاتھا،یہ اطلاعات پہنچادیں۔
انہی دنوں مغربی افریقہ میں اسماعیلی داعی عبداللہ یمنی کافتنہ تیزی سے سر ابھارکر مشرق کی طرف بڑھ رہاتھا۔ ایسے میں تیونس پر ایک مخبوط الحواس حکمران کی موجودگی اس سلطنت کو کھونے کے مترادف تھی،اس لیے خلیفہ معتضد باللہ نے ابراہیم بن احمد کو تیونس کاتاج وتخت چھوڑدینے کاحکم دیا۔
ابراہیم نے ایک اچھے مسلمان کی طرح خلیفہ کے حکم کی تعمیل کی اورصقلیہ کے محاذپر مصروف اپنے بیٹے ابوالعباس کوواپس بلاکراپنی جگہ بٹھادیا۔ پھراس نے اپنا علاج کرایااوربہت جلداسے شفانصیب ہوگئی ۔وہ غائب دماغی کی حالت میں کیے گئے غلط فیصلوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے درویش بن گیا اور جہاد میں زندگی گزارنے کافیصلہ کیا۔
وہ صوفیوںکے لباس میں صقلیہ پہنچا اور جہاد کی ادھوری مہم کی تکمیل کاکام اپنے ذمے لے لیا۔ اس کاپوتا(نئے حکمران ابوالعباس کا بیٹا )ابومضر بھی اس مہم میں اس کے ساتھ ہوگیا۔ سابق بادشاہ کی لشکر میں آمد نے مجاہدین کے حوصلے بہت بڑھادیے۔ زبردست تیاری کے ساتھ رومیوں سے جنگیں شروع ہوئیں اورہر جگہ فتح ونصرت نے قدم چومے ۔آخر کار 289ھ میں صقلیہ کا آخری شہر’’ طبرمین ‘‘ بھی فتح کرلیاگیا۔ یوں فتحِ صقلیہ کی جو مہم قاضی اسد بن فرات نے شروع کی تھی ،وہ 76سال بعد ابراہیم بن احمد کے ہاتھوں پایۂ تکمیل کو پہنچی۔ بوڑھا ابراہیم ان جاں توڑ مہمات کی وجہ سے بیمار پڑ گیا اور 19ذی قعدہ 289ھ کو اس نے جان جاں آفرین کے سپردکردی۔وفات سے پہلے اس نے اپنے پوتے ابومضر کو اپنا جانشین بنادیاتھا۔
یہاں تک تو ہماری داستانِ عروج تھی جس متعلق اقبال مرحوم نے کہا
تواس قوم کی تہذیب کاگہوار ہ تھا
حسنِ عالم سوز جس کاآتشِ نظارہ تھا
مگر یہ سوال توباقی رہے گاکہ آخر ایسی عظیم الشان سلطنت مسلمانوں کے ہاتھ سے کیسے نکل گئی؟
اس سوال کے جواب میں جو واقعات ملیں گے وہ ہماری تاریخ کے دوسرے پہلو کوواضح کریں گے ۔ انہیں پڑھ کرہمیں رنج ہوگا ۔مگر رنج سے کیا حاصل۔اس لیے جو قارئین دکھی نہیں ہونا چاہتے ، ان سے درخواست ہے کہ آگے پڑھنا بند کردیں ۔یقین کریں میں بھی یہ لکھتے ہوئے کچھ کم غم واندوہ سے نہیں گزررہا۔ جس تفصیل سے یہ چیزیں میرے سامنے ہیں ،اتنی تفصیل سے میں آپ کے سامنے پیش کربھی نہیںسکتا۔مگر ان تفصیلات کوپڑھ کرمجھ پر جوگزرتی ہے ، وہ اللہ جانتاہے۔ یہ کالم لکھتے ہوئے میری آنکھوں میں بار بار آنسو آئے ہیں ۔میں رویاہوں،اپنی قوم پر ،اس کی عاقبت نااندیشی پر ، اپنی تہذیب کے اس جناز ے پر جس کے لیے ہم نے خود قبر کھودی ،ان نسلوں پر جوچند غلط فیصلوں کی بھینٹ چڑھ گئیں اوران لوگوں پر جنہوںنے اپنے مفادات کے لیے اسلامی تمدن وثقافت سے سجے سجائے ملک کوبھیڑیوںکے حوالے کردیا۔
اگر آ پ دکھی نہ ہوناچاہیںتواس کالم کوپڑھنا یہیں بس کردیں ۔لیکن اگرآپ صدمے کو ایک وقتی کیفیت سمجھ کراصل مقصد پر نگاہ ڈالیں تو شاید میری خامہ فرسائی کا کچھ حاصل نکل آئے ۔مقصد عبرت ہے ۔ان غلطیوں سے بچناہے جوہماری سلطنتوں کو تباہ کرتی رہیں۔
