پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(4)
ترک قیادت کاتیسراستون جمال پاشا،صحرائے سیناعبورکرتاہوانومبر 1915ء میںنہرِ سوئز کے کنارے تک پہنچ گیاجہاں برطانیہ نے ہندوستانی سپاہیوں پر مشتمل فوج تعینات کررکھی تھی۔ترک افسران نے مصری عمائد سے خفیہ طورپرطے کر رکھا تھا ایک مخصوص دن میںترک فوج نہرِ سوئز پر حملہ کرے گی اوراسی دن مصر ی عوام انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔
مگر اس کے بعدترکوں کی خوراک کے ذخائر کم پڑگئے ،جس کی وجہ سے انہوںنے طے شدہ دن سے پہلے ہی نہرِ سوئز پر حملہ کردیا۔دوہفتوں تک یہاں برطانیہ کے ہندوستانی سپاہیوں اور ترکوں کے مابین لڑائی ہوتی رہی۔آخر میں خوراک ختم ہونے کا خطر ہ دیکھ کر ترکوں کو غزہ کی طرف پسپا ہونا پڑا۔ خوراک ورسد لائن کٹ جانے کی وجہ شریف مکہ ِ حسین پاشا کی بغاوت تھی جس کے پیچھے برطانوی جاسوس کرنل لارنس کاہاتھ تھا۔
ترکی کے اعلانِ جنگ کے فوراً بعد برطانیہ نے فلسطین ،شام اورجزیرۃ العرب میںاپنی خفیہ ایجنسی ’’BIS‘‘ کے ایجنٹوں کومتحر ک کردیاتھا جو نہ صرف عربی زبان اورلب ولہجے میں ماہرتھے بلکہ کیمیائی طریقے استعمال کرکے اپنی سفید رنگت کوبھی گندمی بنالیتے تھے۔ یہ عرب بن کرعربوں کی بستیوںبلکہ مدرسوںاورخانقاہوں تک میں رہائش پذیر تھے اور انہیں ترک خلافت سے متنفرکرتے رہتے تھے۔
عالمی جنگ چھڑنے سے پہلے ہی ان ایجنٹوںنے حجاز کے گورنر حسین پاشا نے رابطے کرکے اسے بغاوت کے لیے تیارکرلیاتھا۔7جون 1916ء کو جب عالمی جنگ نقطۂ عروج پرتھی اور ترکی اپنی ساری عسکری اوراقتصادی توانائی جنگ میں جھونک چکاتھا،شریف مکہ اوراس کے بیٹوںنے یکایک ترکی کے خلاف علم بغاوت بلندکردیااورترکوں کی سپلائی لائن پرمتواتر حملے شروع کردیے۔رسد کومنقطع کرنے کے لیے انہوںنے مدینہ سے شام تک سلطان عبدالحمید کی تعمیرکردہ ریلوے لائن کو جگہ جگہ سے ناکار ہ بنادیا۔اس طرح سوئز اورشام میں تعینات ترک افواج کو کمک ورسدنہ ملنے کی وجہ سے شکست ہوگئی۔برطانوی فوج کا قائد جنرل لینبی (Allenby) فلسطین میں داخل ہوگیا۔ترکوںنے یہاں بھی جاں توڑمزاحمت کی اورقدم قدم پر جانوں کے نذرانے پیش کیے مگرشام وفلسطین کے یہودی اتحادیوں کے لیے جاسوسی کررہے تھے ۔جس سے فائدہ اٹھاکر اتحادی ،بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ پیش قدمی کرتے رہے۔آخرکار9دسمبر1917ء کو انگریز بیت المقدس پر بھی قابض ہوگئے۔ جنرل لینبی نے القدس میں قدم رکھتے ہوئے کہا:
’’صلیبی جنگ آج ہماری فتح پر انجام پذیر ہوئی۔‘‘
1917ء میں جنگ کے مہیب اثرات دنیاکوبدلنے لگے تھے اوریہودی زعما ء کامنصوبہ تکمیل کی طرف جارہاتھا۔روس جس نے جنگ چھیڑی تھی ،اسی دوران،کیمونسٹ یہودی رہنما لینن کے انقلاب کا نشانہ بنا۔ زارشاہی کی حکومت ختم ہوگئی اورکمیونسٹوںنے اندرونی انتظامات کو یکسوئی سے سنبھالنے کے لیے،22جنوری 1918ء کوجنگ سے علیحدگی اختیار کرلی۔1918 میں اتحادی جرمنی کو مغربی محاذ پر شکستِ فاش دینے میں کامیاب ہوگئے ،جس کے بعد جرمنی مجبورہوکرمذاکرات کی میز پر آگیا۔ جرمنی کی شکست کے بعدبھی ترکی میں جب تک دم خم تھا،وہ لڑتا رہا۔کیونکہ ترک حکام کواب یہ حقیقت سمجھ آچکی تھی کہ جنگ انہی کو نشانہ بنانے بلکہ فنا کرنے کے لیے چھیڑی گئی تھی ۔اس لیے ترکوں کو لڑتے لڑتے مرنااورمرتے مرتے لڑناتھا۔مگر تابکے ۔
