پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(1)
دنیاکی تاریخ کی اس بدترین جنگ کو،جسے پہلی عالمی جنگ یاجنگِ عظیم اوّل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، صرف ایک صدی گزری ہے۔مگر اس ایک صدی پہلے کے سانحے کے بارے میں بھی ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتے کہ کچھ یورپی طاقتیں آپس میں لڑمرکران گنت انسانوں کی ہلاکت کاسبب بنی تھیں اوریہ کہ ترکی بھی اس میں شامل تھااسی لیے جنگ کے بعداس کے حصے بخرے کردیے گئے ۔
اس وقت دنیا کے حالات پھراسی طرف جارہے ہیں ،کہ ایک بہت بڑی جنگ کاخطرہ ہم سے دور نہیں۔ ہمارے قومی ،مذہبی اورسیاسی رہنماؤں کو،جن کی بصیرت پر اُمت کی بقا کادارومدارہے، بہت جلد بہت اہم فیصلے کرناہوں گے۔ ضروری ہے کہ ایسے میں ماضی کے تجربات ، ہمارے سامنے ہوں،تاکہ ہم اَ ن جانے میں کوئی ایسا قدم نہ اٹھالیں جو پوری نیت نیتی اوراخلاص پر مبنی ہونے کے باوجود زمینی حقائق کے لحاظ سے بالکل غلط ہو۔
1914ء سے 1918ء تک جاری رہنے والی چارسالہ جنگِ عظیم اول نے دنیا کانقشہ جس طرح بدلا، اس کاتصوربھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ساکنانِ کرۂ ارض کاایک بڑاحصہ صفحہ ہستی سے فنا ہوگیا۔ شہر کھنڈروں میں تبدیل ہوگئے۔ قحط ، افلاس اوروبائی امراض نے شکست خوردہ ملکوں کولپیٹ میں لے لیا۔متحارب فریقوں کے اعداد و شمار کو جمع کیا جائے توساڑھے 6کروڑ انسان لڑائی میں شریک ہوئے۔ سپاہی و شہری ملاکر 3 کروڑ 48 لاکھ 81ہزارافراد مارے گئے۔ان میں 93 لاکھ 23 ہزار سپاہی تھے اور باقی سویلین۔دوکروڑ سے زائد زخمی اورمعذورہوئے۔مالی نقصانات کااندازہ 337بلین ڈالر لگایاگیا۔ اس جنگ سے طاقت کے مراکز تبدیل ہوگئے۔ عالمی دولت وثروت کے مالکان بدل گئے۔ بڑے بڑے شاہی خانواد ے جن کے تصرف میں اربوں کھربوں کے خزانے اورجائدادیں تھیں، کوڑی کوڑی کے محتاج ہوگئے۔ناقابلِ بیان حدتک دولت و ثروت ،چند فاتحین کے ہاتھ میں آگئی۔
فاتح قوتوںنے ،شکست خوردہ ممالک سے بھیانک انتقام لیااورانہیں نہ صرف سیاسی،عسکری اور اقتصادی لحاظ سے مفلوج کردیابلکہ ان کی قدیم بادشاہتوں تک کاخاتمہ کرڈالا تاکہ ان کا اپنے ماضی سے رشتہ منقطع کردیا جائے۔جرمنی اور آسٹریاکے شاہی خاندان دربدرہوگئے۔حد یہ ہے اس جنگ کے اثرات نے فاتح قوموں کو بھی نہ چھوڑا۔ روس جس نے بڑے طمقطراق سے یہ جنگ چھیڑی تھی ، سیاسی خودکشی پر مجبور ہوگیا اور وہاں لینن نے زار شاہی کاتختہ الٹ دیا۔ سب سے بڑا نقصان مسلمانوں کوہواکہ کہ ان کی واحد محافظ اوردنیا کی واحدمسلم پاور،سلطنتِ عثمانیہ کاسقوط ہوگیا ۔
عالمی جنگ چھڑنے سے پہلے دنیا میں طاقت کاتناسب کچھ یوں تھا۔
(1)برطانیہ : رقبے وآبادی اور دولت کے لحاظ سے دنیا میں سب سے آگے تھا۔
(2)جرمنی: عسکری طاقت میں برطانیہ کے قریب اورصنعت اورایجادات میں اس پر فائق تھا۔
(3)فرانس:ـ رقبے اورعسکری طاقت کے لحاظ سے تیسرے نمبرپر تھا ۔
(4) روس : ترقی میں یورپ سے پیچھے تھامگر اس کی بری فوج دنیا میں تیسرے نمبر پرتھی۔
(5)امریکا: صنعت وایجادات میں پوری دنیاسے آگے نکل چکاتھا۔اگرچہ بری فوج کم تھی۔