پوراصقلیہ 289ھ کے اواخر میں فتح ہوا۔ یہ دورِ عروج تھا۔ کاش کہ یہ کم ازکم ایک دو صدیوں تک توقائم رہ پاتا۔مگرجس جزیرے کی فتح کی کوشش33ھ میں صحابہ کرام کے مقدس خون سے شروع ہوئی تھی ،جس کے لیے قاضی اسدبن فرات جیسے سینکڑوں بزرگوں نے بڑھاپے کی پروانہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا،جوعلاقہ 256سال تک جہاد کرکے فتح کیاگیا،وہاں فتح کی تکمیل کے بعد ایک سال بھی نہیں گزراتھاکہ زوال شروع ہوگیا۔ اس کے بعد کی پونے دو صدیاں مسلمانانِ صقلیہ نے سیاسی زوال کے ہچکولوں میں گزاریں ۔
سلسلۂ اسبابِ زوال شروع کہاں سے ہوا۔ اصولِ موروثیت کے تحت ایک نااہل نوجوان کو اقتدار سونپنے سے ۔امیر ابراہیم بن احمد نے وفات کے وقت اپنے پوتے ابومضر زیادۃ اللہ کو گورنر بنادیا۔اس نے مسند پر بیٹھنے کے بعد فتوحات یاملکی انتظام میں کوئی دلچسپی نہ لی بلکہ عیش وعشرت میں مشغول ہوگیا ۔اس کے باپ ابوالعباس کوجب اس کی رنگ رلیوں کی اطلاع ملی تواسے معزول کرکے ، تیونس بلایااور جیل میں پھینکوادیا۔
مگراس بدبخت نے جیل خانے ہی میں کچھ غلاموں کوساتھ ملاکر ساز ش کی اورشعبان 290ھ میں اپنے باپ کوقتل کرکے اس کی جگہ تیونس کی مسندِ حکومت پر مسلط ہوگیا۔ اس کے بعداس نے جوکچھ کیا،وہ تیونس کی اغلبی حکومت اور مسلم صقلیہ دونوں کے لیے پیامِ موت ثابت ہوا۔اس نے ظلم وستم کی انتہاء کرتے ہوئے اپنے سیاسی حریفوں ہی کونہیں بلکہ اپنے دوستوں اور خیرخواہوں کو بھی مروا ڈالا۔اس کی راتیں عیش ونشاط میں اوردن جبروتشدد پر مبنی حکم جاری کرتے ہوئے گزرتے۔
ان حالات میں تیونس اورصقلیہ کے تمام امراء بنواغلب کے مخالف بن گئے۔اسماعیلی داعی عبداللہ یمنی ،پہلے ہی موقعے کی تاک میں تھا۔اس نے حالات کوسازگاردیکھ کر اپنے آقا ،جعلی مہدی کو افریقہ بلالیا۔اس ’’روحانی شخصیت ‘‘ کے گرد جمع ہوکر جاہل افریقی مسلمانوں کا جوش وخروش آسمان تک پہنچ گیااوروہ دیگر شہروں کوفتح کرتے ہوئے آناً فاناً تیونس پہنچ گئے۔آرام پسند ابومضر اس طوفان کامقابلہ کرنے سے قاصرتھا۔ وہ تمام خزانے اونٹوں پر لاد کر افریقہ سے نکل گیا اور کوچ درکوچ کرتاہوا،رملہ(فلسطین) پہنچ گیااور جمادی الاخریٰ296ھ میںوہیں گمنامی کی حالت میں مرگیا۔
اپنے سیاہ کرتوتوںسے اس نے ،اپنے خاندان کی آن بان کو پامال کردیااورایک عظیم الشان اسلامی حکومت کو ضایع کرکے خود بھی چار پانچ سال کے اندرتخت سے محروم ہوکر تباہ وبرباد ہوگیا۔
بنواغلب کے خاتمے اورتیونس پر اسماعیلیوں کے غلبے سے صقلیہ بے یارومددگار ہوگیا۔ وہاں کے والی احمد بن ابی الحسین نے حالات کی باگ تھامنے کی پوری کوشش کی مگر اس کے سیاسی حریف ابوالفوارس نے اسے معاف نہ کیااوراس کی دشمنی میں اسماعیلیوں سے سازباز کرلی۔گیارہ رجب 296ھ کوابوالفوارس نے احمد بن ابی الحسین کے گھر کونرغے میں لے کراسے گرفتارکرلیا اور یوںصقلیہ اسماعیلی شیعی حکومت کاایک صوبہ بن گیا۔