خلیفہ محمد رشاد نے اپنی وفات تک اتحادیوں سے کسی معاہدے کی توثیق نہیں کی۔ جولائی 1918ء میں اس کی وفات ہوگئی۔اس وقت تک عسکری اعتبار سے ترکی کی حالت ابتر ہوچکی تھی۔جرمنی نے ہتھیار ڈال دیے تھے اور ترکی کی شکست بالکل سامنے تھی۔آخرکاراتحادی درۂ دانیال سمیت استنبول پر بھی قابض ہوگئے اورنئے خلیفہ وحیدالدین کوبرطانیہ نے یرغمال بنالیا۔
صورتحال کاسب سے تکلیف دہ پہلویہ تھا کہ جرمنی اورآسٹریا جو جنگ کے اصل فریق تھے، شکست کھاکر بھی اپنی نوآبادیات کے سوا، کسی علاقے سے محروم نہیں ہوئے۔ان کاکوئی شہر اتحادیوں کے قبضے میں نہیں گیا۔ مگر ترکی جوثانوی طورپر جنگ کاحصہ بناتھا، چند شہروں کو چھوڑ کر،اپنے تمام تر رقبے سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔
جنگِ عظیم میں شرکت کے فیصلے نے ترکی کوبالکل تباہ کردیا۔ترکی کو یورپی ممالک کے باہمی تنازعے میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہ تھی،خصوصاًاس لیے کہ شکست کی صورت میں ترکی کاکوئی مستقبل نہ تھا۔ یورپی طاقتیں اپنے تنازعات تو کسی طور سلجھالیتیں مگر ترکی کا بدترین انتقام کے لیے تختۂ مشق بننا لازمی تھا۔یہ خدشہ کوئی خاص وزن نہیں رکھتاتھاکہ اگرترکی جنگ میںغیرجانب داررہتاتو یورپی اتحاد ، جرمنی پر قابوپانے کے بعد ترکی کوضرورنشانہ بناتا۔اول تویورپ کے کسی ملک کے پاس ترکی پر حملے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ بالفرض کوئی یورپی ملک ایسی جرأت کرتابھی، توترکی اپنا دفاع اچھی طرح کرسکتا تھا ۔حقیقت یہ ہے کہ غالب فریق بھی ترکی سے کوئی نئی جنگ چھیڑنے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا، کیونکہ ترکی نے جنگِ بلقان اول کے بعد بکثرت تازہ دم لشکر تیارکر لیے تھے ۔عالمی جنگ میں ترکی نے 20 لاکھ 90ہزارسپاہی استعمال کیے تھے۔جن میں سے چارلاکھ شہید ، ایک لاکھ سے زائد گرفتار اور با قی زخمی ،معذور،فرار یا روپوش ہوگئے۔ جنگ کے خاتمے پر ترکی کی محفوظ فوج ایک لاکھ بھی نہیں رہ گئی تھی۔اگریہ لشکرعالمی جنگ کا لقمہ نہ بن جاتے تو ترکی نہ صرف عالم اسلام کے مرکز کی حیثیت سے باقی رہتابلکہ الم ناک ترین سچائی یہ ہے کہ جنگ کے خاتمے پرتھکے ماندے یورپ کے مقابلے میں ،وہ اپنی محفوظ افواج کے ساتھ ، دنیا کی دوسری یاتیسری طاقت کے طور پر ابھر سکتا تھا ۔ا مریکا اور سوویت روس جیسی طاقتوں کے مقابلے میں دنیا میں ایک اسلامی سپر پاور بہرحال موجودرہتی۔ایسے میں مصطفی کمال پاشا جیسے بے دین آدمی کے اوپر آنے کاکوئی امکان نہ ہوتا۔ یورپی طاقتوں کوترکی کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کاکبھی موقع نہ ملتا،فلسطین یہود کوآباد کرنے والے غداروںکے قبضے میں نہ جاتااور خلافت عثمانیہ کے خاتمے کاکوئی سوال پیدانہ ہوتا۔
اس پوری کایاپلٹ کے پیچھے اصل سازش صہیونی لابی کی تھی ۔ جسے انشاء اللہ بعدمیں مستقل عنوان کے تحت عرض کروں گا۔اس المیے کو میں مزید کسی تبصرے کے بغیر یہیں ختم کررہاہوں۔اربابِ بصیرت ماضی وحال کاموازنہ کرکے محسوس کرسکتے ہیں کہ عالمی طاقتیں مسلمانوںکے موجودہ عسکری، اقتصادی و جغرافیائی اثاثوں کو تباہ کرنے کے لیے انہیںکس طرح کشاں کشاں تیسری عالمی جنگ کی طرف لے جا رہی ہیں۔ اس جنگ سے مسلم دنیا کو کیافائدہ ہوگااوریہودنصاریٰ کے کیا کیا مقاصد پورے ہوسکتے ہیں…یہ سب ابھی سے سوچنااورسمجھ لیناچاہیے۔