شام کی صورتحال اورمستقبل کے خطرات
شام وہ ملک ہے جس سے ہماری دینی وتاریخی صدیوں پرانی روایات وابستہ چلی آرہی ہیں۔قدیم دورمیں شام دورِ حاضر کے پانچ ملکوںپر مشتمل تھا۔ سوریا،لبنان،اردن ،اسرائیل ،آزادموجودہ فلسطین۔ قدیم دور سے یہ ملک انبیائے کرام کامرکز رہاہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق سے ہجرت کرکے یہاں تشریف لائے اوراسی کے ایک صوبے فلسطین کواپنا مسکن بنایا۔ ان کی اولاد میں سے حضرت اسحا ق اورحضرت یعقوب علیہما السلام بھی یہیں آباد رہے۔ حضر ت یوسف علیہ السلام فلسطین کی بستی کنعان سے اغواء کرکے مصر لے جائے گئے اوربعد میںان کے والداور بھائی بھی وہیں جابسے مگر اولادِ یعقوب اپنے وطن کوفراموش نہ کرسکی۔ جب بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ اورحضر ت ہارون علیہما السلام کی بعثت ہوئی تومظلومانِ بنی اسرائیل کو فرعون کے پنجہ استبدادسے نجات ملی۔فرعون لاؤلشکر سمیت بحیرۂ احمر کی خلیج میں غرق ہوگیااوراہلِ ایمان پارہوکر شام میں آبسے۔حضرت لوط اورحضرت شعیب علیہماالسلام بھی اسی خطے میں تھے۔ حضرت یوشع،حضرت داؤد،حضرت سلیمان،حضرت زکریا،حضرت یحییٰ اورحضرت عیسیٰ علیہم السلام کی تبلیغ کامرکز بھی اکثروبیشتر یہی ملک شام رہا۔ اسی سرزمین کے صوبہ اردن میں بیت المقدس ہے جس کاصخرہ مقدسہ گزشتہ امتوں اورپھرمسلمانوںکابھی قبلہ رہا۔اس کی مسجدِ اقصیٰ کومسجد نبوی اورمسجدِ الحرام کے بعدتمام مساجد پر فضیلت حاصل ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کومعراج کرائی گئی۔ اس سرزمین کو قرآن مجید نے اعزازدیتے ہوئے بتایاکہ اس میں برکت رکھ دی گئی ہے۔
’’پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجدالحرام سے مسجدِ اقصیٰ تک جس کے گرد ہم نے برکت رکھ دی ہے۔‘‘(سورہ بنی اسرائیل:۱)
نیزارشادِ باری ہے:اورہم بچاکر لے گئے ابراہیم اورلوط کوا س سرزمین کی طرف جس میں ہم نے تمام جہاں والوں کے لیے برکت رکھی ہے(الانبیاء:۷۱)
اسی سورہ ٔ مبارکہ میں ارشاد ہے:اورہم نے ہواکوسلیمان ؑ کے لیے مسخرکردیاجوچلتی تھی ان کے حکم کے مطابق اس سرزمین کی طرف جس میں ہم نے برکت رکھی{الانبیاء:۸۱}
مفسرین کاکہنا ہے کہ یہ سرزمینِ شام تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بابرکت فرمایا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار ارشادفرمایا:ا ے اللہ ہمارے لیے شام اوریمن میں برکت دے۔ا ے اللہ ہمارے لیے شام اوریمن میں برکت دے۔{ترمذی}
ایک بار فرمایا:شام والوں کے لیے بشارت ہو۔صحابہ نے اس کی وجہ پوچھی توفرمایا:
فرشتے ان پر اپنے پروں کاسایہ کیے ہوئے ہیں۔{ترمذی}
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمادیا:اذافسد الشام فلاخیرلکم
جب شام بربادہوجائے توتمہارے لیے کوئی خیرنہیں۔{صحیح ابن حبان وترمذی}
برے حالات کی پیش گوئی کرتے ہوئے آپ نے یہ بھی فرمایا’’عقردارالمؤمنین الشام‘‘اس وقت مسلمانوں کاٹھکانہ شام ہوگا۔{ابن حبان}
یہ بابرکت زمین خلفائے راشدین کے دورمیں مسلمانوں اوررومیوں کے مابین قہر انگیز جنگوں کامیدان رہی ہے۔ہزاروںصحابہ یہاںآباد ہوئے ۔اموی دورمیں یہ مرکزِ خلافت بھی رہی۔ اسلامی فتوحات کاحصہ بننے کے بعد عباسی خلفاء کے دورمیں یہاں رومی موقع ملتے ہی حملے کرتے رہے ۔ مگرانہیںمنہ کی کھانی پڑی۔ سلجوقی ،زنگی اورایوبی بادشاہوں کے دورمیں دوصدیوں تک پھیلی ہوئی آٹھ صلیبی جنگوں میں سے چھ کے معرکے شام کی رزم گاہوں میں ہوئے۔
عثمانی سلطان سلیم اوّ ل نے شام کوفتح کرکے ایک مضبوط حصارمیں لیاتویورپ کی امنگیں پر او س پڑگئی۔صدیوں تک انہیں کچھ کرنے کی سکت نہ ہوئی۔
