Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ 2016

93 - 102
یوسف بن تاشفین(۱)
ہرسال یکم محرم کی تاریخ آتی ہے اورگزرجاتی ہے مگر بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ یہ تاریخ اسلامی تاریخ کے اس ایسے جرنیل کایومِ وفات ہے جس نے ایک مردہ خطے کوچار صدیوں کے لیے حیاتِ نوبخشی۔  
پانچویں صدی ہجری شروع ہوئی تواندلس کی اموی امارت جس کی بنیادامیرعبدالرحمن الداخل نے رکھی تھی اورجسے عبدالرحمن الناصر نے خلافت کی حیثیت سے منوایاتھا،سکرات کے عالم میں تھی۔ کچھ ہی برسوں میں اموی خلافت کاچراغ گل ہوگیااوراس کی جگہ ایک لاکھ مربع میل سے بھی کم رقبے میں تقریباً ۲۰خلافتیں وجود میں آگئیں جن کے سربراہوں کو ملوک الطوائف کہاجاتاتھا۔انمیں ہر حکمران ایک دوسرے سے دست وگریباں تھا۔ایسے میں شمالی اندلس کی عیسائی ریاست کاحکمران الفانسویکے بعد دیگرے مسلم ریاستوں پر قابض ہونے لگا۔قریب تھاکہ اسلامی اندلس کی تاریخ کا باب پانچویں صدی ہجری ہی میں ہمیشہ کے لیے بند ہوجاتاکہ ایسے میں بحیرۂ روم کے پارافریقہ کے ساحلوںسے ایک ایسی شخصیت ابھری جس میں قیادت کی غیرمعمولی صلاحتیں کوٹ کوٹ کرودیعت کی گئی تھیں۔یہ یوسف بن تاشفین تھے جن کی شخصیت شجاعت وبسالت، ہمت ومردانگی اور سیاست وجہاں داری کا پیکرتھی ۔ نرم طبعی ،رحم دلی ، سادگی اورجفاکشی کے ساتھ دوراندیشی اورانتظامی امور کی مہارت بھی ان کے صفات تھیں۔
یوسف بن تاشفین کاتعلق بربری نسل کے قبیلہ ’لمتونہ‘ سے تھا۔ یہ لوگ مراکش کے صحرائی علاقوں میں آبادتھے اور ریت اُڑاتی آندھیوں سے حفاظت کے لیے عموماً اپنے چہروں پر رومال باندھنے کے عادی تھے،اس لیے انہیں ’ملثمین‘(نقاب پوش ) کہاجاتاتھا۔ ۴۰۰ھ میں اس قبیلے کے کچھ افراد نے کسی گمنام مبلغ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اسلام قبول کیاتھا۔ان نومسلموں میں سے ’جوہر‘نامی ایک شخص حج کے سفرپر گیاتوواپسی پرتیونس کے شہرقیروان میں اس کی ملاقات ایک فقیہ سے ہوئی ۔ جب جوہر نے انہیں بتایاکہ ہمیں کلمے اور نماز کے سوا،دین کا کچھ علم نہیں ،توفقیہ نے اپنے شاگرد عبداللہ بن یاسین کومعّلم بناکراس کے ساتھ کردیا۔
عبداللہ بن یاسین لمتونہ قبیلے کے علاقے میں پہنچے توان کاشانداراستقبال ہوا۔ عبداللہ بن یاسین کی تبلیغی اور تعلیمی کوششوں سے وہاں اسلام کوترقی ہوئی، لوگوںنے دینی علم حاصل کیااور شعائرِدین عام ہوگئے۔اسلامی اخوت نے بکھرے ہوئے قبائلیوں کومتحد کرکے ایک طاقت بنادیااور یہ سارا صحرائی علاقہ جہاں یہ نومسلم آبادتھے،خودبخودایک الگ آزاد ریاست کی شکل اختیارکرگیا۔ایسے میں ضرورت محسوس ہوئی کہ اس ریاست کے انتظامات کے لیے ایک سربراہِ حکومت منتخب کیا جائے۔ عبداللہ بن یاسین خود تعلیم وتبلیغ پر توجہ مرکوزرکھنا چاہتے تھے۔ جوہرمیں بھی یہ صلاحیت نہ تھی کہ وہ قبائلیوں کو سنبھال لیتا،اس لیے قبیلہ لمتونہ کے سردار ابوبکربن عمر کویہ ذمہ داری سونپ دی گئی اوراسے ’امیر المسلمین ‘ کا لقب دیاگیا۔ابوبکر بن عمر کی مملکت جنوب سے شمال کی طرف پھیلتی گئی،اس کی طاقت سے مرعوب ہوکراَن گنت قبائلی اس کے ساتھ ہوگئے تھے جن میں بھلے بُرے ہرقسم کے لوگ تھے۔ لہٰذا ان لڑائیوں اور چھاپہ مارحملوں میں اس کی فوج سے کچھ غیرمحتاط کارروائیاں بھی ہوئیں جن سے ابوبکر بن عمرکو ندامت ہوئی۔ جب ایک بڑھیا نے آکرشکایت کی کہ اس کے سپاہیوں کی لوٹ مار میں اس کااونٹ ضایع ہوگیاہے توابوبکر بن عمر کو اس نوتشکیل مملکت کے لیے ایک بہترین منتظم کی ضرورت پڑی۔ایسے میں اس کی نگاہِ انتخاب یوسف بن تاشفین پرپڑی اورمملکت کے بہت سے اہم اموراس مردِ جہاں آگاہ کے سپر دکردیے گئے۔ اس وقت یوسف بن تاشفین کی عمر ۵۰سال تھی۔ 
ابوبکر بن عمر کی وفات کے بعد مرابطین نے یوسف بن تاشفین کواپناامیرچن لیا۔امیریوسف نے اس ریاست کو بڑی تیزی سے وسعت دی۔ان کے جلو میں علماء وفقہاء کی بڑی تعداد تھی جو امورِمملکت کوشرعی حدودپراستواررکھنے کے ذمہ دارتھے۔مرابطین کے پیشہ ورسپاہی چالیس ہزار تھے جن کی مدد سے یوسف بن تاشفین نے اسلامی ریاست کے مخالف درجنوں بربری قبائل کو مسخرکرلیا۔ 
