Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ 2016

22 - 102
یوم پاکستان اوردینی مدارس
پاکستان ہماراوطن ہے۔ہماری پناہ گاہ اورہماری جائے سکونت ہے ۔یہ ملک ہماری پہچان ہے۔ ہم سب کے پاس اس ملک کاشناختی کارڈ ہے جو اس ملک میں ہمارے آئینی حقوق کے محفوظ ہونے کی دلیل مہیاکرتاہے۔ ہم دنیامیں جہاں بھی سفر کرتے ہیں ، پاکستانی پاسپورٹ سے پہچانتے جانتے ہیں۔ 
یہ ملک ہمارامحسن ہے ۔کیونکہ ہم اس کے وسائل ،اس میں مہیاسہولتیں استعمال کررہے ہیں۔ محسن کے احسان کی قدردانی اسلام کی تعلیم ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ محسن کوئی جیتاجاگتاآدمی ہو۔ کوئی بھی چیز جس سے ہم فائدہ اٹھارہے ہیں،اسلام اس کاخیال رکھنے کی تعلیم دیتاہے۔ حدیث میں یہاں تک خیال رکھنے کاحکم دیاگیاہے کہ جس جانورپر سواری کرو، اس پربیٹھے بیٹھے کسی سے لمبی گفتگو نہ کرو۔  لاتتخذوا ظہور دوابکم منابر(اپنے جانوروں کی پشتوں کومنبر مت بناؤ۔مشکوٰۃ) اسلام ہمیں ان درختوں کا خیال رکھنے کابھی حکم دیتاہے جن کے پھل یاسایے سے ہم مستفید ہوتے ہیں۔ حکم ہے کہ ان کے پاس بول وبراز نہ کیاجائے۔اسلام ہمیں اس محلے کاخیال رکھنے کابھی حکم دیتاہے جس میں رہتے ہیں۔اسی لیے حدیث میں ’’فناء الدارـ‘‘یعنی گھر کے سامنے کی کھلی جگہ (محلے کے چوک، گلی ،میدان وغیرہ) کو صاف رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے۔
عقلی لحاظ سے بھی دیکھاجائے تو جس چیز سے استفاد ہ کیاجائے ،اس کی ناقدر ی کرنا بہت برا ہے۔ اگر ہم ٹرین یاطیارے میں سفرکررہے ہیں تو ہمیں سفری سہولیات اٹھانے کایقیناپوراحق ہے مگر اس کی کسی معمولی چیز کوتوڑنے پھوڑنے کابھلا کیاجواز ہوسکتاہے۔ اسلام تو یہ تعلیم دے رہاہے کہ سفری سہولت کواللہ کی نعمت سمجھ کر دعائے سفرکاآغازسبحن الذی سخرلنا ہذا سے ہو۔ جب ان چھوٹی چھوٹی نعمتوں کاشکر ہم پر واجب ہے تو ایک آزاد وطن جیسی نعمت سے روگرددانی کہاں جائز ہے۔
ہم پاکستان میں جنم لینے والی دوسری یاتیسری نسل ہیں،اس لیے ہمیں احساس نہیں کہ غلامی کتنی بڑی لعنت ہے۔آج بھی ذرا ان چند بچے کھچے بڑے بوڑھوں سے جاکر پوچھیے جنہوںنے انگریز کا دور دیکھاہے ۔ اگریہ ممکن نہ ہوتوتاریخِ  برصغیر کے اوراق پلٹ کردیکھ لیں۔ اندازہ ہوگاکہ کتنی بڑی نعمت ہمیں بیٹھے بیٹھائے وراثت میں مل گئی ہے۔
مگر پاکستان سے ہماری وابستگی ،فقط اس لیے نہیں کہ یہ ہماری پناہ گاہ ،ہماری شناخت یاہماری جائے پیدائش ہے۔ بلکہ ہم اورہمارے اکابر نے اس ملک سے محبت کی ہے تواس کی بنیاد وہی ہے جومدینہ کی پہلی اسلامی ریاست کے ساتھ محبت وعقیدت کی ہے۔مدینہ سے ہمیں محبت ہے تواس لیے کہ وہ اسلام کا پہلامرکز ہے جہاں سے اسلام دنیا میں پھیلا ۔پاکستان سے بھی ہمیں محبت اس لیے ہے کہ یہ ملک اسلامی نظریے کی بنیا د پروجود میں آیا۔ اگر یہ نظریہ نہ ہوتاتوپاکستان کے قیام کے جواز کی کوئی وجہ نہ تھی۔یہ وہ حقیقت ہے جوپاکستان کودیگر مسلم ممالک سے ممتاز بناتی ہے۔ 
یہ درست ہے کہ اس وقت کی سیاسی کش مکش میں ہندوستان کے جلیل القدر علماء کی ایک جماعت متحدہ ہندوستان کی حامی تھی کیونکہ ان کاخیال تھاکہ تقسیم برصغیر سے مسلمان دوحصوں میں بٹ کر کمزور پڑ جائیں گے ،نیزانہیں یہ بھی خدشہ تھاکہ قیام پاکستان کے بعد اسلام کے نفاذ کے وعدے ایفاء نہیں ہوں گے۔تاہم جب پاکستان بن گیاتو علماء کی اس جماعت کے سب سے بڑے رہنما شیخ الاسلام حضرت مولاناحسین احمد مدنی رحمہ اللہ نے فرمایاکہ پاکستان کی مثال مسجد کی طرح ہے۔ مسجد کے بننے سے پہلے اختلاف ہوسکتاہے کہ کہاں بنے اورکیسی بنے۔ بننے کے بعد سب پراس کااحترام واجب ہوجاتاہے۔
