یوسف بن تاشفین(۱)
ہرسال یکم محرم کی تاریخ آتی ہے اورگزرجاتی ہے مگر بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ یہ تاریخ اسلامی تاریخ کے اس ایسے جرنیل کایومِ وفات ہے جس نے ایک مردہ خطے کوچار صدیوں کے لیے حیاتِ نوبخشی۔
پانچویں صدی ہجری شروع ہوئی تواندلس کی اموی امارت جس کی بنیادامیرعبدالرحمن الداخل نے رکھی تھی اورجسے عبدالرحمن الناصر نے خلافت کی حیثیت سے منوایاتھا،سکرات کے عالم میں تھی۔ کچھ ہی برسوں میں اموی خلافت کاچراغ گل ہوگیااوراس کی جگہ ایک لاکھ مربع میل سے بھی کم رقبے میں تقریباً ۲۰خلافتیں وجود میں آگئیں جن کے سربراہوں کو ملوک الطوائف کہاجاتاتھا۔انمیں ہر حکمران ایک دوسرے سے دست وگریباں تھا۔ایسے میں شمالی اندلس کی عیسائی ریاست کاحکمران الفانسویکے بعد دیگرے مسلم ریاستوں پر قابض ہونے لگا۔قریب تھاکہ اسلامی اندلس کی تاریخ کا باب پانچویں صدی ہجری ہی میں ہمیشہ کے لیے بند ہوجاتاکہ ایسے میں بحیرۂ روم کے پارافریقہ کے ساحلوںسے ایک ایسی شخصیت ابھری جس میں قیادت کی غیرمعمولی صلاحتیں کوٹ کوٹ کرودیعت کی گئی تھیں۔یہ یوسف بن تاشفین تھے جن کی شخصیت شجاعت وبسالت، ہمت ومردانگی اور سیاست وجہاں داری کا پیکرتھی ۔ نرم طبعی ،رحم دلی ، سادگی اورجفاکشی کے ساتھ دوراندیشی اورانتظامی امور کی مہارت بھی ان کے صفات تھیں۔
یوسف بن تاشفین کاتعلق بربری نسل کے قبیلہ ’لمتونہ‘ سے تھا۔ یہ لوگ مراکش کے صحرائی علاقوں میں آبادتھے اور ریت اُڑاتی آندھیوں سے حفاظت کے لیے عموماً اپنے چہروں پر رومال باندھنے کے عادی تھے،اس لیے انہیں ’ملثمین‘(نقاب پوش ) کہاجاتاتھا۔ ۴۰۰ھ میں اس قبیلے کے کچھ افراد نے کسی گمنام مبلغ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اسلام قبول کیاتھا۔ان نومسلموں میں سے ’جوہر‘نامی ایک شخص حج کے سفرپر گیاتوواپسی پرتیونس کے شہرقیروان میں اس کی ملاقات ایک فقیہ سے ہوئی ۔ جب جوہر نے انہیں بتایاکہ ہمیں کلمے اور نماز کے سوا،دین کا کچھ علم نہیں ،توفقیہ نے اپنے شاگرد عبداللہ بن یاسین کومعّلم بناکراس کے ساتھ کردیا۔
عبداللہ بن یاسین لمتونہ قبیلے کے علاقے میں پہنچے توان کاشانداراستقبال ہوا۔ عبداللہ بن یاسین کی تبلیغی اور تعلیمی کوششوں سے وہاں اسلام کوترقی ہوئی، لوگوںنے دینی علم حاصل کیااور شعائرِدین عام ہوگئے۔اسلامی اخوت نے بکھرے ہوئے قبائلیوں کومتحد کرکے ایک طاقت بنادیااور یہ سارا صحرائی علاقہ جہاں یہ نومسلم آبادتھے،خودبخودایک الگ آزاد ریاست کی شکل اختیارکرگیا۔ایسے میں ضرورت محسوس ہوئی کہ اس ریاست کے انتظامات کے لیے ایک سربراہِ حکومت منتخب کیا جائے۔ عبداللہ بن یاسین خود تعلیم وتبلیغ پر توجہ مرکوزرکھنا چاہتے تھے۔ جوہرمیں بھی یہ صلاحیت نہ تھی کہ وہ قبائلیوں کو سنبھال لیتا،اس لیے قبیلہ لمتونہ کے سردار ابوبکربن عمر کویہ ذمہ داری سونپ دی گئی اوراسے ’امیر المسلمین ‘ کا لقب دیاگیا۔ابوبکر بن عمر کی مملکت جنوب سے شمال کی طرف پھیلتی گئی،اس کی طاقت سے مرعوب ہوکراَن گنت قبائلی اس کے ساتھ ہوگئے تھے جن میں بھلے بُرے ہرقسم کے لوگ تھے۔ لہٰذا ان لڑائیوں اور چھاپہ مارحملوں میں اس کی فوج سے کچھ غیرمحتاط کارروائیاں بھی ہوئیں جن سے ابوبکر بن عمرکو ندامت ہوئی۔ جب ایک بڑھیا نے آکرشکایت کی کہ اس کے سپاہیوں کی لوٹ مار میں اس کااونٹ ضایع ہوگیاہے توابوبکر بن عمر کو اس نوتشکیل مملکت کے لیے ایک بہترین منتظم کی ضرورت پڑی۔ایسے میں اس کی نگاہِ انتخاب یوسف بن تاشفین پرپڑی اورمملکت کے بہت سے اہم اموراس مردِ جہاں آگاہ کے سپر دکردیے گئے۔ اس وقت یوسف بن تاشفین کی عمر ۵۰سال تھی۔