افریقہ کاشمال مغربی علاقہ نہایت خطرناک تھا جہاں قبائلی راہزنوں کاراج تھا۔ اس علاقے کو مقامی زبان میں ’’مَرَّاکُش‘‘ کہاجاتاتھا جس کاترجمہ ہے’’ جلدی سے گزرجاؤ۔‘‘یوسف بن تاشفین نے یہ علاقہ فتح کرنے کے بعد۴۶۵ھ میںیہاں ’مراکش ‘شہر کی بنیاد رکھی جس کے نام پر بعد میں ملک کو بھی مراکش کہا جانے لگا۔ ۴۶۶ھ میں فقہاء کے مشورے پر یوسف بن تاشفین نے اپنی حکومت کو خلافتِ عباسیہ کی سرپرستی میں شامل کرلیا۔ خلیفہ مستظہرباللہ نے مرابطی امیر کے لیے خلعت اورپروانۂ حکومت روانہ کیا۔مرابطین کی مملکت میں خلیفہ کے نام کاسکہ جاری کردیاگیا۔اس کے بعد مرابطین کی افواج کئی سمتوں میں یلغارکرتی ہوئی افریقہ کے طول وعرض میں پھیل گئیں۔ان کی مملکت مشرق میں تیونس ،مغرب میں بحرِ اوقیانوس ،شمال میں یہ بحیرۂ روم اورجنوب میں سوڈان کی سرحدوں کوچھونے لگی۔
ایسی عظیم الشان مملکت کا حکمران ہونے کے باوجودیوسف بن تاشفین کی زندگی سادگی کابہترین نمونہ تھی ۔ان کے دسترخوان پر جوکی روٹی ،اونٹ کے گوشت اوردودھ کے ایک پیالے کے سواکچھ نہ ہوتا تھا۔وہ خانہ بدوشوں کی طرح اون کا کھردرا لباس پہنتے تھے۔ ان کے اورایک صحرائی شتربان کے رہن سہن میں کوئی فرق نہ تھا۔انہوںنے اپنی رعایاپر کوئی ٹیکس عائدنہیں کیاتھا۔ زکوٰۃ ،عشراورذمیوں کے جزیے کے سواحکومت کچھ وصول نہیں کرتی تھی۔ 
اندلس اورمرابطین کی مملکت کے درمیان بحیرۂ روم کی تنگ خلیج ہی حائل تھی۔اس لیے یہاں کے لوگ شروعی میں مرابطین کی فتوحات سے واقف ہوچکے تھے۔ ملوک الطوائف جس طرح الفانسو سے ڈرتے تھے اسی طرح وہ مرابطین سے بھی خطرہ محسوس کرتے تھے۔مگریوسف بن تاشفین کی پوری توجہ افریقہ کی فتوحات پر مرکوزر ہی اورانہوں نے کبھی اندلس میں مداخلت کی کوشش نہیں کی ،تاہم چندسالوں کے اندراندراندلس کے حالات بہت بدل گئے اورالفانسو کی یلغار نے غرناطہ ،اشبیلیہ اورقرطبہ کے ایوانوں میںزلزلہ پیداکردیا۔ایسے میں اندلس کے مشہورعالم قاضی ابوالولید الباجی نے علماء کا ایک وفدبھیج کرامیریوسف کو اندلس میں آمد کی دعوت دے دی۔۴۷۴ھ میں جب قاضی ابوالولید کاانتقال ہواتو ایک اور جماعت مراکش حاضر ہوئی اور یہی درخواست دہرائی ۔اس بار یوسف بن تاشفین نے مسلمانانِ اندلس کی مددکرنے کاوعدہ کرلیا۔
کچھ ہی دنوں بعد طلیطلہ پربھی الفانسو کاقبضہ ہوگیا،جس کے بعدعلمائے اندلس جوق درجوق سبتہ آنے لگے اورآنسوؤں کے ساتھ مسلمانانِ اندلس پر بیتنے والی قیامت کاحال سناکر امیرِ مرابطین سے مدد طلب کرنے لگے ۔ ا یسے میں ملوک الطوائف بھی یہ حقیقت جان گئے کہ اب انہیں اپنی روش بدل کر ملک وملت کے وسیع ترمفاد کے لیے امیرِ مراکش کاساتھ دیناہوگاورنہ زمین کاکوئی گوشہ انہیں پناہ نہیں دے گا۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 استاذ القراء کاسفرِ آخرت 1 1
3 فنا فی القرآن 2 1
4 مثالی استاذ 3 1
5 استاذ گرامی کی کچھ یادیں 4 1
6 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۱) 5 1
7 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۲) 6 1
8 پاک بھارت جنگ کے امکانات …اورمعرکۂ پانی پت 7 1
9 رمضان اورقرآن 8 1
10 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۱) 9 1
11 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۲) 10 1
12 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۳) 11 1
13 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار [1] 12 1
14 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۲) 13 1
15 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق 15 1
16 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۲) 16 1
17 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۳) 17 1
18 سیرتِ نبویہ کے جلسے اورواعظین کے لیے لمحۂ فکریہ 18 1
19 ترک عوام جنہوںنے تاریخ بدل دی 19 1
20 اسلام میں جہاد کاتصور…اسلامی نظریاتی کانفرنس کااجلاس 20 1
21 نعمتوں کی ناقدری 21 1
22 یوم پاکستان اوردینی مدارس 22 1
23 دسمبر سے دسمبر تک 23 1
24 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۱) 24 1
25 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۲) 25 1
26 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۳) 26 1
27 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۴) 27 1
28 اکبر اوردینِ الہٰی 28 1