14اگست کو ملک کایوم آزادی منایاجاتاہے تواس کااصل مقصد اسی نعمت کااحساس پیداکرناہے۔ یہ الگ بات کہ ہمارے لیڈراوران کی تقلیدمیں ہمارے نوجوان اسے محض ایک جشن کی شکل دے دیتے ہیں اور کھیل تماشے کے سواانہیں کچھ نہیں سوجھتا۔ مگر کسی کے غلط طرزِ عمل سے یوم آزادی کی اصل حیثیت ختم نہیں ہوجاتی۔
قیام پاکستان میں علمائے کرام کی مساعی کابہت بڑاحصہ تھا۔اس کے بعدملک کے استحکام اورسالمیت کے تحفظ اورملک کی نظریاتی سرحدوں کے دفاع میںان کاکردار کسی صاحبِ خردسے پوشیدہ نہیں۔مدارس کے علماء اورطلبہ دن رات چہاردیواریوں میں قال اللہ وقال الرسول کاوظیفہ پڑھتے ہوئے چاہے میڈیاکی نگاہوں سے کتناہی مستور ہوں،مگر حقیقت میں ملک کی اسلامی اساس کادفاع انہی کے مرہونِ منت ہے۔ چونکہ یہ حضرات نام ونمود اوراسبابِ شہرت سے گریزاں رہتے ہیں،اس لیے انہیں کبھی یہ خیال نہیں آتاکہ دنیا کے سامنے ملک وقوم کے لیے اپنی عظیم خدمات کوکیش کرائیں۔
ان کی اکثریت کوپتاہی نہیں کہ میڈیا سے رابطہ کس طرح ہوتاہے اوراپنی نیکی کوکس طرح دھماکے دارخبر بناکر معاشرے کواپنی طرف متوجہ کیاجاتاہے اس لیے لوگ بھی عام طورپر یہ سمجھتے ہیں کہ مدارس کا ملک کے تحفظ میں کوئی کردارنہیں۔اہلِ مدارس محراب ومنبر کے ذریعے ملک سے اپنی مخلصانہ وابستگی کااظہار عملی خدمات کے علاوہ زبان وبیان سے بھی کرتے ہیں ۔(اس کی ایک مثال نامور خطیب حضرت قاری محمد حنیف ملتانی مرحوم کی ایک کیسٹ ’’۱۴اگست ۔یوم آزا دی‘‘ہے جومارکیٹ میں عام ملتی ہے اور راقم  کے خیال میں تمام قارئین کویہ کیسٹ ضرورسننی چاہیے)مگر یہ مخلصانہ آوازیںمیڈیاتک نہیں پہنچ پاتیں بلکہ میڈیاانہیںجان بوجھ کرنظر انداز کرتاہے۔  اس سے بڑھ کریہ کہ میڈیا پر چھائی ہوئی سیکولرلابی گھماپھراکردہشت گردی، فرقہ واریت ،ماردھاڑ اورلاقانونیت سمیت ہربرائی کو’’مولویوں‘‘ کا کیا دھر اباورکراتی ہے۔ 
ایسے میں سخت ضرورت تھی کہ ہم ۲۳مارچ، چودہ اگست اور چھ ستمبر جیسے قومی دنوں پر منظم انداز میں جلسے منعقد کریں اورملک سے اپنی وابستگی کااظہاراس انداز میں کریں کہ ہر خاص وعام اس سے مطلع ہوجائے اورپاکستان کے متعلق دینی مدارس کے نقطہ ٔ نظر کے بارے میں پھیلائی جانے والی مسموم فضا چھٹ سکے۔اس موضو ع پر گزشتہ دوڈیڑھ سال سے علمائے کرام کے حلقوں میں بات چل رہی تھی کہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔ الحمدللہ اس سال چودہ اگست کے موقع پر اس فکرکا بہت اچھا ثمر ہ دیکھنے میں آیا۔ دینی مدارس میں یوم آزادی باوقاراندازمیں منایاگیا۔مدارس میں بڑے اچھے پروگرامز ہوئے ۔ تحریکِ آزادی کے عنوان پر تقاریر ہوئیں۔ بعض جگہ طلبہ میں تقریری مقابلے بھی ہوئے۔خلوص دل کے ساتھ ملک کے تحفظ اورسالمیت کے لیے دعائیں کی گئیں اورسامعین ایک اچھا تاثر لے کر گھرو ں کولوٹے۔
ضروری نہیں کہ یہ پروگرام ۱۴اگست ہی کومنعقدہوں۔ دوچاردن آگے پیچھے بھی ان کاانتظام ہوجائے توبھی حرج نہیں۔ گزشتہ شب بھی راقم صوبہ خیبرپختون خواہ کے علاقے میں ایسی ہی ایک تقریب میں مہمانِ خصوصی کے طورپر مدعوتھا۔یہ پروگرام مدرسہ تعلیم القرآن غازی خالو میں تھا۔راقم نے تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے ہندوستان میں انگریزوں کی آمد،استعمارکے خلاف مسلمانوں کی جدوجہد ،تحریک آزادی میں علمائے حق خصوصا ً حضرت حکیم الامت تھانوی اوران کے حلقے سے وابستہ علماء کی خدمات پر روشنی ڈالی اورحاضرین بالخصوص نوجوانوں کومخاطب کرکے درخواست کی کہ ملک کے معمار آپ ہیں۔ آپ کو دل وجان لگاکر علم ،صحیح فکر اورعزم جواں کواپنے ہتھیاربناکر پاکستان کوایک مثالی اسلامی مملکت بنانے کے لیے کوشاں ہوجاناچاہیے۔