(6)جاپان : فوجی اورصنعتی میدان میں مضبوط تھا۔اس کا بحری بیڑہ نہایت تباہ کن تھا جس کے باعث وہ مشرقِ بعید کی متعددیورپی نوآبادیات پرقابض ہو نے کے بعدچین میں مداخلت کررہاتھا۔
(7)ترکی:بلقان کی ریاستیں گنوانے کے بعدبھی دنیا کی ساتویں بڑی طاقت تھا۔
پہلی جنگ عظیم سے قبل بلقان کی ریاستیں بغاوت کرکے سلطنتِ عثمانیہ سے الگ ہوگئی تھیں۔ یورپی ممالک میں سے ہرایک بلقان کی ان ریاستوں میں اپنااثر ورسوخ بڑھاناچاہتاتھا۔اسی سلسلے میں آسٹریا اور ہنگری کے مشترکہ وفاق کا ولی عہد،شہزادہ فرانسس فرڈی ننڈ بوسنیا کے دورے پر نکلا۔ 28جون 1914ء کوسرائیو میں وہ اچانک قاتلانہ حملے میں ماراگیا۔قاتل کا تعلق ایک سرب تنظیم سے تھا جو اس خطے میں آسٹریا کے اثرورسوخ کی مخالف تھی۔آسٹریا نے اس سانحے کوناقابلِ برداشت قرار دیتے ہوئے 28جولائی کوسربوں کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا۔یہ عالمی جنگ کی طرف پہلاقدم تھا۔
روس سربو ںکاحامی تھا اور انہیں اس خطے میں اپنے لیے استعمال کررہا تھا۔اس نے سربوں کو بچانے کے لیے آسٹریا کے خلاف جنگ کااعلان کردیا۔یہ جنگ عظیم کی طرف دوسراقدم تھا۔
جرمنی چونکہ آسٹریاکاصلح وجنگ میںحلیف تھا لہٰذا آسٹریاپر روس کا غلبہ اس کے لیے بھی مہلک تھا، لہٰذا اس نے آسٹریا کے ساتھ جنگ میں شراکت کااعلان کردیا۔
جرمنی کی طوفانی یلغار کے آگے روس کی شکست کوئی بعید نہ تھی ،اس لیے فرانس اوربرطانیہ جو جرمنی کے مخالف تھے،روس کی حمایت میں کھڑے ہوگئے۔
یوں پہلی عالمی جنگ چھڑگئی جس میں ابتداء ً ایک طرف جرمنی اور آسٹریا تھے جبکہ دوسری جانب سرب دہشت گرداوران کاحامی روس۔ مگر ہر فریق اپنے حلیفوں کو بھی اس جنگ میں شامل کرتا گیا۔ فرانس اوربرطانیہ نے بلجیم ،روس ، پرتگال، یونان ،جاپان،اٹلی اور امریکا کو بھی ساتھ ملالیا۔پورے یورپ میںصرف اسپین ،سوئزرلینڈ،ہالینڈ ،سوئیڈن اورڈنمارک غیر جانب داررہے۔ جنگ کا دائرہ پوری دنیامیں پھیلتا گیا ۔اس جنگ میں پہلی بار طیاروں ، ٹینکوں اور مشین گن کااستعمال ہوا۔جنگ کے فریقین میں سے ہرایک کو یہ یقین تھاکہ اسے بہت جلد فتح نصیب ہوگی اوروہ وسیع نو آبادیات کا مالک بن کربے پناہ خوشحالی اورناقابلِ تسخیرقوت کامالک بن جائے گا۔مگر جنگ طول کھینچتی گئی ۔
ترکی میں اس وقت سلطان محمدرشاد(محمدخامس ) کی حکومت تھی ۔ اس کے تحت وزیراعظم طلعت پاشا، وزیرِ دفاع غازی انورپاشااورامیرالبحر جمال پاشا ملک کی باگ ڈورسنبھالے ہوئے تھے۔ نظام حکومت پارلیمانی تھا مگر خلیفہ کو اسمبلی توڑنے،کابینہ کوبرطرف اورتمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے کا حقحاصل تھا تاہم وہ اہم ترین معاملات کے سوا،کسی معاملے میں دخل نہیں دیتاتھا۔
جرمنی اور ترکی میں ایک مدت سے دوستانہ تعلقات تھے۔اس لیے جنگ چھڑتے ہی ترکی کے سامنے یہ سوال آکھڑاہواتھاکہ جنگ میں شرکت مفیدہے یا غیرجانب داررہنا۔سلطان محمدر شاد اور وزیرِ اعظم طلعت پاشاسمیت اکثر وزراء اس جنگ میں شرکت بے سود سمجھتے تھے اوریہی صحیح رائے تھی۔ کیونکہ ترکی کایورپی قضیے سے کوئی تعلق نہ تھا۔نہ ہی کوئی ایسی مصیبت سر پر آکھڑی ہوئی تھی جو ترکی کو اس بلا میں گھسیٹ لے جاتی ۔