29 اللہ کی امانت (۱) 29 1
30 اللہ کی امانت (۲) 30 1
31 شیخ النمر کی سزائے موت 31 1
32 سمندری شیر(1) 32 1
33 سمندری شیر(2) 33 1
34 سمندری شیر(3) 34 1
35 ایک دن بھاولپور میں 35 1
36 ایدھی صاحب 36 1
37 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے 37 1
38 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے (۲) 38 1
39 فضلائے مدارس کی کھپت ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۱) 39 1
40 مدارس کے فضلاء ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۲) 40 1
41 صحبتِ یا رآخر شد 41 1
42 صحبتِ یا رآخر شد(۲) 42 1
43 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج 43 1
44 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج(۲) 44 1
45 انصاف زندہ ہے 45 1
46 جرمنی اورعالم اسلام(۱) 46 1
47 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (1) 49 1
48 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (2) 50 1
49 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (3) 51 1
50 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (4) 52 1
51 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(1) 53 1
52 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(2) 54 1
53 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(3) 55 1
54 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(4) 56 1
55 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت 57 1
56 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت (۲) 58 1
57 ایک قابلِ توجہ مسئلہ 59 1
58 کس منہ سے(۱) 60 1
59 کس منہ سے(۲) 61 1
61 سفر وسیلۂ ظفر 62 1
62 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے 63 1
63 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے (۲) 64 1
64 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۱) 65 1
65 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۲) 66 1
66 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۳) 67 1
67 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۴) 68 1
68 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (1) 69 1
69 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۲) 70 1
70 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۳) 71 1
71 بانی ٔ رُہتاس 72 1
72 بانی ٔ رُہتاس (۲) 73 1
73 بانی ٔ رُہتاس (۳) 74 1
74 شہ سواری اورتیراندازی 75 1
75 شام کی صورتحال اورمستقبل کے خطرات 76 1
76 تبدیلی کی کوشش(۱) 77 1
77 تبدیلی کی کوشش(۲) 78 1
78 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۱) 79 1
79 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۲) 80 1
80 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۳) 81 1
81 تطہیر الجنان۔ایک لاجواب شاہکار 82 1
82 تہذیب حجاز ی کامزار(1) 83 1
83 تہذیب حجاز ی کامزار (2) 84 1
84 تہذیب حجاز ی کامزار (3) 85 1
85 تہذیب حجاز ی کامزار (4) 86 1
86 تہذیب حجاز ی کامزار (5) 87 1
87 تہذیب حجاز ی کامزار (6) 88 1
88 تہذیب حجاز ی کامزار (7) 89 1
89 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۱) 90 1
90 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۲) 91 1
91 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۳) 92 1
92 یوسف بن تاشفین(۱) 93 1
93 یوسف بن تاشفین(۲) 94 1
94 یوسف بن تاشفین(۳) 95 1
95 جرمنی اورعالم اسلام (۲) 47 1
96 جرمنی اورعالم اسلام (۳) 48 1
97 شیخ محمد بن عبدالوہاب ،آلِ سعود اورایرانی حکومت 96 1
98 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا 97 1
99 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا (۲) 98 1
100 خود احتسابی اور سروے کا طریقِ کار 99 1
101 اونچی اڑان 100 1
102 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین 101 1
103 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین (۲) 102 1
104 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۳) 14 1
Flag Counter