راقم نے ایسے پروگراموں میں یہ کمی بہرحال محسوس کی کہ میڈیا کوریج کاکوئی اہتمام نہ تھا۔ ہمارے مدارس کے منتظمین کوا س سلسلے میں باقاعدہ سرجوڑکربیٹھناہوگا۔ یہ درست ہے کہ میڈیاپر سیکولر لابی کا غلبہ ہے مگریہ بھی حقیقت ہے کہ دینی ذہن رکھنے والے لوگ بھی اس میدان میں موجود ہیں جن کی خدمات سے استفادہ کیاجاسکتاہے۔میڈیاکوریج کے بغیر ایسے پروگراموں کا پورافائدہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ امید ہے کہ اہلِ مدارس اس سلسلے میں مزید متفکر ہوں گے اور ان شاء اللہ اگلے برسوں میں ایسے پروگراموں کی سرخیاں تمام قومی اخبارات کی زینت بناکریں گی۔  
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 استاذ القراء کاسفرِ آخرت 1 1
3 فنا فی القرآن 2 1
4 مثالی استاذ 3 1
5 استاذ گرامی کی کچھ یادیں 4 1
6 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۱) 5 1
7 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۲) 6 1
8 پاک بھارت جنگ کے امکانات …اورمعرکۂ پانی پت 7 1
9 رمضان اورقرآن 8 1
10 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۱) 9 1
11 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۲) 10 1
12 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۳) 11 1
13 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار [1] 12 1
14 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۲) 13 1
15 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق 15 1
16 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۲) 16 1
17 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۳) 17 1
18 سیرتِ نبویہ کے جلسے اورواعظین کے لیے لمحۂ فکریہ 18 1
19 ترک عوام جنہوںنے تاریخ بدل دی 19 1
20 اسلام میں جہاد کاتصور…اسلامی نظریاتی کانفرنس کااجلاس 20 1
21 نعمتوں کی ناقدری 21 1
22 یوم پاکستان اوردینی مدارس 22 1
23 دسمبر سے دسمبر تک 23 1
24 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۱) 24 1
25 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۲) 25 1
26 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۳) 26 1
27 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۴) 27 1
28 اکبر اوردینِ الہٰی 28 1
29 اللہ کی امانت (۱) 29 1
30 اللہ کی امانت (۲) 30 1
31 شیخ النمر کی سزائے موت 31 1
32 سمندری شیر(1) 32 1
33 سمندری شیر(2) 33 1
34 سمندری شیر(3) 34 1
35 ایک دن بھاولپور میں 35 1
36 ایدھی صاحب 36 1
37 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے 37 1
38 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے (۲) 38 1
39 فضلائے مدارس کی کھپت ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۱) 39 1
40 مدارس کے فضلاء ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۲) 40 1
41 صحبتِ یا رآخر شد 41 1
42 صحبتِ یا رآخر شد(۲) 42 1
43 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج 43 1