مگر عثمانی خلافت کے کمزورہوتے ہی انہوںنے پہلی جنگ عظیم برپاکراکے جب سلطنتِ ترکی کی بندربانٹ کی تو شام کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اسے اپنے ایسے وفاداروں کے حوالے کردیا جن کے بارے میں اقبال نے کہا تھاـ:
بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی
خاک وخون میں مل رہاہے ترکمانِ سخت کوش
ان غدارانِ ملت کی شکلیں تبدیلی ہوتی رہیں،شاہ فیصل ہاشمی،شا ہ حسین ،حافظ الاسداوربشارالاسد مگر رنگ ڈھنگ وہی رہے۔ اسرائیل ان کے بیچوں بیچ دھڑلے سے کسی بھی سرحد پر حملہ کرتارہامگر مغرب کے غلام حکمرانوںٹس سے مس نہ ہوئے۔سوائے شاہ فیصل بن عبدالعزیز کے کسی نے مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرنے کی ہمت نہ کی۔اردن کے غدارحکمرانوںنے تو مسجداقصیٰ بھی تھالی میں رکھ کراسرائیل کوپیش کردی۔حافظ الاسد نے جو حماۃ میں کیا تھاکہ اپنے ہی اہلِ وطن کو بمباری کرکے شہر کو مبلے کاڈھیر بنادیاتھا،وہی کچھ بشارالاسد کررہاہے بلکہ ا س سے بہت بڑھ کر۔
اس وقت شام میں جاری خانہ جنگی چھٹے سال میں داخل ہوچکی ہے۔اب تک محتا ط اعدادشمار کے مطابق اڑھائی لاکھ سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں۔ یہ ملک جس کی آبادی جنگ سے پہلے دو کروڑ۴۵لاکھ تھی ،اب صرف ایک کروڑ۸۰لاکھ نفوس پر مشتمل رہ گیاہے۔ لگ بھگ ساٹھ لاکھ افراد ہجرت کرچکے ہیں جبکہ پانچ لاکھ مقتول یاگم شدہ ہوچکے ہیں۔
شام کی اس سنگین ترین صورتحا ل کاتدارک کیسے کیاجائے ؟اصل سوال یہی ہے۔ حلب میں بشار کے قصائیوںنے جوقتل عام کیا ہے ،اس نے یہ سوال مزید اہم بنادیاہے۔ کیاہمارے حکمران مسلمانوں کو اسی طرح درندوں کے رحم وکرم پر چھوڑے رکھیں گے؟
یہ بات طے ہے کہ امریکا اورروس اس جنگ کوبھڑکانے اورطول دینے میں مرکزی کرداراداکررہے ہیں ۔امریکاچاہے توایک ہفتے میں وہاںامن قائم ہوسکتاہے۔ روس صرف امریکاکی غیرجانبدا ری کافائدہ اٹھارہاہے۔باقی رہے جنگی گروہ چاہے وہ داعش ہو یاالقاعدہ ۔حزب اللہ ہویاکوئی اورتنظیم۔ان کو لڑتے بھڑتے چھوڑنا بڑی طاقتوں کی مستقل پالیسی ہے۔ نہ تو یہ بڑی طاقتیں کسی مسلمان ملک کے سیکولر حکمران کوبھی بہت زیادہ طاقت وراوربااعتمادہونے دیتی ہیں،نہ کسی دین پسند طاقت کو ایک خاص حد سے زیادہ ابھرنے دیتی ہیں۔سیکولر حکومتوں کودینی جماعتوںکوکچلنے کے لیے اورضرورت پڑنے پرکسی اسلام پسند گروہ کو سیکولر حکمران کوسیدھاکرنے کے لیے بھی استعمال کرلیاجاتاہے۔ دین پسند وںکوطاقت پکڑتے ہی سنی اورشیعہ گروہوں کی شکل میں لڑوایاجاتاہے اوریہ خانہ جنگیاں عشروں تک چلتی ہیں۔ جونہی شیعہ حدسے بڑھنے لگیں تو کسی سنی گروہ کوطاقت ورکردیاجاتاہے اورجونہی سنی گروہ ایک حدتک بالادست ہوتاہے ،اسے شیعوں کی دخل اندازی کی بھینٹ چڑھادیاجاتاہے۔خود سنی اورشیعہ گروہوں میں پھوٹ ڈال کرانہیں تقسیم درتقسیم کرکے کبھی ایک اورکبھی دوسرے کو پسِ پردہ تقویت دینے کاسلسلہ بھی جاری ہے۔ نتیجہ صرف اہلِ ایمان کے ملکوں اورشہروں کی تباہی،لاشوں کے ڈھیر ،صنعت وتجارت برباد،تعلیمی ادار ے بند،پناہ گزین کیمپ آباد،اقوام متحدہ کی امداد جاری اورسسکتی ہوئی انسانیت کاا نحصار مغرب کی بھیک پر۔
عراق ایران جنگ، افغانستان کاچالیس سالہ ماضی،عراق ،شام ،یمن اورسعودی عرب کی گزشتہ ایک دوعشروں کی تاریخ یہ حقیقت ثابت کرنے اورہمیں اسی ڈگر پرچلتے ہویہ ہماراانجام بتانے کے لیے کافی ہے۔ کاش کہ ہم ہوش کے ناخن لیں ورنہ دشمن توخاکم بدہن یہی کھیل ئی بارپاکستان میں کھیلنے کی کوشش بھی کرچکاہے اوراب بھی موقع کی تلاش میں ہے۔