ابوبکر بن عمر کی وفات کے بعد مرابطین نے یوسف بن تاشفین کواپناامیرچن لیا۔امیریوسف نے اس ریاست کو بڑی تیزی سے وسعت دی۔ان کے جلو میں علماء وفقہاء کی بڑی تعداد تھی جو امورِمملکت کوشرعی حدودپراستواررکھنے کے ذمہ دارتھے۔مرابطین کے پیشہ ورسپاہی چالیس ہزار تھے جن کی مدد سے یوسف بن تاشفین نے اسلامی ریاست کے مخالف درجنوں بربری قبائل کو مسخرکرلیا۔
افریقہ کاشمال مغربی علاقہ نہایت خطرناک تھا جہاں قبائلی راہزنوں کاراج تھا۔ اس علاقے کو مقامی زبان میں ’’مَرَّاکُش‘‘ کہاجاتاتھا جس کاترجمہ ہے’’ جلدی سے گزرجاؤ۔‘‘یوسف بن تاشفین نے یہ علاقہ فتح کرنے کے بعد۴۶۵ھ میںیہاں ’مراکش ‘شہر کی بنیاد رکھی جس کے نام پر بعد میں ملک کو بھی مراکش کہا جانے لگا۔ ۴۶۶ھ میں فقہاء کے مشورے پر یوسف بن تاشفین نے اپنی حکومت کو خلافتِ عباسیہ کی سرپرستی میں شامل کرلیا۔ خلیفہ مستظہرباللہ نے مرابطی امیر کے لیے خلعت اورپروانۂ حکومت روانہ کیا۔مرابطین کی مملکت میں خلیفہ کے نام کاسکہ جاری کردیاگیا۔اس کے بعد مرابطین کی افواج کئی سمتوں میں یلغارکرتی ہوئی افریقہ کے طول وعرض میں پھیل گئیں۔ان کی مملکت مشرق میں تیونس ،مغرب میں بحرِ اوقیانوس ،شمال میں یہ بحیرۂ روم اورجنوب میں سوڈان کی سرحدوں کوچھونے لگی۔
ایسی عظیم الشان مملکت کا حکمران ہونے کے باوجودیوسف بن تاشفین کی زندگی سادگی کابہترین نمونہ تھی ۔ان کے دسترخوان پر جوکی روٹی ،اونٹ کے گوشت اوردودھ کے ایک پیالے کے سواکچھ نہ ہوتا تھا۔وہ خانہ بدوشوں کی طرح اون کا کھردرا لباس پہنتے تھے۔ ان کے اورایک صحرائی شتربان کے رہن سہن میں کوئی فرق نہ تھا۔انہوںنے اپنی رعایاپر کوئی ٹیکس عائدنہیں کیاتھا۔ زکوٰۃ ،عشراورذمیوں کے جزیے کے سواحکومت کچھ وصول نہیں کرتی تھی۔
اندلس اورمرابطین کی مملکت کے درمیان بحیرۂ روم کی تنگ خلیج ہی حائل تھی۔اس لیے یہاں کے لوگ شروعی میں مرابطین کی فتوحات سے واقف ہوچکے تھے۔ ملوک الطوائف جس طرح الفانسو سے ڈرتے تھے اسی طرح وہ مرابطین سے بھی خطرہ محسوس کرتے تھے۔مگریوسف بن تاشفین کی پوری توجہ افریقہ کی فتوحات پر مرکوزر ہی اورانہوں نے کبھی اندلس میں مداخلت کی کوشش نہیں کی ،تاہم چندسالوں کے اندراندراندلس کے حالات بہت بدل گئے اورالفانسو کی یلغار نے غرناطہ ،اشبیلیہ اورقرطبہ کے ایوانوں میںزلزلہ پیداکردیا۔ایسے میں اندلس کے مشہورعالم قاضی ابوالولید الباجی نے علماء کا ایک وفدبھیج کرامیریوسف کو اندلس میں آمد کی دعوت دے دی۔۴۷۴ھ میں جب قاضی ابوالولید کاانتقال ہواتو ایک اور جماعت مراکش حاضر ہوئی اور یہی درخواست دہرائی ۔اس بار یوسف بن تاشفین نے مسلمانانِ اندلس کی مددکرنے کاوعدہ کرلیا۔
کچھ ہی دنوں بعد طلیطلہ پربھی الفانسو کاقبضہ ہوگیا،جس کے بعدعلمائے اندلس جوق درجوق سبتہ آنے لگے اورآنسوؤں کے ساتھ مسلمانانِ اندلس پر بیتنے والی قیامت کاحال سناکر امیرِ مرابطین سے مدد طلب کرنے لگے ۔ ا یسے میں ملوک الطوائف بھی یہ حقیقت جان گئے کہ اب انہیں اپنی روش بدل کر ملک وملت کے وسیع ترمفاد کے لیے امیرِ مراکش کاساتھ دیناہوگاورنہ زمین کاکوئی گوشہ انہیں پناہ نہیں دے گا۔