44 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج(۲) 44 1
45 انصاف زندہ ہے 45 1
46 جرمنی اورعالم اسلام(۱) 46 1
47 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (1) 49 1
48 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (2) 50 1
49 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (3) 51 1
50 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (4) 52 1
51 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(1) 53 1
52 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(2) 54 1
53 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(3) 55 1
54 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(4) 56 1
55 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت 57 1
56 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت (۲) 58 1
57 ایک قابلِ توجہ مسئلہ 59 1
58 کس منہ سے(۱) 60 1
59 کس منہ سے(۲) 61 1
61 سفر وسیلۂ ظفر 62 1
62 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے 63 1
63 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے (۲) 64 1
64 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۱) 65 1
65 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۲) 66 1
66 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۳) 67 1
67 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۴) 68 1
68 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (1) 69 1
69 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۲) 70 1
70 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۳) 71 1
71 بانی ٔ رُہتاس 72 1
72 بانی ٔ رُہتاس (۲) 73 1
73 بانی ٔ رُہتاس (۳) 74 1
74 شہ سواری اورتیراندازی 75 1
75 شام کی صورتحال اورمستقبل کے خطرات 76 1
76 تبدیلی کی کوشش(۱) 77 1
77 تبدیلی کی کوشش(۲) 78 1
78 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۱) 79 1
79 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۲) 80 1
80 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۳) 81 1
81 تطہیر الجنان۔ایک لاجواب شاہکار 82 1
82 تہذیب حجاز ی کامزار(1) 83 1
83 تہذیب حجاز ی کامزار (2) 84 1
84 تہذیب حجاز ی کامزار (3) 85 1
85 تہذیب حجاز ی کامزار (4) 86 1
86 تہذیب حجاز ی کامزار (5) 87 1
87 تہذیب حجاز ی کامزار (6) 88 1
88 تہذیب حجاز ی کامزار (7) 89 1
89 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۱) 90 1
90 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۲) 91 1
91 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۳) 92 1
92 یوسف بن تاشفین(۱) 93 1
93 یوسف بن تاشفین(۲) 94 1
94 یوسف بن تاشفین(۳) 95 1
95 جرمنی اورعالم اسلام (۲) 47 1
96 جرمنی اورعالم اسلام (۳) 48 1
97 شیخ محمد بن عبدالوہاب ،آلِ سعود اورایرانی حکومت 96 1
98 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا 97 1
99 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا (۲) 98 1
100 خود احتسابی اور سروے کا طریقِ کار 99 1
101 اونچی اڑان 100 1
102 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین 101 1
103 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین (۲) 102 1
104 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۳) 14 1
Flag Counter